وہ رات کے اندھیرے میں ادھر اُدھر دیکھتا گھر سے نکل رہا تھا۔ سانس تک کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔ کیونکہ اگر ابا حضور کو اس کے اس وقت باہر نکلنے کا پتہ چل جاتا تو وہ اگلی صبح اللہ کے پاس ہوتا۔
"بدر۔۔ ہششش ہششش۔۔ ،۔ ادھر دیکھ۔۔ " منان جو کہ دیوار پہ سیڑھی کی مدد سے کھڑا جھانک رہا تھا۔ اس نے بدر کا دھیان اپنی طرف کروایا۔
بدر نے سامنے گیٹ کی طرف دیکھا۔ وہاں سے جانا خطرناک تھا۔ اسی لیے اس کے دوست سیڑھی لائے تھے۔ بدر کا دل کیا دیوار پہ کھڑے منان کا منہ چوم لے ۔ لیکن ابھی رومینس کا وقت نہیں تھا۔
منان سیڑھی سے اتر کے سیڑھی پہ ہاتھ رکھے کھڑا ہو گیا۔ اور بدر دیوار پہ چڑھ کے سیڑھی سے دوسری طرف اترنے کی غرض سے دیوار پہ بیٹھ گیا۔ جبکہ ارہاب منان سے کچھ فاصلے پہ گاڑی کو سٹارٹ کیے کھڑا تھا۔ تاکہ کسی بھی ایمرجنسی میں وہ الرٹ رہ سکے ۔ اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ ان کا چوتھا یار اسفند بیٹھا گردن موڑ کے سیڑھی کے پاس کھڑے منان اور دیوار پہ بیٹھے بدر کو دیکھ رہا تھا۔
"او ۔۔۔ ہیلو ۔۔۔۔ اتر بھی آ کہ سلامی پیش کریں تجھے ۔۔" منان جو کہ گھنٹے سے سیڑھی پکڑے کھڑا تھا۔ منہ بسور کے بولا۔
"صبر کر آ تو رہا ہوں" بدر جو کہ سیڑھی سے اترتے ڈر رہا تھا ۔ بالآخر نیچے اترنے کی کوشش کرتے اس نے قدم سیڑھی کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ کچھ فاصلے پہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آئیں۔
او تیری۔۔۔" منان نے قریب سے ہی کتوں کی آواز سنی تو اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ بدر جو کہ سیڑھی کے درمیان آ چکا تھا۔ لڑکھڑایا۔
منان کے قریب آ کے ان میں سے ایک کتے نے اپنا راگ الاپا اور منان صاحب نے جیسے گلے میں سپیکر فٹ کرلیا۔
"آ ۔۔۔۔۔۔ ہششش ہششش آ اللہ جی۔۔ ۔۔۔" منان سیڑھی کے اردگرد چکر لگاتے پورا محلہ سر پہ اٹھا چکا تھا کیونکہ کتا اس کے تعاقب میں اس کی پیروی کر رہا تھا۔ اسفند نے گاڑی میں بیٹھے ہی اپنا سر پکڑ لیا۔ اور ارہاب نے زور سے سٹیرنگ پہ ہاتھ مارا۔
جبکہ بدر ابھی بھی سیڑھی کے وسط میں اللہ ہو کا ورد کر رہا تھا۔
تبھی بدر کے گھر کا گیٹ کھلا۔ اور ابا حضور اپنی تمام تر دہشت سمیت باہر نکلے ۔ گاڑی میں بیٹھے اسفند اور ارہاب ، سیڑھی کے وسط پہ لٹکے بدر اور کتے سے خود کو بچاتے منان کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
اتنے میں کتے کی بھونکنے کی آواز آئی جس نے ماحول میں چھائے سکوت کو توڑا۔
"او تیری۔۔۔" بھاگتے ہوئے منان سیڑھی سے اٹکا اور سیڑھی کے وسط میں کھڑا بوکھلایا ہوا بدر زمیں بوس ہوا اور منان گرتے گرتے گاڑی تک جا پہنچا ۔۔
"ابے سالے !کیوں میرے مستقبل میں ہونے والے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔"
اس سب میں کتا اپنے آپ کو نظر انداز ہوتے دیکھ اپنے راستے چل دیا.....
بدر نے کھڑے ہو کر کمر سہلاتے ہوئے دہائی دی۔
منان نے گاڑی پر ہاتھ رکھے سانس بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا : "ابے گدھے۔۔اپنے مستقبل کے بچوں کو چھوڑ اور سامنے اپنے حالیہ باپ کو دیکھ جو شیر بنا ہمیں ہی گھور رہا ہے۔"
بدر نے ایک نظر دور جاتے کتے اور دوسری نظر اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے حمدانی صاحب پر ڈالی اور منان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ۔البتہ گاڑی میں بیٹھے اسفند اور ارہاب کو اپنی فکر ہونے لگی۔
دور کھڑے حمدانی صاحب نے رات کے اس پہر اپنی اولاد کا یہ کارنامہ دیکھتے ہوئے افسوس سے سر ہلایا اور ان کو اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود بھی اندر کی جانب بڑھ گے
*************************************.وہ سب ہاتھ باندھے نظریں جھکائے کھڑے تھے کیوں کہ ابھی انکا بےعزتی پروگرام بس شروع ہی ہونے والا تھا ۔۔۔
"ہاں تو کیا تم سب مجھے یہ بتانا پسند کرو گے کہ یہ شاہی سواری رات کے اس پہر کہاں جا رہی تھی۔۔"
حمدانی صاحب نے پہلے ایک نظر اس شیطانوں کی ٹولی پہ ڈالی اور پھر اپنی رعب دار آواز میں گویا ہوئے ...
