کہاں سے آئے ہو تم ؟ وہ تین لڑکے سرجھکائے اپنے کالج کے ہیڈ ماسٹر کو جواب دینے میں مصروف تھے۔ میں پوچھتا ہوں کہاں سے آئے ہو تم؟ ہیڈ ماسٹر نے اپنا سوال دہرایا۔ ابھی۔ وہ اپنے ہونٹوں کو دانتوں میں دبائے یہ سوچ رہا تھا کہ میں کیا کہوں۔ ابھی تو میں گھر سے۔ اس کا جواب سن کے اس کا ہیڈ ماسٹر غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ تم تینوں بھائی ہو ؟ ہیڈ ماسٹر نے ایک اور سوال کیا۔ نہیں سر ہم تینوں دوست ہیں۔ انہوں نے ہیڈ ماسٹر کو جواب دیا۔ تم تینوں مجھے اپنے اپنے نام بتاؤ فورا۔ سر میں میں۔ میرا نام حسن ہے۔ اور میرا نام احمد ہے۔ ہیڈ ماسٹر صاحبان کے نام ایک ایک رجسٹر پر لکھ رہے تھے ۔ اور تمہارا کیا نام ہے لڑکے؟ ہیڈ ماسٹر نے تیسرے لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
میں میں میرا نام سالار ہے۔ ہیڈ ماسٹر اب پہلے دو لڑکوں کو چھوڑ کر تیسرے سے مخاطب ہو رہے تھے۔
ہیڈ ماسٹر اس سے غصے سے بات کر رہے تھے۔ حلیہ یہ دیکھا ہے تم نے اپنا ، یہ بال تم کون سے سکول سے آئے ہو ، جنگل سے آئے ہو کیا تم ، سب سے پہلے تم جاکر اپنی شرٹ ٹھیک کرو،۔ یہ اس کا اس کالج میں سب سے پہلا دن تھا۔ اور ہیڈ ماسٹر صاحب ان کو کالج لیٹ آنے پر ان کی بےعزتی کر رہے تھے ۔ اور کل تم نے ایسے کالج نہیں انا تمھارے بال کٹے ہونے چاہیے تم کل ایسے نہیں آؤ گے ۔ اور اب جاؤ اور جا کے اپنی کلاس میں بیٹھو ۔ ہیڈ ماسٹر نے ان کو یہ کہہ کر بھیج دیا۔ کیوں کہ وہ آدھا گھنٹہ لیٹ آئے تھے ۔ ان کی اساتذہ نے ان کو کلاس کے سامنے کھڑا ہونے کا کہا۔ اور تمام بچوں کو ان کی طرف مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگی ، یہ ان کا پہلا دن ہے اور ان کی حالت دیکھو تم سب ۔ کچھ دیر چند باتیں کرنے کے بعد انہیں بیٹھنے کا کہہ دیا ۔ وہ تینوں اس کالج کے گیٹ پر پہلی دفعہ ملے تھے ۔ اور وہ ایک دوسرے کے بارے میں بہت کم جانتے تھے ۔ جن میں سے ایک کا نام سالار تھا ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ اس کے رویے سے یہ صاف ثابت ہورہا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کا بہت ہی لاڈلا تھا۔ دوسرے لڑکوں سے بڑے بال۔ پانچ فٹ آٹھ انچ کا وہ لڑکا اس کے چہرے پر نمایاں ڈار سرکلز جو کہ اس قدر واضح تھے کہ اس کو پہلی نظر میں ہی دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ یہ نا سونے کی وجہ سے ہیں ۔ وہ اپنی کلاس میں سب سے آخری چیر پر بیٹھا اپنے اردگرد کے لڑکے اور لڑکیوں کو دیکھنے میں مصروف تھا ۔ وہ سب چہرے تو نہیں مگر ان میں سے کچھ اس کے لئے بالکل نئے تھے ۔ وہ اس کلاس میں موجود بہت سے لڑکوں سے پہلے ہی واقف ہو چکا تھا ۔ ان میں سے چند اس کے دوست تھے اور چند اس کے لیے بالکل نئے تھے۔ کچھ دیر بعد اس نے میڈم سدرہ کو اس کا نام پکارتے سنا اس کا نام۔ یس میں فورا اپنی چیر کے پاس کھڑا ہو گیا ۔ یس میم اس نے بولا ۔ تمہارا بیگ کدھر ہے؟ وہ تو میرا آج پہلا دن تھا میں تو اس لیے نہیں آیا ۔ سالار بولا۔ تو تم یہاں پڑھنے نہیں آئے۔ میڈم سدرہ نے اس سے سوال کیا۔ پہلے ہی دن کون پڑھائی کرتا ہے ؟ وہ بولا۔ میڈم اس کا سوال سن کر تھوڑا سنجیدہ ہوگئی ۔ چندیر اس کو دیکھنے کے بعد دوبارہ وہ اپنے بیگ سے کتاب نکال پڑھانا شروع ہوگی ۔ وہ ملک عمان اور نورالعین کا لاڈلا اور اکلوتا بیٹا تھا ۔ جس کو انہوں نے بہت ہی پیار سے بڑا کیا تھا۔ وہ دنیا کے لوگوں سے نہ واقف تھا۔ اس کو اس دنیا کے بارے میں کوئی علم نہ تھا ۔ اس کے والدین نے اس کو سب سے ہٹا کے پالا تھا۔ وہ دنیا کے رسم و رواج سے اور تمام حقیقتوں سے ناواقف تھا۔ وہ سب کو اپنے جیسا سمجھتا تھا۔ اس نے اپنے بچپن میں ہمیشہ لوگوں کا پیار ہی دیکھا تھا۔ اس کے والدین اور اس کے باقی تمام رشتے کیوں کہ اس کے قریبی تھے انہوں نے ہمیشہ اس کو لاڈ پیار سے ہی پالا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کچھ بگڑا ہوا بدتمیز بھی تھا۔ کیوں کہ وہ ایسا ہی تھا اس کو پیار کی عادت تھی اسے کسی کی اونچی آواز تک برداشت نہ ہوتی تھی۔ وہ بہت عجیب تھا۔ اس کی پسند بہت عجیب تھی۔ اس کو لوگ بنا مطلب کے برے لگ جایا کرتے تھے۔ ان کو ان کی حرکتوں سے جانچتا۔ اس کو اپنے گھر سے اکیلا کہیں جانے نہیں دیا جاتا تھا ہمیشہ اس کے ساتھ کوئی نہیں رہتا تھا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اتنا بگڑا ہوا تھا۔ اور ہم تو اس کی عمر ہو چکی تھی 17 سال۔ وہ دسویں جماعت تک بہت ہوشیار اور سب کا پسندیدہ لڑکا تھا۔ مگر جب سے وہ اس کالج میں آیا تھا وہ انتہا کا بدتمیز نہ پڑھنے والا اور برے بچوں میں شامل ہو گیا تھا۔ اس نے ابھی دنیا کو جاننا شروع کیا تھا۔ تمام حقیقتیں اور سب۔ اس نے پڑھائی بالکل چھوڑ دی تھی۔ اور چند دن بعد اس نے کالج جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ گھر سے تو کالج کا کہہ نکلتا تھا مگر پہنچتا نہیں تھا۔ اس کا کالج ریکارڈ بالکل زیرو تک پہنچ چکا تھا۔ پورے سال میں اس کی سو میں سے تیس فیصد کلاس اٹینڈس تھی۔ وہ اپنے ن فرسٹ ایئر کے امتحانات میں بنا کچھ پڑھے پچاس پرسنٹ کے ساتھ پاس ہوا تھا۔ وہ اس کی زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ چل رہا تھا ۔ اٹھو سالار۔ نور العین نے سالار کو اٹھاتے ہوئے کہا ۔ تم نے آج کالج نہیں جانا ؟ نورالعین بولیں۔ نہیں میں آج میری طبیعت تھوڑی خراب ہے ۔ اچھا تمہارے لئے کچھ بنا لو میں۔؟ نہیں مجھے بھوک نہیں لگی۔ سالار بولا۔ اچھا چلو تم سو جاؤ پھر جب اٹھے تو مجھے آکے بتانا ضرور۔ یہ کہتے ہوئے نورالعین اس کے کمرے سے باہر چلی گیں۔ اس نے اپنا موبائل اٹھا کر دیکھا تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔
ŞİMDİ OKUDUĞUN
خواب
FantastikThis story revolves around life of a young boy aged between 17-20 .Trying to figure out real meaning of life through several means.