محبت کے "م" سے لیکر عشق کے "ق" تک
ہر حرف کو بڑی غور سے پڑھا ہے میں نے
۔
۔
۔
"اماں سب ختم ہو گیا۔۔۔ہائے اُس خبیث نے سب برباد کر دیا"آنکھوں سے بہتے انسوں لال ہوتی ناک اور پُر نم لہجہ یہ ہے ہماری انتسارا لغاری جو اس وقت دکھ کے گہرے سمندر میں ڈوب رہی ہیں۔۔۔
"مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی تمہیں اتنی ڈرامے بازی کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے"ایمان جو اُسے کب سے اماں کے سامنے روتا دیکھ رہی تھی تنگ آکر آخر بولنے کی حماقت کر بیٹھی۔۔۔۔
"تم تو چپ ہی کرو تمہاری ہی نظر لگی ہے"اُسنے آنسو صاف کرکے سارا ملبہ ایمان پر ڈالا۔۔۔
"میری وجہ سے"ایمان نے ہے یقینی سے اُسے دیکھا
"ہاں تمہاری نظر کھا گئی میرے سوٹ کو ہائے اب میں عید میں کیا پہنوں گی"اُسکا دکھ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا درزی صاحب نے اُسکا جوڑا کسی بھنس کی ناپ کا سل دیا تھا اور اب عید سے دو دن پہلے اُسے دیا جسے دیکھنے کے بعد انتسارا بی بی کو تو مانو کسی نے موت کا پروانہ ہی تھما دیا۔۔۔
"چپ کرو تم دونوں اور سارو تم یہ سمیٹو اپنے کپڑے اور رکھو جاکے شام میں منہام کے ساتھ جا کر نیا جوڑا لے انا"اماں نے سخاوت کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے اُسے دوسرا جوڑا لینے کی اجازت دے دی۔۔۔
"ہائے اماں آپ تو محان ہیں آپ عظیم ہیں"انتصار کا بس نہیں چل رہا تھا ابھی اماں کے گال چوم لیتی۔۔۔
"ہاں اب تو چچی ماں محان لگینگی ہی تمہیں"ایمان نے طنز کا تیر چلایا جو سیدھا انتسارا کے دل میں جا لگا۔۔۔
"تم نے جل جل کے کالی ہو جانا بھنگن"وہ بھلا کیسے پیچھے رہتی۔۔۔۔
"بھنگن ہوگی تم کالی ڈاین"اپنے لیے بھنگن کا لقب سن کر ایمان تو مانو جل بھن گئی۔۔۔
"ہنہ جلو بیٹا جلتی رہو"وہ بال جھٹکتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور پیچھے بچاری ایمان کلس کر رہ گئی۔۔۔۔
وہ کمرے کی طرف جا رہی تھی جب کسی وجود سے اُسکا بڑا خطرناک قسم کا تصادم ہوا اور وہ اپنے محبوب یعنی کے فرش صاحب سے گلے ملتے ملتے رہ گئی کیونکہ کسی نے اُسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور ظالم سماج کا کردار ادا کیا۔۔۔۔
"کبھی ان بٹنوں کو بھی استعمال میں لایا کرو"منہام نے اُسے دیکھا کم گھورا زیادہ۔۔
"ہی ہی میں تو خیر ہوں ہی آندھی تم نے اپنی آنکھیں کب ڈونیٹ کیں"انتسارا بی بی نے بہت موحزیب طریقے سے اُسے جواب دیا۔۔۔
"تم سے سیدھے جواب کی توقع کرنا پاگل پن ہے"اُسنے آنکھیں گھمائیں۔۔
"اور تم پاگل ہو"وہ کہہ کر چپاک سے وہاں سے بھاگ گئی ورنہ منہام صاحب نے اُسے زمین کی سات طہو کے اندر ڈیڈ سٹریٹ لیٹا دینا تھا۔۔۔
