Chapter:15 von

368 35 12
                                    

وہ آتشدان کے سامنے ایزی صوفہ پر ٹانگیں سینے سے لگائے بیٹھی تھی۔۔ شال سے کچھ نظر آ رہا تھا تو اسکی آنکھیں۔۔۔ شہد جیسی ۔۔ گہری۔۔۔ پرکشش آنکھیں۔۔جنکی پلکوں پر نمی ٹھہری تھی۔۔۔۔۔
گلاس ٹیبل پر ڈائری، کتاب،قلم اور شیٹس بھی رکھی تھیں۔موبائل بھی پاس ہی پڑا تھا۔۔ مسز شیرازی کا دیا ہوا ٹاسک جیسے مکمل ہونے کو تھا۔۔۔ وہ بہت قریب تھی جواب سے۔۔ تقریبا پا ہی چکی تھی۔۔ لکھ کر نوٹس بھی بنا لیے تھے۔۔۔۔ اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق زندگی کے بہت سے معاملات کو بھی اس آیت کی نگاہ سے دیکھ کر جان چکی تھی۔۔۔۔لیکن پھر بھی۔۔"یسرا" وہیں تھا۔۔۔ وہ ابھی تک اسکی گہرائیوں میں اتر نہیں پائی تھی۔۔ حروف کے راز معانی سمیت ابھی تک سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔۔۔
سب سے اوپر جو صفحہ رکھا تھا اس پر کچھ آیات کے پرنٹ آوٹس تھے۔۔۔ جیسے کہ زکریا علیہ اسلام ، اور زوجہ ابراہیم علیہ اسلام کی آیات تھیں۔۔۔وہ پہلے بھی انہیں کافی دیر تک دیکھتی رہی تھی۔۔ اب بھی اپنی نگاہیں ان آیات پر جمائے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
موضوع ایک ہی تھا۔۔ سقم۔۔۔ عقیم۔۔۔ بانجھ ہونا۔۔۔۔وہ سمجھنا چاہتی تھی آیات بانجھ جیسے نقص کو کیسے واضح کرتی ہے۔۔پھر اس نقص کو رد کر کے اسے مکمل کیسے کرتی ہے۔۔۔
وہ یہاں سوچوں میں گھری بیٹھی تھی اور نیچے اقصیٰ کافی کے دو مگ اٹھائے دھپ دھپ سیڑھیاں چڑھتی اوپر آ رہی تھی۔۔
"کہاں جا رہی ہو!؟" فارس وجدان نے اسے راہداری میں ہی روک دیا تھا۔وہ کام نمٹا کر سٹڈی روم سے ابھی باہر آیا تھا۔
"وہ جنت آپی نے کہا کہ وہ بور ہو رہی ہیں تو۔۔۔"
" تو تم نے سوچا کہ کچھ کرتب دکھا دیتی ہوں تاکہ وہ انٹرٹین ہو سکے!!"
اقصیٰ نے گڑبڑا کر اسے دیکھا پھر اسی سرعت سے سر ہلا کر جھکا گئی۔۔یہ فارس صاحب بھی نا!!! اب میں کوئی کرتب دکھانے والی لگتی ہوں!؟ حالانکہ اس کے ابا کہتے تھے کہ ان کے صاحب بڑے سلجھے ہوئے،صوبر،اور ڈیسنٹ ہیں!
ذرا ساسر اٹھایا۔۔۔" میں جاوں صاحب!! کافی ٹھنڈی ہو رہی ہے!!"
"ادھر لاو!"
"جی!!" وہ ہونق پن سے دیکھ کر رہ گئی۔۔
فارس نے ہاتھ بڑھا کر مگ لے لیا۔۔
"اب جاؤ!" سپ لیتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
اقصیٰ دیکھ کر رہ گئی " یہ جنت آپی کو دینی تھی!" اس کا اشارہ دوسرے مگ کی طرف تھا۔۔۔ فارس نے وہ بھی لے لیا۔۔
چاروناچار اقصیٰ کو فورا سے مڑ کر جانا پڑا۔۔۔
