قسط ۷

457 25 44
                                    

وہ جب سے واپس آئی تھی مسلسل چھت کو دیکھ رہی تھی کل رات جو ہوا آگے جو ہونے والا ہے سب ایک فلم کی طرح دماغ کی سکرین پر بڑی خوبصورتی سے چل رہا تھا یاور لاکھانی سے ہوئی ملاقات اس کے کہے گئے الفاظ ، محد چوہدری کی بربادی کے ارادے اس کے قتل کے منصوبے سب جو یاور کہہ رہا تھا اب اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا ۔ یاور لاکھانی کے کہے گئے الفاظ کانوں میں گونجے تھے ۔
ارے نہیں نہیں اور کچھ میں کیوں سننا چاہوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے ہمیں اگلے دن پتا چلا تھا کہ تم زندہ بچ گئی ہو میں تو تمہیں پوری طرح بھول گیا تھا مگر وہ کیا ہے ناں کہ قسمت اچھی تھی میری تب ہی اتنا بڑا راز لگ گیا ہاتھ ویسے پتا تو اور بھی بہت کچھ چلا تھا مگر وہی تو اصل راز ہے ۔ یاور لاکھانی نے دانیا کی آنکھوں میں بغور دیکھا تھا جیسا جتانا چاہتا ہو کہ وہ کیا کر سکتا ہے ۔
اگلی صبح ہی اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک عورت نے خود کو گولی مار لی وہ عورت کون ہے کہاں سے آئی کسی کو کچھ نہیں پتا چلا تھا اور اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی زخمی حالت میں ملی تھی جو بچ گئی تھی ۔ یاور نے پھر سے دانیا کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔ مگر میرے باپ کو جس کی تلاش تھی جس کی موت کی خبر سننی تھی وہ نہیں ملی تھی ولی خان جسے دنیا کنگ کے نام سے جانتی ہے اور پھر کنگ اگلے ہی دن کہیں سے نمودار ہو گیا تھا مگر وہ جانتے تھے کنگ مر چکا ہے ۔ یاور نے انگلی دانیا کی طرح کرتے کہا ۔
دانیا نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا اتنے سال یہ شخص کہاں تھا اور اگر حسن لاکھانی کو اتنا ہی یقین تھا تو وہ چپ کیوں رہا اس سوال کا جواب دانیا کے دماغ نے اسے اسی وقت دیا تھا کیونکہ حسن تو اس واقعہ کے دو دن بعد ہی مر گیا تھا اور اس رات کی حقیقت حسن کے سوا کسی کو معلوم نہیں تھی مگر وہ یہاں غلط تھی کامران حسن کا خاص نوکر سب جانتا تھا اس رات کے ایک ایک پنے سے واقف تھا کیوں حسن نے اس کی ماں کو اغوا کیا اس رات کون مرا تھا سب یاد تھا یاور کو تو بس اتنا معلوم تھا کہ دانیا نامی لڑکی زندہ بچ گئی ہے جسے اس کے باپ نے مارنے کی کوشش کی تھی اور اس دانیا کا تعلق کوڈ سے تھا اس سے آگے یاور کو کچھ معلوم نا تھا ۔
اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ۔
میں کیا چاہتا ہوں وہ تو تم اچھے سے سمجھ گئی ہو اب اگر سمجھنا نہیں چاہتی وہ الگ بات ہے ۔
دانیا نے دونوں ہاتھوں کی پچھت اپنی آنکھوں پر رکھ لی یوں کے اس کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں چھت کی طرف تھی اتنے میں اسے کمرے کے دروازے پر دستک سنائی دی ۔
ماہم اندر آئی تو دانیا سنبھل کر سیدھی بیٹھ چکی تھی ۔