__________________________میری آس__ ہو تم
میرے دل کے پاس ہو تم۔۔
۔
۔
۔
گاڑی سے اُتر کر اُسنے سامنے اپنی منزل کو دیکھا آنکھوں میں چمک تھی اور لبوں پر مسکان۔۔۔
"اب ہل بھی چُکو کیا یہیں ندیدوں کی طرح کھڑی ہو کر کپڑوں کو گھورتی رہو گی"منہام نے چڑ کر کہا تو وہ ہوش کی دنیا میں لوٹی۔۔۔
"ہاں چلو .....ہائے اندھے مار دیا"وہ اُسے کہتی ایک قدم چلی تھی کے اُسکا کسی سے زور کا ٹکراؤ ہوا اور وہ دیکھے بغیر سامنے والے کو کوسنے لگی مگر مقابل کو فرق نہ پڑا پڑتا بھی کیسے وہ اپنے لئے اُن متحرما کے الفاظ کہا سن پا رہا تھا۔۔۔
"سارو سامنے بائک کھڑا ہے اور وہ بیچارہ دیکھ نہیں سکتا"منہام کے کہنے پر اُسنے سامنے دیکھا تو شرمندہ سی ہوگئی۔۔۔۔
"ہاں تو کس اُلّو نے یہاں بائک کھڑی کی ہے اندھا نا ہو تو"اپنی غلطی ماننا اُسے اتا ہی نہیں تھا۔۔۔
"اندر چلیں یا اور کچھ کہنا ہے تمہیں بائک صاحب سے"منہام نے پھر طنز کیا۔۔۔
"ہاں چلو پھر ہم نے مہندی بھی لگوانی ہے"اُسنے پرجوش ہوکر کہا تو منہام اُسکی اس ادا پر مسکرا دیا۔۔۔
"دیکھو کونسا لوں"اُسنے اُسے دو ڈریسز دیکھاتے ہوئے پوچھا تو وہ فون سے نظرے ہٹا کر اُسکی طرف متوجہ ہوا جو ایک ہاتھ میں لال گھیر دار فروک اور دوسرے ہاتھ میں سفید کلیوں والا فروک پکڑے کھڑی تھی۔۔
"دونوں ہی اچھے ہیں"اُسنے کہہ کر واپس نظریں فون پر مرکوز کر لی۔۔۔
"افف میں پہن کر دیکھاتی ہوں پھر بتانا"وہ کہتی ٹرائل روم میں چلی گئی۔۔۔۔
وہ موبائل میں گم تھا جب کسی نے اُسکا موبائل چھینا۔۔۔
"کیا بد۔۔۔"مقابل کو دیکھتے اُسکے الفاظ حلق میں ہی کہیں گم گئے سامنے وہ لال فروک پہنے چہرے پر بلا کی معصومیت سجائے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
"اب ایسے کیا گھور رہے ہو جلدی بتاؤ کیسا ہے"اُسکے گھورنے پر وہ جھنجلا کر گویا ہوئی۔۔۔
"بہت خوبصورت ہے مگر تمہاری سڑی ہوئی شکل پر بلکل سوٹ نہیں کر رہا"اُسنے منہ بنا کر کہا۔۔۔
"ہاں تم تو بڑے فواد خان لگتے ہو نہ"اُسنے بھی حساب چکایا۔۔۔
"مجھے کوئی شوق بھی نہیں فواد خان دکھنے کا یہ فواد خان اور عمران عباس تو پانی بھرتے ہیں میرے سامنے"اُسنے اترا کر کہا اور اُسکے اس قدر غلط بیانی کرنے پر انتسارا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔۔
"رمضان میں اس قدر جھوٹ بولتے تمہیں شرم تو ذرا نہ ائی ہیں نہ"اُسنے اُسے شرم دلانا چاہی۔۔۔
"تمہارے منہ سے شرم کے بارے میں سننا عجیب سا لگ رہا ہے اب جاؤ یہ پیک کروائو میں گاڑی میں وئٹ کر رہا ہوں"وہ اُسے ہدایت دیتا باہر چلا گیا تو وُہ بھی چینچنگ روم چلی گئی۔۔۔۔
