بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عسریسرا
آٹھویں قسط★★★★★ ★★★★★
کروٹوں پر کروٹیں بدلتی وہ کافی دیر تک بےآرام پڑی۔بمشکل بارہ بجے آنکھ لگی تو ڈیڑھ بجے کھل گئی۔اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اطراف میں نگاہ دوڑائی۔
پورا گھر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔سب ہی خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ایک وہی تھی جسے ایک پل کاآرام نہیں تھا۔
اس نے چپل ڈھونڈ کر پہنے ۔ کچن میں جا کر پانی پیا ، پھر فاطمہ پر ٹھیک سے لحاف ڈالتی سیڑھیوں کی طرف جا کھڑی ہوئی۔ سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔
نیچے سب سو رہے تھے تو اوپر وہ بھی یقیناً سو ہی رہا ہو گا۔کچھ دیر تک وہ شال کو کندھوں پر ڈالے گومگو سی کیفیت لیے اپنی جگہ کھڑی رہی۔
وہ فارس وجدان کو جگا کر بوا کی غیر موجودگی میں ہی اسکی آمد کی وجہ جاننا چاہتی تھی۔اور یہ کام وہ صبح سے پہلے پہلے کر لینا چاہتی تھی۔
جانتی تھی بوا مداخلت سے باز نہیں آئیں گی۔ وہ ان کے مابین صلح کی ہر ممکن کوشش کریں گی اور وہ یہ نہیں چاہتی تھی۔
اسی طرح خود سے الجھتی وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئی تھی۔ خیال تھا وہ سو رہا ہو گا،مگر کمرے کی لائٹ روشن تھی۔ اس نے کھڑکی کی اوٹ سے اندر جھانکا۔کمرہ خالی۔۔۔فارس ندارد!!
یہ کدھر گیا؟؟ یہاں وہاں نگاہ دوڑاتے وہ منڈیر تک گئی۔ اور یہیں سے اس نے سڑک کی طرف دیکھاجہاں اندھیرے میں گاڑی کا گمان ہو رہا تھا۔
کمرہ اور پھر صحن کا چکر کاٹ کر اچھی طرح سے جائزہ لیتی وہ دائیں طرف مڑی اور اگلے ہی لمحے کسی سے ٹکڑا گئی۔
خوف اپنی جگہ۔۔۔ جھٹکا دوسری۔۔۔ مگر جو چوٹ ناک پر لگی اسکا درد پورے جسم میں دوڑ گیا۔فارس نے اسے بازو سے پکڑ کر گرنے سے الگ بچایا۔
"آئرن مین کے سگے" ناک سہلاتے اس پر پھٹ پڑی۔" دیکھ کر نہیں چل سکتے!"
حالانکہ چل تو وہ رہی تھی۔ آئرن مین تو کھڑا تھا۔
"تم۔۔ٹھیک ہو؟!" کھانسی اور زکام کی شکایت لیے فارس کی آواز بھاری۔۔۔ تنفس بھی بھاری۔۔۔ اور دل بھی بھاری۔۔۔
"تیس سیکنڈ پہلے تک ٹھیک تھی۔"اس نے فارس کے بخار سے تپتے ہاتھ کی گرفت سے اپنا بازو چھڑایا۔" بلکہ سات گھٹنے پہلے تک بلکل ٹھیک تھی میں۔" تپ کر جھلا کر جواب دینے کے بعد اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ "تم یہاں کیوں آئے ہو؟"
وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ نیم تاریکی میں اس کے ہیزل عدسوں کا اب جیسے کوئی رنگ نہ تھا۔ صرف سیاہی ہی تھی۔۔ہر جگہ اور ہر طرف۔۔۔۔ اسکے تاثرات مبہم پیچیدہ تھے۔ نہ اسکی آمد سمجھ آ رہی تھی۔ نہ وہ اسکا دماغ پڑھ پا رہی تھی۔ کچھ تو ہوا تھا اسکی غیر موجودگی میں۔۔۔۔یقینا کچھ تو۔۔۔۔
یکایک کسی ممکنہ خدشے نے سر اٹھایا تو دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
"آنٹی ٹھیک ہیں ؟"پہلا خیال ہی مسز شیرازی کا آیا ۔پہلی فکر،پہلا خوف،پہلا اندیشہ ہی ان سے متعلق تھا۔ اسکی وجہ سے انہیں کتنی پریشانی ہوئی ہو گی۔ اپنے بیٹے کے معاملے میں ،اپنی پسند کو سوچ کر وہ کتنا ڈیپریس ہوئی ہوں گی۔
فارس کا سر اثبات میں ہلا۔ اسکی رکی ہوئی سانسیں بحال ہو گئیں۔صد شکر بات ان کی نہ تھی۔ صد شکر وہ خیر خیریت سے تھیں۔
"تو پھر۔۔۔۔؟؟"اس نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔
سرد ہوائیں سفیدے کے پتوں سے سرسرا کر گزریں۔ دھرتی پر پھیلا ہوا اندھیرا سمٹ گیا۔ چاندنی زمین پر اتر آئی۔ بادلوں کے آوارہ ٹکڑے سیاہی میں نمایاں ہوئے۔مگر جو خاموشی تھی وہ کچھ دیر تک ٹھہری ۔
"اس رات۔۔۔۔۔۔ " فارس کے لب ہلے۔مگر جملہ ادھورا رہ گیا۔ وہ کہنا چاہتا تھا وہ اسکا انتظار کر لیتی۔وہ کیسے کہہ دے وہ اسکے انتظار کر لیتی؟؟اسکا ہر لفظ بےوقعت ہو گیا۔ ہر بات، ہر دلیل،ہر حجت بےوزن ہو گئی۔باوجود کوشش کے وہ کچھ نہ کہہ سکا۔کچھ نہ بتا سکا۔
بات دل کی تھی۔۔۔ اور دل تک تھی۔۔۔ اسے زباں پر لانے کی طاقت نہیں رہی تھی۔ہمت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔نہ اعتراف کی سکت رہی تھی نہ معذرت کا حوصلہ رہا تھا۔ جانے وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی کو رلا کر آسانی سے معافی مانگ لیتے ہیں،اس سے تو نہیں ہو رہا تھا۔ بلکل نہیں ہو رہا تھا۔
اس نے اپنے اندر کی بےقراری پر قابو پاتے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ اسکے خیالات منتشر تھے۔ اسکی سوچ واہموں میں گھری ہوئی تھی۔ اسکا دل اندیشوں کے جالوں سے پر تھا۔درد اب ہر جگہ تھا۔ اندر باہر ایک سی کیفیت ہو رہی تھی۔
" اس رات جو ہوا مجھے اسکا بےحد افسوس ہے۔ " اسکے احساسات سے قطعی بےخبر جنت کمال کہہ رہی تھی ۔ " میں آنٹی کو کوئی بھی ٹنشن نہیں دینا چاہتی تھی لیکن فائزہ چچی اچانک آ گئیں۔۔ انہوں نے آنٹی کو میرے بارے میں سب بتا دیا!" شال کے کنارے سے کسی دھاگے کو کھینچتے ہوئے وہ آنکھوں میں افسوس اور ندامت لیے اس طرح سے بات کر رہی تھی جیسے وہ تمام کے تمام باتیں اسکی پوشیدہ حقیقتیں ،اسکی سچائیاں، اسکے اعمال تھے۔
جنت کمال کے سامنے کھڑا فارس وجدان موم کے پتلے کی طرح پگھلنے لگا۔ اسکا دل مٹھی میں جکڑا گیا تھا،اسکے سینے پر وزن بڑھ گیا تھا۔
"تم بہت اچھے ہو۔۔۔۔ بابا سے بھی اچھے!"اس کے کمرے کے عین وسط میں ایک سات سالہ بچی نے بازو پھیلا کر گول گول گھومتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا تھا۔
آن کی آن میں بہت سی باتیں،لہجے،طنز اور طعنے اسے یاد آ گئے۔ ہر وہ تلخ بات جو اس سے کر چکا تھا۔ہر وہ زخم جو لفظوں کی صورت اسے دے چکا تھا۔ کتنی چوٹیں تھیں۔ کتنا تشدد تھا۔ کتنی نفرت تھی۔ کتنا بڑا عذاب۔۔۔کتنی بڑی سزاء تھی یہ۔۔۔ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا اگر وہ تمام کی تمام باتیں جھوٹ ثابت ہوئیں تو؟؟
"میری وجہ سے آنٹی کو بہت دکھ پہنچا ہو گا،" وہ ابھی تک اسی غم میں تھی۔" اس کے لیے آئم ایکسٹریملی سوری!"
فارس وجدان کی ماں کو جو تکلیف اسکے وجود سے پہنچی۔۔۔ اسکی معذرت! بہت دل سے معذرت!!۔۔۔۔
اور وہ خاموش تھا۔بہت زیادہ خاموش۔۔۔اسے لگا وہ سانس بھی نہیں لے رہا۔۔۔
یکایک کسی خیال کے زہن میں آتے ہی اس نے شال کا سرا چھوڑ چھاڑ کر سر اٹھایا۔
"کہیں اب تم اس بات کا ایشو بنا کر مجھے کوئی "سزاء وزاء" دینے تو نہیں آئے؟" اب کے خاصی مشکوک نظروں سے اس نے فارس کو گھورا۔
ہوا کے زور سے بال پیشانی پر جھکے۔آنکھوں میں نمی تیر گئی۔جنت کے ساتھ ساتھ ہر منظر دھندلا گیا۔
" اب اگر تم نے کہا میں تمہیں طلاق نہیں دینا چاہتا،ساری عمر اسی طرح لٹکا کر رکھوں گا۔۔۔وغیرہ وغیرہ تو آئی سویئر میں خلع کے لیے کورٹ چلی جاؤں گی!" سخت لہجے میں دھمکا کر اس نے اپنے ارادے واضح کر دیئے۔
وہ اس پر نظریں جمائے منجمد سا کھڑا تھا۔جنت کمال اس سے کبھی نہیں ڈری تھی۔ نہ پندرہ سال پہلے۔۔۔ نہ پندرہ سال بعد۔۔۔۔!!