وہ سیٹنگ روم میں داخل ہوا تو جنت نے کچھ حیران ہو کر اسے دیکھا۔۔۔ کافی کا مگ اس کے سامنے ٹیبل پر رکھ کر وہ سامنے سنگل صوفے پر براجمان ہو گیا۔۔۔یونہی بیٹھے بیٹھے میزپر بکھرے کاغزات پر سرسری سی نگاہ دوڑانا چاہی مگر جنت نے کسی چیل کی طرح اپنی ساری چیزیں جھپٹ کر اٹھا لیں۔۔۔ آنکھوں میں "خبردار" کانوٹس لہرانے لگا۔۔۔۔وہ ایزی ہو کر گھونٹ گھونٹ کافی اپنے اندر اتارتا رہا۔۔ نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز رہیں۔۔
"ڈیوورس کے بعد تمھارے کیا پلانز ہیں؟" انداز سرسری سا تھا۔
جنت نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔شدید حیرت اور بےیقینی سے۔۔۔
" اور سوال پوچھنے والے تم کون ہوتے ہو؟!"پھر سنبھل کر، ابرو چڑھا کر پوچھا۔۔
"وہی جس کے مرنے سے تم بیوہ ہو سکتی ہو!!"
جنت نے سٹپٹا کر اسے دیکھا پھر زیر لب بڑبڑا کر رہ گئی۔اب اس بات کو یہ کبھی بھولے گا بھی یا نہیں؟اس نے جھنجھلا کر مگ ٹیبل پر رکھ دیا۔۔
وہ صوفے کی پشت گاہ سے کمر ٹکائے ٹانگ پر ٹانگ رکھے شاہانہ انداز میں بیٹھا تھا۔۔ فل نیک سویٹر کی زیپ سینے تک کھینچی ہوئی تھی۔۔ اندر سفید شرٹ پر لکھا لفظ VON نظر آ رہا تھا۔۔۔
" میں یہ سوال صرف ممی کی وجہ سے پوچھ رہا ہوں!" اسے گہری جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس نے سپ لیا۔۔" تم بہت خاص ہو ان کے لیے۔۔۔۔۔۔ اس لیے!!"
"ہاں ان کے لیے ہوں! تمھارے لیے تو نہیں! سو تم اس طرح کا سوال پوچھنے کا کوئی حق نہیں رکھتے! تمھارے لیے بس یہی بات اھم ہونی چاہیے کہ تم نے مجھے کھائی سے دکھا دینا ہے۔۔ اب نیچے گرتے ہوئے میں پتھروں سے ٹکرا کر مرتی ہوں ، یا نہر میں ڈوب کر۔۔۔ یا پھر survive کر جاتی ہوں ۔۔اٹ از نن آف یور کنسرن!!"
"اٹ از مائی کنسرن!!!"وہ بےحد سنجیدہ تھا، " اگر تم سروائو کر گئیں تو!؟"
جنت اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔اگلے ہی لمحے اس کے لب بھنچ گئے۔آنکھیں سرخ ہو گئیں۔۔۔ اس عرصے میں پہلی بار اسے احساس ہوا کہ یہ اسکی زبان ہی ہے جو ہر بار فارس وجدان کے سامنے اسکا تماشا بنا دیتی ہے۔
"اللہ کے فضل سے بہت سے بیک اپ plans ہیں میرے!اور سب ہی سروائول بیسڈ ہیں!نہ میرا سر پھٹے گا۔ نہ میں ڈوب کر مروں گی۔۔۔"
" میں نے کب کہا تمھارے ساتھ ایسا ہونا چاہیے؟؟"وہ سوالیہ نشان بن گیا۔
"دیکھو!" جنت نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بےحد تحملی سے مزید کچھ بھی کہنے سے باز رکھا۔ ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ کوئی چیز اٹھا کر اس کے سر پر دے مارے۔۔لیکن !!

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Où les histoires vivent. Découvrez maintenant