ہاں بولو ماہم ۔
کوڈ وہ بوس کا فون آیا تھا وہ پوچھ رہے تھے کہ کب تک جانا ہیں ۔
بوس کو کہو جتنا جلدی ہو سکے بلکہ رہنے دو میں خود بات کر لوں گی تم بس اس گھر میں ہمارے ہونے کے تمام ثبوت مٹا دو ۔
جی کوڈ ۔ ماہم سر ہاں میں ہلاتی باہر نکلنے لگی ۔
اچھا ماہم سنو ۔ دانیا نے ماہم کو روکا تھا ۔
ہم جہاں جانے والے ہیں ان لوگوں کو تم پہلے سے جانتی ہو اور مجھے تم پچھلے دس سال سے جانتی ہو اور نا میں کوڈ ہوں نا ہی دانیا ۔ دانیا کیا بول رہی تھی ماہم کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا مگر اتنا ضرور سمجھ گئی تھی آگے آنے والا وقت ہرگز آسان نہیں ہو گا ۔
************************************
صائم اور زین کیفے میں بیٹھے فرائز کھا رہے تھے جب سامنے سے عنایہ چلتی ہوئی نظر آئی ۔
کیا ہو رہا ہے ۔ عنایہ نے پلیٹ میں سے فرائز اٹھاتے ہوئے کہا ۔
کپڑے دھو رہے ہیں ۔ صائم نے عنایہ کا دوبارہ فرائز کی طرف بڑھتا ہاتھ چھٹکتے کہا ۔
اللّٰہ اللّٰہ بندہ کنجوس ہو مگر اتنا بھی نہ ہو حد ہوتی ہے ۔ عنایہ نے شانوں پر پھیلے بال پیچھے کرتے زین کے سامنے موجود کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
اسے کنجوسی نہیں اپنے حلال پیسوں کی حفاظت کرنا کہتے ہیں اور ویسے بھی عفاف کے ہاتھ کا پراٹھا اور چاچا کے ہاتھ کی فرائز پر نو سمجھوتا ۔ زین نے فرائز سے بھری پلیٹ اپنی طرف بڑھاتے کہا ۔
عفاف سے یاد آیا کہ وہ ہے کہاں صبح سے دکھائی نہیں دی کہاں گئی وہ ۔ صائم نے کہا ۔
پتا نہیں ادھر ہی کہیں ہو گی کہاں جانا ہے اس نے ۔ زین نے فرائز منہ میں ڈالتے کہا ۔
یار ویسے میں کیا سوچ رہا تھا ۔ زین نے بہت سنجیدگی سے سوچتے ہوئے کہا ۔
یار توں سوچتا بھی ہے مجھے تو لگا تھا تیرا وہ والا خانہ کباڑیے کے پاس ہے ۔ صائم نے اسے تنگ کرتے کہا جس پر زین نے اسے گھورا کر دیکھا تھا ۔
میں سوچتا بھی ہوں اور میرا خانہ بالکل کباڑیے کے پاس نہیں ۔ زین اس کی آنکھوں میں دیکھتے پرسکون لہجے میں بولا ۔
اچھا تو پھر کیا سوچ رہا تھا ۔
میں سوچ رہا تھا کہ میں بھی ایک ادھا عشق لڑا ہی لوں ۔ زین نے انتہائی سنجیدگی سے کہا ۔
اور یہ حسین خیال کہاں سے آیا ۔ زین کے ان خیالات کے اظہار پر عنایہ بولی تھی ۔
یار بس نیک خیالات تو اللّٰہ کی طرف سے نعمت ہوتے ہیں اور پھر کیا والدہ محترمہ والد محترم کو میرے لیے ایک عدد زوجہ ڈھونڈنے ک لیے لئے لئے گھومے گی تو اس میں کیا مزائقہ کہ ان کی اس مشکل میں آسانی کر دی جائے ۔ زین نے بڑے ہی عاجزانہ اور مودبانہ انداز میں کہا ۔
توبہ زین تم پر بھی کبھی کبھار عجیب ہی چیزوں کا بسیرا ہوتا ہے اور رہی بات شادی کی تو ابھی محد اور میری تو ہو جائے اور پھر وہ بوڑھی روح بھی تو ہے ۔ عنایہ نے زوہیب کا ذکر کیا تھا ۔
زین نے پہلے عنایہ کی طرف دیکھا پھر ساتھ بیٹھے صائم کی طرف اور دونوں کا قہقہ بلند ہوا ۔