"اور اگر تم سمجھ رہے ہو کہ میں۔۔۔۔"
"ایک کپ چائے ملے گا!" اسے لگا۔۔اگر وہ اسے سنتا رہا۔۔بار بار۔۔ اسکے شک ۔۔اسکے شبہات۔۔اسکے سوالات کی زد میں کھڑا رہا تو فنا ہو جائے گا۔
جنت کمال نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔ یہاں اسکی جان پر بنی ہوئی تھی اور اس امیر زادے کو چائے کا کپ چاہیے تھا؟؟ وہ بھی رات کے ڈھائی بجے؟؟
دھتکار ،نفرت ایک طرف۔۔لحاظ اور مروت دوسری طرف۔ نوکروں کی فوج بہرحال یہاں نہیں تھی۔سلگ کر اسے دیکھا۔
صرف اس لیے کہ اسکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔ اور صرف اس لیے کہ وہ بوا کا "مہمان" تھا، وہ غصے سے پاؤں پٹختی کچن میں چلی گئی۔
"اپنی چہیتی بیوی کو ساتھ لانا تھا نا ان خدمت داریوں کے لیے!" بڑبڑاہٹ واضح تھی۔
وہ اس کے پیچھے دروازے میں آن کھڑا ہوا۔لبوں کو مسکراہٹ چھو کر گزری۔دل میں غم سا ٹھہر گیا۔
"مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی۔ جب تمہیں اپنی پہلی بیوی سے اتنی محبت تھی تو تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟ آنٹی نے گن پوائنٹ پر تو نکاح نہیں پڑھوایا تھا۔ تم انکار بھی تو کر سکتے تھے!"
خاموشی۔۔۔۔مکمل خاموشی۔۔
سلینڈر جلا کر کتیلی رکھی۔ دودھ ڈالا۔
"بھلے سے تمہیں برا لگے لیکن ایک بات ہے، تمھاری چوائس ہے بہت بری!" عدینہ زبیر ایک بار پھر اپنے تمام تر غرور ،حسن اور نزاکت کے ساتھ اسکے حواسوں پر چھا گئی تھی تو بھڑاس نکالنا ضروری ہو گیا تھا۔
"ممی کی چوائس اچھی ہے؟؟"
"ہاں بلکل!"وہ بےساختہ کہہ گئی مگر اگلے ہی لمحے پل۔جب سمجھ آیا کیا کہہ دیا ہے تو گالوں پر سرخی دوڑ گئ۔۔۔لب بھینچ کر خود کو دل ہی دل میں کوسا اور لب سی لیے۔کہ اب وہ کچھ نہیں بولے گی۔
خاموشی سے اسکی طرف پشت کیے چائے بنا کر کپ میں انڈیل کر مڑی تو کچن کے دروازے پر وہ نہیں تھا۔ اپنا مگ ساتھ رکھ کر وہ کمرے میں آ گئی۔ سامنے ہی وہ بیڈ پر ہلکی سی کھانسی کی زد میں بیٹھا تھا۔ ٹیشو کا پیک ہاتھ میں تھا۔ روشنی میں اب اس نے دیکھا تھا آنکھیں سرخ اور کنارے سوجے ہوئے لگ رہے تھے۔
اس نے چائے پیش کر دی۔
" بسکٹس نہیں ہیں؟"
وہ جانے کے لیے مڑی اور پھر ضبط کر کے پلٹی۔ بسٹکس کے ساتھ ایک گلاس پانی بھی رکھ دیا. اپنا مگ ہاتھوں میں لیے دروازے میں جا کھڑی ہوئی۔ چند لمحوں تک اسے گھورتی رہی کہ اب وہ کچھ بولے گا اور اپنی آمد کی وجہ بتائے گا مگر فارس وجدان چائے اور بسکٹس کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اسے مکمل نظر انداز کر چکا تھا۔وہ اندر تک سلگ اٹھی۔
"تمہیں پتہ ہے یہاں بوا کے گھر میرے لیے کتنے رشتے آ چکے ہیں؟" آخر اسے یہ باور بھی تو کرانا تھا کہ وہ کوئی گری پڑی لڑکی نہیں ہے۔ اور اگر فارس وجدان کو کئی لڑکیاں مل سکتی ہیں تو اسے بھی اپنانے والے بہت ہیں!