منان نے ساتھ کھڑے اسفند کو دیکھا اور اسفند نے بدر کو جو اس وقت دنیا جہاں کی معصومیت اپنے منہ پے سجائے کھڑا تھا۔بِ اسفند نے بدر کو ٹہوکا دیا کہ بھئی اب دے جواب اس ہٹلر کو۔۔۔
"بولو بھی۔"
حمدانی صاحب کو انکا چپ رہنا ایک آنکھ نا بھایا اس لیئے ذرا غصے سے بولے۔
"ارہاب۔۔ااررہاب۔۔یہ یہ دےگا جواب۔۔۔بتا ارہاب کہاں جا رہے تھے ہم۔۔"
بدر نے ان کے غصے کو دیکھ کر ہڑبڑا کر جواب دیا۔
"کیوں تم کوئی نومولود بچے ہو جو بتا نہیں سکتے۔۔ویسے تو ہر وقت نان سٹاپ لگے رہتے ہو؟؟" حمدانی صاحب کو اس کی بات پر اور غصہ آ گیا۔
" تم کیوں خاموش ہو برخوردار ؟ کیا منہ میں دہی جما لیا؟" اب انکی توپوں کا رخ اسفند کی طرف ہوا۔
ان کی بات سن کر تو اسفند کے سر پر لگی تلوں پہ بجی جو زمین میں سر دیئے نا جانے کیا تلاش کر رہا تھا اور اس نے گڑبڑا کر کہا "ننہ ۔۔نن۔۔نہیں انکل بس وہ ۔۔۔"
اور وہ سر کھجانے لگا۔اس سب میں منان خاموش تماشائی بنا کھڑا تھا کیونکہ وہ کتے کے حملے سے ابھی تک سنبھل نہیں پایا تھا۔
ان دونوں کی درگت بنتے دیکھ ارہاب بیچ میں کود پڑا۔
"انکل ۔۔وہ بات کچھ یوں ہے کہ ہمارا دوست ہے ارسلان وہ لندن جا رہا ہے ،پانچ سال بعد ہی واپسی ممکن ہو گی تو اس نے آج پارٹی رکھی تھی ۔۔اور آپ نے تو اس کے باہر جانے پر پابندی لگائی ہےتو بس۔۔ اس لئے مجھے ان سب کا ساتھ دینا پڑا۔"وہ رکا۔
"البتہ میں نے ان کو بولا تھا کہ عزت سے آپ سے اجازت لے لیں۔"
وہ ہمیشہ کی طرح اپنا دامن بچا کر بازی لوٹ گیا تھا۔ حمدانی صاحب کا غصہ اس کی بات سن کر تھوڑا ٹھنڈے ہوا تو ارہاب نے سب کو فاتحانہ نظروں سے دیکھا اور باقی سب اسکی " اپنا آپ بچاؤ سیاست" پہ منہ کھولے ہونقوں دیکھنے لگے جس میں بدر اور اسفند کے ساتھ منان بھی شامل تھا جو اب کافی حد تک کتے کے حملے سے سنبھل چکا تھا۔
حمدانی صاحب کا غصہ کم ہوتے دیکھ بدر اپنے رنگ میں واپس آیا اور ان کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر فلمی انداز میں کہا "کرنل صاحب ۔۔اب اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم جائیں؟؟ گیارہ بج گئے ہیں۔۔ پہلے ہی آپ کی پکن پکڑائی میں دیر ہو گئی۔"
اتنے میں وہ سب بھی بدر کے سٹائل میں ہی ان کے قریب براجمان ہو گئے اور آنکھیں پٹپٹا کر حمدانی صاحب کو دیکھنے لگے ۔
ان سب کو دیکھ کر حمدانی صاحب بھی ہنس پڑے۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔جاؤ۔۔لیکن ١ بجے تک کا ٹائم ہے اس کے بعد پھر دیواریں ہی ٹاپتے پھرو گے گھر میں داخل ہونے کے لیے ۔"
انہوں نے آرام سے کہتے آخر میں دھمکی بھی دے دی۔ یہ سنتے سب نے ان کو جھپی کے ساتھ پپی بھی دے دی ۔
حمدانی صاحب بدک کر پیچھے ہوئے اور ان سب کے قہقہےنکل گئے جس میں حمدانی صاحب کا قہقہہ بھی شامل تھا۔
ان سب نے بھی جلدی سے نکلنے کی کی کہ حمدانی صاحب کا ارادہ کہیں بدل ہی نا جائے۔
دروازے پر پہنچ کہ منان کو ہوش آیا اور وہ مڑا۔حمدانی صاحب کے پاس جا کر بیٹھا ان سب کو بھی اپنے ساتھ بٹھا کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا جسے سمجھتے سب نے اثبات میں سر ہلایا ۔
