قسط ۱۳

278 22 5
                                    

کل کا دن نئے رنگ لانے والا تھا سب بدلنے والا تھا عنایہ ولی خان عنایہ محد ہونے والی تھی زوہیب کی محبت کسی اور کی نہیں اس کے اپنے بھائی کی بیوی بننے والی تھی کس کو معلوم تھا ان ہنستے مسکراتے چہروں نہیں کتنا غم اپنے اندر دفنائے ہوئے تھا کسی کی خوشی کے مکبرے کسی کی محبتوں کے جنازوں پر بننے جا رہے تھے ۔ زوہیب آج تک صرف اس کی نفرت مانگتا آیا تھا شاید محبت مانگتا تو مل بھی جاتی مگر اس نے مانگا بھی تو کیا محبت کی نفرت مگر آج محد کے ساتھ بیٹھی عنایہ کو دیکھ کر جو درد اٹھا تھا آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا شاید جس کو چاہو وہ کسی اور کی چاہ بن جائے تو برداشت نہیں ہوتا اس سے بھی نہیں ہو پا رہا تھا ایک ہی ڈر تھا کہیں اس کی خوشیوں کو اس کی نظر نا لگ جائے جس کی خوشیاں وہ خدا سے مانگتا آیا تھا اسے اس کی ہی نظر نا کھا جائے زوہیب تھوڑی دیر باہر سب کے ساتھ بیٹھا اور پھر اندر کمرے میں آ گیا مفلر بیڈ پر پھینکا اور رکھ واشروم کی طرف کر لیا منہ پر دو سے تین پانی کے چھینٹے مارے نظر آئینے کی طرف گئی تو ویہیں اٹک گئی نل کھلا چھوڑ وہ آئینے میں جانے کیا تلاش کرتا رہا شاید چوہدری زوہیب اصغر کا پھر دھیان چلتے نل پر گیا تو وہ نل بند کرتا واشروم سے باہر آ گیا باہر ڈک پر چلتے گانوں کی آواز کمرے تک آ رہی تھی وہ ایسے ہی بیڈ پر بیٹھ گیا ہاتھ کی ہتھیلی آنکھوں کی سامنے لاتے لکیروں میں کچھ تلاش کرتا انگلی پھیرنے لگا ایک خیال نے اس کے دل میں جنم لیا کہ کاش اسے ہاتھ پڑھنا آتا ۔ کاش لبوں پہ بے ساختہ آیا ۔ وہ نا ہی کمزور پڑنا چاہتا تھا نا ہی اپنی آنکھوں کو ہلکان کرنا چاہتا تھا وہ بس سکون چاہتا تھا جو فلحال ممکن نظر نہیں آتا تھا بےچینی کے بادل تو جیسے اس کے اوپر نازل کر دیے گئے ہوں اس کی نظر اوپر چھت کی طرف بڑھی کہ واقعی کوئی بادل تو نہیں اس کے سائبان ۔ آنکھیں پھر ہتھیلی کی طرف لوٹی اس نے دونوں ہاتھ مٹھی کی صورت بنا لیے ۔
یااللّٰہ مجھے سکون دے دے ۔ ہاتھ نیچے لٹکائے ہوئے بند آنکھوں سے زیر لب دعا گو ہوا اور پھر آنکھیں بند کر کے بستر پر لیٹ گیا ۔
************************************مہندی کا فنکشن ختم ہوتے ہوتے آدھی رات بیت گئی زوہیب تو کافی پہلے ہی سونے کے لیے چلو گیا تھا باقی سب آخر تک ویہیں ٹکے رہے دانیا نے جانے کی کوشش کی مگر عفاف اور عمارہ نے اسے ہلنے تک نا دیا بھئی گھر کی پہلی شادی تھی سب نے خوب دل کے ارمان پورے کیے جوان تو ناچے ہی ناچے بڑوں کو بھی کھینچ کھینچ کر لاتے رہے دیکھنے والا منظر تو تب ہوا جب صائم اور زین ابا جی کو کھینچ کر لے آئے جس پر سب سے شور مچا کر ابا جی کی حوصلہ افزائی کی ابا جی تھوڑی دیر بھنگڑا ڈال کر سائیڈ پر آ گئے ۔
آخر تین بجے کے قریب سب کو خیال آیا کہ اب سونا چاہیے ابا جی تو کب سے کہہ رہے تھے کہ جلدی ختم کرو مگر رات کے گیارہ بجے شروع کیا گیا فنکشن اتنی جلدی کہاں ختم ہونے والا تھا ۔ جس کو جہاں جگہ ملی سستانے کو بیٹھ گئے کوئی صوفے پڑا تھا تو کوئی صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھا بیٹھا سو رہا تھا کیونکہ نا ہی کمروں تک چل کر جانے کی ہمت تھی نا ہی اس کا کوئی فائدہ کیونکہ ویسے ایک گھنٹے میں فجر کی ازان ہو جانی تھی تو جس کی ہمت ہوئی وہ کمروں میں چلا گیا باقی سب ادھر ہی بیٹھ گئے ۔
اتنے میں فجر کی ازان ہو گئی ابا جی کی آنکھ کھلی تو انہوں نے سب سے پہلے صائم کو اٹھایا اور پھر صائم باقی سب جو مردہ بنے پڑے تھے انہیں اٹھانے میں مصروف ہو گا ایک تو اتنے سارے مہمان آئے ہوئے تھے ایک عجیب رش بنا ہوا تھا جس سے ویسے صائم کو کوفت ہو رہی تھی ۔
زین عنایہ کے کمرے میں اسے اٹھانے گیا دروازہ کھٹکھٹانے ہی لگا تھا کہ اندر سے بولنے کی آوازیں سنائی دی دروازہ کھولا تو اندر پانچوں لڑکیاں بیٹھی گپیں مار رہی تھی ۔
تم لوگوں کو نیند نہیں آتی کیا ۔ زین حیرت سے بولا ۔
نہیں ہم الو کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔
شرم کرو عنایہ شرم کرو آج شادی ہے تمہاری بندہ دھلنوں کی طرح شرما ہی لیتا ہے ۔
آج شادی ہے میری شرم کرو زین شرم کوئی اپنی بھابی سے ڈھنگ سے عزت سے بات ہی کر لیتا ہے ۔ عنایہ نے بھی اسی انداز میں جواب دیا ۔
ابھی شادی ہوئی نہیں ہے تمہاری عنایہ عزت کس خوشی میں کروں ۔
ابھی دلھن بنی نہیں ہوں میں شرماتی کیوں پھروں ۔
اف فضول ہے تم سے بحث کرنا نماز پڑھ لینا ابا جی نے بیجھا تھا اٹھانے کے لیے ۔
ابا جی نے بیجھا تھا اٹھانے کے لیے عنایہ اس کی نکل کرتے بولی ۔
عنایہ آپی آپ کو دیکھ کر مجھے شک ہو رہا ہے ۔ عمارہ اس کی طرف گور سے دیکھتے بولی ۔
کیا ۔
یہی کہ شادی کی خوشی آپ کے سر چڑ گئی ہے اور آپ کا توازن ہل چکا ہے ۔ عمارہ اسے تنگ کرتی بولی ۔
ہاں سو تو ہے ۔۔۔ چلو نماز پڑھ لیتے ہیں پھر سوتے ہیں ورنہ صبح آنکھ نہیں کھلنی ۔ یہ کہتے عنایہ نماز کے لیے اٹھی ۔
**************************************
صبح کے نو بج رہے تھے جب دانیا کی آنکھ اسی خواب کی وجع سے کھلی اور آج پھر وہ ڈر گئی تھی آج جب عنایہ اور محد کی شادی تھی اس خواب کا آنا اسے ڈرا گیا تھا وہ  کمرے سے نکلتی باہر لاونچ کی طرف آ گئی گھر میں ہر طرف خاموشی چھائی تھی یقیناً سب سو رہے تھے صبح سوتے سوتے پانچ بج گئے تھے اور پوری رات کی تھکن الگ سے موجود تھی تو سب کو اٹھنے میں ابھی وقت تھا اسے کافی کی طلب محسوس ہوئی چلتی ہوئی کچن میں آ گئی سامنے عالم خان کو پایا ۔
بوس آپ ۔
گوڈ مورنگ دانیا ۔۔۔۔ کیوں بھول گئی تھی کیا کہ میں کل رات چوہدری حویلی آیا تھا ۔
نہیں بوس وہ بس اتنی صبح ۔
دانیا سٹوپ کولنگ می بوس ۔ ہمارے کچھ اصول ہیں ہم گھر میں ایک دوسرے کو اس کے رشتے سے ہی بولاتے ہیں تو میرا یہ حق بنتا ہے کہ مجھے چچو کہا جائے ۔