وہ چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھاتے ہوئے لمحے بھر کے لیے رکا۔
"بوا تو ہنس کر ٹال دیتی ہیں،انہیں ہمارے معاملات کا علم نہیں لیکن میں بہت غور کر رہی ہوں۔ایک رشتہ مجھے اپنے لیے مناسب لگا ہے۔ بوا کا دور پرے کا رشتہ دار ہے۔بیوی کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔ دو چھوٹی چھوٹی سی بیٹیاں ہیں۔ لڑکا بھی کوئی زیادہ بڑی عمر کا نہیں۔۔ تم سے طلاق کے بعد مجھے اپنے لیے بھی کچھ سوچنا ہے۔ اب میں کہانیوں کی ہیروئن کی طرح یہ نہیں کہہ سکتی کہ پلیز مجھے اپنا نام دے دو۔ میں ساری عمر اسی نام کے سہارے تنہا رہنا چاہتی ہوں بلا۔۔۔بلا۔۔۔بلا!!" باقاعدہ چہرے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ہاتھ جھلا کر کہا۔
چائے میں بسکٹ ڈبو کر منہ تک لے جاتے فارس نے رک کےر نظر اٹھائی۔بسکٹ ٹوٹ کر چائے میں گرا۔ اسکا دل بھی۔۔۔
مگ ہاتھوں میں لیے اس سے دس قدموں کے فاصلے پر اب وہ میز پر چڑھی بیٹھی تھی۔پیچھے کھڑکی پوری کی پوری کھلی ہوئی تھی۔ ہوا کے زور سے دوپٹہ ڈھلک کر کندھوں پر آ گرا تھا۔ شہد بالوں کی لٹیں پونی سے نکل کر چہرے کے اطراف میں ڈھیلی ہو رہی تھیں۔
"تمھارے لیے رشتے آ رہے ہیں؟"
"تو کیا نہیں آ سکتے؟" ابرو چڑھا کر پوچھا۔ وہ اپنی چائے کی طرف متوجہ ہو گیا۔جنت کمال نہیں بدلی تھی۔
"ویسے میں تم سے کچھ دنوں تک رابطہ کرنے والی تھی۔ میرا سامان بھی تمھارے گھر رہ گیا ہے۔ تم نے کہیں پھینکوا تو نہیں دیا؟"ناک اونچی کر کے ظاہر کیا اسے تو اب صرف اپنے سامان سے مطلب ہے۔
ایک اور بسکٹ ٹوٹ گیا۔ آدھا جو منہ میں گیا اسکی مٹھاس ختم ہو گئی۔ اس نے پانی کے چند گھونٹ بھرے۔ بسکٹ کا دوسرا پیک کھولا۔
"آنٹی کو معلوم ہے تم یہاں آئے ہو؟"
وہ خاموش رہا۔
اور یہ خاموشی جنت کے دل میں کرب اتار گئی۔ظاہر ہے اگر وہ انہیں بتاتا تو وہ کیا وہ اسے آنے دیتیں؟؟اس جیسی لڑکی کی اب ان کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ اس بات پر رنجیدہ ہوتی ہوں گی کہ انہوں نے فارس کے لیے اس کا انتخاب کیوں کیا؟
" تم یہاں کیوں آئے ہو؟" گھوم پھر کر وہی سوال۔۔۔ مگر وہ جواب نہیں دے رہا تھا۔ نہ طنز ،نہ طعنے ، نہ کوئی سخت بات، نہ کوئی تضحیک آمیز رویہ۔۔۔نہ تلخ لہجہ۔۔۔
فارس وجدان اب کیا کرنے والا تھا؟وہ فکروں میں پڑ گئی۔
کافی دیر تک جب وہ کچھ نہ بولا تو نوٹ بوک کا صفحہ پھاڑ کر ،اس میں اپنی کچھ چیزیں درج کر کے وہ اس کے پاس آ گئی۔
" یہ تمھارے لیے بےشک کچرا ہو گا مگر مجھے میری چیزیں بہت عزیز ہیں۔ اس لیے اپنے کسی ملازم کے ہاتھ بھجوا دینا!"
فارس نے صفحہ لے لیا۔ فولڈ کر کے اس کے ارسلان بھائی کی قمیض کی جیب میں رکھ دیا۔ وہ تپ گئی۔ لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔پھر انہی بگڑے تیوروں کے ساتھ جانے کے لیے مڑی ہی تھی کہ فارس نے ہاتھ تھام لیا۔
"تمھاری بوا کہہ رہی تھیں کوئی بات ہے جو تم مجھے بتانا چاہوں گی؟"
وہ اپنی جگہ پتھر ہوئی۔ چہرے کا رنگ فق ،آنکھیں نم،پلکیں بھاری ہو گئیں۔
"کچھ نہیں!!" بھرائی ہوئی میں کہہ کر اس نے ہاتھ چھڑانا چاہا۔ گرفت سخت نہیں تھی مگر اتنی نرم بھی نہیں کہ وہ آزاد ہو سکتی۔