اس سب صورتحال میں حمدانی صاحب ان سب کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
کہ منان نے موبائل نکالتے ان کو ریڈی کو اشارہ کیا جسے سمجھتے ان سب نے بھی اپنی پوزیشنز سنبھالیں۔
حمدانی صاحب کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا لیکن اس سے پہلے وہ کچھ کہہ پاتے وہ سب ان پر ایک بار پھر حملہ آور ہو گئے اور ان کے منہ کو والہانہ چومنے لگے جیسے کوئی متبرک چیز ہو۔۔کوئی گال چوم رہا تھا تو کوئی پیشانی اور بدر صاحب کو جگہ نا ملی تو وہ بال ہی چومنے لگ گئے۔ ۔ساتھ ہی ساتھ منان ویڈیو بنا رہا تھا ۔۔کیونکہ منان کا کسی جگہ سے بغیر کوئ کارنامہ کیے چلے جانا اس کی شان کے خلاف تھا ۔
حمدانی صاحب مذاحمت کرتے رہے لیکن ان چاروں کے آگے انکی نا چل سکی۔ آخر کار وقت کو دیکھتے ہوئے ان سب نے اس ڈرامے کو ختم کیا اور بغیر پیچھے مڑے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
حمدانی صاحب نے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ منان دوبارہ دروازے میں نمودار ہوا ۔
"انکل آج رات آپ کو ایک پوسٹ میں ٹیگ کروں گا۔۔کہ جس کا کپشن ہو گا رضیہ گنڈوں میں پھنس گئی۔۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہ کرنل عبید حمدانی کی بیوی سعدیہ عبید حمدانی کے حقوق پر ڈاکہ۔۔پولیس قیامت تک مجرموں تک پہنچنے میں ناکام۔۔" منان نے ریپورٹر کی طرح خبریں سنائی اور قہقہہ لگاتے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا ۔ حمدانی صاحب پیچھے افسوس سے سر ہلاتے رہ گئے۔
×××××××××××××××××××××××××××××××××××
گاڑی میں گانا دھیمی آواز میں گونج رہا تھا اور وہ ساتھ گنگناتی روڈ پر نظریں گاڑھی ہوئی تھی۔اس کی انگلیاں سٹیرنگ پر رقص کر رہی تھیں اور وہ سن گلاسز لگائے گانا میں مگن کسی اور ہی دنیا میں جا پہنچی تھی کہ گاڑی جھٹکے سے رکی اور اس کا سر سٹیرنگ سے لگتے لگتے بچا۔
"افففف۔۔۔۔اس کو کیا موت پڑ گئی.."
اس نے جھنجھلا کر ایک دفعہ پھر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر گاڑی نے تو جیسے نہ چلنے کی قسم اٹھا لی تھی اس پر وہ مزید آگ بگولہ ہوگی اور غصہ میں گاڑی سے نکلی اور اور ایک زوردار آواز سے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور باہر نکل کے گاڑی کا بونٹ کھول کے دیکھنے لگی...
"اففف.. دانین آج بہت منحوس دن ہے تیرے لیئے ۔ پہلے امی کی وجہ سے لیٹ ہو گی اور اب اس کو دورے پڑھ رہے ... یا خدا مجھ معصوم پر رحم کر....."
آخر تنگ آکر وہ زمین پر ہی سر پکڑ کہ بیٹھ گی....
"یا اللہ اب کیا کروں... میرے مالک میری مدد فرما مجھے کسی بھی قیمت پر آج کی دن لیٹ نہیں ہونا..."
ان دنوں اسلام آباد کا موسم بھی کافی گرمی سے بھرا پیار برسا رہا تھا۔۔بےبسی اور گرمی کے مارے وہ بس رونے کو تھی کہ اچانک کوئی گاڑی آ کر اس کے سامنے آکر رکی جس میں سے ایک خوبصورت سی لڑکی باہر نکلی اور اس کے قریب آکر رکی اسے دیکھ کے دانین جلدی سے کھڑی ہو گئ..