او کے چچو اب خوش ۔ لائیں میں کافی بناتی ہوں ۔
نہیں میں کیپیچینو پیتا ہوں جو کہ تمہیں بالکل اچھی نہیں بنانی آتی ۔
نہیں چچو میں نے سیکھ لی ہے اب بہت اچھی کیپیچینو بناتی ہوں ۔ دانیا نے کافی جار کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔
نو دانیا پیار ایک طرف اور کافی ایک طرف میں اپنی صبح ہرگز برباد نہیں کرنا چاہتا ۔ عالم خان نے دانیا کو تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
بوس ۔ دانیا تنگ ہوتے بولی ۔
ہاں بوس کی جان ۔
آپ کو پتا ہے جب آپ ایسے کہتے ہیں نا تو دانیا ولی خان ہار جاتی ہے ایسا نا کہا کریں ۔
میں کون سا روز کہتا ہوں کبھی کبھار ہی تو موقع ملتا ہے مجھے اپنا پیار جتانے کا وہ بھی نا جتاؤں کیا ۔
عالم خان کے منہ سے یہ باتیں اچھی نہیں لگتی ۔
تو کیسی باتیں اچھی ہیں عالم خان کے منہ سے لِٹ می گس ۔۔۔۔ ہمم۔ اس کو اغوا کر لو ۔۔۔۔ اس کو پاگل کر دو ۔۔۔۔۔۔ اس کا قتل کر دو خیر وہ الگ بات ہے کنگ اس کی اجازت نہیں دیتا کافی رحم دل کنگ ہے ہمارا ۔ عالم خان نے شرارت سے دانیا کو دیکھتے کہا ۔
سچ میں چچو آپ ایسے بالکل اچھے نہیں لگتے ۔
اچھا جی سیدھے سیدھے کہو نا کہ پھر تمہارا دل کرتا ہے کہ میں ہمیشہ کہ لیے ایسا بن جاؤں ۔
جب آپ جانتے ہیں تو پھر ۔ دانیا خاموش ہو گئی ۔۔۔۔۔
اچھا چھوڑیں لائیں کافی میں بناؤں آپ نے تو دیکھیں کتنا وقت لگا دیا ۔
نہیں اب کافی رہنے دیتے ہیں تمہاری آنی کی ہاتھ کی گرین ٹی پینے کا موڈ ہو رہا ہے ۔ دانیا کی پیچھے مڑ کر دیکھا تو نورین پاس ہی کھڑی تھی اور یقیناً عالم خان نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا ۔
آنی گرین ٹی ۔ دانیا شرارت سے نورین کی طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے بولی ۔
نورین کچن کیبنیٹ کی طرف بڑھی اور اوپر سے سبز پتی کا ڈبا نکالا ۔
آنی چچو سے کافی سنا ہے آپ کی گرین ٹی کے بارے میں آج تو میں بھی پیوں گی میں بھی تو دیکھوں کیسی گرین ٹی بناتی ہیں جس کی تاریف کرتے نہیں تھکتے ۔
دانیا بیٹا کیوں اپنی موت کو دعوت دے رہی ہے ۔ عالم خان نے نورین کو دیکھتے دانیا سے کہا جس پر نورین نے نظریں گھما کر عالم خان کو دیکھا ۔
وہ بس راز کی بات ہے تم چھوڑو اور یہ کافی کا جار پکڑو اور اپنے لیے بناو گندی کیپیچینو ۔ عالم خان نے کافی کا جار اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور خود نورین کے قریب آ کھڑا ہوا ۔
میں کیوں بناو کیپیچینو میں تو اپنے حساب سے بناؤ گی کافی ۔ دانیا عالم خان سے مخاطب تھی مگر یہاں اب اس کی بات سن ہی کون رہا تھا ۔
دانیا مسکراتی ہوئی کچن سے باہر نکل آئی ۔
گل زرا گرین ٹی میں ایک چمچ اپنا پیار بھی ڈال دو اتنی سڑی ہوئی شکل سے بناؤ گی تو خاک مزا آئے گا ۔
دانیا کو وہ سب کہنے کی کیا ضرورت تھی ۔ کیا کہا میں نے دانیا کو ۔۔۔۔ او وہ گرین ٹی والی بات ۔۔۔۔۔ ہاں سچ ہی تو کہا ۔
راز والی بات کون سے راز کا ذکر کر رہے تھے ۔
یہی کہ نمک ڈال کر میری گل گرین ٹی صرف میرے لیے ہی بناتی ہے ۔ عالم خان نے اس وقت نورین کو گرین ٹی میں چینی کی جگہ بےدھیانی میں نمک ڈالتے دیکھ لیا تھا ۔
اف میں نے پھر نمک ڈال دیا ۔۔۔۔۔ نورین نے سر پر ہاتھ رکھا ۔
وہ بھی دو چمچ ۔ عالم خان آنکھیں جھپکاتے بولا ۔۔۔۔ اب تو عادت ہے مجھ کو ایسے جینے کی ۔ عالم خان نے گانے کا مصرعہ دہرایا ۔
خان ۔ نورین کے منہ سے بےساختہ نکلا ۔
ہاں خان کی گل ۔ عالم خان نے پیار سے کہا تھا ۔
***************************************
سب اٹھ چکے تھے اور ہلکا پھلکا ناشتہ کر کے شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو چکے تھے آج سب نے ساتھ ناشتہ نہیں کیا تھا جو جو اٹھتا جا رہا تھا اسے ناشتہ دے دیا جاتا تھا عفاف ہمیشہ کی طرح کچن کا کام سنبھالے ہوئے تھی ساتھ میں نوکرانی اور عمارہ بھی لگے ہوئے تھے آج گھر میں مہمانوں کا رش کافی زیادہ تھا سب کے لیے ناشتہ بنانا ایک مشکل کام تھا اور پھر کچھ لوگ پراٹھا نہیں کھاتے تھے کچھ کو بریڈ چاہیے تھی عفاف کا تو دماغ پھٹ رہا تھا کچن میں پڑے برتن دیکھ دیکھ کر جو نوکرانی نے ہی دھونے تھے مگر کوفت اسے ہو رہی تھی اتنے میں عالیان اس کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔
اب آپ کو کیا چاہیے جناب ۔
ہمیں تو بس آپ چاہیے جناب ۔
عالیان ناشتہ میں کیا چاہیے پراٹھے بنے پڑے ہیں بریڈ کھانی ہے تو بتا دیں بنا دیتی ہوں ۔
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔
پھر جائیں مجھے ناشتہ بنانے دیں ۔
سب نے تو کر لیا ہے ناشتہ اب کس کے لیے بنا رہی ہو ۔
وہ امی کی کزن اور ان کے بچوں نے نہیں کیا بس وہی رہتی ہیں باقی سب نے تو کر لیا ہے ۔
اچھا عفاف آج پھر بلیک ہی پہن رہی ہو ناں ۔
ہاں ہاں عالیان آپ تیسری بار پوچھ چکے ہیں ۔
وہ میں بس کنفرم کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور یہ دانیا اور ماہم کو بھی اپنے ساتھ لگاؤ کیا اکیلی لگی ہوئی ہو ۔
ماہم آپی تو ابھی ہی گئی ہیں اور دانیا آپی بچاری آئی تھی ہلپ کرنے مگر ان سے نہیں ہوا اور عمارہ بھی ہے ناں میرے ساتھ ویسے بھی سب کام ختم ہو گیا ہے ۔
بس یہ طائی امی نے سہی کام پکڑ لیا ہے سب آرام کرتی رہتی ہیں اور تمہیں کچن میں جھونک دیتی ہیں ایک بار شادی ہو جانے دو ۔
کس کی عنایہ آپی اور محد بھائی کی ۔ عفاف سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے بولی ۔
نہیں ہماری ایک بار ہماری شادی ہو جائے میں نے تمہیں کچن میں گھسنے تک نہیں دینا ۔
اور وہ جو ریسٹورنٹ کھولنا ہے اس کا کیا اور ویسے بھی ابھی زوہیب بھائی ہیں زین صائم بھائی ہیں پھر کہیں ابھی تو بہت وقت ہے ۔
یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے بھئی کہ جو بڑا ہے اس کی ہی پہلے ہو گی محد کی بھی تو زوہیب سے پہلے ہو رہی ہے ناں ۔ عالیان دلائل دیتے بولا ۔
