یونیورسٹی

12 2 0
                                    

ہوئی تھی جب بی ایس کے سفر کی ابتدا
خیالِ مسافت کی تھی میرے چہرے پے انتہا

وقت بِیتے گا کیسے میرا ان سالوں میں اکیلے
کسی آشنا کے ساتھ نہ ہونے سے دل تھا بہت خفا

قدم بڑھا جب بھی کسی کی طرف وقت گزاری کو
میرا دل پوچھتا رہا ہر بار مجھ سے مخلصی کی وجہ

نا آشنا تھے سب وہاں اک دوسرے کے لئے
آشنائی کی دیواریں پھر لگائیں سب نے تنہا

دوستی کا قدم پھر بڑھا آپس میں سب کے
ملے مجھ کو بھی کچھ لوگ جو بنے دل کا آسرا

دن گزرتے گئے ماہ گزرتے گئے ہم رہے ساتھ
ہنسی کی گونج سے کِھل اٹھتی تھی وہاں کی فضا

کچھ ساتھی ایسے ملے مجھ کو جو تھے چھاؤں جیسے
ہر پل میرا ساتھ دینے کو آپ سب کا شکریہ

نام ہیں سب میرے ذہن پے طاری اس وقت
کس کو کیسے لکھا جائے مجھ کو نہیں پتہ

ساتھیوں کی باتیں وہ میری رہنمائی کو
یاد ہیں سب اصول زندگی کے جو بتائے صفا

پیپرز کی تیاری کے وہ خوش گوار لمحے
میرے پیاروں کی صف میں رہے گی پیاری عمره

ہر کام میں میری اسسٹنٹ بن جاتی تھی جو
وہ کوئی اور نہیں، ہے میری دلعزیز عماره

کبھی سراپا محبت تو کبھی انگاروں کی مانند
تھی اک لڑکی مجھ سے جڑی، نام ہے اس کا نورالہدیٰ

رونق بنی رہی ہماری کلاس کی وہ ڈون بن کر
میں کیسے بھول سکتی ہوں بھلا جو ہے پیاری ہما

کچھ ایسی میٹھی لڑکیاں بھی ملیں مجھ کو
عائشہ،مہک، نمل، مریم، سعدیہ، بشریٰ، نازش اور ربیعہ

کچھ ہے وہ چنچل تو کبھی اداؤں سے بھرا ہوا پٹولا
مست کرتی ہے ہر اک کو نگاہِ مست سے حرا

ہیں نام اور بھی بہت میرے عزیز لوگوں کے
نہ لکھنے پے کر دینا معاف میری یہ اک خطا

خواب اور حقیقتوں کے اندازے خوب رہتے
آنے والے سالوں پے مبنی میرے اندازے تھے جدا

ہنستے ہنستے اڑا دیتے آسائنمنٹس کی پریشانی
عین وقت پے پیچھے پڑے سب کے رہنا میرا

سی آر ہونے کی دکھی حالت میری، ہائے
سب کے حصے کی ڈانٹ آفس لے جائے مجھے، آہ

انمول موتیوں کی طرح پروتی تھی سب کے تاثر
سب ہی نگینے تھے میری زندگی کو جنہوں نے سنوارا

کچھ کو ملے فیک نامی دوست، آئی ڈونڈ تھنک سو
خیالِ یار بھول جانے والے ہی تھے سب ہی وہاں

سب اچھا ہی نہیں تھااس سفرمیں تلخیاں بھی رہیں
کچھ گِلے بھی رہے کچھ باتیں دل کو گئیں الجھا

میں نے دیکھادوسروں کا بدلاؤ اور نہ پسندیدگی بھی
لحاظ اور مروت کی پاسداری کو بھی ہے ہم نے سمجھا

بدلتے موسموں کی طرح پرکھا بدلتے چہروں کو
ایک پل میں آسماں سے دیتے تھے سب گِرا

کچھ ناگوار بھی وقت دیکھا ہم سب نے
بہت سے اپنوں کو دیا ہم نے اس دوران گنوا

کہنے کو تھا یہ چار سال کا سفرِ منزلِ زندگانی
پوری ہوں آئندہ کی سب کی منزلیں یہی ہے میری دعا

اب کہ ہیں ہم جدا ہونے والے مگر میری پیاریو!
ہر پل نہ سہی مگر یہ لمحے یاد آئیں گے سنبھال رکھنا

مصروف ہوگا ہر کوئی اپنی زندگی میں اس قدر
شاید رابطے بھی نہ ہوں خیال بھی شاید دیں سب مٹا

یاد رکھے گی کنول وہ انمول لمحے گزرے جو وہاں
یاد رکھے گی کنول وہ انمول لمحے گزرے جو وہاں

امبرین کنول

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Nov 13, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

آہ! یونیورسٹی کے دنWhere stories live. Discover now