شاپنگ کے بعد وہ اُسے پارلر لیکر آیا تھا کیونکہ انتسارا بی بی نے مہندی لگوانی تھی۔۔۔۔
"میڈم مہندی میں نام لکھنا ہے"پارلر والی نے اُسے دیکھتے پوچھا جب اُسکا فون بجا اور بے اختیار اُسکے منہ سے منہام پھسلا اینڈ سیاپا ہو گیا۔۔۔۔
اُسنے بات کرکے جیسے ہی فون رکھا اور اپنی ہتیلی پے نظر پڑتے ہی ایک دل دہلا دینے والی چیخ اُسکی حلق سے نمودار ہوئی پارلر والی تو اپنی جگہ سے گيرتے گيرتے بچی۔۔۔۔
"ک کیا ہوا میڈم"پارلر والی نے ڈرتے پوچھا کیوں کے انتسارا بی بی اُسے ایسے گھور رہی تھی جیسے کچا چبا جائے گی۔۔۔۔
"مر جانی سب کر کے پوچھتی ہو کیا ہوا اوہ عقل کی آندھی یہ اُس اُلّو کا نام کس سے پوچھ کر لکھا ہے تم نے"اُسنے لڑاکا عورتوں کی طرح اونچی آواز میں کہا اور پھر اس بیچاری کو دو سو دو باتیں سنانے کے بعد وہ باہر آگئی اُسے باہر اتا دیکھ منہام نے شوفر ہونے کا حق ادا کرتے اُسے دروازہ کھول کر دیا تو وُہ جو غصے سے بھری بیٹھی تھی منہ بناتی گاڑی میں بیٹھ گئی وہ بھی گھوم کر اپنی جگہ ایا اور بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔
"یہ تمہارے موڈ کو کیا ہوا ہے پارلر والی نے چپریں مار کر بھیجا ہے کیا"منہام نے مزاکن کہا مگر بیچارے کو یہ مذاق بہت مہنگا پڑ گیا۔۔۔۔
"تم تو بولو ہی مت منی بیگم یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے کس نے کہا تھا منہ اٹھا کر مجھے کال کڑکا دو"انتسارا کو تو موقع چائیے تھا اپنی بھڑاس نکالنے کا اور منہام نے خود کو خود ہی پلیٹ میں رکھ کر بےعزت ہونے کے لیے پیش کیا تھا۔۔۔۔
"ارے نہیں میں نے منہ اٹھا کر نہیں فون اٹھا کر تمہیں کال کی تھی"اُسکی اس سستی کامیڈی کے مظاہرے پر انتسارا کا دل کیا اسکو ایک عدد جوتا وجا دے۔۔۔
"بس چولیں کروالو تم سے یہ دیکھو کیا منہوسیت ماری ہے اُس کمبخت پارلر والی نے منحوس ماری کو بھینگا شوہر ملے اُسکے بچے اُسکے بال نوچ کر اُسے گنجا کر دیں"وہ جو اُسکی ہتیلی پر اپنا نام دیکھ کر خوش ہو رہا تھا مگر پھر اُسکی بد دعائیں سنتا غش کھانے کے قریب تھا۔۔۔
"کوئی بات نہیں سارو کچھ دنوں میں اتر جائے گی"اُسنے اُسکا غصّہ ٹھنڈا کرنا چاہا۔۔۔
"ہائے اماں نے دیکھا تو کیا سوچینگی اور وہ ائمی تو مجھے باتیں سنا سنا کر مارے گی افف میں کیا کروں"اُسے اب اپنی جان کی فکر ستانے لگی۔۔۔
"ہاں تو تمہیں کس نے کہا تھا میرے نام کی تسبیح کرو اُس پارلر والی کے سامنے اب میرا نام اتنا اچھا ہے کے اُسنے لکھ دیا"وہ اترا کر گویا ہوا۔۔۔