"میرا ہاتھ چھوڑو!"آن کی آن میں اسکے تاثرات بدل گئے تھے۔ وہ تحملی سے بات کرتے ہوئے بھی غصے کی انتہا پر لگ رہی تھی۔فارس نے چند لمحوں کے لیے اسے پشیمانی سے دیکھا۔
اسے اس نہج پر لانے والا وہ خود تھا۔فاصلوں کی دیوار اس نے خود قائم کی تھی۔ نرمی کو اپنی تلخی سے نوچا تھا۔ امید کو اپنے لفظوں سے مارا تھا۔
نازک کلائی گرفت سے آزاد ہو گئی۔ اس نے ٹرے اٹھایا اور کمرے سے نکل گئی۔ کچن میں دیوار سے لگ کر ، کئی بار اپنی آنکھوں کو مسلا، لب بھینچ کر ، گال رگڑ کر خود کو سنبھالا، خود کو سمجھایا کہ جس راستے پر وہ گامزن تھی،وہ اسکا اختیار کردہ ہرگز نہیں تھا۔یہ مقدر کی چال تھی۔ نفرتیں ، دھتکار اور بلاوجہ کی عداوتیں اس راستے کا خاصہ تھیں جو اسے کچھ لوگوں کی بےرخی سے عنایت ہوا تھا۔
فارس وجدان عدینہ زبیر کا تھا، اسکے دل پر عدینہ زبیر کی حکمرانی تھی۔ اسکی زندگی میں جنت کمال کی کوئی گنجائش نہ پہلے تھی، نہ اب ہو سکتی تھی۔ جو طے ہو چکا تھا اسے قبول کر کے اسے ہر صورت اپنے سفر کو جاری رکھنا تھا۔اسے کمزور نہیں پڑنا تھا۔
وہ نیچے چلی گئی۔اپنی چارپائی پر لیٹ کر ،آسمان کو دیکھتے وہ مسلسل اپنے رونے پر قابو پاتی رہی۔
فارس کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ہرگز نہیں آنا چاہیے تھا۔اسکے سکون میں خلل پڑ چکا تھا، اسکے لائحہ عمل میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ وہ اسکے بچے کا باپ تھا۔ جتنی نفرت وہ اس سے کرتا تھا،وہ اولاد کے معاملے میں بھی اب اسے کسی نئے امتحان میں ڈال سکتا تھا۔
کروٹ پر کروٹ بدلتے رات گزر گئی۔ دن بیدار ہوا۔ صبح کی نماز پڑھ کر سونے کی کوشش کی تو آنکھ لگ گئی۔۔ کچھ گزشتہ شب کی بےخوابی تھی کہ وہ دن چڑھے تک سوتی ہی رہی۔
دس بجے اس کی آنکھ کھلی تو سورج سوا نیزے پر آ چکا تھا۔ صحن میں دھوپ ہر کونے تک پہنچی ہوئی تھی۔دروازہ بند تھا،کھڑکیوں کی درز سے نیم تاریکی میں روشن لکیریں نمایاں ہو رہی تھیں۔
پہلا خیال اسے فارس کا ہی آیا ۔دماغ از سر نو الجھن گیا۔ ٹنشن شروع ہو گئی۔ اٹھ کر باہر گئی تو معلوم ہوا وہ تو صبح سے پہلے پہلے یہاں سے جا چکا ہے۔
جنت اپنی جگہ بےیقین کھڑی رہ گئی۔
" ضرور تو نے ہی اسے کچھ کہا ہو گا!" صابرہ بوا اس سے سخت خفا تھیں۔"تیری وجہ سے وہ بخار میں گھر چھوڑ کر چلا گیا۔"
بےدلی سے دہی کے ساتھ پراٹھا کھاتے ہوئے وہ آنکھوں میں ابھرتی نمی کو پرے دھکیلتی رہی۔ بوا کے سوال، انکا غصہ، انکی ناراضگی اور ساری سچویشن کو کسی طور نہ سمجھنے کا یہ عمل اسے شدید اذیت سے دوچار کر رہا تھا۔
اب کیا وہ اسکے پاؤں پکڑتی تاکہ وہ اسے طلاق نہ دے؟خود کو جتنا بےمول کرنا تھا وہ کر چکی تھی۔ محبت سے، اخلاق سے، خدمت داری سے اس رشتے کو بچانے کی جتنی کوشش اس نے کرنی تھی کر لی تھی۔ اب تو کچھ بھی نہیں بچا تھا۔۔ نہ محبت ، نہ عزت ، نہ ہمت، نہ سکت اور حوصلہ تو بلکل بھی نہیں۔۔اب تو برداشت بھی اپنی آخری حد کو چھو رہی تھی۔وہ پھر سے کسی امتحان میں نہیں پڑنا چاہتی تھی۔ پھر سے کوئی غلط قدم نہیں اٹھانا چاہتی تھی۔ مگر بوا۔۔۔۔