کیا ہو گیا ایسا کون سا لطیفہ سنا دیا میں نے ۔ عنایہ انہیں اس طرح ہنستے دیکھ کر بولی ۔
زوہیب کی شادی لطیفہ ہی تو ہے ۔ صائم نے جواب دیا تھا ۔
کیا مطلب ۔ عنایہ حیرانگی سے بولی تھی ۔
مطلب یہ عنایہ باجی کہ زوہیب کو تو ہو گیا ہے کوئی تگڑا والا عشق تو وہ بچارے تو اب کسی کے ہاتھ نہ آنے والا اب وہ کسی کام کے نہیں ہیں اب میں اور صائم بچتے ہیں ۔ زین بولتا عنایہ کو مکمل حیران کر گیا تھا ۔
تمہیں کس نے کہا۔۔ زوہیب نے ۔ عنایہ زوہیب پر زور دیتی بولی ۔
یار اسے تو تم اس معملے میں گونگا ہی سمجھو اور اس میں بولنے نا بولنے والی تو کوئی بات ہی نہیں ہے صاف پتا چلتا ہے جس طرح کی ان کی حرکتیں ہیں ناں کوئی اندھا بھی بتا دے کہ مرضِ عشق میں مبتلا ہیں جناب ۔
زین اس چراغ سے نکلے جن کو محبت کیسے ہو سکتی ہے ۔ عنایہ کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ زین جو بول رہا ہے وہ سچ ہے ۔
اب تو ہو گئی ہے کیا کر سکتے ہیں مگر کس سے ہوئی ہے یہ ابھی تک نہیں پتا لگایا جا سکا ۔
مگر ہم مشن پر لگے ہوئے ہیں ۔ صائم زین کو بیچ میں روکتا بولا اور اپنا ہاتھ اس کے سامنے کر گیا جس پر زین نے جوش سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا ۔
لگے رہو ۔ عنایہ ان دنوں کے منصوبے جان کر کرسی سے پچھت لگاتے سکون سے بولی ۔
ویسے کون ہو سکتی ہے شاید محد کو پتا ہو ۔ عنایہ دل میں بولی تھی ۔
عنایہ اگر تم یہ سوچ رہی ہو ناں کہ تمہاری شکل پر ترس کھا کر میں تمہیں فرائز دے دوں گا تو یہ تمہاری بھول ہے ۔ زین عنایہ کو گہری سوچ میں گم دیکھ کر بولا ۔
کھاؤ اپنی فرائز ایسے کہہ رہا ہے جیسے فرائز نہ ہو گئی قوِقاف سے آئی پری ہو گئی کہیں اور سے ملے گی ہی نہیں ۔
پری ہی سمجھ لو باجی فرائز ختم ہو گئی ہیں ۔ زین نے کینٹین کی طرف اشارہ کرتے کہا ۔
عنایہ نے صائم کی طرف دیکھا جس پر اس نے اس معصومیت سے ہاں میں سر ہلاتے یقین دلایا تو عنایہ نے آنکھوں میں معصومیت سجاتے زین کی طرف دیکھا ۔
نا باجی ہم پر یہ کام نہیں کرے گا ۔ زین صاف انکار کر گیا ۔
اللّٰہ پوچھے تمہیں اللّٰہ کرے تمہیں یہ ہضم ہی نا ہوں ۔
ایسے ہوتے ہیں لوگ کیسے پل میں رنگ بدل لیا ۔۔۔۔۔دیں دیں خوشی سے بد دعائیں دیں ہم پر کون سی اثر کرنی ہے ۔ زین منہ میں ایک ادا سے فرائز رکھتا بولا ۔
*************************************
عمارہ عمارہ ۔ کلاس میں ٹیچر نے اسے پکارا تھا میتھس کی کلاس جاری تھی اور ابھی ٹیچر سب کو ٹیسٹ واپس کر رہی تھی جو انہوں نے آج ہی لیا تھا ۔
جی میم ۔ عمارہ اپنی نشست سے اٹھتے بولی ۔
آپ کا دھیان کدھر ہے بیٹا میں آپ کو بلا رہی ہوں ۔
سوری میم ۔ عمارہ نے شرمندگی سے کہا ۔
بیٹا کوئی مسئلہ ہے ۔ ٹیچر نے عمارہ کے چہرے کے زاویے بغور دیکھتے کہا ۔
نو میم ۔
آپ مجھ سے بلا جھجک کہہ سکتی ہیں ۔
یس میم ۔
اب آ کر اپنا ٹیسٹ لے جائیں ۔