"ہاں نام اچھا ہے منی بیگم مگر شکل سے منوسیت اور خباثت ٹپک رہی ہے"اُسنے اُسکا چہرہ دیکھتے ہوۓ کہا ہلکی شہید رنگ آنکھیں براؤن بال جو پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے اور مغرور ناک وہ بلاشبہ ایک خوبرو مرد تھا ایک پل کو انتسارا کے دل نے اُسکے جھوٹ پر اُسے لعنت ملامت کی تھی مگر باجی سدا کی ڈھیٹ ہیں۔۔۔
"ہاں اور اسی خبیث کے ساتھ تم رات کے اس پہر سڑکوں پر رل رہی ہو"اُسنے مسکراہٹ دبا کر کہا۔۔۔
"بکو مت تیز چلو ابھی اماں سے بھی ذلیل ہونا ہے میں نے"اُسے ابھی سے اماں کی جوتیاں اپنے سر پر پڑتی نظر آرہی تھیں۔۔۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨
وہ خود پر دعائیں پھونکتی لاؤنج میں داخل ہوئی سامنے اماں تائی اور ایمان ڈراما دیکھنے میں مصروف تھیں اُسنے موقع غنیمت جان کر وہاں سے دبے پاؤں کٹ لینا چاہا مگر ہائے رے قسمت وہ چلتے ہوئے سامنے والے واز سے ٹکرائی اور واز صاحب زمین پر گھر کر چور چور ہو گئے۔۔۔۔
"اُف لڑکی اتے ہی سامان گرانہ شروع کردیا سب کچھ تو تونے توڑ دیا ہے"اُسکے واز توڑنے پر اما بھڑک اٹھیں۔۔۔
"اماں تو یہ بیچ میں پڑا تھا نہ"اُسنے بیچارے واز کے ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا تو اماں نے جوتا اٹھایا ہی تھا کے احتشام سامنے اگیا۔۔۔
"امی چھوڑے نہ بچی ہے"اُسنے امی کو ٹھنڈا کیا۔۔۔
"یہ اکیس سال کی کونسی بچی ہوتی ہے ہاں"اماں کا رخ روشن اب احتشام کی طرف ہوا تو انتسارا کمرے کی طرف بھاگ گئی۔۔۔
کمرے میں اتے ہی اُسنے واشروم کا رخ کیا اور مہندی کو رگڑ رگڑ کر دھویا مگر مہندی اپنا کام کر چکی تھی اُسکی ہتھیلی کے بیچ و بیچ بڑا سا منہام لکھا ہوا تھا جسے دیکھ کر وہ کڑھ رہی تھی۔۔۔
وہ باہر ائی تو ایمان اُسکے بیڈ پر بیٹھی اُسکی ڈائری میں لکھے شعر پڑھنے میں مصروف تھی۔۔
"اوئے یہاں کیا کر رہی ہو چلو دفاع ہو میں نے سونا ہے"انتسارا نے اُسے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور ایمان کی نظر سیدھی اُسکی ہتھیلی پر گئی۔۔
"ائے ہائے یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں یو انتسارا تم میرے بھائی پر نظر رکھے ہوئے ہو اللّٰہ توبہ میری بھابھی بننے کے سپنے دیکھے جا رہے ہیں مگر نہ جی نہ تم جیسی پھپھے کوٹنی کو اپنی بھابھی نہ بننے دونگی میں"اُسنے ہاتھ نچا کر کہا تو انتسارا نے اُسے گھورا ایمان بی بی کو ڈارمے بازی کرنے کا بڑا شوق تھا۔۔۔
"ہوگئی تمھاری فضول ایکٹنگ تو سن لو مجھے بھی کوئی شوق نہیں اُس منی کی بیگم بننے کا ہنہ"اُسنے منہ بسور کر کہا تو ایمان کو ہنسی آگئی۔۔۔
"اچھا جی ویسے رنگ تو بڑا گہرا ایا ہے"ایمان نے اُسے مزید چڑایا
