Chapter:9

383 28 10
                                    

ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے اس نے اوپن کچن کے سامنے رک کر راہداری میں نگاہ دوڑائی تھی۔ملگجی سی روشنی تھی جو پورے گھر میں پھیلی تھی۔۔ عجیب سا سناٹا تھا جو ہر طرف چھایا ہوا تھا۔۔وہ پندرہ دن بعد لندن سے لوٹا تھا اور گھر پر چھائی ہوئی یہ ویرانی اسے عجیب سی کیفیت سے دوچار کر گئی تھی۔۔


مسزشیرازی کے بیڈ روم کا دروازہ بند تھا۔وہ یقیناً اب تک سو چکی ہوں گی۔۔ وہ ان کے آرام میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ بیرون ملک دورے سے واپس آیا ہو اور فی الفور ان سے نہ ملا ہو۔۔۔


وہ سیڑھیوں کا رخ کرنے ہی لگا تھا جب نگاہ راہداری کے اختتام پر اسٹوڈیو کے ادھ کھلے دروازے پر پڑ گئی۔۔ دروازے کی درز سے جھانکتی زرکار روشنی ٹائلز پر بکھری ہوئی تھی۔آہستگی سے قدم اٹھاتے ہوئے وہ اسٹوڈیو روم میں آ گیا۔۔۔


تمام بتیاں روشن تھیں۔۔۔ دیوار گیر کھڑکیوں کے پردے ڈوریوں میں بندھے ہوئے تھے۔۔۔ باہر کا اندھیرا کھڑکیوں سے اندر جھانک رہا تھا۔۔۔ رم جھم بارش کا مدھم سی آواز۔۔ سرسرا کر گزرتی ٹھنڈی نم ہواؤں کا شور۔۔۔۔ اس نے ایک طائرانہ نگاہ ھال میں دوڑائی پھر آگے بڑھتے ہوئے مشرقی دیوار کے پاس رکھے کارٹن پر جھک گیا۔۔۔


مرجھائے ہوئے پھول۔۔۔۔۔ گیٹ ویل سون کا ڈرائنگ پیپر۔۔۔۔۔ رزلٹ کارڈز۔۔ ٹرافیز۔۔۔ کھلونے۔۔۔ تصاویر کے البم۔۔۔۔ایک ایک چیز کا سرسری سے انداز میں جائزہ لیتے ہوئے اس کے ہاتھ میں اپنا پرانا والٹ آ گیا۔۔۔ والٹ خالی تھا۔۔ اس میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو اسے متوجہ کرتی ماسوائے اس کی۔چین کے جس کے دوسرے سرے پر شاندار سی تلوار لٹک رہی تھی۔۔۔ تلوار کے بلیڈ کے وسط میں ایک میگنیٹک چپ تھی جس پر انگلی پھیرتے ہوئے اسے یاد آیا تھا کہ اس کے ساتھ جڑی ہوئی ایک اور تلوار بھی تھی۔۔۔۔


"تم آ گئے بیٹا!" مسزشیرازی کی آوازپر اس نے چونک کر عقب میں دیکھاتھا۔


وہیئل چیئر پر براجمان۔۔۔ سیاہ شال میں اپنا آپ چھپائے وہ منسلک کمرے سے اندر آ گئی تھیں۔۔۔


" میں سمجھا آپ سو رہی ہوں گی!" کی چین ہاتھ میں لیے وہ اٹھ کر ان کے پاس آ گیا۔ جھک کر ان کی پیشانی کا بوسہ لیا پھر ہاتھ پکڑ کر ہی ان کے پاس سائڈ ٹیبل پر بیٹھ گیا تھا۔


" طارق کے اکاؤنٹ میں اماونٹ ٹرانسفر کر دی ہے میں نے! " وہ جانتا تھا مسز شیرازی اب اس سے کیا پوچھنے والی تھیں۔ مگر سوال سے پہلے ہی وہ انہیں جواب دے چکا تھا۔۔


مسز شیرازی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ایک کرب سا ان کی آنکھوں میں ٹھہر گیا۔۔۔


ہر مہینے کی یکم تاریخ کو وہ کچھ اور ہی سننے کی مطمنی رہتیں اور ہر بار فارس وجدان کا یہ جملہ انہیں اذیت میں مبتلا کر دیتا۔۔۔۔ہر ماہ رقم ٹرانسفر کرنے والا محبت ٹرانسفر نہیں کرتا تھا ۔۔۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now