عمارہ ان کے پاس پہنچی اور اپنا ٹیسٹ لے لیا جس پر بیس میں سے تین نمبر جگمگا رہے تھے ۔
بیٹا مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی آئندہ ایسا نہ ہو ۔
او۔کے میم ۔ عمارہ کہتی اپنی نشست پر جا بیٹھی ۔
صبح سے جو ایک خیال اسے تڑپا رہا تھا وہ عفاف کا تھا وہ کیسی ہو گی کہاں ہو گی پھر خود کو یہ کہہ کر تسلی دے دیتی کہ وہ کون سی بچی ہے اسے اپنا اچھا برا اچھے سے معلوم ہے مگر دل دماغ کی کوئی دلیل سننے کو تیار ہی نہیں تھا ساری دلیلیں اس ایک جگہ آ کر رد ہو جاتی تھی جہاں عفاف کے لیے عمارہ کی محبت آ جاتی تھی اور اس کی محبت اسے پریشان کر دیتی تھی ۔
آج جو مرضی ہو جائے مجھے عفاف آپی سے بات کرنی ہی ہو گی ۔ عمارا دل میں خود سے وعدہ کر چکی تھی ۔
*************************************
ماہم نے سارا سامان پیک کر دیا تھا اور اب سب ثبوت مٹا رہی تھی چاہے وہ توتھ پیسٹ ہو یا بالوں کا برش ہو سب چیزیں تباہ کی جا رہی تھی سب فائلز جو ضرورت کی تھی پیک کر لی گئی تھی کھڑکی پر موجود فنگر پرنٹ مٹائے جا رہے تھے یہ لوگ اس جگہ کو یوں چھوڑ کر جا رہے تھے جیسے کبھی یہاں رہے ہی نہ ہوں اس بلڈنگ میں انہیں کوئی نہیں جانتا تھا اس کی اصل وجع یہ تھی کہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس گھر کے لوگ کب آتے ہیں کب جاتے ہیں دن کا زیادہ تر حصہ گھر سے باہر گزارا جاتا تھا اور وہ بھی کھڑکی کے راستے کو اکثر استعمال کیا جاتا تھا ۔
ماہم سارا کام مکمل کر چکی تھی جب اسے کمرے سے دانیا باہر نکلتی دیکھائی دی تھی جس نے ہاتھ میں بڑا سا کاغذ پکڑا ہوا تھا جو اس نے ٹیبل پر رکھا تھا اور خود صوفے پر بیٹھ گئی تھی اور فون پر بوس کا نمبر ملایا تھا ۔
جی بوس کام ہو گیا ۔
نہیں ابھی نہیں تمہیں اتنی جلدی کس چیز کی ہے کرتا ہوں بات ۔
جلدی نہیں ہے بوس کام ہی جلد کرنے والا ہے دیری نقصان دے ہو سکتی ہے ۔
تم نے سوچ لیا ہے کوڈ ۔ بوس نے اس میں کچھ تلاش کرنا چاہا تھا ۔
بوس میں ایک بار ہی سوچتی ہوں فیصلہ کرتی ہوں اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھتی آپ ان سے بات کریں جلد سے جلد ۔ دانیا نے فون کاٹ دیا ۔
اچھا تو ماہم ہم جن کے گھر رہنے والے ہیں ان کا نام ہے چوہدری رفیق ۔ ماہم نے چوہدری رفیق کے نام پر دانیا کو حیرانگی سے دیکھا ۔
اور یہ ہے ان کے گھر کا نقشہ ۔ دانیا اسے کھول کر دیکھانے لگی تو ماہم نے اس کا ہاتھ روک دیا ۔
چوہدری حویلی کے چپے چپے سے واقف ہوں ان کے در و دیوار کھڑکیاں باغیچہ چھت ہر شہ سے باخبر ہوں ۔
یہ تو اچھی بات ہے چوہدری حویلی کو بہت اچھے سے جانتی ہو ۔
ہاں چوہدری حویلی کو بھی اور چوہدریوں کو بھی بچپن گزارا ہے اس حویلی میں اپنے گھر کے شاید کل کمروں کی تعداد بھی یاد نہ ہو مگر چوہدری حویلی کے دروازے کا رنگ تک یاد ہے ۔
کچھ چھپا رہی ہو ماہم ۔ دانیا کو ماہم کی آنکھوں میں کچھ عجیب سا لگا ۔