اچھا اچھا کر لینا مگر ابھی کے لیے جائیں مجھے کام کرنے دیں ۔
***************************************
لال لہنگا پہنے میک اپ مکمل عنایہ دلھن بنے بیٹھی تھی تبھی کمرے میں زین اور صائم داخل ہوئے ۔
دیکھو تو صائم بندریا کتنی پیاری لگ رہی ہے ۔ زین نے عنایہ کو تنگ کرتے کہا مگر وہ کچھ نا بولی ۔
واہ بڑی خاموشی چھائی ہے ویسے بات کچھ اچھنبے کی ہے ۔ زین اس کی آنکھوں میں جھانکتے بولا ۔
یار زین تو نے ہی تو صبح بولا تھا شرمانے کو وہی بس شرما رہی ہیں بی بی ۔ صائم بھی زین کا ساتھ دیتے تنگ کرتے بولا ۔
دونوں نکلو باہر خبردار جو اب عنایہ کو تنگ کیا ۔ ماہم ان دونوں کو کمرے سے نکلنے کا اشارہ کرتے بولی ۔
ہاں ہاں چلے جائیں گے پہلے کام تو کر لیں جو کرنے آئے تھے ۔ زین سنجیدگی سے بولا ۔
عنایہ ہمیں نہیں معلوم ہم کبھی کہہ پائیں گے یا نہیں مگر ہم تمہیں بتانا چاہتے ہیں کہ تمہارے یہ دو بھائی ہمیشہ تمہارے ساتھ کھڑے ہیں کبھی بھی کسی بھی مقام پر خود کو تنہا مت سمجھنا ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمہارا بھائی تمہارے سر پر کھڑا ہے ۔ زین نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔ میں بھی ۔ صائم بھی اس کے سر پر ہاتھ رکھتے بولا ۔
عنایہ ان دونوں کے سینے سے لگے رو پڑی ۔
ارے پاگل رو کیوں رہی ہے کون سا بدائی ہو رہی ہے اسی گھر میں تو رہنا ہے ناں ۔ صائم اسے سہلاتے ہوئے محبت سے بولا ۔ صائم کا کہنا تھا کہ اس کی ہچکی بند گئی ۔
عنایہ خبردار جو اب روئی دیکھو میک اپ اپنا اب تین سو گھنٹے بچاری میک اپ ارٹسٹ کو پھر لگانے پڑے گے ۔ چلو شاباش ہم دلھن دیکھنا چاہتے ہیں چڑیل نہیں ۔ زین ڈانٹنے کے انداز میں بولا ۔
***************************************
حد ہے عالیان یہ کیا پہنا ہے ۔ صائم عنایہ کے کمرے سے نکلتا نیچے کی طرف سے آ رہا تھا تبھی اس کی نظر کمرے سے نکلتے عالیان پر پڑی کالے رنگ کے کمیز شلوار پر گولڈن رنگ کی واسکٹ خوب سج رہی تھی اس پر ہاتھ میں عمارہ کی دی گئی گھڑی اور شان بڑھا رہی تھی ۔
کیوں کیا ہوا اچھا نہیں لگ رہا کیا ۔ عالیان گھڑی درست کرتے بولا ۔
یار اچھا تو لگ رہا مگر بلیک گولڈن لڑکیوں کی تھیم تھی ہماری وائٹ گولڈن تھی ۔ زین ایک نظر اس پر ڈالتا بولا ۔
او ایسا کیا میں بھول گیا ۔ عالیان افسوس سے بولا ۔
بھول گئے تھے بھولا دیا تھا ۔ پیچھے عنایہ کے کمرے سے نکل کر آتا صائم بولا ۔
بھولا دیا کیا مطلب ۔ زین حیرت سے بولا ۔
ہاں ماہم بتا رہی تھی کہ عالیان اور عفاف میچنگ کرنے والے ہیں ۔ صائم اس کی معلومات میں اضافہ کرتے بولا زین نے عالیان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جس پر زین کاندھے اچکاتا آگے چل پڑا ۔
واہ بھئی بس ہم ہی سنگل ہیں ۔ زین افسوس سے بول ۔
کوئی نہیں فکر کیوں کرتا ہے تیرے لیے بھی ڈھونڈ لیں گے ۔ صائم زین کے کاندھے پر ہاتھ رکھتا بولا ۔
نا بھئی ہم سنگل ہی بھلے یہ آزادی کی ٹھنڈی ہوا بہت پیاری ہے ہمیں ۔ زین سکون کی سانس لیتا بولا جس پر صائم اسے تنگ کرتے بولا ۔ ہاں انگور تو کھٹے ہیں ۔
**************************************
کمرے میں ایک عجیب خاموشی پھیلی ہوئی تھی کہ کوئی سانس بھی لے تو سنائی دے زندگی کے رنگ خود باخود بدل رہے تھے ٹھیک ایک گھنٹے بعد اس کا نکاح تھا عنایہ عالم خان کے ساتھ وہ دن جس کے آنے کا یقین تھا مگر خواہش نہ تھی وہ آ ہی گیا تھا وقت کہاں رکتا ہے یہ تو بس چلتا رہتا ہے کسی کے غموں کی پروا کیے بغیر یہ کہاں کسی کی مجبوری دیکھتا ہے یہ تو خودغرض بس اپنی راہ پکڑتا ہے جو ساتھ چل سکے چل لے جو نہ چل سکے وہ چھوٹ جائے کہیں دور شاید وقت کی دھول میں گم بھی ہو جائے ۔
محد نے خود کو آئینے میں دیکھا وہ نکاح کے لیے تیار تھا نا بھی ہوتا تو بظاہر ایک دلہا اپنے نکاح کے پیپر پر دستخت کرنے کے لائق تھا ۔
محد کو اپنا دل بدلنا تھا جو واقعی ایک مشکل عمل تھا جو چار سال میں نہ ہو سکا وہ ایک گھنٹے میں ہو پائے گا کہتے ہیں نکاح میں بڑی طاقت ہوتی ہے شاید جو چار سال میں نہ ہو سکا وہ ان چار لمحوں میں ہو جائے ۔
***************************************
عنایہ ایک دوبتے کے سائے میں سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی دوبتے کے کونے عمارہ دانیا عفاف اور حادیہ نے پکڑ رکھے تھے حادیہ اور دانیا آگے جبکہ عفاف اور عمارہ پیچھے دوبتا پکڑے آہستا آہستا چل رہی تھی چاروں نے گولڈن اور بلیک پہن رکھا تھا حادیہ نے بلیک بلاوز اور گولڈن ساڑھی پہن رکھی تھی عمارہ اور عفاف نے ایک جیسی فراک پہن رکھی تھی اور دانیا اور ماہم نے بھاری کام والی کالے رنگ کی کمیز اور گولڈن رنگ کی کیپری اور دوپتا دوسری طرف عالیان کے علاوہ سب لڑکوں نے سفید اور گولڈن رنگ کے ملتے جلتے کمیز شلوار اور واسکٹ پہن رکھی تھی ۔ نکاح کا انتظام بھی گھر میں ہی کیا گیا تھا محد اور عنایہ آمنے سامنے ایک جالی کے پردے کے فاصلے پر بیٹھے تھے ایک طرف سب لڑکے ایک طرف سب لڑکیاں ۔ نکاح خواں عالم خان کے ساتھ عنایہ کی طرف آئے اور نکاح پڑھانا شروع کیا ۔ دانیا محد اور زوہیب تینوں کی نگاہوں کا مرکز عنایہ تھی آج کتنے دل اجر ہے تھے ایک دل کی خاطر کتنوں کے عشق کا جنازہ اٹھ رہا تھا اور وہ اسے اٹھتے دیکھ رہے تھے کیا کرتے وہ ایک دل ان دلوں کی دھڑکن جو تھا اور وہ اس دھڑکن کو ٹوٹتے نہیں دیکھ سکتے تھے ۔
عنایہ عالم خان ولد عالم خان کیا آپ کو چوہدری محد ظفر ولد چوہدری ظفر رفیق پانچ لاکھ حق مہر یہ نکاح قبول ہے ۔
عنایہ کانوں میں نکاح خواں کے الفاظ گونجے ساتھ کئی چہرے آنکھوں کے سامنے سے گزرے ۔
