ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے اس نے اوپن کچن کے سامنے رک کر راہداری میں نگاہ دوڑائی تھی۔ملگجی سی روشنی تھی جو پورے گھر میں پھیلی تھی۔۔ عجیب سا سناٹا تھا جو ہر طرف چھایا ہوا تھا۔۔وہ پندرہ دن بعد لندن سے لوٹا تھا اور گھر پر چھائی ہوئی یہ ویرانی اسے عجیب سی کیفیت سے دوچار کر گئی تھی۔۔
مسزشیرازی کے بیڈ روم کا دروازہ بند تھا۔وہ یقیناً اب تک سو چکی ہوں گی۔۔ وہ ان کے آرام میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ بیرون ملک دورے سے واپس آیا ہو اور فی الفور ان سے نہ ملا ہو۔۔۔
وہ سیڑھیوں کا رخ کرنے ہی لگا تھا جب نگاہ راہداری کے اختتام پر اسٹوڈیو کے ادھ کھلے دروازے پر پڑ گئی۔۔ دروازے کی درز سے جھانکتی زرکار روشنی ٹائلز پر بکھری ہوئی تھی۔آہستگی سے قدم اٹھاتے ہوئے وہ اسٹوڈیو روم میں آ گیا۔۔۔
تمام بتیاں روشن تھیں۔۔۔ دیوار گیر کھڑکیوں کے پردے ڈوریوں میں بندھے ہوئے تھے۔۔۔ باہر کا اندھیرا کھڑکیوں سے اندر جھانک رہا تھا۔۔۔ رم جھم بارش کا مدھم سی آواز۔۔ سرسرا کر گزرتی ٹھنڈی نم ہواؤں کا شور۔۔۔۔ اس نے ایک طائرانہ نگاہ ھال میں دوڑائی پھر آگے بڑھتے ہوئے مشرقی دیوار کے پاس رکھے کارٹن پر جھک گیا۔۔۔
مرجھائے ہوئے پھول۔۔۔۔۔ گیٹ ویل سون کا ڈرائنگ پیپر۔۔۔۔۔ رزلٹ کارڈز۔۔ ٹرافیز۔۔۔ کھلونے۔۔۔ تصاویر کے البم۔۔۔۔ایک ایک چیز کا سرسری سے انداز میں جائزہ لیتے ہوئے اس کے ہاتھ میں اپنا پرانا والٹ آ گیا۔۔۔ والٹ خالی تھا۔۔ اس میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو اسے متوجہ کرتی ماسوائے اس کی۔چین کے جس کے دوسرے سرے پر شاندار سی تلوار لٹک رہی تھی۔۔۔ تلوار کے بلیڈ کے وسط میں ایک میگنیٹک چپ تھی جس پر انگلی پھیرتے ہوئے اسے یاد آیا تھا کہ اس کے ساتھ جڑی ہوئی ایک اور تلوار بھی تھی۔۔۔۔
"تم آ گئے بیٹا!" مسزشیرازی کی آوازپر اس نے چونک کر عقب میں دیکھاتھا۔
وہیئل چیئر پر براجمان۔۔۔ سیاہ شال میں اپنا آپ چھپائے وہ منسلک کمرے سے اندر آ گئی تھیں۔۔۔
" میں سمجھا آپ سو رہی ہوں گی!" کی چین ہاتھ میں لیے وہ اٹھ کر ان کے پاس آ گیا۔ جھک کر ان کی پیشانی کا بوسہ لیا پھر ہاتھ پکڑ کر ہی ان کے پاس سائڈ ٹیبل پر بیٹھ گیا تھا۔
" طارق کے اکاؤنٹ میں اماونٹ ٹرانسفر کر دی ہے میں نے! " وہ جانتا تھا مسز شیرازی اب اس سے کیا پوچھنے والی تھیں۔ مگر سوال سے پہلے ہی وہ انہیں جواب دے چکا تھا۔۔
مسز شیرازی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ایک کرب سا ان کی آنکھوں میں ٹھہر گیا۔۔۔
ہر مہینے کی یکم تاریخ کو وہ کچھ اور ہی سننے کی مطمنی رہتیں اور ہر بار فارس وجدان کا یہ جملہ انہیں اذیت میں مبتلا کر دیتا۔۔۔۔ہر ماہ رقم ٹرانسفر کرنے والا محبت ٹرانسفر نہیں کرتا تھا ۔۔۔
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...