کچھ نہیں کوڈ آپ یہ دیکھیں میں ذرا کچن سے ہو آؤں برتن دھونے ہیں ۔ ماہم اپنی آنکھ کا آنسو چھپاتی وہاں سے اٹھ گئی ۔
انسان بھی کتنا عجیب ہے دانیا نے خود سے کہا تھا جو کام کر لیا ہوتا ہے راہِ فرار کو وہی ایک کام کرنے کو یاد آ جاتا ہے ۔ ماہم ابھی کچھ دیر پہلے برتن دھو کر آئی تھی ۔
آخر اسے کس چوہدری نے گھائل کر دیا ہے ۔
*************************************
نورین عالم الماری کی صفائی کر رہی تھی جب الماری سے ایک البم نیچے گرا بیچ میں سے چند تصویریں بھی نکل گئی تھی نورین نے البم اٹھائی ساتھ ہی باہر نکلی تصویریں بھی اٹھا لی اور الماری بند کرتی بیڈ کی طرف آ گئی البم میں اس کی اور عالم خان کی تصویریں تھی ولی خان اور ناز کی تھی دانیا اور عنایہ کی تھی ان سب کی ساتھ بھی کچھ تصویریں موجود تھی وہ ایک ایک تصویر دیکھتی جا رہی تھی اور ماضی کی یادوں کے بیچ چلتی جا رہی تھی کہ ایک دم اس کی نظر ایک تصویر پر آ ٹہری وہ دانیا کی برتھ ڈے کی تصویر تھی دانیا کا منہ کیک سے گندا ہو چکا تھا اور کپڑوں پر چوکلیٹ کے نشان لگ چکے تھے پارتی ختم ہونے تک دانیا اور عنایہ نے اپنے سارے کپڑے خراب کر لیے تھے دانیا تو تھی بھی اتنی شرارتی پورا گھر سر پر اٹھائے رکھتی تھی اس دن آدھا کیک تو وہ اپنے اور باقی سب کے چہروں پر لگا چکی تھی جس پر اسے اچھی خاصی ڈانٹ بھی پڑنے والی تھی مگر نورین نے اسے بچا لیا تھا ۔
آنی آپ بیسٹ ہو دانیا نے آواز بلند کرتے اپنی ماں کو سنایا تھا تو عنایہ نے اپنی ماں اور دانیا کو ساتھ لگے دیکھا تو دوڑ کر ناز کے پاس گئی نہیں میری آنی بیسٹ ہیں اور سب کا قہقہ بلند ہوا تھا اور فوٹوگرافر نے اس حسین یاد کو کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا تھا جہاں تصویر میں دانیا اس کے اور عنایہ ناز کے گلے لگی ہوئی تھی اور ولی خان اور عالم خان کھڑے ہنس رہے تھے نورین کی آنکھ پھر سے بھیگنے والی تھی جب اسے یاد آیا کہ چار دن بعد دانیا کی سالگرہ ہے ابھی وہ ان تصویروں میں گم تھی جب ابا جی اندر داخل ہوئے تھے تو نورین نے وہ البم سائیڈ پر رکھ دی مگر وہ ایک تصویر اس کے ہاتھ میں رہ گئی ابا جی نے وہ تصویر نورین کے ہاتھ سے لے لی اور بڑے پیار سے اس تصویر کو دیکھا اور اتنی ہی محبت سے دانیا کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا نورین نے ابا جی کو محبت سے دیکھا ۔
کافی بڑی ہو گئی ہو گی ناں ۔ ابا جی نے آنکھیں تصویر پر جمائے کہا ۔
ہاں محد کی عمر کی تھی اس جتنی ہو گئی ہو گی ۔ نورین نے ابا جی کے ہاتھ سے تصویر لے کر سائیڈ پر رکھ دی ۔
پتا نہیں کیا بات کرنے آیا تھا بھول ہی گیا ۔