صندل آپا ارسلان بھائی کے ساتھ گھر میں داخل ہوئیں تو وہ چپ ہو گئیں۔لیکن آنکھوں سے واضح کر دیا کہ ان کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ سارا دن وہ پریشانی میں مبتلا یہاں وہاں ٹہلتی رہی۔ سکون تو کسی پل نہیں تھا۔ آخر وہ کیوں آیا تھا؟ اور معاملات کلیئر کیے بغیر کیوں چلا گیا تھا؟ انکے مابین طلاق کا فیصلہ ہونا تھا۔تو ایسے کیسے وہ خاموشی سے جا سکتا تھا؟؟؟ اس پر متزاد یہ کے اسکے سامان کی لسٹ بھی یہیں چھوڑ گیا تھا۔۔
شام کو بوا کمرے میں آئیں تو وہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد بیڈ پر نیم دراز بیٹھی تھی۔ اخبار سامنے ہی کھلا پڑا تھا۔ زہن الجھا ہوا تھا اور نگاہیں خلاء میں کہیں بھٹک رہی تھیں۔
"اس نے بتایا نہیں وہ دوبارہ کب آئے گا؟" تہہ کیے ہوئے کپڑے الماری میں اندر رکھتے ہوئے انہوں ہنوز خفگی سے پوچھا۔ اس نے گردن موڑ کر انہیں مضطرب نگاہوں سے دیکھا۔انکی سوچ ابھی بھی وہیں تھی۔
"ہو سکتا ہے کچھ دنوں تک وہ مجھے طلاق کا نوٹس بھجوا دے۔" ہمت مجتمع کر کے اس نے کہہ دیا۔اب بھلے سے بوا سخت ناراض ہوں اسے پرواہ نہیں تھی۔ وہ کچھ باتیں ان پر ہر صورت واضح کر دینا چاہتی تھی۔
"مگر طلاق تو نہیں ہو سکتی۔۔۔"الماری بند کر کے بوا اسکی طرف مڑیں۔
"ہو جاتی ہے بوا!عورت حمل سے ہو تب بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ "
"مگر وہ شیدو تو یہی کہہ رہی تھی کہ نہیں ہوتی۔۔۔۔" اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق جو انہوں نے سن رکھا تھا کہہ دیا تھا۔
بیڈ سائڈ ٹیبل سے قرآن اٹھا کر اس نے مطلوبہ سورت ڈھونڈی ،اور پھر مطلوبہ صفحہ کھولا، مطلوبہ آیت پر اپنی انگلی رکھی۔
"یہ دیکھیں ۔۔۔ یہاں لکھا ہے۔۔"اور حمل والیوں کی عدت ان کے بچہ جننے تک ہے،"(سورہ طلاق)..... یہ آیت مطلقہ اور بیوہ دونوں کے بارے میں ہے بوا۔طلاق ہر صورت ہو جاتی ہے!"
دلیل قرآن سے تھی،بوا کے پاس نفی یا انکار کی کوئی گنجائش نہ رہی ۔ اب وہ الجھن میں کھڑی تھی۔ فکر نے از سرنو گھیر لیا تھا۔ معاملہ انہیں سلجھتا ہوا اب ہرگز نظر نہیں آ رہا تھا۔لیکن انہیں اپنی طرف سے ہر ممکن سعی کرنی تھی۔
کچھ سوچ کر وہ اس کے پاس بیڈ آ بیٹھیں۔
"تو نے اسے خوشخبری تو سنا دی تھی؟"
جنت کا دل بھاری ہوا۔ نظریں جھک گئیں۔ کس قدر کوشش سے اس کا سر نفی میں ہلا۔
صابرہ بوا ہق دق اسے دیکھ کر رہ گئیں۔ جنت یہ کیا کر رہی تھی؟
"تو اس بات سے اسے کیسے بےخبر رکھ سکتی ہے جنہ؟؟ کیسے؟؟یہ اسکے ساتھ زیادتی ہے بیٹا!"
"اور جو زیادتیاں میرے ساتھ ہوئیں وہ؟؟" صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔آواز بھرا گئی،" مجھے اسکے ساتھ اب نہیں رہنا تو کیا زبردستی ہے؟" وہ اس لمحے بہت پریشان۔۔مضمحل۔۔اور شکست خوردہ سی لگ رہی تھی ۔ بوا کے دل کو کچھ ہوا۔
" میں پہلے سے بہت مشکل میں ہوں اور آپ۔۔۔۔ آپ اس طرح کی باتیں کر کے مجھے اور مشکل میں ڈال رہی ہیں!" اسکی آنکھوں میں آنسو جمع ہو گئے ۔
اسے ترحم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بوا نے بہت نرمی سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
" عورت کو رشتہ نبھانے کے لیے بہت قربانی دینا پڑتی ہے بچے! یہ شادی ۔۔عمر بھر کا ایک فیصلہ ہوتا ہے۔اسے یوں جزبات میں آ کر نہیں توڑا جاتا۔گھر بسانے کے لیے عورت کو بہت کچھ برداشت کرنا ہے!"