" ہنہ تم چپ کر جاؤ ورنہ میں نے احتشام بھائی کی کسی اور سے شادی کروا دینی ہے"انتسارا نے دھمکی دی جو کافی حد تک کام کر گئی تھی اور ایمان کی ہنسی کو بریک لگی۔۔۔
ایمان اور احتشام کا رشتا بچپن سے ہی طے تھا اور سال پہلے نکاح ہو چکا تھا انوار صاحب اور مقصود صاحب دو منزلہ گھر میں اکٹھے رہتے ہیں انوار صاحب کو اللہ نے دو اولادوں سے نوازا پہلا بیٹا منہام اور پھر اس سے تین سال چھوٹی ایمان مقصود صاحب کے بھی دو ہی بچے ہیں احتشام جو منہام کا ہم عمر ہے اور اس سے دو سال چھوٹی انتسارا۔۔۔
"کروا دو اپنے اُس خُشک مزاج بھائی کی شادی ہنہ"اُسنے بے نیازی سے کہا۔۔۔
"کروادوں گی فکر نہ کرو اور چلو اب دفاع ہو یہاں سے مجھے نیند آ رہی ہے"اُسنے اُسے کہہ کر تکیے میں منہ دے دیا تو وہ بھی پیر پٹکتی واک آؤٹ کر گئی۔۔۔
وہ انتسارا کے کمرے سے نکلنے کے بعد اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی جب کسی نے اُسے کلائی سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا۔۔۔
"تو کیا واقعی میں مجھے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے"اُسنے اُسکی طرف جھکتے ہوئے کہا تو وہ غیر محسوس انداز میں پیچھے ہٹی۔۔۔
"میں نے ایسا کب کہا"اُسنے اَپنی حیرت پر قابو پاتے کہا۔۔
"ابھی سارو سے کہا نہ"اُسنے دو قدم دور ہوتے ہوئے کہا
"وہ تو ایسے ہی"وہ خفگی سے سر جھکائے بولی تو احتشام نے مسکراہٹ دبائی۔۔۔
"میرا ایک ہی دل ہے اور وہ میں تمہارے نام کر چکا ہوں کسی دوسرے کی گنجائش ہی نہیں بچتی"اُسنے اُسکے کان میں میٹھی سرگوشی کی تو وہ بھی مسکرادی۔۔۔۔
___________________________
وہ گارڈن میں بیٹھی چپس کھا رہی تھی جب سریہ گیٹ سے اندر داخل ہوئی اُسے دیکھتے ہی اُسنے منہ بنایا۔۔۔
"آگئی چپکو چھپکلی ہنہ"وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔۔۔
"ہائے سوئٹی منہام کہاں ہے"اُسنے اُسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے منہام کا پوچھا وُہ منہام کی کوليگ تھی اور اُنکی پڑوسی بھی اُسکا منہام کے بارے میں پوچھنا اُسے زہر لگا تھا۔۔۔
"وہ تائی امی کے روم میں ہے کوئی ضروری بات کرنی تھی اُنہیں اُس سے"وہ بےنیازی سے کہتی چپس کھانے لگی جیسے کوئی دوسرا موجود ہی نہ ہو۔۔۔
"ارے سریہ تم کب ائی"منہام جو انتسارا کو بلانے ایا تھا اُسے اِس وقت دیکھ کر ٹھٹکا۔۔
"اوہ میں تمہیں یہ فائل دینے ائی تھی تم ایک بار چیک کرلو"وہ منہام کے پاس کھڑی ہوکر بولی تو انتسارا نے کن اکھیوں سے اُنہیں دیکھا۔۔۔
"اچھا چلو اؤ تم اندر تو چلو سارو دو کپ چائے لے انا لاؤنج میں"اُسے اندر بھیج کر اُسنے حکم صادر کیا اور خود بھی لاؤنج میں چلا گیا۔۔۔۔