ابا جی کہتے کمرے سے باہر نکل گئے ۔ جب وہ یہاں چوہدری حویلی آیا کرتی تھی تو سب کی ناک میں دم کر دیا کرتی تھی ہر ایک کو پریشان کر کے رکھ دیا کرتی تھی اباجی کے حقے کو چھپا دیا کرتی تھی کئی بار تو حقے کے انگاروں سے خود کے ہاتھ بھی زخمی کر بیٹھی تھی مگر کبھی باز نہیں آتی تھی اور ابا جی اس کے پیچھے مارے مارے پھرتے تھے وہ اپنے آپ میں بس ایک ہی تھی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانا جانتی تھی یا لوگ خود ہی اس کی طرف کھیچے چلے آتے تھے ۔ آخری بار وہ چودھا سال کی عمر میں یہاں آئی تھی اس وقت عنایہ گیارہ سال کی تھی اس کے بعد عالم خان اور نورین میں دوریاں آ گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے یہاں آ گئی ۔
**************************************
بوس نے فون چوہدری اصغر کو ملایا تھا جو انہوں نے دو تین بل کے بعد اٹھا لیا تھا ۔
اسلام وعلیکم کیسے ہیں چوہدری صاحب اور کیسی چل رہی ہے آپ کی سیاست ۔
جی ٹھیک ہے سب کسی کام سے فون کیا تھا ۔ چوہدری اصغر نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا وہ یہ بات باخوبی جانتا تھا کہ عالم خان بنا مطلب کے فون نہیں کرتا اور اس کی چوہدری حویلی میں آ کر رہنے والی خواہش پر نورین نے عالم خان سے وقت مانگ لیا تھا تو ضرور اب کوئی نیا کام ہے عالم خان کو ۔
ارے چوہدری صاحب آپ تو سالے ہیں ہمارے آپ کو کیا اب میں بنا مطلب فون بھی نہیں کر سکتا کیا ۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے ۔ چوہدری اصغر نے وضاحت دینی چاہی ۔
اچھا چلیں چھوڑیں اسے، کام تو خیر ہے مجھے ایک چھوٹا سا اور آپ کے لیے تو بالکل بھی مشکل نہیں ہو گا ۔
کیسا کام ۔ بوس اپنے مطلب کی بات پر آیا تو چوہدری اصغر فوراً بولا ۔
دو لڑکیاں ہیں ایک کو تو آپ جانتے ہی ہیں ماہم قریشی دوسری لڑکی کو بھی شاید جانتے ہی ہوں خیر اس میں کیا رکھا ہے کہ آپ جانتے ہیں یا نہیں جانتے بس وہ دو لڑکیاں ایک ماہ چوہدری حویلی میں رہیں گی جیسا کہ ایک ماہ بعد محد اور عنایہ کی شادی ہے تو تب تک وہ آپ کے گھر میں رہیں گی ۔ عالم خان نے بڑے اطمنان سے سب کہا تھا اور چوہدری اصغر نے اتنے ہی اطمنان سے سنا تھا کیونکہ عالم خان کوئی کام پوچھنے کے لیے نہیں بتاتا تھا وہ کام ہو جانے کے لیے بتاتا تھا چوہدری اصغر یا کسی کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ عالم خان کوڈ گینگ کا بوس ہے باوجود اس کے وہ عالم خان کو انکار نہیں کر پاتے تھے ایک وجع تو یہ بھی تھی کہ سینٹ کی نشست ملنے میں بڑا ہاتھ عالم خان کا ہی تھا دوسری وجع تھی عالم خان کا انداز اس کی آواز جو کسی سے بھی اپنا کام نکلوانا جانتی تھی ۔
**************************************
حادیہ دانش کو گود میں لیے بیٹھی تھی کب سے کوشش کر رہی تھی کہ وہ سو جائے مگر دانش اپنی نیند پوری کر چکا تھا اور اب سونے کے بالکل موڈ میں نہ تھا تبھی حادیہ کی ماں سدرہ اس کے پاس آ بیٹھی ۔
کیا ہوا سونو میرا بچہ ۔ سدرہ نے دانش کو حادیہ کی گود سے لیتے ہوئے کہا ۔ نانی پاس آئے گا سونو ۔ اولےلے ۔ ۔ سدرہ نے دانش کو بھلاتے کہا ۔