اس نے سر اٹھا کر تکلیف دہ نگاہوں سے بوا کو دیکھا۔بات گھر بسانے، رشتہ نبھانے اور برداشت کی انتہاء پر جانے کی تھی۔ بوا کو اندازہ ہی نہیں تھا فارس وجدان کے ساتھ اپنے اس رشتے کو بچانے کے لیے اس نے کیا کچھ برداشت نہیں کیا تھا۔
اسکا صبر، اس کا تحمل،اسکا انتظار کیا ابھی بھی ناکافی تھا؟وہ خود مٹ چکی تھی مگر اسکا صبر باقی رہنا چاہیے؟ اسکی ہمت،اسکی برداشت۔۔اسکا تحمل باقی رہنا چاہیے؟ یہ کیسی منطق تھی؟یہ کیسا طریقہ تھا؟
کتنی ہی دیر تک وہ اپنے آپ سے الجھتی رہی۔ اندر ہی اندر خود کو نوچتی کھسوٹتی رہی۔ محاسبہ شروع ہو چکا تھا۔پانچ سالوں کا موازنہ پانچ مہینوں سے ہونے لگا تھا۔
برھان ایک طرف تھا تو فارس وجدان دوسری طرف۔۔۔وہ دو گھروں کے درمیان۔۔۔ ایک ویران گلی میں تنہا لاوارث کھڑی تھی۔ دروازے دونوں طرف سے بند تھے۔ اور وہ خود کو جانچ رہی تھی۔ دل میں جا کر ،روح کی گہرائیوں میں اتر کر، ماضی کی تکلیفوں کو سہتے ہوئے، مستقبل کا خوف اٹھاتے ہوئے۔۔۔۔۔
اسکے اندر کی الجھنیں بڑھ گئیں۔ سوال بڑھ گئے۔اضطراب بڑھ گیا۔
سر اٹھا کر اس نے بوا کو دیکھا۔ اب تک جانے وہ گھر بسانے سے متعلق اسے کتنے گر بتا چکی تھیں۔ان کے لب متحرک تھے۔ آنکھوں سے ایک آس چہرے سے امید جھلک رہی تھی۔ وہ بہت پیار سے اسے سمجھا رہی تھیں۔
"بوا ایک بات تو بتائیے۔"وہ ایک لمحے کو خاموش ہوئیں تو اس نے اخبار سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ ذرا س آگے سرک کر ان کے قریب ہوئی۔ " عورت نکاح نامے پر سائن کس لیے کرتی ہے؟" نم آنکھوں میں ایک سادہ سا سوال لیے وہ اب ان سے پوچھ رہی تھی۔بوا کو اسکا سوال سمجھ نہ آیا۔ "ذلت؟....دھتکار؟.....بےعزتی؟..طنز؟....تحقیر؟....محرومیوں کے لیے؟کیا یہ سب برداشت کرنے کے لیے شادی کی جاتی ہے؟ اسی عذاب کو جھیلنے کے لیے "قبول ہے" کہا جاتا ہے؟"
بوا کو سکتہ سا ہوا۔ لبوں کو جنبش دے کر کچھ کہنا چاہا مگر آواز نے ساتھ نہ دیا۔ جنت یہ کیا پوچھ رہی تھی؟ اس نقطے کی طرف کیوں جا رہی تھی جس نقطے سے یہ رشتہ آغاز پکڑتا تھا۔ وہ ایجاب و قبول کی گھڑی۔۔جب دو لوگ ایک ہوتے تھے؟اور جب دو لوگ ایک ہوتے تھے تو رشتہ نبھانے کے معاملے میں وہ "دو" الگ کیوں ہو جاتے تھے؟؟ سفر کا سارا بوجھ صرف ایک کے کندھے پر کیوں آ جاتا تھا؟رشتہ بچانے کی ساری محنت پھر کسی ایک فریق کو کیوں کرنی پڑتی تھی؟؟
"شادی ہمارے نبی کی سنت ہے۔ کیا ہمارے نبی کی سنت یہ کہتی ہے اپنی عزت فنا کر دیں۔اپنا وجود مٹا دیں۔ اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھائیں اور ظلم برداشت کریں۔۔اور مرتے دم تک کرتے جائیں؟"
بوا بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گئیں۔
"آپ ہی مجھے سمجھا دیں یہ گھر بسانے کا ، رشتہ نبھانے کا کونسا طریقہ ہے بوا؟ "اسکی آواز کپکپائی، "عورت نفسیاتی مریضہ ہو جائے اور اف تک نہ کرے؟اندر سے مر جائے،مٹ جائے،فنا ہو جائے لیکن آہ تک نہ کرے؟"
وہ بائیس سالہ جنت کمال۔۔ڈاکٹر مصطفیٰ کی نواسی۔۔۔
تتلیوں کے پیچھے بھاگنے والی۔۔پریوں کی باتیں کرنے والی۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔ اور بوا اسے دیکھ رہی تھیں۔ اسے سن رہی تھیں۔ وقت اور حالات نے اسے کتنا بڑا کر دیا تھا۔اسکی سوچ کتنی پختہ ہو گئی تھی۔ اسکی باتوں میں کتنا وزن آ گیا تھا۔ تسلی دینے کو، تشفی کرنے کو ان کے پاس ایک لفظ بھی تو نہیں رہا تھا۔ جو کچھ وہ سہہ آئی تھی اور جن حالات سے گزر کر وہ ان تک پہنچی تھی۔۔۔۔۔ وہ اسکا سفر، اسکا راستہ ،اسکی مجبوری سمجھے بغیر اسکی ہر بات کیسے رد کر سکتی تھیں؟ کیسے جھٹلا سکتی تھیں؟؟ کیسے؟؟
"میں نے برھان کے ساتھ پانچ سال گزارے ہیں بوا۔۔۔ میں نے اسکے لیے اسکے گھر والوں کی ہر نفرت برداشت کی ہے ۔ ہر طنز ،ہر طعنہ۔۔ خود پر لگنے والے الزامات ۔۔سب کچھ۔۔میں نے "برداشت" اور "صبر" سے اپنا گھر بسانا چاہا تھا۔ اور بدلے میں اس نے مجھے کیا دیا۔۔۔ ؟؟طلاق!!؟" اس نے رک کر انکی آنکھوں میں جھانکا۔ "پانچ سالوں کا ساتھ تھا ہمارا۔۔۔۔ اس نے مجھے پانچ سیکنڈمیں آزاد کردیا۔میں اسکے گھر والوں کو "برداشت" کر رہی تھی۔ وہ بھی تو مجھے "برداشت" کر سکتا تھا؟ میں اس کی بےرخی پر صبر کر رہی تھی۔ وہ بھی تو مجھ پر "صبر" کر سکتا تھا؟ وہ جانتا تھا میرا کوئی نہیں ہے۔۔ وہ اچھی طرح سے جانتا تھا مجھے تو میری سگی ماں بھی قبولنے کو تیار نہیں۔۔اس کے باوجود اس نے۔۔۔اس نے مجھے طلاق دے دی۔مجھے اپنے گھر سے نکال دیا۔۔۔۔۔اس نے میرے منہ پر جو تھپڑ مارا اسکی جلن مجھے آج تک محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔۔"اسکا چہرہ آنسوؤں سے مکمل تر ہو چکا تھا.