مجھے نہیں قبول ۔ عنایہ کہتی لہنگا دونوں ہاتھوں سے پکڑتی اپنے کمرے کی طرف تیز تیز قدم بڑھاتی چلی آنکھ سے آنسو گرا مگر اس نے صاف نا کیا وہ کیا بول کر گئی تھی کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا سب ابھی تک اس کے منہ سے نکلے انکار کو تسلیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے آخر عنایہ نے ایسا کیوں کیا ۔
عنایہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ساتھ ہی آنکھوں کے سامنے ایک منظر فلم کی صورت چل رہا ہوتا ہے ۔
صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ کچن کی طرف آ گئی جہاں دانیا اور عالم خان اس کی طرف پیٹھ کرے کھڑے تھے ۔
جب آپ جانتے ہیں تو پھر ۔ دانیا خاموش ہو گئی ۔۔۔۔۔
جانتا تو میں اور بھی بہت کچھ جو شاید تم سننا بھی نہیں چاہتی ۔ دانیا نے عالم خان کی آنکھوں میں دیکھا ۔
خوش ہو تم عنایہ اور محد کی شادی سے ۔ عالم خان نے غیر متوقع سوال کیا ۔ عنایہ جو پیچھے کھڑے سن رہی تھی اور ابھی ان کے پاس ہی آنے والی تھی یہ سوال سنتے حیرت کا شکار ہو گئی اور ایک طرف چھپ گئی ۔
عالم خان میں کیوں ناخوش ہوں گی میری بہن کی شادی ہے ۔
تمہاری محبت کی شادی بھی تو ہے ۔ عالم خان وہی سنجیدگی چہرے پر سجائے بولا ۔
میں نے کتنی بار کہا ہے وہ میری محبت نہیں ہے ۔
تمہارے کہنے سے کیا سچ بدل جائے گا کیا تمہارے کہنے سے چار سال پہلے کی محد اور دانیا کی محبت کی کہانی بھلائی جا سکتی ہے تمہارا اسے عنایہ کے حق میں دستبردار ہونا بھلایا جق سکتا ہے کیا ۔
آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں آج شادی ہے ان کی اور میں کوئی بھی کڑوی یاد نہیں رکھنا چاہتی ۔
عنایہ اور تم میری زندگی کے دو وہ حصے ہو جو انسان کو زندہ رکھے ہوتے ہیں اور تم مجھے ایک کی تکلیف دے رہی ہو ۔ عنایہ کے لیے وہاں اور کھڑا ہونا مشکل تھا وہ ایک لمحے اور وہاں کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہی تھی اس کی خوشیوں کا مبر اس کی بہن کے قربانی پر کھڑا ہونے جا رہا تھا وہ کیسے برداشت کر لیتی اس کا سہارا اس کا ساتھ اس کی خوشیوں کی محافظ بنی اس کی بہن اور وہ اسی کی خوشیوں چھیننے جا رہی تھی محد اس کی زندگی میں بہت بعد میں آیا پہلی محبت تو اس کی بہن ہی تھی ناں سگی نا سہی مگر اس کے دکھوں کا مداوع کرنے والی اس کے ساتھ مسکرانے والی اس کے لیے مار کھانے والی بچپن میں چھپ کر اس کے ساتھ کافی کی چسکیاں بھرنے والی صرف دانیا ولی خان تھی ۔
اچھا چھوڑیں لائیں کافی میں بناؤں آپ نے تو دیکھیں کتنا وقت لگا دیا ۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد دانیا نے موضوع بدلتے کہا تھا ۔
منظر اس کی آنکھوں سے غائب ہوا تو اس نے خود کو اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھا پایا ۔ اتنے میں دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا جو یقیناً اس کے انکار کی وجع جاننے آیا تھا ۔
عنایہ تم نے ایسا کیوں کیا ۔ محد نے آتے ہی پہلا سوال کیا ہے ۔
چوہدری محد ظفر میں عنایہ عالم خان تمہاری محبت سے دستبردار ہوتی ہوں ۔
عنایہ ایسا کیا ہو گیا جو تم ایسی باتیں کر رہی ہو ۔ محد اسے حیرت سے دیکھتا رہا ۔
بس اتنا سمجھ لو عنایہ کسی کی محبت چھیننے والوں میں سے نہیں نا عنایہ کو چھینی ہی چیزوں پر حق جتانا پسند ہے نا محبت کرنا چاہے کتنی ہی گہری کھائی کیوں نا ہو وہ کود جائے گی مگر اپنی بہن کی آنکھ کا ایک آنسو برداشت نہیں کر سکے گی تو وہ اسے عمر بھر ترپنے کو کیسے چھوڑ دیتی ۔
عنایہ ۔ محد کے پاس الفاظ کہاں تھے کہ وہ کچھ کہہ سکتی وجع بھی صاف تھی اور فیصلہ بھی ۔
محد مڑنے ہی لگا تھا جب عنایہ کے الفاظ اس کے پیروں کی بیڑیاں بن گئے ۔
جانتے ہو محبت ملے نہ ملے مگر سبق کئی مل جاتے ہیں ۔ عنایہ کا لہجہ سرد تھا اور اگلے شخص کو گھائل کرنے کو کافی بھی صاف الفاظ جن میں درد رچا دیکھائی دیتا تھا وہ کس کرب میں تھی وہ تو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی تو سامنے کھڑا شخص کیسے جان لیتا چوہدری محد نے اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے اجتناب برتا اس میں اتنی ہمت ہی کہاں تھی ۔
پوچھو گے نہیں مجھے کیا سبق دیے اس محبت لفظ نے ۔ عنایہ نے محد کو اس کی آنکھوں میں دیکھنے پر مجبور کر دیا ۔
محبت یہ نہیں کہ اسے پا لیا جائے وہ محبت ہی کیا جسے پا لیا جائے محبت تو وہ کہ راستے سے ہٹ جاؤ اگر محبت کی خواہش یہی ہے تو اور میں عنایہ اپنی بہن کی محبت کے آگے ہار گئی ہوں ۔ اگر عشق اور محبت آمنے سامنے آ جائیں تو ایک کو چاہیے وہ راستہ بدل لے میں تمہاری محبت کے آگے ہار گئی ہوں محد مجھے تم نہیں چاہیے ۔ عنایہ کہتے کہتے رو پڑی وہ یہ سب کیوں کہہ رہی تھی یہ تو اسے خود کو بھی نہیں معلوم تھا مگر دل کو سلجھانا بھی تو ضروری تھا ۔
عنایہ کے الفاظ محد کے دل پر کئی زربیں لگاتے گئے عنایہ کی اتنی بڑی قربانی کا کیا وہ کبھی قرض اتار پائے گا نہیں کبھی نہیں ۔
ایک احسان کرنا محد کہ جو ہوا اس کے بارے میں کسی کو کچھ مت بتانا خاص طور پر دانیا کو ۔
محد جن قدموں سے آیا تھا انہی سے واپس چلا گیا کیونکہ اب کچھ کہنے کو نہیں تھا نہ الفاظ تھے نہ ہی ہمت ۔ عنایہ نے اسے جاتے دیکھا اور اس کی آنکھ سے ایک آخری آنسو ٹوٹ کر گرا وہ اب اس کا نہیں تھا ۔
***************************************
محد کو عنایہ کے کمرے سے نکلتے دیکھا تو سب نے اس پر سوالات کی بوچھار کر دی مگر وہ خاموش رہا کیا ہی جواب دیتا ان کے سوالوں کا سب پر ایک بات رو واضح ہو گئی تھی کہ عنایہ اب یہ شادی نہیں کرنے والی ۔
ابا جی غصے سے نورین کا ہاتھ پکڑتے کھینچتے سائیڈ پر لے آئے ۔
عنایہ نے ایسا کیوں کیا ۔ ابا جی غصے میں تھے ۔
ابا جی مجھے واقعی ذرا بھی علم نہیں ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا ۔