" آپ یہاں زمین پر کیوں بیٹھی ہیں.... میرا مطلب ہے کہ کیا کوئی مسئلہ ہے یا کوئی ہیلپ چاہئیے آپ کو.؟؟"
دانین نے اس کو اوپر سے نیچے تک سکین کیا۔ سرخ و سفید رنگت ،درمیانہ قد ،شہد رنگ آنکھیں ،فیروزی رنگ کے کپڑے اور ہم رنگ سکارف میں دمکتا اس کا چہرہ بلاشبہ وہ ایک حسین لڑکی تھی ۔اس نے جب دانین کو اپنا اکیسرا کرتے دیکھا تو چٹکی بجا کہ دانین کو خیالوں کی دنیا سے باہر لائی.. "آپ کا کوئی بھائی ہے کیا؟؟"
"جی ۔آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟؟"دانین کو سمجھ نا آئی۔
"کچھ نہیں۔اگر آپ کو کہیں ڈراپ کرنا ہے تو میں کر دیتی ہوں۔"اس نے آفر کی۔
"جی بلکل ۔ میں پہلے ہی کافی لیٹ ہو چکی ہوں۔" اور دونوں نے گاڑی کی جانب قدم بڑھا دیے۔
**************
گاڑی میں مکمل خاموشی تھی جس کو دانین کی آواز نے توڑا۔
"آپ میرے بھائی کا کیوں پوچھ رہی تھیں؟"
"پہلی بات یہ کہ آپ جناب مت کرو ۔ اتنی عزت مجھے ہضم نہیں ہوتی۔ اور دوسری بات کہ بھئی تم ایسے سکین کر رہی تھی مجھے جیسے اپنے بھائی کی زوجہ بنانے کا ارادہ کر رہی ہو۔۔۔"
اور کہتے ساتھ ہنس پڑی لیکن جب اسکی نظر دانین کے سنجیدہ چہرے پر پڑی تو اسکی ہنسی کو بریک لگ گئی۔۔
"سوری۔" اس نے جھٹ سے سوری بول دیا کہ وہ برا نا مان جائے۔
"پہلی بات کہ دوستی میں سوری شوری سب بکواس ہوتا ہے اور میں تمھیں اپنا دوست مان چکی ہوں ۔
دوسری بات ۔۔" وہ ذرا رکی۔
"مجھے تمھیں اپنے بھائی کی زوجہ بنانے پر کوئی اعتراض نہیں مگر ایک کا ٹانکا کچھ دن پہلے فٹ کیا ہے۔۔۔ اور دوسرا بہت چھوٹا ہے وہ تمھیں سنبھال نا پائے گا بلکہ الٹا تمھیں اسے پالنا پڑے گا۔۔۔" دانین نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
"اوہ۔۔شکر مجھے لگا تم مائنڈ کر گئی۔۔"گاڑی ڈرائیو کرتے اس نے بولا۔
"نہیں میرے پاس ہے ہی نہیں تو کروں گی کیسے۔۔" دانین نے سامنے دیکھتے ہوئے بولا۔
"کیا ؟؟؟" اس نے استفسار کیا۔
"ارےےے۔۔بھئی مائنڈ ۔۔کھو گیا تھا بچپن میں ہی ۔۔ویسے بھی بہت عاجز آ چکا تھا مجھ سے۔۔" اور زوردار قہقہہ لگایا جس میں گاڑی ڈرائیو کرتی اس حسین لڑکی کا قہقہہ بھی شامل تھا۔
"اللہ دتی سنو۔۔" دانین بولی۔
"اللہ دتی ۔۔؟؟ " اس نے پوچھا۔
"اب تم اپنا نام نہیں بتاؤ گی تو کیا کہوں گی تمھیں ؟؟" دانین نے اس کی طرف مڑ کر کہا۔
"میں بھول گئی۔۔میرا نام ریحام مصطفی ۔۔۔
اور تمھارا؟؟"
"دانین حسن نیازی۔۔۔دو بھائیوں اور ایک بہن کی اکلوتی بہن ۔۔اور سب کی دلوں کی دھڑکن ،کسی کی دانی ،کسی کی آنی،کسی کی رانی۔۔۔۔بہت جانی پہچانی ۔۔ون اینڈ اونلی دانین حسن نیازی۔۔" اس نے فخر سے اپنے فرضی کالر جھاڑ ے۔
"بہت جانی پہچانی دانین حسن نیازی یہ تو بتاؤ کہ جانا کہاں ہے؟ ؟"ریحام نے دانین والا راگ الاپ کر وہ بات پوچھی جو دونوں بھلائے بیٹھی تھیں۔
"اوہ۔۔۔ میں لیٹ ہو گئی ۔۔ پلیز یار جلدی نسٹ یونیورسٹی کی طرف بھگاؤ گاڑی۔۔"دانین نے اجلت میں کہا اور بیگ میں چیزیں دیکھنے لگی کہ کہیں کچھ رہ نا گیا ہو۔
"ارے۔۔تم نسٹ میں پڑھتی ہو؟" ریحام نے پوچھا۔
"اللہ دتی ۔۔آج پہلا دن ہے میرا۔۔اسی لئے کہہ رہی ہوں بھگاؤ گاڑی۔۔" دانین نے شور مچایا اور ریحام نے گاڑی روک دی۔ دانین نے حیران نظروں سے اسکو دیکھا۔
"پہلے ہاتھ ملاؤ۔"ریحام بولی۔
دانین نے نا سمجھی سے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
"ارے یار۔۔میرا بھی آج نسٹ میں پہلا دن ہے ۔۔" ریحام نے ابھی یہ بولا ہی تھا کہ دانین نے اسے گلے سے لگا لیا۔
