دوستی جیسے عظیم رشتے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کوئی آندھی بھی سچی دوستی پر اثر انداز نہیں ہوتی مگر محض صرف ایک غلط فہمی دوستی کو درہم برہم کر سکتی ہے. میں نے دوستی کی لیکن نبھائی ایسے جیسے پانی پر پانی سے پانی لکھنا یہ آسان کام نہیں لیکن اگر دوسرا ساتھی بھی اچھا ہوتو آسان ہوہی جاتا ہے. میری دوست سمن اور میں ہم ایسے دوست تھے کہ کوئی بھی ہمارے درمیان درار ڈالنے کی کوشش ہی نہ کرتا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف ہیں ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا. ہماری دوستی سے دنیا جلتی تھی مگر وہ دوستی ہی کیا جس میں آزمائش نہ آئے. ایسے ہی اللّلہ تعالیٰ نے ہمیں بھی آزمایا. میں بیمار ہو گئی اور اتنی شدید کہ ڈاکٹر پوچھتا "یہ اب تک زندہ کیسے ہیں؟ " وقت کے ساتھ کمزوری بڑھتی گئی لیکن علاج ممکن ہی نہ تھا. مگر ادویات کے ہی سہارے میں زندہ تھی. سمن کی کیفیت ایسی تھی کہ جیسے مجھے نہیں اسے تکلیف ہوتی ہے. پھر ایک دن میرا دل بہت گھبرایا میری حالت دیکھ کر سمن پریشان ہو گئی میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا "بس میری جان تم جلد ہی اس تکلیف سے آزاد ہونے والی ہو " یہ سن کر سمن ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی اور انھیں کہا "خدا کے لیے کچھ کریں." وہ میرے کمرے میں آۓ اور مجھے دیکھ کر تاسف سے سوچا کہ یہ لڑکی تو ختم ہو چکی ہے. وہ مایوسی کے عالم میں باہر نکل آئے. سمن شاید ڈاکٹر کے چہرے پر رقم مایوسی پڑھ چکی تھی سو میرا ہاتھ تھام کر رونے لگی اور بولی "اگر تمہیں کچھ ہوا تو میں مر جاؤں گی " یہ سننا تھا کہ میں بے ہوش ہوگئی. دودن بعد جب میں ہوش کی دنیا میں لوٹی تو سب ہی لوگ حیران اور بہت خوش تھے کیونکہ میری رپورٹس بلکل کلیر تھیں. میں خود بہت حیران تھی کہ کیا میں سمن سے اتنی محبت کرتی ہوں کہ صرف اس کہ مر جانے کا سن کر میری بیماری بھگ گئی. میں نے سمن کا ہاتھ تھام کر اس سے کہا " تم نہیں مر سکتی تم میری روح کا حصہ ہو". لیکن قسمت اور وقت کہاں کسی کے احساسات کا خیال کرتے ہیں ہماری قسمت میں بھی شاید ایک دوسرے کا ساتھ شامل نہ تھا. وہ چلی گئی میرا شہر چھوڑ کر. ہم دونوں ہی تکلیف میں مبتلا تھیں. وقت گزرتا گیا اور آخر خبر ملی کہ وہ آرہی ہے میں خوش تھی اتنی کہ کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا. وہ میرے گھر کی سڑک کے اس پار جب گاڑی سے اتری تو میری خوشی بے پایاں تھی. مجھے لگا کہ جیسے بہار آگئی ہو لیکن کیا معلوم کہ بہار کب خزاں میں تبدیل ہو جائے. میں بھاگی اس کی طرف کہ اسکے گلے لگوں گی. وہ بھی آگے بڑھی لیکن یہ ملاقات خدا کو منظور نہ تھی اسی سڑک پر ایک تیز رفتار ٹرک سمن کو اپنے ساتھ اڑا لے گیا. وہ سمن کے جس کے منہ سے موت کا لفظ سن کر ہی میں تڑپ جاتی تھی. آج میرے سامنے ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو گئی. میں تو سکتے میں تھی یہی دعا کر رہی تھی کے یہ ایک بھیانک خواب ہے مگر وہ خواب نہ تھا وہ تو ایک بھیانک حقیقت تھی. مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ میں کیوں نہ مر گئی اور اب میں کہوں گی کہ وہ منظر میرے لیے بھولنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے اوپر پانی سے پانی لکھنا. اللّلہ کسی پر بھی ایسا لمحہ نہ آنے دے.(آمین). مجھے ابھی بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ میرے آس پاس موجود ہے. اسکی خوشبو میرے ساتھ ہے.
(ختم شد)
YOU ARE READING
خوشبوِ یار (افسانہ)
Randomیہ ایک افسانہ ہے دوستی جیسی نعمت کے بارے میں جو زیادہ لوگوں کو میسر نہیں ہوتی لیکن جن کو ہوتی ہے بے شک وہ خوش قسمت ہوتے ہیں.