نورین جو حرکت تم نے ستائس سال پہلے کی تھی ہم آج عنایہ کو وہ کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دیں اور تم نے اپنی مرضی کی قیمت دیکھ لی ہے اب ہم عنایہ کو ان راستوں پر چلنے کی غلطی ہرگز نہیں کرنے دیں گے ۔
نہیں ابا جی ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ محد سے شادی پر رضامند تھی ۔ نورین نے صفائی دیتے کہا ۔
نورین ہمیں نہیں معلوم وہ رضامند تھی یا نہیں مگر اسے ہمارے خاندان کی عزت خاک میں ملانے کا حق ہم نہیں دیں گے ۔ ابا جی کہتے دوسری طرف بڑھے ۔
ابا جی آپ کہاں جا رہے ہیں ۔
عنایہ کے پاس اس سے بات کرنے ۔ ابا جی کہتے سیڑھیاں چڑھتے عنایہ کے کمرے میں داخل ہوئے سب کی نظریں اب کمرے کی طرف تھی ۔
عنایہ اسی حالت میں بیٹھی تھی جب ابا جی کمرے میں داخل ہوئے ۔
ابا جی کا ہاتھ ہوا میں بلند ہوا مگر وہ چاہ کر بھی عنایہ پر ہاتھ نا اٹھا سکے ہاتھ نیچے گرا دیا اور اس کے سامنے بیٹھ گئے ۔
کیوں کیا عنایہ تم نے ایسا ۔ ابا جی کے سوال کے جواب میں انہیں خاموشی کے سوا کچھ نا ملا ۔
اگر محد سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو ہمیں بتاو ۔
ابا جی محد سے کوئی غلطی نہیں ہوئی بس میں محد سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔
کسی اور کو پسند کرتی ہو کیا ۔
نہیں ابا جی ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
تو پھر کیوں خاندان کی عزت خاک میں ملا رہی ہو ۔
ابا جی مجھے معاف کر دیں ۔
عنایہ میں تمہیں لینے آیا ہوں ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ۔
ابا جی آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر میں یہ شادی نہیں کروں گی ۔
عنایہ تم مجھے مجبور کر رہی ہو کہ میں کوئی سخت قدم اٹھاؤں ۔
ابا جی آپ کچھ بھی مانگ لیں مگر محد سے شادی کے لیے مت کہیں ۔
عنایہ تمہاری اس حرکت سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ تم کسی اور کو پسند کرتی ہو تم نام بتا دو اگر وہ شخص سہی ہوا تو ہم خود تمہاری شادی اس سے کروا دیں گے ۔
ابا جی مجھے قسم ہے میں کسی کو پسند نہیں کرتی ۔
ٹھیک ہے پھر جو میں کہوں گا پھر تمہیں وہی کرنا ہو گو ورنہ بھول جانا کہ تمہارے کوئی ابا جی بھی تھے دس منٹ میں تیار ہو کر نیچے آ جاؤ ۔
ابا جی میں محد سے شادی نہیں کروں گی ۔
شادی تو تمہاری آج ہی ہو گی عنایہ عالم خان (ابا جی نے پہلی بار اسے ایسے مخاطب کیا تھا) چاہے وہ محد ظفر سے ہو یا زوہیب اصغر سے مرضی تمہاری ہے ۔ دس منٹ ہیں تمہارے پاس سوچنے کے لیے اگر نیچے آ کر چپ چاپ بیٹھ گئی تو سمجھوں کا محد کے لیے رضامند ہو اور اگر نیچے آ کر میرے پاس کھڑے ہو کر کہو جی ابا جی تو زوہیب کے لیے ۔ ابا جی سفاکی سے کہتے دروازہ کی طرف بڑھے اور اگر تم نا آئی تو سمجھ لینا ابا جی تمہارے لیے مر گئے ۔
عنایہ کے تو جیسے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو زوہیب سے نکاح یہ کیسے ممکن تھا کیسے ۔
پہلے ابا جی کمرے سے باہر نکلے اور دس منٹ بعد عنایہ سیڑھیاں اترتی نیچے آ گئی چہرا مرجھایا ہوا جیسے سالوں کا زرد ہو وہ آ کر ابا جی کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔
ابا جی نے سب کے سامنے زوہیب اور عنایہ کے نکاح کا اعلان کیا سب کے رنگ اڑ گئے تھے عنایہ اور زوہیب کا نکاح یہ کیسے ممکن تھا مگر ابا جی کہہ چکے تھے اور وہ حرفِ آخر تھے سب کی نظروں کا مرکز اب زوہیب تھا جو دم بخود کھڑا جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ آیا یہ منظر خواب ہے یا حقیقت اس سے اس کی رضامندی نہیں پوچھی گئی تھی بس چوہدری اصغر نے اسے محد کی جگہ بیٹھنے کا حکم دیا تھا ابا جی یہ فیصلہ کرنے کے بعد ظفر اور اصغر دونوں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر چکے تھے اور دونوں ہی فیصلے پر رضامند ہو گئے تھے ۔
محد کو اپنا آپ زمین میں گھڑتا محسوس ہوا یہ سب اس کی وجع سے ہو رہا تھا اور وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا کاش اس نے چار سال پہلے ہی عنایہ کو سب کچھ بتا دیا ہوا تو شاید یہ سب نا ہوتا مگر اب اس سب کو سوچنے کا کیا فائدہ اب کچھ بھی کہاں ممکن تھا ۔
عنایہ عالم خان ولد عالم خان کیا آپ کو چوہدری زوہیب اصغر ولد چوہدری اصغر سے رفیق پانچ لاکھ حق مہر یہ نکاح قبول ہے ۔ نکاح خواں نے نکاح پڑھانا شروع کیا ۔
قبول ہے ۔ یہ دو الفاظ جس طرح اس نے ادا کیے تھے یہ بس وہی جانتی تھی ۔
اس سے دو اور بار پوچھا گیا اور وہ قبول ہے قبول ہے کہتی گئی ۔ پھر نکاح خواں زوہیب کی طرف آیا ۔
چوہدری زوہیب اصغر ولد چوہدری اصغر رفیق کیا آپ کو عنایہ عالم خان ولد عالم خان سے پانچ لاکھ حق مہر نکاح قبول ہے ۔
اس کی نظر لگ گئی تھی وہ اس کی خوشیاں کھا گیا تھا ان خیالات کے ساتھ اس نے قبول ہے کہا اور پھر دعا کی گئی ۔
دانیا یہ سارا منظر عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی اسے اس میں کیا کرنا چاہیے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا آخر عنایہ کے انکار کی وجع بھی تو معلوم نہیں تھی ۔
عنایہ کا نکاح ہوا پھر اس کی رخصتی ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک کا سفر کچھ کم نا لگا تھا ایسا ہی معلوم ہوتا تھا جیسے میلوں سفر طہ کیا گیا ہو کمرے کو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی صاف کیا گیا تھا کچھ دیر پہلے کمرے کی حالت بکھری ہوئی تھی جو تھوڑی دیر پہلے نوکرانی سے کہلوا کہ حالت سدھاری گئی تھی ۔
عنایہ کمرے میں داخل ہوئی تو کمرا صاف تھا نا پھولوں کی مہک نا ہی کوئی سجاوٹ ۔
عمارہ اور عفاف اسے کمرے میں چھوڑتے باہر نکل آئے ۔
اس نے آج تک اس کمرے کو اس طرح غور سے نہیں دیکھا تھا جیسے وہ آج دیکھ رہی تھی ایک ایک چیز کا جائزہ لیتے وہ ایک فریم تک پہنچی جس میں ان چاروں کی تصویر لگی تھی صائم زین محد اور زوہیب چاروں کی مسکراتے چہرے اور آج جو ہو گیا تھا کیا وہ ہونا چاہیے تھا یقیناً نہیں اتنے میں دروازہ کھولنے کی آواز آئی نظروں کا رکھ فریم سے دروازے کی طرف بڑھا زوہیب اندر داخل ہوا ۔