"اللہ جی تھینک یو۔۔۔۔۔افف تمھیں پتا ہے میں بہت نروس تھی کیونکہ ایک تو پہلا دن تھا اور اوپر سے اکیلی بھی تھی بیا بھی نہیں تھی اور اوپر سے گاڑی بھی خراب ہو گئی۔۔۔"
اس سے پہلے وہ کچھ اور بولتی ریحام نے اسکو روکا اور گھڑی دکھائی جس پہ نو بجنے والے تھے۔
" میری جانی پہچانی۔۔۔زرا وقت ملاحظہ کریں دیر ہو رہی ہے۔۔"
دانین نے وقت دیکھا تو اسے گاڑی چلانے کا کہا اور یوں ہلکی پھلکی گپ شپ کرتے ان کی گاڑی "نسٹ یونیورسٹی" کے گییٹ سے اندر داخل ہوئی۔
×××××××××××××
وہ کلاسز لے کر ریحام کی طرف کینٹین ہی جا رہی تھی کیونکہ بدقسمتی سے دونوں کے ڈیپارٹمنٹ الگ تھے سو دونوں نے ہی فری ہو کر کینٹین میں ملنے کا سوچا تھا۔ابھی وہ ایک سیڑھی سے دوسری پر قدم رکھنے ہی والی تھی کہ اس پر اوپر سے پانی آ گرا ۔اور دانین جو یونی کے پہلے دن سج دھج کے تیار ہو کر آئی تھی اس حملے کے لیئے تیار نا تھی اور گرتے گرتے بچی۔
"اففففف۔۔۔۔۔۔کون ہے یہ جاہل ۔۔؟؟"دانین نے غصے میں اوپر مڑتے ہوئے کہا۔
اوپر دیکھتے ساتھ ہی اسے گرل کے ساتھ ایک لڑکا فون پر بات کرتا ہوا نظر آیا ۔دانین نے اپنی چھوٹی سی عقل کو استعمال نا کرتے ہوئے اوپر کی طرف قدم بڑھائے ۔
اس لڑکے کے قریب پہنچ کر دانین نے اپنی خوبصورت آواز میں اس لڑکے کو مخاطب کیا۔
"مسٹر سنیئے۔۔" دانین کی آواز پر وہ فون بند کرتا ہوا پلٹا۔
"جی مس۔۔" اس لڑکے نے سنجیدہ لہجے میں دانین سے پوچھا اور اس کے گیلے بالوں کو دیکھا۔
"شکل سے تو اچھے خاصے ہینڈسم ہو ،صوبر بھی لگ رہے،پھر یہ حرکت کرتے ہوئے شرم بھی نہیں آئی ۔۔"دانین نے اپنے گیلے چہرے اور بالوں کی طرف اشارہ کیا جن سے ابھی بھی پانی ٹپک رہا تھا۔
"سوری پر۔۔" وہ لڑکا ابھی کچھ بولنے ہی والا تھا کہ دانین نے اس کی بات کاٹی ۔
"کیا سوری ہاں کیا سوری۔۔۔پہلا دن تھا یونی میں اور تم نے ساری تیاری خراب کر دی۔۔بھلا یہ حرکت کرتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آئی۔۔ اگر میرا میک اپ خراب کو جاتا وہ تو شکر ہے میں نے واٹر پروف میک اپ لگایا تھا۔۔۔توبہ۔۔۔قسم سے دل میرا چاہ رہا ہے تمھیں ۔۔تمھیں۔۔یہاں سے نیچے دھکا دے دوں۔۔"دانین نے گرل کی طرف اشارہ کیا۔
"دیکھیں۔۔" ابھی بات ارہاب کے منہ میں تھی کہ دانین پھر سے بول پڑی۔
"استغفراللہ ۔۔شرم کرو ۔۔میں کیوں دیکھوں تمھیں۔۔کھلے عام لائن مار رہے ہو۔۔استغفراللہ ۔۔" دانین بھرپور ڈرامے بازی کرتے کوئے بولی۔
"تم کون سی اینجلینا جولی ہو۔۔"ارہاب جل کر بولا۔
"ہاں تو تم کون سا فواد خان ہو۔۔اس کو چھوڑو۔۔جہان ،سالار،فارس،سعدی،عالیان۔۔ان سب کے بال برابر بھی نہیں ۔۔بڑے آئے پھنے خان۔۔ہونہہ۔۔"دانین اپنے تمام ہیروز کے نام لیتے ہوئے اکڑ کر بولی جن کے بارے میں ارہاب کے اچھوں کو بھی علم نا تھا۔۔آہ۔۔۔ناول پڑھنے والی لڑکیاں بھی نا۔۔۔
"ابھی بھی سوتی نہیں کہا ۔۔بہت ہی عجیب انسان ہو بھئ۔۔" اور یہاں ارہاب کی بس ہو گئی تھی۔اگر اس کے دوست اس کو کسی کی اتنی باتیں سنتے ہوئے دیکھ لیتے تو غش کھا کر گر جاتے ۔۔.... ویسے بھی کسی کی کوئی بات میر ارہاب زمان برداشت کر لے ہوووں ناممکن... وہ لوگوں کی فضول باتیں سننا پسند نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کسی غیر بندے کو اپنے آگے زیادہ بولنے دیتا تھا وہ تو اس لڑکی کی ہمت پر حیران ہو گیا جو کہ بلاوجہ اس کو انتی سنا رہی تھی.....
"بس بہت ہو گیا مس کب سے میں تمہاری باتیں سن رہا ہوں اب بہت ہوا ہٹو میرے سامنے سے اتنا ٹائم نہیں ہے میرے پاس کہ تمہاری فضول باتیں سننے میں گزار دوں...."
