اے بیت المقدس ! آنکھ ہوٸی اشکبار سن کہ تیرا حال
تیری تقدیس کا قرض نہ اتار سکنے کا ہوا مجھے ملال
دل میں بجتے ہیں سوز و غم کے تال
بُن دیا گیا دل مسلم کے گرد سازشوں کا جالمدت گزر گٸ ، ظلم کا گرم ہے بازار
ویراں ہیں مسکراہٹوں سے چمن و گلزار
زندگی سے کر دیا گیا ہے کلیوں کو بے زار
روز کٹتے ہیں قدس کی حرمت پہ سر بے شماراے امت مسلمہ ! تجھے فرقوں اور تعین مسجد میں
الجھا کر چھین لیں گے تجھ سے تیرا اوّل قبلہ
اک نۓ صلاح کے پیدا ہونے کا انتظار نہ کر
چھوڑ انا کی جنگ اور اپنے اندر کے صلاح الدین کی تلاش کر