عنایہ کچھ چاہیے تمہیں تو بتاو میں لا دیتا ہوں ۔ زوہیب نے آتے ہی سوال کیا تھا جس پر عنایہ نے نفی میں سر ہلا دیا ۔
تم نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا اور ابھی رات کے دس بج رہے ۔ عنایہ کی نظریں دیوار پر لگی گھڑی کی طرف چلی گئی ۔
بتاو کیا کھاو گی میں لا دیتا ہوں ۔
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔
عنایہ میں کھانا لے کر آتا ہوں تم چینج کر لو ۔ زوہیب کہتا کمرے سے باہر نکل گیا جب واپس لوٹا تو ہاتھ میں ٹرے موجود تھی جس میں بریانی قورمہ اور نان رکھے ہوئے تھے ۔
مجھے جو ملا میں لے آیا ۔ بیڈ پر ٹرے رکھتے ہوئے بولا جب وہ واپس پہنچا تو عنایہ لائن کا سوٹ پہن چکی تھی جویلری کے نام پر صرف کانوں میں سونے کے چھوٹے ٹوپس جو کانوں میں تھوڑا اوپر پہنے ہوئے تھے جو وہ ہمیشہ پہنے رکھتی تھی ۔
بیٹھو کچھ کھا کو پھر ریسٹ کرنا ۔ زوہیب دوبارہ عنایہ کی طرف مخاطب ہوا ۔
آپ مجھ سے کچھ پوچھیں گے نہیں ۔ عنایہ آخر کار بول پڑی ۔
کیا مجھے تم سے کچھ پوچھنا چاہیے ۔ زوہیب نے الٹا سوال پوچھا ۔
وہی جو سب جاننا چاہتے ہیں ۔ عنایہ نظریں جھکائے بولی ۔
عنایہ مجھے تم سے کوئی سوال نہیں کرنا تم میری بیوی ہو میرے نکاح میں ہو اور تم سے سوال کرنے کا مطلب اس پاک رشتے پر سوال کرنا مجھے صرف یہ بات معلوم ہے کہ تم میری عزت ہو اور مجھے تمہاری ہر لحاظ سے حفاظت کرنی ہے ۔ زوہیب نے ٹرے سے بریانی کی پلیٹ نکال کر عنایہ کی طرف بڑھائی ۔
ہاں اگر یہ رشتہ ختم کرنے کا کوئی ارادہ ہے تو وہ الگ بات ہے ۔۔۔۔۔ کوئی ارادہ ہے کیا ۔ زوہیب نے سوالیہ نظروں سے عنایہ کو دیکھا جس کا جواب اس نے نفی میں سر ہلا کر دیا ۔
میں جانتا ہوں ہمارا رشتہ جس طرح اور جن حالات میں ہوا وہ کسی کے لیے بھی مشکل ہوتا مگر اگر ہمیں زندگی گزارنی ہے تو کچھ باتیں بھولنی ہوں گی کچھ نظر انداز کرنی ہوں گی کچھ کو تسلیم کرنا ہو ۔ اس پورے دورانیے میں صرف زوہیب ہی بولتا رہا تھا عنایہ صرف ہاں یا نا میں سر ہلا رہی تھی ۔
پہلے تو تم کھانا کھاؤ ۔ زوہیب تیسری مرتبہ اس کا دھیان کھانے کی طرف لے جا چکا تھا جس کے بعد عنایہ نے آہستہ آہستہ کھانا شروع کیا ۔
زوہیب ۔ اس بیچ عنایہ نے پہلی بار زوہیب کو اس کے نام سے پکارا تھا ۔
ہاں کچھ چاہیے ۔
مجھے معاف کر دو میری وجع سے ۔۔۔۔۔
تمہاری وجع سے کیا ۔
میری وجع سے آپ کو آپ کی محبت نہیں ملی ۔
تمہیں کس نے کہا کہ مجھے محبت نہیں ملی میری محبت میری بیوی ہے ۔ زوہیب چاہ کر بھی مکمل طرح سے اظہار نہیں کر سکا تھا ۔
مجھے صائم نے بتایا تھا کہ آپ کسی سے پیار کرتے ہیں ۔
تم بھی کن کی باتوں کو سیریس لے رہی ہو انہوں نے کبھی خود کو سیریس نہیں ۔ عنایہ زوہیب کی جواب سنتے کھانے کی طرف متوجع ہو گئی ۔
عنایہ جتنی فکرمند تھی اتنے ہی سکون میں تھی زوہیب کی باتوں نے اس کے زخموں پر مرہم کا کام کیا تھا ۔
***************************************
محد کمرے میں داخل ہوا تو کمرا سجا ہوا اس کے سامنے موجود تھا ۔ محد نے نظریں گھما کر چاروں طرف دیکھا ۔
یااللّٰہ مجھے معاف کر دے ۔ محد نے اوپر دیکھتے ہوئے کہا ۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ۔
کون ہے ۔ محد اونچی آواز میں بولا ۔
میں ہوں ۔ دروازے کی دوسری طرف سے دانیا کی آواز آئی ۔
ہاں آ جاؤ ۔ محد آہستگی سے بولا ۔
دانیا دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی آ کر اس کے سامنے بیٹھ گئی ۔
کیسے ہو ۔
سہی ہوں ۔
محد عنایہ نے یہ سب کیوں کیا وہ تو تم سے پیار کرتی تھی ۔
محد کے کانوں میں عنایہ کہ کہے الفاظ گونجے ۔ ایک احسان کرنا محد کہ جو ہوا اس کے بارے میں کسی کو کچھ مت بتانا خاص طور پر دانیا کو ۔
مجھے نہیں معلوم اس نے یہ سب کیوں کیا ۔ محد صاف جھوٹ بول گیا ۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے تم ملنے تو گئے تھا ناں کچھ تو کہا ہو گا اس نے کچھ تو بتایا ہو گا کوئی وجع کوئی مجبوری ۔
دانیا میں نے کہا ناں مجھے نہیں معلوم اس کے عمل کے پیچھے کیا وجع ہے فلحال تم مجھے اکیلا چھوڑ دو میں فلحال کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔ دانیا کو یہی بہتر لگا کہ وہ اسے اکیلا چھوڑ دے وہ اسے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر باہر آ گئی ۔
***************************************
عالیان زین صائم عفاف عمارہ اور ماہم اوپر چھت پر بیٹھے ہوئے تھے ۔
حادیہ آپی کدھر ہیں ۔ عمارہ نے خاموشی توڑتے کہا ۔
وہ سونو کو سلا رہی ہیں ۔ عفاف نے جواب دیا تھا اور پھر سے خاموشی چھا گئی ۔
یار کچھ تو بولو کیا ہم یہاں ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے بیٹھے ہیں ۔ صائم تنگ آتے غصے سے بولا ۔
یار کیا بولیں کچھ بولنے لائق ہے ہی نہیں
کیا کچھ سوچا تھا اور کیا ہو گیا ۔ زین نے افسردگی سے کہا ۔
ویسے کیوں کیا ہو گا عنایہ آپی نے ایسے ۔ عفاف بولی تھی ۔
کیا پتا وہ زوہیب کو پسند کرتی ہوں ۔ اس بار عالیان بیچ میں بولا تھا ۔
نہیں نہیں یہ تو ناممکن ہے وہ محد سے بہت محبت کرتی تھی ۔ زین اس بات پر قسم کھا سکتا تھا کہ عنایہ محد سے محبت کرتی ہے ۔
تو پھر کیا وجع ہو سکتی ہے ان کے اس انکار کی ۔ عالیان سوچتے ہوئے بولا تھا ۔۔
ویسے دانیا آپی کہاں ہیں ۔ عمارہ نے دانیا کی کمی محسوس کی تھی ۔
پتا نہیں میں نے آخری بار وہیں سب کے ساتھ دیکھا تھا ۔ ماہم جواب دیتے بولی ۔
اب کیا ہو گا زوہیب بھائی اور عنایہ آپی کی شادی آپی تو بھائی کو بالکل پسند نہیں کرتی تھی ۔ عفاف فکرمندی سے بولی ۔
اگر پسند نا کرتی تو شادی کے لیے ہاں کیوں کرتی انشاءاللہ وہ دونوں ساتھ خوش رہیں گے ۔ عمارہ ان میں واحد تھی جو زوہیب کے دل کے حال کے بارے ميں جانتی تھی ۔