ارہاب تمام تر شرافت اور تمیز سائیڈ پر رکھ کے غصہ سے بولا۔۔۔۔
"ایک تو تم.....تمیز نہیں ہے کہ خوبصورت لڑکیوں سے کیسے بات کی جاتی ہے۔۔"دانین نے چہرے پر آتے بال پیچھے کرتے ہوئے ایک شان سے کہا۔ جس پر ارہاب حیران نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
"کہاں۔۔یہاں تو کوئی خوبصورت لڑکی نظر نہیں آ رہی۔۔ہاں۔۔ایک ایلین جیسی مخلوق سامنے کھڑی ہے ۔۔آج تک ایلینز سے بات کرنے کا اتفاق نہیں ہوا تو زیادہ پتا نہیں کہ کیسے بات کرتےہیں ۔۔"ارہاب نے بھی حساب برابر کیا ۔
"تم ۔۔تم ایک تو مجھ پر. پانی گرا دیا اور اب آگے سے کول بن رہے ہو ہاں....."
"بنتا کیا ہوں میں ہوں......"ارہاب ذار قریب ہو کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مغرور انداز میں بولا۔دانین کی جگہ اگر کوئی اور لڑکی ہوتی نا تو اسکی اس ادا پر مر مٹ جاتی مگر یہاں مقابل ٹکر کا تھا۔
"تم. رکو ابھی بتاتی ہوں تمہیں...."
یہ کہہ کے دانین نے اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر ارہاب کو بہگو ڈالا....
" کیا بدتمیزی ہے یہ... "
ارہاب نے ایک نظر اپنے اوپر ڈالی اور پھر غصہ سے بولا......
" تم.... "
" ارے بھئی بس..... "
ابھی دانین کی بات بیچ میں ہی تھی کہ اتنے میں وہاں ایک لڑکی نمودار ہوئی دانین نے حیران نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا ۔کالے گھنے سیاہ بال، سفید رنگ، درمیانا قد، ہیزل رنگ آنکھیں۔۔ سفید رنگ کے گھٹنوں تک آتی فراک اور کالے رنگ کی جینز کے ساتھ سفید رنگ کے جوتوں میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس لڑکی نے دانین کے تاثرات کو دیکھ کر تھوک نگلا......
ابیہا تم تم ادھر کیا کر رہی ہو......"دانین حیران ہوتے ہوئے بولی ........
"دانی وہ پہلے تو بابا نہیں مان رہے تھے لیکن تمھارے لیے میں نے ضد کر کے ان کو منا لیا اور تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ تمھیں سرپرائز دوں گی..." ابیہا نے اپنی بات مکمل کر کے ان دونوں کی جانب دیکھا دانین تو جیسے اسے نظروں سے کھانے ارادہ رکھتی تھی ابھی وہ کچھ بولتی اس سے پہلے ہی ارہاب بیچ میں بول پڑا .....
" مس ابیہا سب سے پہلے تو آپ اپنی اس سائیکو فرینڈکو پاگل خانے چھوڑ کے آئیں کیونک ایسی مخلوق کو دیکھ کے یونی والے کہیں بھاگ نہ جائیں...."
ارہاب دانین پہ ظنز کرتے ہو تن فن کرتا وہاں سے نکل گیا اور دانین پیچھے منہ کھولے ہونقوں کی طرح اس کی پشت کو دیکھتی رہ گئی.....
دانی یارررر پانی میں نے پھینکا تھا تم نے بلاوجہ اس بچارے کو اتنی جلی کٹی سنا ڈالی.. " ابیہا نے افسوس سے کہا.....
" اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ میں اس چنگیز خان سے معافی مانگوں تو یہ تمھاری سوچ ہے کیونکہ دانین معافی صرف اس سے مانگتی ہے جس سے وہ محبت کرتی ہے اور اس چنگیز خان سے میری ایسی کوئی وابستگی نہیں ہے.. "دانین مغرور انداز میں بولی ابیہا اسکی چھوٹی سے عقل پہ ماتم کر کے ارہاب کے پیچھے دوڑی کہ اتنے میں دانین نے اسے آواز دے کر کہا....
" میں کینٹین جا رہی ہوں تم بھی وہیں آ جانا اپنے بگ برادر کو منانے کے بعد... "اور سر جھٹکتی کینٹین کی طرف چل دی۔
ارہاب کو ایڈمن آفس میں کچھ کام تھا اس لیے وہ وہی جا رہا تھا کہ اسے کسی نے پکارا وہ پیچھے مڑا تو اس کو ابیہا نظر آئی جسے دیکھ کر ارہاب نے گہرا سانس لیا....
"دو منٹ بات کرنی تھی آپ سے.. "ابیہا اس کے پاس آکر بولی...
" آپکی اس سائیکو فرینڈ نے کوئی کسر چھوڑ دی تھی کیا جو آپ پوری کرنے آگئی ہیں...." ارہاب بےزاری سے بولا..
"نہیں بھائی میں آپ سے سوری کرنے آئی ہوں وہ اصل میں پانی میں نے پھینکا تھا دانین پہ لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ میں نے پھینکا تھا اس لیے وہ آپ کو غلط سمجھ بیٹھی... سوری بھائی... "اس نے سارا سچ ارہاب کو بتا ارہاب کو بھی اس کا بھائی کہنا بہت اچھا لگا اوپر سے وہ اتنے پیار سے بول رہی تھی اس لیے ارہاب بھی پیار سے بولا
" کوئی بات نہیں ابیہا بھائیوں کو سوری نہیں کہتے... چلو بھول جاؤ ساری بات... "
ارہاب نے بھائیوں والے مان سے بولا تو ابیہا بھی مسکرا دی....