"ماسی لگی ہوں نہ میں اسکی چائے لے اؤ ہنہ"وہ غصے میں بڑبڑاتی چائے بھی بنا رہی تھی۔۔۔
وہ چائے کا ٹرے لیکر لاؤنج میں ائی تو وہ دونوں فائل میں کچھ ڈسکس کر رہے تھے۔۔۔
اُسنے چائے کا ٹرے ٹیبل پر پٹھکا اور اُنہیں دیکھے بغیر روم میں چلی گئی۔۔۔
پیچھے سریہ نے اُسے معنی خیز نظروں سے دیکھا تو وہ خجل سا مُسکرا دیا۔۔۔
کمرے میں اتے اُسنے زور سے دروازہ بند کیا اور ناول لیکر بیٹھ گئی ابھی اُسے ناول پڑھتے کچھ وقت گزرا تھا جب منہام کمرے میں داخل ہوا مگر اُسنے کوئی نوٹس نہیں لیا۔۔۔
"یہ کیا بدتمیزی تھی"اُسنے سخت لہجے میں پوچھا۔۔۔
"کونسی بدتمیزی"وہ انجان بنی۔۔
"یہ سریہ کو دیکھتے تمہیں دورے کیوں پڑ جاتے ہیں"وہ اُسکے برابر کچھ فاصلے پر بیٹھتا بولا۔۔۔
"بس نہیں پسند مجھے وہ"اُسنے صاف گوئی سے کہا۔۔۔
"کیوں نہیں پسند"اُسنے اُسے دیکھتے سوال کیا جو سر جھکائے بیٹھی تھی وہ خاموش رہی اس سوال کا جواب تو اُسکے پاس بھی نہیں تھا۔۔۔
"میں کچھ پوچھ رہا ہوں"اُسنے ایک ایک لفظ پر زور دیکر پوچھا اُسکی آنکھوں میں اسکے سوال کا جواب واضح تھا مگر وہ اُسکے منہ سے سننا چاہتا تھا۔۔۔۔
"مجھے نہیں پتہ اور دفعہ ہو میرے کمرے سے مجھے نیند آرہی ہے"اُسنے دروازے کو طرف اشارہ کرتے کہا تو وہ بھی بغیر کچھ کہے چلا گیا۔۔۔
__________________________
وہ چاروں چت پر جمع تھے گھر لائٹوں سے سجا تھا کل عید تھی اور وہ لوگ چت پر چاند دیکھنے ائے تھے۔۔۔۔
"یار سارو یہ چاند کب دیکھے گا"ایمان نے کوئی تیسری بار یہ سوال کیا تھا۔۔۔
"میری جان تمہارا چاند تو یہ رہا"احتشام نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔۔۔۔
"کاش آپ نے کبھی آئینہ دیکھ لیا ہوتا تو آپکو پتہ چلتا کس قدر غلط بات کر دی ہے اپنے"ایمان اُسکی بے باکی پر اُسے دل میں کوستی گویا ہوئی۔۔۔
"بہت بار دیکھا ہے اور تم سے تو ہزار دفعہ بہتر شکل ہے میری"اُسنے بھی حساب برابر کیا۔۔۔۔
اور وہ صرف "ہنہ" کر کے رہ گئی۔۔۔۔
منہام نے اہتشام کے کان میں کچھ کہا تو وُہ ایمان کی طرف بڑھا۔۔۔
"یار وہ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے"وہ اُسکے کان میں بولا۔۔۔
"میری شکل ہے بات کرنے والی"اُسنے اُسے کچھ دیر پہلے کہیں اپنی بات یاد دلائی۔۔
"سوری نہ اب چلو"وہ اُسے کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر اُسکی کلائی پکڑ کر نیچے لے گیا۔۔۔
وہ چاند ڈھونڈنے میں مگن تھی جب کسی نے پیچھے سے اُسکا کندھا تھپکا وہ جیسے ہی پلٹی سامنے منہام زمین پر بیٹھا ایک ہاتھ میں رنگ پکڑے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
"مس انتسارا انور شاہ کیا آپ مُجھے منہام شاہ کو اپنا ہمسفر چننا پسند کرینگی"اُسنے محبت پاش لہجے میں کہا۔۔۔۔