ہاں ہم دعا ہی کر سکتے ہیں اللّٰہ ان کے حق میں بہتری کرے ۔ زین نے بھی دعا کی تھی اور سب نے آمین کہا تھا ۔ 
***************************************
صبح فجر کے وقت مسجد جاتے ہوئے زوہیب عنایہ کو بھی اٹھا کر گیا تھا تاکہ وہ نماز پڑھ لے جب وہ واپس آیا تو سو گیا مگر عنایہ ایسے ہی بیٹھی رہی ۔
چراغ سے نکلا جن جو تھا قیمتی تبھی تو خدا نے اسے اس کے نصیب میں لکھ دیا تھا کہ وہ جو خواہش کرے وہ پوری کرنے کو تیار ہو جائے مگر اس کی اسے کہاں خبر تھی کہ اللّٰہ نے اس کے نصیب میں کیا لکھ چھوڑا تھا ۔ آج ان کا ولیمہ تھا اور اسے پھر سے اتنے سارے لوگوں کا سامنا کرنا پڑنا تھا کل تو پھر قریبی لوگ بلائے تھے مگر آج سب لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا بزنس سے تعلق رکھنے والے افراد سیاسی شخصیات وہ اتنے سب لوگوں کا سامنا کیسے کرنے والی تھی اسے خود نہیں معلوم تھا کارڈ پر لکھا محد کا نام اور ولیمہ پر بیٹھا زوہیب اسے سوچ سوچ کر گھبراہٹ ہو رہی تھی نیند بھی اڑ سی گئی تھی پھر بھی وہ آ کر لیٹ گئی دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھ لگ گئی ۔ 
صبح نو بجے زوہیب کی آنکھ کھلی تو وہ فریش ہو کر کمرے سے باہر آ گیا عنایہ کو سوتا چھوڑ دیا کہ آ کر جگا دے گا وہ نیچے اتر رہا تھا جب اس کی ٹکر عمارہ سے ہوئی ۔
سب اٹھ گئے ہیں کیا ۔ زوہیب نے عمارہ سے سوال کیا تھا ۔
نہیں ابھی سب سو رہے ہیں بس میری آنکھ کھل گئی تو سوچا آپ سے بات کر لو بس آپ کے کمرے میں ہی آ رہی تھی کمرا نوک کرنے لگی تو خیال آیا عنایہ آپی کی نیند خراب نا ہو جائے تو واپس جانے لگی تھی ۔
کیا بات کرنی تھی تمہیں ۔
کچھ نہیں بس آپ کی اور عنایہ آپی کی شادی کے بارے میں بات کرنی تھی کل رات کو بھی ٹائم نہیں ملا ۔
ہاں مجھے بھی تم سے بات کرنی تھی ۔
کیا بات کرنی تھی بھائی ۔
عمارہ مجھے خوش ہونا چاہیے یا نہیں ۔ زوہیب الجھے ہوئے انداز ميں بولا ۔
میں بھی یہی پوچھنا چاہتی تھی بھائی کہ آپ خوش ہیں ناں ۔
عمارہ مجھے خود نہیں معلوم میں خوش ہوں یا نہیں میں تو بس عنایہ کی خوشی دیکھنا چاہتا ہوں اسے خوش رکھنا چاہتا ہوں شاید اس طرح میں بھی خوش ہو جاؤں یا شاید میں پہلے سے ہی خوش ہوں ۔
بھائی آپ کو خوش ہونے کا پورا حق ہے آپ نے نا ہی کوئی سازش کھیلی ہے نا ہی کسی کا حق چھینا ہے آپ کو جو ملا ہے آپ کی قسمت کا ملا ہے اللّٰہ نے آپی کو آپ کی قسمت میں لکھا تھا تو محد بھائی اور ان کی شادی کیسے ہو جاتی آپ ان کے بیچ میں نہیں آئے آپی نے اپنی راہ بدلی ہے اب آپ بھی آگے بڑھے اور خوش رہنے کی کوشش کریں ۔
شاید سہی ہی کہتی ہو تم ۔ زوہیب کہتا ہوا آگے جانے لگا ۔
کہاں جا رہے ہیں بھائی ۔
کہیں نہیں بس ادھر ہی ہوں زرا دیکھوں ابا جی اپنا حقہ پی رہے ہیں یا نہیں ۔ زوہیب کہتا  ابا جی کے تخت کی طرف چل پڑا کیونکہ اس وقت ابا جی ویہیں حقہ پی رہے ہوتے ہیں ۔ گیارہ بجے عنایہ کی آنکھ کھلی خود کو کمرے میں اکیلا پایا جانے وہ اتنی دیر سوتی کیسے عنایہ نے بستر سے اٹھتے ہوئے بال سمیٹے اور شاور لینے چلی گئی جب واپس آئی تو زوہیب کمرے میں ہی موجود تھا ۔
آپ نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں اتنی دیر ہو گئی ہے ۔ عنایہ زوہیب کو کمرے میں دیکھ کر مخاطب ہوئی ۔
میں بھی زرا دیر سے اٹھا تھا پھر ایک ضروری کام سے باہر چلا گیا اور فکر مت کرو اتنی دیر سے بھی نہیں اٹھی سب لوگ ہی رات کو لیٹ سوئے تھے اسی لیے ابھی تھوڑے دیر پہلے اٹھے ہیں ۔ ۔۔۔۔ اور ہاں ابا جی ناشتے کے لیے بلا رہے ہیں کہہ رہے تھے کہ تیار ہو کر نیچے آ جاؤ ۔
جی بس میں دس منٹ میں آئی ۔ عنایہ کہتی شیشے کے سامنے بیٹھ گئی ۔
عنایہ ۔ زوہیب نے پیچھے سے پکارا تھا وہ شیشے میں زوہیب کو با آسانی دیکھ سکتی تھی ۔
جی ۔ عنایہ نے شیشے میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
خوش رہنا میں کوشش کروں گا کہ تمہیں خوش رکھ سکوں ۔ عنایہ خاموش ہو گئی زوہیب کی اس بات کا اس کے پاس کوئی جواب موجود نہیں تھا ۔
****************************************
صباء کا کل سے منہ اترا ہوا تھا اسے عنایہ کا اس طرح عین نکاح کے وقت انکار بہت برا لگا تھا برا تو سب کو ہی لگا تھا مگر صباء کے نزدیک اس کے بیٹے کی توہین کی گئی ہے سرِعام شادی سے انکار کرنا عنایہ کا سوچا ہوا منصوبہ تھا ورنہ وہ انکار تو پہلے بھی کر سکتی تھی یہاں تک کہ مہندی والی رات اس کی خوشی دیکھنے لائق تھی سب اس کی تعریف کر رہے تھے یہی وجع تھی کہ صباء نورین اور سدرہ سے ڈھنگ سے بات نہیں کر رہی تھی اور یہ بات محد نے محسوس کی تھی اور اسی لیے وہ ظفر اور سدرہ سے بات کرنے کے لیے ان کے کمرے میں آیا تھا ۔
امی ابو مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔
ہاں بولو بیٹا ۔ ظفر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
ابو کل جو کچھ بھی ہوا میں جانتا ہوں آپ اس کی وجع سے پریشان ہیں اور آپ کو عنایہ کی حرکت بالکل پسند نہیں آئی مگر ابو امی میں چاہتا ہوں آپ سب کچھ بھول جائیں جیسے ہم سب پہلے رہتے تھے ویسے ہی اب رہیں اس ایک واقعہ کی وجع سے کوئی کشیدگی پیدا نہیں ہونی چاہیے ۔
محد عنایہ نے سہی نہیں کیا تمہارے ساتھ ۔
امی عنایہ نے جو کیا اپنے لیے بہتر کیا وہ جو کر گئی شاید ہر کوئی نا کر سکتا میرے جیسے شخص کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے ۔
بیٹا ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔
امی کبھی کبھار ہم جو دیکھ رہے ہوتے ہیں اس کے پیچھے کے حقائق اس اس سے زیادہ دردناک اور زہریلے ہوتے ہیں آپ جیسے طائی امی اور پھپھو کے ساتھ پہلے تھی ویسے ہی اب بھی رہیں آپ کی مت جیسی عنایہ کے لیے میری بیوی کی حیثیت سے ہونے والی تھی ویسے ہی اب بھی رہنی چاہیے ۔
