از قلم : مجاہد الاسلام ابن مخدومی حسام الدین
"بیٹا سنجیدہ ہوجاؤ۔" "تم اگر نہیں پڑھیں گے تو تمہاری نسلیں نہیں پڑھے گی۔
"your behaviour shows which family you are from."
یہ وہ الفاظ تھیں جنہیں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ یہی وہ جملے تھیں جنہوں نے ہمارے کانوں پر ڈیرہ جما لیا تھا۔ اب یہ الفاظ، یہ محبت بھری نصیحتیں ہم سے جدا ہو رہی ہیں۔ آئندہ کی زندگی میں یہ الفاظ ہمارے کانوں میں گونجتے رہیں گے۔ اور زندگی کے ہر موڑ پر مشعل راہ کا کام کریں گے۔ گو کہ یہ ہمیں معمولی معلوم ہوتے تھیں۔ وقتی طور پر ان سے بیزارگی کا احساس ہوتا تھا۔ مگر اب پتہ چلا کہ زندگی کی دوڑ دھوپ میں یہ کسی رہبر سے کم نہیں۔زندگی کے دریا میں بہتے ہوئے آج ہم اس موڑ کے قریب آگئے ہیں جہاں ٹھاٹے مارتا ہوا سمندر ہمارا منتظر ہے۔ جہاں کی موجوں میں شیطانیت اور باطل کے وسوسے موج و مستی کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کی موجوں میں تعلیم، اخلاق اور کردار کا علم سر بلند رکھنا کسی مجاہدہ سے کم نہیں۔ اب ہمیں اس سمندر میں قدم رکھنا ہے۔
اب تک ہم تعلیم و تربیت کے دور میں تھیں۔ ہم اس کشتی کے مسافر تھیں جس کے بادبان اساتذہ اور والدین نے تھامے ہوئے تھیں۔ ہم مشکلات سے ناواقف تھیں، ہم تلاطم سے ناواقف تھیں۔ ان طوفانوں کا سامنا ہمارے اساتذہ نے کیا، ہمارے والدین نے کیا، اور ان سے ہمیں محفوظ رکھا۔ اب وقت آیا ہے سمندر کی موجوں میں حق کے علم کے سفینے کو چھوڑنے کا۔ اور اخلاق و کردار کے ساتھ تعلیمی میدان میں کامیابی کے پرچم کو لہرانے کا۔
یہ وہ اساتذہ ہیں جنہوں نے زندگی کی سچائی سے ہمیں واقف کرایا۔ ہمیں تعلیمی میدان کے بہادر اور نڈر سپاہی بنایا۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جنہوں نے اپنے تجربے کی بناء پر دین الٰہی کی روشنی میں ہماری تربیت کی۔ ہمیں حق و باطل کی تمیز سیکھائی۔ ہمیں اسلام کے باکردار سپاہی کا ہنر سکھایا۔ ہمیں ان مشکلات سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جو انہوں نے برداشت کی تھی۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو خود پس پردہ رہ کر اپنے طلبا کو کامیابی کی بلندیوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اپنی روشنی سے خلا میں نئے ستاروں کو جنم دیتے ہیں۔
نو نہالوں کو قندیل حرم دیتا ہے
دست معصوم کو لوح و قلم دیتا ہے
بانٹتا پھرتا ہے روشنی سورج کی طرح
ڈوبتا ہے تو ستاروں کو جنم دیتا ہےہمیں فخر ہے کہ ہمیں شہر کے نامور ادارے کے اساتذہ کی تربیت حاصل ہوئی ہے۔ ان اساتذہ میں کسی نے سنجیدگی پر زور دیا، تو کسی نے اخلاق و کردار کی جانب توجہ مبذول کرائی، تو کسی نے خوشحالی کے ساتھ زندگی گزارنے کا ہنر سکھایا، الغرض سب کا منشا ایک ہی، تعلیم و تربیت کا تھا۔ ہم تمام طلباء یہاں کے teaching اور non teaching staff کے ممنون و مشکور ہیں جنہوں نے اس علم کے دھارے کو بہنے میں مدد کی۔ اس اسکول پر ہمیں فخر ہے، یہاں کی سوسائٹی پر ہمیں فخر ہے۔ ہم رب خداوند کے شکرگزار ہیں کہ جس نے اس اسکول کی تربیت میں ہمیں رکھا۔
مستقبل میں جب کبھی ہم کامیابی کی بلندیوں کو چھوئے، اس اسکول کا نام ہماری زبان پر ہوگا۔ اس کی یادوں کا بسیرا ہمارے قلب و ذہن میں منور ہوگا۔ ہم یہ ضرور یاد رکھیں گے کہ یہی وہ اسکول ہے جس نے ہماری بنیادوں کو مضبوط کیا تھا، جس کی بدولت کامیابی کی عمارات آسمانوں کو چھو رہی ہوگی۔ اس اسکول کے در و دیوار یاد آئیں گے۔ اس اسکول کی کلاسیس یاد آئیں گی۔ اس اسکول کے سنہرے لمحات یاد آئیں گے۔ اس اسکول کی شرارتیں یاد آئیں گی۔ ہم خداوند قدوس سے دعا گو ہیں کہ اس اسکول کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی ملے۔ یہ اسکول ترقی کے مراحل پر سفر کرتے ہوئے بھارت کے عظیم تعلیمی ادارے کی حیثیت اختیار کرلے۔ یہ اسکول مرحوم اشفاق احمد صاحب کے خوابوں کی تعبیر بنے۔ساتھیوں ! اب ہم نئی زندگی میں قدم رکھنے جارہے ہیں۔ نہ جانے کیسے دوست ہمارے منتظر ہیں، کیسے حالات کیسے کردار ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم اس کے واقف نہیں۔ ہمیں ہر حال میں اخلاق و کردار کا نور مجسم رہنا ہوگا۔ہماری شخصیت اسلام کی روشنی کا پروانہ ہونا ہوگی۔ تبھی یہ اساتذہ یہ والدین کی تعلیم و تربیت کا حق ادا ہوگا۔ تبھی یہ ملک ترقی کرے گا۔ تبھی یہ اسلام غالب آئے گا۔ ساتھیوں ! چلو کامیابی کی چوٹیاں ہماری منتظر ہیں۔ یہ زندگی کا سمندر ہمیں آواز دے رہا ہے۔ چلو اس دنیا میں ایک انقلاب برپا کریں۔ اس دنیا کو انسانیت کی جانب موڑے۔ چلو تعلیم کے پرچم کو بلندیوں پر لے جائیں۔ چلو دنیا میں ایک انقلابی پہچان کے طور پر ابھر آئیں۔
لباس خضر میں پھرتے ہیں ہزاروں رہزن
اگر دنیا میں رہنا ہے تو پہچان پیدا کرمیں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھے تو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
YOU ARE READING
یادیں نہ جائے بیتے دنوں کی۔
Randomیہ مضمون 27 فروری 2020 کو اسکول کی الوداعی تقریب کی مناسبت سے تحریر کیا گیا تھا۔ یہ مضمون تقریر اور تحریر کی آمزش کے طور پر لکھا گیا ہے۔ 28 فروری 2020 کی الوداعی تقریب میں میں نے اسے سامعین کے سامنے پڑھا تھا۔ اسے اسی مناسبت سے پڑھا جائے تو بہتر ہے۔