وہ دونوں کھڑکی کے بلکل سامنے موجود صوفوں پر دراز تھیں۔دونوں سنگل صوفے ساتھ ساتھ رکھے ہوئے تھے۔کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہوا دونوں کی زلفوں کی دیوانی محسوس ہورہی تھی جبھی تو بار بار ان کے بالوں کو بکھیر رہی تھی۔برائون آنکھوں والی اب تنگ آنے لگی تھی ،وہ اک ہاتھ سے اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی اور کبھی اپنے رسالے کو گرنے سے بچاتے ہوئے اور مضبوطی سے تھامتی ۔۔اور پھر ناول کو انچی آواز میں پڑھنے لگتی۔ جب کے نیلی آنکھوں والی بیزاری کے ساتھ اپنی زلفوں کو پیچھے کرتی تو کبھی پڑھنے والی کی طرف دیکھتی۔۔
"اور پھر عریبیہ نے ارحان کے کندھے پر اپنا سر ٹیک دیا.." برائون آنکھوں والی لڑکی نے خوش دلی سے ناول کا اختتام سنایا۔
"یار زونی.. یہ کیسا بورنگ سا اینڈ ہوا.. ہیرو نے ہیروان کو منا لیا اور پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے..." بسمہ نے منہ بناتے کہا..
"بسمو اور تجھے کس طرح کا اختتام چاہیے اتنا اچھا تو ہوا ہے.. کہانی کے اختتام پر دونوں مل گئے.."
"نہیں یہ بھلا بھی کوئی محبت کی داستان ہوئ.. محبت کی داستان تو وہ ہوتی ہے جہاں کہانی ادھوری رہ جاتی ہے اور محبت کامل ہوجاتی ہے.. جہاں دو محبوب جدا ہوکر بھی ہمیشہ کیلئے ایک ہوجاتے ہیں.. جہاں اب کا عشق ہمیشہ کیلئے امر ہوجاتا ہے۔"
" اچھا اور یہ عشق امر کیسے ہوتا ہے آپ کے خیال میں۔۔"
" جب دو محبوب اس فانی دنیا میں نہیں مل پاتے.. سچے جذبات ہونے کے باوجود بھی ان کی قسمت میں جدائی لکھ دی جاتی ہے.. اور وہ قسمت کے فیصلے کو مانتے ہوئے اپنی حدود کی پیروی کرتے ہوئے اپنے قدم گناہ سے روک لیتے ہیں ۔محض اس آس پر کہ وہ حقیقی دنیا میں ایک دوسرے کو پالیں گے.. "
" ہمم.. مگر اس دنیا میں بھی تو ساتھ رہ کر اگلی دنیا میں پھر سے ملن کی آرزو کی جاسکتی ہے نا.. "
" ہاں زونی مگر جو مزا جدائی میں ہے نا وہ وصل میں کہاں... "
" توبہ ہے لڑکی تم بھی نا بہت عجیب ہو.. "
" تمہیں پتا ہے اگر مجھے کبھی محبت ہوئ نا تو میں تو ایسی ہی اینڈنگ چاہوں گی اپنی محبت کی... " کہتے ساتھ اس نے ہوا میں قہقہہ بلند کیا۔۔" کتنا مزا آتا ہوگا نا یوں دکھی دکھی رہنا اور محبوب کا سوچتے رہنا.. "
" استغفراللہ... اللہ پاک تمہارے حال پر رحم کرے.. پاگل لڑکی.. پتا نہیں بیچارے ہنان کا کیا ہوگا.. "
" وہی ہوگا جو بسمہ کی چاہ ہوگا.. " بسمہ میز پر سے کپ اٹھاتے بولی..
"اللہ نا کرے وہ سب ہو.. " زونیرہ نے فکرمندی کے تاثرات لئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرزانہ بیگم مصلح پر بیٹھی ہاتھ اٹھائے دعا کرنے میں مشغول تھیں ،جب اس نے پیچھے سے انہیں اپنے بازؤں کے گھیرے میں لیتے سلام کیا۔فرزانہ بیگم نے ہاتھ اٹھائے رکھتے ہوئے ہلکی سی گردن گھما کر اس کے ماتھے کو چوما۔ہنان نے سوالیہ نگاہوں سے ماں کو دیکھا..فرزانہ بیگم نے ابرو اچکا کر پوچھا "کیا...؟"
YOU ARE READING
عشق جاوداں
Fantasyایک محب وطن کی کہانی۔حب الوطنی میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کہانی۔ہنانی اور بسمہ کے عشق کی داستان۔