کب جا رہی ہو یہاں سے ۔ سدرہ نے سونو کو پیار کرتے نظروں کا رخ حادیہ کی طرف موڑتے کہا حادیہ نے حیرت سے اسے دیکھا ۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو تمہیں ہی کہہ رہی ہوں کب جا رہی ہو یا ساس سے لڑ کر آئی ہو ۔
امی خدا کا خوف کریں ماں ہیں یا دشمن ۔ حادیہ نے ناک چڑاتے کہا ۔
ماں ہی ہوں دشمن ہوتی تو یہیں بیٹھائی رکھتی اپنی بہن کو میں بہت اچھے سے جانتی ہوں ۔
امی آپ نے امی کو بدنام ہی کر رکھا ہے اتنی اچھی تو ہیں قسمت والوں کو ملتی ہیں ایسی ساسیں ۔ حادیہ نے ناز سے کہا ۔
وہ تیری ساس بعد میں اور میری بہن پہلے ہے تجھ سے بہتر جانتی ہوں میں اسے اسی لیے کہہ رہی ہوں اپنے گھر جا اور اپنا گھر سنبھال ۔
اور وہ جو امی میرے انتظار میں ہیں کہ میں ہاں ہی لے کر آؤں گی اس کا کیا ۔ حادیہ نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔
کہہ دینا عمارہ ابھی بہت چھوٹی ہے ابھی پانچ چھ سال تو مشکل ہی ہے کہ ہم اس بارے میں سوچیں اتنی دیر تک انتظار کر سکتے ہیں تو کر لیں ۔ سدرہ نے بےنیازی سے کہا ۔
اور اس کے بعد یعنی چھ سال بعد ۔ حادیہ نے حیرت سے ماں کو دیکھا ۔
بتایا تو سوچیں گے ۔
یعنی تب بھی آپ سوچیں گے تب تک انتظار کا کیا فائدہ جب بعد میں اگر انکار کر دیا تو دیکھیں امی آپ جانتی تو کہ امی اپنی ضد کی پکی ہیں اور اس بار تو خواہش شہریار کی ہے ان کے لاڈلے بیٹے کی ان کی اپنی ہے بھی نہیں تو آپ کو لگتا ہے وہ مانے گی ۔
نہیں شہریار نے کہاں دیکھ لیا اسے ، شہریار تو پڑھنے کے لیے باہر نہیں گیا ۔ سدرہ نے حیرت سے اسے دیکھا ۔
ہاں ہے تو باہر کے ملک ہی مگر وہ دو ماہ پہلے آیا تھا تو عمارہ کی تصویر دیکھی تھی تو شادی کی خواہش کا اظہار کر دیا ۔
خدا کی پناہ آج کی نسل کو تو تصویروں میں ہی محبتیں ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔ بس مجھے نہیں معلوم توں کل ہی اپنے گھر واپس جا رہی ہو ۔ سدرہ نے جیسے حکم سنایا تھا ۔
امی بھائی کو تو آ لینے دیں ۔
نہیں بھائی کا کیا کرنا ہے مل تو لیا ناں ہسپتال جا کر اب توں اپنے گھر جا ۔ سدرہ فیصلہ سناتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی وہ جانتی تھی حادیہ کا یہاں زیادہ عرصہ رہنا سہی نہیں اگر کہیں غلطی سے اس کے منہ سے عمارا اور شہریار کے رشتہ کی بات نکل گئی تو ایک اور جنگِ عظیم شروع ہو جائے گی تو اس کا یہاں سے جانا ہی بہتر ہے ۔
*************************************
زوہیب کرسی پر بیٹھا اسے جھول رہا تھا ساتھ ہی اپنا پورا وزن ٹیبل پر ڈالے جھکا ہوا تھا وہ اکاؤنٹ کے ڈیپارٹمنٹ کی فائل کھولے بیٹھا تھا پہلے وہ سارا سوفٹ فورم میں ڈیٹا دیکھ چکا تھا اور اب ہارڈ فورم میں دیکھ رہا تھا اسے کچھ باقائدگیوں کا اندراک ہوا تھا ۔ دروازے پر دستک ہوئی اور چوہدری اصغر رفیق اندر داخل ہوئے ۔