جیسے تمہیں اچھا لگا ہم تو بس تمہارے لیے پریشان تھے ۔ صباء نے کہتے اسے اپنی طرف سے فکرمند کیا جبکہ ظفر رفیق خاموشی سے ان دونوں کی باتیں سنتے رہے ۔
***************************************
ولیمہ اچھے سے گزر گیا جس میں زیادہ عمل دخل چوہدری زوہیب کا تھا جو وقفے وقفے سے عنایہ کو تحفظ کا احساس دلاتا رہتا سب مہمانوں سے خوشی سے ملا اپنے قریبی دوستوں سے بھی اس کا تعارف کروایا پورا وقت وہ اس کے ساتھ اس کی ڈھال بن کر کھڑا رہا اپنے کسی عمل سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ اس شادی کا اسے علم نہیں تھا یا یہ شادی اس کی مرضی کے خلاف کروائی گئی تھی یہ بات سچ تھی کہ زوہیب کہیں نا کہیں خود کو ذمہ دار سمجھ رہا تھا محد اور عنایہ کی شادی ٹوٹنے کے پیچھے مگر اسے جلد احساس ہو گیا تھا کہ وہ اس کی وجع کسی صورت نہیں تھا یہ سب قسمت کا لکھا تھا اور قسمت کی لکیروں کو کون مٹا سکتا ہے جو اس کی میراث میں لکھ ديا گیا اسے اس سے کوئی نہیں چھین سکتا وہ بےشک اس شادی کے ٹوٹنے پر دکھی تھا مگر اللّٰہ نے عنایہ دی تھی جو بھی تھا عنایہ اس کی پہلی اور آخری محبت تھی وہ کیسے ناخوش ہو سکتا تھا ۔
****************************************
ولیمے سے اگلے دن سب مہمان جا چکے تھے حادیہ بھی اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ اپنے سسرال کا رخ کر چکی تھی اب چوہدری حویلی میں صرف گھر کے لوگ موجود تھے اور عالم خان جس پر ابا جی کی کب سے نظریں تھی ۔
ویسے سب مہمان جا چکے ہیں تمہارا کب تک جانے کا ارادہ ہے یا کوئی کام وغیرہ نہیں ہے تمہارے پاس ۔ ابا جی نے دوپہر کے کھانے کے وقت نظریں عالم خان پر جمائے کہا ۔
ارے ابا جی ( عالم خان کا جب دل کرتا وہ ابا جی کو ابا جی کہتا جب دل کرتا چوہدری صاحب جب دل کرتا تو رفیق صاحب کہہ کر بلاتا) میں نے تو سنا تھا چوہدریوں کے دل بڑے کھلے ہوتے ہیں آپ کی بات نے مایوس ہی کر دیا مجھے دو دن کا آیا مہمان کھٹکنے لگا آپ کو ۔ عالم خان بھی پھر عالم خان تھا کوڈ کا بوس جواب دینا خوب جانتا تھا ۔
میاں مہمان دو دن کا ہوتا ہے دو دن سے اوپر ہو تو انسان مہمان نہیں رہتا قدر گر جاتی ہے یہ نا ہو قدر ختم ہی ہو جائے ۔
ہاں دانیا ابا جی تمہیں بھی ایسی ہی باتیں سناتے تھے کیا ۔ عالم خان نے دانیا کو مخاطب کیا ۔۔ ہائے میری معصوم بچی کیا کیا سہتی رہی ہو گی یہاں ۔ عالم خان بیچارگی سے کہتا ابا جی کی طرف دیکھنے لگا ۔ کیوں ابا جی مہینا تو ہونے والا ہے ناں اسے یہاں ۔
وہ ہمارے گھر کی بچی ہے جب تک یہاں چاہے رہ سکتی ہے تم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہو ۔ ابا جی بھڑک گئے ۔
ارے ارے چوہدری صاحب بھلا ہماری کیا مجال کہ ہم آپ کی کسی بات پر اعتراض کرے بھئی ہم تو آپ کو آپ کی کہی بات یاد دلا رہے تھے ۔
تم خود پر دھیان دو تو بہتر ہو گا ۔ ابا جی کہتے کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے ۔
عالم خان آگے سے جواب دینے ہی لگے تھے کہ نورین نے انہیں کھانے کا پوچھ کر ٹوک دیا ۔
ایک تو گل آپ کی وجع سے آپ کے ابا جی بھکتنے پڑتے ہیں ۔ عالم خان بڑبڑاتے ہوئے بولا ۔
اتنے میں عنایہ اور زوہیب بھی کھانے کی میز پر آ گئے سدرہ کی طرف سے اسے خاص حکم ملا تھا کہ اس کی نئی نئی شادی ہوئی ہے تو وہ تیار ہو کر رہا کرے اسے لیے اسے کھانے کی میز پر پہنچنے میں دیری ہو گئی اور یہی وجع تھی کہ زوہیب بھی نیچے نہیں آیا کہ کہیں عنایہ کا اکیلے اس طرح دیر سے آنا عجیب نا لگے ۔
دونوں ایک ساتھ برابر کی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔
زوہیب تم ایسا کرو کچھ دن کی چھٹی لے لو آفس کا کام حماد اور ظفر سنبھال لیں گے ۔ ابا جی نے زوہیب کو کہا تھا جو ابھی روٹی نکال رہا تھا ۔
ابا جی چھٹی مگر وہ کیوں ۔
زوہیب ابا جی سہی کہہ رہے ہیں میں اور حماد سنبھال لیں گے سارا کام تمہاری نئی نئی شادی ہوئی ہے گھومے پھرو یہی تو دن گھومنے پھرنے کے ۔۔۔۔ ویسے کوئی جگہ سوچی ہے تم لوگوں نے جانے کے لیے جہاں عنایہ کا دل ہو یا تم جانا چاہتے ہو ۔ چوہدری ظفر بول رہے تھے اور زوہیب اور عنایہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ان کی بات کے اختتام پر دونوں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔
او چلو یہ تو سہی ہو گیا ۔ یہ میرے اور صباء کی طرف سے شادی کا ایک چھوٹا سا تحفہ ۔ ظفر نے زوہیب کی طرف ایک لفافہ پکڑایا جو اس نے تھام لیا ۔
یہ پیرس کی دو ٹکٹز ہیں تمہارے اور عنایہ کے لیے ہوٹل بھی بک کرا دیا ہے آٹھ دنوں کا سٹے ہے اللّٰہ تم دونوں کو خوش رکھے ۔ چوہدری ظفر ساتھ ساتھ بول رہے تھے اور زوہیبان ٹکٹ کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔
مگر ۔ زوہیب کچھ بولنے ہی لگا تھا جب ابا جی نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا ۔
ہاں زوہیب یہ دونوں سنبھال لیں گے تم لوگ جاؤ گھومو پھرو ۔
عنایہ اور زوہیب کمرے میں داخل ہوئے تو عبایہ نے زوہیب کے ہاتھ سے ٹکٹ لے لیا ۔
آپ کیوں منع کر رہے تھے پیرس جانے کے لیے ۔
مجھے لگا تمہیں برا لگے گا ۔
مجھے کیوں برا لگے گا مجھے تو پیرس دیکھنے کا بہت شوق ہے اور اچھا ہی ہو گا ناں کہ کچھ دن کے لیے ہی سہی مجھے کی نظروں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔
جیسی تمہاری مرضی عنایہ ۔ زوہیب کی خوشی عنایہ کی خوشی میں ہی تھی ۔
**************************************
اسلام علیکم حاضر ہوں میں نئی قسط کے ساتھ یہ قسط لکھنا تھوڑا سا مشکل تھا اور پھر بیچ میں عید بھی آ گئی تو آیپی تھوڑی لیٹ ہو گئی ۔ ووٹ کرنا مت بھولیے گا اور کمنٹ کر کے اپنی رائے کا اظہار ضرور دیجئے گا شکریہ ۔

حیات المیراث CompletedOnde histórias criam vida. Descubra agora