"آپ پکا ناراض نہیں ہیں؟؟؟؟ ابیہا نے کنفرم کرنا چاہا
" ہاں بھائی کی چھوٹی سی بہن میں نہیں ہوں ناراض اپنی بہن سے لیکن تمھیں سلامی ضرور پیش کرتا ہو جو تم اس آتش فشاں کے ساتھ گزار کرتی ہو..."ارہاب دانین کے بارے میں طنز کرتے ہوئے بولا...
" نہیں بھائی وہ اچھی ہے بس اسے غصہ جلدی آتا ہے.." وہ دانین کی سائیڈ لیتے پوئے بولی اگر دانین یہاں ہوتی تو ضرور غش کھا کےگر جاتی...
" اچھا چلو میں چلتا ہوں خچھ ضروری کام ہے کوئی کام ہو تو بھائی کو یاد کرنا.... "وہ اسکے سر پر ہاتھ پھرتے محبت سے بولا تو ابیہا اس کی بات سن کر مسکرائی اور پھر دونوں مخالف سمت میں چل دئیے......
***********
آج صبح سے وہ بور ہو رہا تھا کیونکہ آج اس نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ کوئی کارنامہ جو نہیں کیا تھا۔وہ سیٹی بجاتا اپنی بوریت دور کرنے کا سامان ڈھونڈ رہا تھا کہ اس کی نظر گیٹ سے اندر اینٹر ہوتی ہوئی گاڑی پر پڑی جسے کوئی لڑکی ڈرائیو کر رہی تھی ۔اپنے شکار کو دیکھ کر منان کی آنکھیں چمکیں۔اس لڑکی کو دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ وہ کافی جھنجھلائی ہوئی ہے اب یہ جھنجھلاہٹ پہلی دفع ڈرائیونگ کرنے کی ہے یا پھر یونیورسٹی کے پہلے دن کی یہ معلوم نہ تھا لیکن منان کی سکیننگ نظریں وینڈ سکرین کے پار بھی اس لڑکی کی پیشانی پر موجود شکنیں دیکھ سکتی تھیں۔گاڑی کو قریب آتے دیکھ منان صاحب کا شیطانی دماغ چلا اور وہ فوراً سے پہلے موبائل کان سے لگا کر پیٹھ موڑ کر کھڑا ہو گیا ۔اب حال کچھ ایسا تھا کہ منان گاڑی کے راستے میں حائل تھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی لڑکی ہارن پر ہارن بجاۓ جا رہی تھی جبکہ منان فون کان سے لگاۓ ایسا ظاہر کر رہا تھا جیسے اسے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ۔ وہ لڑکی گاڑی سے باہر نکلنے ہی لگی تھی کہ منان فون بند کرتا پلٹا ۔اس لڑکی نے اسے اشارے سے سائیڈ پر ہونےکو کہا مگر منان ڈھیٹ بنا وہیں کھڑا رہا ۔لڑکی نے ایک دو بار ہارن بجایا مگر اب وہ اتنی بچی نہیں تھی کہ منان کے چہرے پر زچ کرنے والی مسکراہٹ نا دیکھ سکتی۔وہ جو پہلے ہی تپی بیٹھی تھی غصے میں گاڑی سے باہر نکلی ۔
"واٹ دا ہیل ل ل۔۔۔۔"گاڑی کا دروازہ بند کرتے وہ بولی ۔ابھی بات اس کے منہ میں تھی کہ اس کی نازک سی ہیل ٹوٹی اور وہ زمین بوس ہو گئی ۔ اس کے ساتھ ہی منان کا جاندار قہقہہ گونجا۔وہ زمین پر اپنا پاؤں پکڑے بیٹھی تھی کہ منان اس کی طرف آیا ۔ نا جانے کیسے منان احساس کرتے ہوئے اسکے پاس آ بیٹھا ۔
"سوری۔۔میرا مقصد یہ نہیں تھا ۔۔" بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا ۔ وہ دونوں ہونٹ آپس میں بھینچے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ اس کے پاؤں میں شاید نہیں یقیناً موچ آ گئی تھی۔منان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔اس نے آنسوؤں سے بھری آنکھیں اٹھا کر منان کو دیکھا۔اور بس یہاں پر لوگوں کے دلوں کے ساتھ کھیلنے والے، محبت کا مزاق اڑانے والے، دوسروں کی محبت کی داستان سن کر قہقہہ لگانے والے" ایم ۔زی۔ " منان زیدی کا دل ان آنسوؤں سے بھری آنکھوں اور اس چہرے کی معصومیت کے سحر میں جکڑا جا چکا تھا ۔اس کے سینے میں دھڑکتا دل ہچکولے لے رہا تھا اور اسے چیخ چیخ کر محبت کا پیغام سنا رہا تھا
(گلاب آنکھیں، شراب آنکھیں
یہی تو ہیں، لاجواب آنکھیں
انہیں میں اُلفت، انہی میں نفرت
ثواب آنکھیں، عذاب آنکھیں
کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں
کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں
کسی نے دیکھی تو جھیل جیسی