"یہ یہ کیا کر رہے ہو کوئی دیکھ لے گا اٹھو"وہ اُدھر اُدھر دیکھتی ہربرا کر بولی۔۔۔
"تو دیکھنے دو سب سے بات کر چکا ہوں میں تم بتاؤں کیا تم میری ہمراہی قبول کرو گی"اُسنے اُمید بھرے لہجے میں معصوم چہرہ بنا کر کہا تو انتسارا کو اُس پر ٹوٹ کر پیار ایا۔۔۔
"ہاں اگر تم ہر ہفتے مجھے آغا نور کا ڈریس اور میچنگ سینڈل دلواؤ تو"اُسنے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"زیادہ سر نہیں چڑ رہی تم ہاتھ دو چپ چاپ"اُسنے اُسکا ہاتھ کھینچ کر انگھوٹی پہنائی تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔
____________________
"کیا مسئلہ ہے احتشام ہاتھ چھوڑے میرا"ایمان جو کب سے اپنا ہاتھ چھڑانے کیلئے مزحامت کر رہی تھی اس بار جھجھلا کر بولی۔۔۔
"اب تو ساری عمر یہ ہاتھ میری گرفت میں رہے گا مس ایمان احتشام"اُسنے جُھک کر اُسکے کان میں سرگوشی کی تو ایمان کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔۔
"احتشام کوئی دیکھ لےگا"اُسنے اُسے دور کرتے ہوئے کہا تو وہ مسکرایا۔۔
_______________________عید کے دِن گھر میں چہل پہل تھی گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا انتسارا اتنے لوگوں کو گھر میں دیکھ کر چکرا گئی تھی عید میں اکثر وُہ لوگ اپنی نانی کی طرف جاتے تھے آج پہلی بار ہوا تھا کے سب اُنکے گھر جمع ہوۓ تھے وہ تیار ہوکر اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی جب امی نے اُسے لال چنری اوڑھائی اور تائی امی تو اُسکی بلائے لیے جا رہی تھی کچھ دیر بعد ابا اور تایا ابو مولوی صاحب کے ساتھ داخل ہوئے تو وہ ہونق بنی سب کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
"انتسارا انور بنت انور شاہ کیا آپکو منہام شاہ بنت مقصود شاہ سے نکاح بیس ہزار راج ال وقت حق مہر یہ نکاح قبول ہے"مولوی صاحب کے کہنے پر اُسنے چونک کر ابو کو دیکھا تو انہوں نے سر ہلا دیا.
"قبول ہے" اُسنے مسکرا کر نکاح کے لیے حامی بھری عجاب و قبول کے بعد اُسے منہام کے برابر میں لاکر بٹھایا گیا منہام کی روح خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں تھا محّبت پا لینے کی خوش اُسے سر شار کیے ہوئے تھی۔۔۔۔"نکاح مبارک ہو مسز"اُسنے جھک کر میٹھی سرگوشی کی تو وہ مسکرادی۔۔۔
"تمہیں بھی بندر"اُسنے مسکراہٹ دبا کر کہا۔۔۔
"اب تو تمیز سے مخاطب کرو شوہر ہوں تمہارا"اُسکے روب سے کہنے پر اُسنے اُسے گھورا تو اُسنے بتیسی کی نمائش کرتے اُسکا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ شرماتی چہرہ جُھکا گئی۔۔۔۔
(ختم شد)