دسمبر کی سرد رات تھی شاہ جحان اور فاریا دونوں مل کے کافی پی رہے تھے اور گپ شپ لگا رہے تھے۔ عالیہ اور ساد دونوں ہی ان کے پاس ایے فاریا اور جہان کی نظر ان دونوں پر پڑی فاریا نے کہا اوں تم دونوں بیٹھوں ہمارے ساتھ دیکھوں کیا تاریخی ہے سکون بھی کتنا ہے وہ چاند وہ تارے دیکھوں کسے چمک رہے ہیں شاہ جحان کے چہرے پر مسکراہٹ سی اگی تھی وہ اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور کسی سوچوں میں گھم ہو گیا تھا ساد اور عالیہ اس کی باتیں سن رہے تھے فاریا تم بہت خوب بولتی ہوں عالیہ نے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا ساد یار تم تو کچھ بولو فاریا نے بڑے ہی محبت بھرے انداز ميں کہا عالیہ کافی ٹھنڈ برھ گئی ہے اور بہت باتیں ہو گئی ہے چلیں اب اندر چلتے ہے شاہ جحان نے فوراً منع کرتے ہوئے کہا یار ابھی نہیں حالانکہ ساد اور فاریا اندر جانا چاہتے تھے عالیہ کو بھی ٹھنڈ لگنا شروع ہو گئی تھی ان تینوں کے جانے پر شاہ جحان نے کہا میں بھی چلتا میں نے اب یہاں کیا کرنا ہے چلوں سب ہی چلتے ہیں سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے تھے کیوں کے بہت رات ہو چکی تھی۔ عالیہ اپنے سنہرے لمبے بالوں کو کھولے اس گردن پر کچھ اس طرح پڑھے تھے جو خوبصورت بہت لگ رہے تھے سادی نے اس کے کمرے کا دروازہ نک کرتے کرتے ہوئے اس کے نام سے اس کو پکارا عالیہ ایک دم سے چوک اٹھ کر کمرے سے باہر سادی اس کی طرف اسے دیکھ رہا تھا جو اس کی آنکھیں بہت اچھی طرح بتا رہی تھی عالیہ نے کہا جی بولے کیا ہوا سادی کی طرف سے کچھ جواب نہ ایا عالیہ نے ذار سی بلند آواز کر کے بولی ہا جی کیا ہوا سادی کی بھوری آنکھیں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا چلو عالیہ اسکریم کہا کر آتے ہے فاریا اور شاہ جحان تو سو گئے ہے چلو بھی اتنا کیا سوچ رہی ہو اس کے گردن ہلاتے ہوئے منع کردیا نہیں سادی یہ کوئی وقت ہے یار باہر جانے کا دیکھو کتنی رات ہو گئی ہے امی کو پتہ چلا تو وہ بتایی گی پھر مجھے سادی ن بھی زیادہ فورس نہیں کیا کیو کے اس کو پتہ تھا عالیہ جو کہہ دے وہ پتھر پے لکیر ہوتی ہے اور وہ اس عادت کو اچھی طرح جانتا تھا۔
__________________________________________________
امی اٹھ جائے ناشتہ لگوادے اوفس جانا ویسے ہی بہت دیر ہو گئ ہے چاچو نکل چکے ہے اقراء بیگم کی طبعیت نا ساز تھی جس کی وجہ سے انہوں نے فاریا کو ناشتہ لگوانے کو کہ دیا تھا۔ فا ریا جلدی سے اٹھ کر فریش ہو نے چلی گئی تھی ۔بال لمٹے کچھ اس طرح تھے کہ کچھ لٹھیں اس کے منہ پر تھی وہ سر پے ڈوپٹہ اوڑھ کر فوراً کچن کی طرف قدم تیزی سے بڑھاتے ہو قلسوم کو آوز دی جلدی کرو ناشتہ لاگاوں ڈاءنینگ ٹیبل انتظار پر کر رر ہے ہے فا ریا نے چاءے چولے پر چڑھا دی جاوں قلسوم عالیہااور ھادی کو. بھی بلالو اچھا فاریا باجی میں جاتی ہو۔ اور ہاں قلسوم امی کو بھی بلا لوں اور تائ جان کا ناشتہ ان کے کمرے میں دے دو۔ سب ناشتہ کر کے اٹھے اور شاہ جہان نے ایک اونچی آواز لگائی اللہ حافظ چاچی جان امی کو بتادے گا میں اوفس چلا گیا ہو اور ان سے کہییں گا دوائ وقت پر لے لیجیے گا ویسے سادی کو پتہ ہے ایک مرتبہ سادی کو یاد دلا دیجے گا چلے اللہ حافظ عالیہ پیچھے کھڑے جہان کو دیکھ رہی تھی نیلے کوٹ پینٹ میں کتنا حسین لگ رہا تھا یہ بات جھان کو شاید خود بھی نا خبر تھی عالیہ کی انکھوں اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے کسی سوچوں میں گھم ہو گئ تھی۔
_____________________________________________________
اسلام علیکم! چاچو جان میں لیٹ ہوگیا اس کے لیے مازرت چاچو جان نے اس کو بلایا اور کہا بیٹا کوئ بات نہیں دونوں ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھنے لگے اور کاموں ميں مصروف ہوگئے. اچانک سے اس کے برابر پر رکھے فون کی گھنٹی بجی اس پے لکھا فاریا ارہا تھا اس نے فوراً فون اٹھا کر ہیلو ، کہا لیکن دوسری طرف وہ فون فاریا نے نہیں اس کی بہن عالیہ نے کیا تھا ہیلو ہیلو کرنے لگی اس کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ کال کاٹ دی گئی ہے huhhhh ہوسکتا ہے شاید بسی ہو عالیہ منہ میں بڑھبڑھاتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چل دی۔ چاچو جان کچھ نہیں بے دھیانی میں کال کردی شاید خیر چھوڑو کام میں دھیان دو۔وہ دونوں پھر سے کاموں میں مصروف ہو گئے ۔ چاچو جان نے کافی منگوائ جہان نے منع کر دیا نہیں ابھی میرا دل نہیں ہے اپ اپنے لیے منگوالے ۔