کسی نے پائیں سراب آنکھیں
وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور! آنکھیں.. جناب! آنکھیں
عجیب تھا،گفتگو کا عالم
سوال کوئی، جواب آنکھیں
ہزاروں ان پہ قتل ہوئے
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں)اس نے سر جھٹک کر اس سحر سے نکلنے کی کوشش کی۔
"مس۔۔ہاتھ دیں"منان سنجیدہ مگر فکرمند انداز میں کھڑے ہوتے ہوئے بولا اور اپنا ہاتھ آگے کیا۔
"میرا نام مس نہیں نحل ہے۔"نحل نے اس کے مس کہہ کر مخاطب کرنے پر برا منہ بنا کر کہا۔
(اففف۔۔کیا جان لیوا ادائیں ہیں۔۔منان بیٹا تیرا تو اب اللہ ہی حافظ ہے۔۔... یہ تجھے کیا ہو رہ ہے بیٹا تو منان ہے منان ہوش کے ناخن لے۔۔)منان نے اس کے منہ بنانے پر دل دل میں ہی خود کو ڈپٹا۔
"اوکے مس نحل اب آپ یہاں زمین سے اٹھنا پسند کریں گی؟ نہیں تو سچ میں صرف ہاتھ میں کٹورے کی کمی ہے آتے جاتے لوگوں نے پیسے بھی پکڑا دینے ہیں۔" منان نے ہنستے ہوئے اس کی حالت کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے کہنے پر نحل اٹھنے ہی لگی تھی کہ اس کے پیر پر دباؤ پڑا جس کی وجہ سے وہ واپس پیر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
منان دوبارہ اس کے پاس بیٹھ گیا اور پھر سے اپنا ہاتھ آگے کیا۔نحل نے ایک نظر اس کے ہاتھ اور دوسری نظر اس کے چہرے پر ڈالی ۔
"میں اجنبیوں سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتی ، ہاتھ پکڑانا تو دور کی بات ہے۔"نحل نے ذرہ سنجیدہ ہو کر کہا اور دوبارہ سے اٹھنے کی کوشش کی مگر نا اٹھ سکی۔
"اجنبی؟؟چلیں یہ شکوہ بھی دور کر دیتے ہیں ۔۔منان نام ہے میرا ۔۔منان زیدی۔۔"منان نے فخر سے اپنا نام بتایا۔
"منان نام ہو یا بیمان ۔۔مجھے کیا ؟"نحل لاپرواہ انداز میں بولی۔
"انسان کو مضبوط ہونا چاہیے کٹھور نہیں ورنہ بعض اوقات نقصان اپنا ہی ہوتا ہے۔"منان نے اس کی اپنی مدد آپ کے تحت اٹھنے کی ناکام کوششوں کو دیکھتے ہوئے طنز کیا۔اس کا ہاتھ ابھی بھی نحل کے ہاتھ کا منتظر تھا۔
"انسان کو ثابت قدم ہونا چاہیے ضدی نہیں۔" نحل نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھ کر کہا جو اس کے منع کرنے کے باوجود وہیں تھا۔
منان نے کچھ کہنے کو لب کھولے ہی تھے کہ کسی کا ہاتھ سامنے آیا اور نحل نے اوپر دیکھ کر اس انسان کے ہاتھ کا سہارا لے کر اٹھنے کی کوشش کی ۔
اور منان وہیں کا وہیں تھا کیونکہ اسکی آنکھیں جو دیکھ رہی تھیں وہ دل ماننے سے انکاری تھا ۔وہ یہ بریسلٹ کیسے بھول سکتا تھا اور اس نے دل میں شدت سے دعا مانگی کہ کاش وہ غلط ہو مگر ہر بار وہی تو نہیں ہوتا نا جو آپ چاہتے ہیں ۔قسمت بھی کبھی کبھار ایسے کھیل کھیلتی ہے کہ اچھے اچھوں کی بازی پلٹ کے رکھ دیتی ہے۔کہتے ہیں نا دوسروں کو رلانے والے کو بھی ایک رلانے والا ہوتا ہے تو یہ بھی وہی تھا۔
×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××
To be continue....
Pehli koshish ha ghltian b hui hongi lkin apni rai ka izhar kijiyay ga hmari lyay bht qeemti hogi apki rai chahy achi ya buri ❤️❤️or han ya b batna k wo larki kon hy jis ko dekh k manan jese bande ki yh halt hu gai😂😂ok readers bye hum apko nhi janty so hum se mat puchiye ga k kon hy wo😂♥️
Apki piyari writes hifsa khattak / sarah isamzai
YOU ARE READING
یار دیوانے
Fantasyکہانی ہے دیوانوں کی۔۔انکی دوستی کی جو محبت، خلوص،احساس،پیار،ایثار سے جڑے ہیں۔۔دوستی ایک بے غرض رشتہ ہے۔۔نا لفظوں کا محتاج نا ملنے کا پابند ۔۔کیونکہ یہ رشتہ دل سے نہیں روح سے ہوتا ہے ۔۔داستان ہے مخلوق کی خالق سے رابطے کی درستگی کی۔۔داستان ہے اپنا آپ...