ابو آپ۔۔۔۔ کیسے آنا ہوا ۔ زوہیب نشست سے ان کے استقبالیہ میں کھڑا ہوتا بولا ۔
ہاں بس کام ہی ایسا پڑ گیا تھا کہ کیا کروں ۔
ہاں وہ تو جانتا ہوں کام ضروری ہے تب ہی آپ آئیں ہیں ورنہ آپ کو اپنی سیاست سے فرصت کہاں ۔
اب بیٹا بھی باپ کو سنائے گا ۔
ہاہاہا ابو میری اتنی مجال اچھا آپ کام بتائیں ۔
کام یہ ہے کہ دو لڑکیاں آ رہی ہیں ہمارے گھر تو بس ابا جی سے بات کرنی ہو گی ۔
ابو میں آپ کے ایسے ویسے کسی کام میں ساتھ نہیں دینے والا ۔ زوہیب نے صاف ہاتھ کھڑے کیے ۔
ایسا ویسا کوئی کام ہے بھی نہیں اور کوئی قتل نہیں کروا رہا میں ۔ چوہدری اصغر زوہیب کے انکار پر غصے سے بولے ۔
اچھا ابو اچھا کام بتائیں مجھے کیا کرنا ہے کیونکہ مجھے آپ سے پوری توقع ہے کہ آپ نے سب کچھ پہلے سے ہی سوچ رکھا ہے ۔
دو لڑکیاں ہیں ہمارے ساتھ رہیں گی ہمارے گھر میں محد اور عنایہ کی شادی تک تمہیں بس اتنا کرنا ہے کہ جب میں ابا جی سے کہوں کہ کسی بزنس کے سلسلے میں آ رہی ہیں تو تم نے میری حمایت کرنی ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں کسی ہوٹل میں ٹھہرانا بہتر نہ ہو گا ۔ چوہدری اصغر نے زوہیب کو ہو چیز سے اگاہ کرتے کہا ۔
اور آپ کو کیوں لگتا ہے کہ ابا جی اس سب پر اتنی آسانی سے یقین کر لیں گے ۔
میں کہوں گا تو نہیں کریں گے مگر اگر تم کہو گے تو ضرور کر لیں گے ۔
مگر وہ لڑکیاں ہمارے گھر رہنے ہی کیوں والی ہیں ۔ زوہیب کو کچھ عجیب لگ رہا تھا ۔
تجھے اپنے باپ پر یقین نہیں ہے کیا ۔ چوہدری اصغر زوہیب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے بولے ۔
یقین ہے مگر ۔ ۔ ۔
جب یقین ہے تو یہ اگر مگر چھوڑ آج رات میں کھانے کے میز پر بات کروں گا تو یاد رکھنا کیا بولنا ہے ۔
ابو ۔ چوہدری اصغر کمرے سے باہر نکلنے لگے جب زوہیب نے کسی خیال کے تہت انہیں پیچھے سے آواز دی ۔
کہیں یہ میرے خلاف کوئی سازش تو نہیں ۔ زوہیب نے سوالیہ نظروں سے کہا ۔
تمہارے خلاف ہمیں سازش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تمہاری جب شادی کرنی ہوئی تو گن پوائنٹ پر بھی ہو جائے گی اس کے لیے اتنی مشقت کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ چوہدری اصغر کہتے باہر نکل گئے ۔
************************************
محد ہسپتال کے بستر پر لیٹا تھک چکا تھا اور اب صرف اور صرف یہاں سے بھاگنے کے منصوبے بنا رہا تھا کہ ایسا کیا کرے کہ یہ سب اسے یہاں سے جانے کی اجازت دے دیں یا یہاں سے بھاگ جایا جائے کیونکہ اب ان چار دیواروں میں ایک ایک لمحہ کاٹنا مشکل ہو رہا تھا نہ نیند آنکھوں کے حصے میں آ رہی تھی نہ ہی دل کو سکون میسر ہو رہا تھا ایک عجیب وہشت نے اسے آن گھیرا تھا اور اس وہشت سے نجات بس اس کمرے سے فرار نظر آتی تھی جو کہ اگلے کچھ دن تک تو نظر نہیں آ رہا تھا ۔
م

حیات المیراث CompletedDonde viven las historias. Descúbrelo ahora