"اس نے رویہ بدلا، ترجیحات بدلیں، حقوق بدلے ، میری جگہ کسی اور کو دی۔۔میرا وقت کسی اور کو دیا۔۔۔میرا حق کسی اور کو دیا اور میں خاموش رہی۔۔۔۔۔آخر کس لیے؟؟؟"اسکی آواز بھیگی۔" صرف اس لیے کہ۔۔میرا گھر بچا رہے۔۔۔۔مجھے بتائیے میرا وہ گھر پھر کیوں نہیں بچا؟کیوں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر میری آنکھوں کے سامنے بکھر گیا؟"
جنت کے آنسو ،اسکی سسکیاں،اسکا درد ،اسکے سوال انہیں تکلیف پہنچا رہے تھے۔ وہ آنکھوں میں نمی لیے اسے دکھ سے سن رہی تھیں۔
" مجھے اب خود سے نفرت ہوتی ہے بوا، غصہ آتا ہے میں خاموش کیوں رہی۔میں نے یہ سب کیوں ہونے دیا۔۔میں نے خود کو اتنا کیوں جھکایا؟ اتنا کیوں گرایا؟امیں نے اپنے حق کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ اگر میں وقت سے پہلے خود کوئی سٹپ اٹھا لیتی۔۔۔ اگر میں خود.۔۔برھان سے الگ ہو جاتی۔۔۔ تو امی ۔۔۔۔ امی کم از کم اس صدمے سے تو نہ مرتیں کہ ان کی بیٹی ایک قاتلہ ہے،۔۔۔۔ یہ ڈرامہ۔۔یہ ہنگامہ تو نہ ہوتا بوا! میری وجہ سے میری بہنیں امی سے جدا تو نہ ہوتیں۔۔میری طرح وہ بھی یہ رشتہ تو نہ کھوتیں۔۔۔ "
بوا نے بےساختہ اسکا ہاتھ تھاما۔ وہ اسے مزید روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
" میں نے اپنے اور فارس کے رشتے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے بوا۔آپ خود بتائیں۔۔۔۔ کون لڑکی چاہے گی اسکی دوسری شادی بھی ختم ہو جائے؟ اسے دوسری بار بھی طلاق ہو جائے؟؟"آواز نے ساتھ چھوڑا تو اس نے آنکھیں رگڑ کر صاف کیں۔ "میں نے یہاں بھی صبر کیا ہے۔۔۔۔بہت صبر کیا ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ یہ گھر بھی آپ کی جنہ کا نہیں ہے!۔۔۔آپ کی جنہ اس دوسرے مرد کی بھی نہیں ہے بوا!"
انکا دل کرچی کرچی ہوا۔وہ آبدیدہ ہو گئیں۔ کون کہہ سکتا تھا ،زندگی سے بھرپور ہنستی مسکراتی لڑکی کا نصیب ایسا ہو گا؟ اسکے راستے میں ایسے پہاڑ آئیں گے۔۔ ایسی آزمائشیں ۔۔ اور ایسے امتحان!
"نانا کہا کرتے تھے، صبر حالات پر کیا جاتا ہے۔۔ ظلم پر نہیں۔۔۔ظلم انسان تب برداشت کرے۔ جب اسکے پاس بچاؤ کا کوئی راستہ نہ ہو۔"
ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کر کے۔ چہرے کے اطراف میں سیدھا گرتی لٹوں کو اس نے کان کے پیچھے کیا۔
اسکی ناک ،گال ،آنکھیں گلابی ہو رہی تھیں لیکن وہ متحمل لگ رہی تھی۔ جیسے اس نے خود کو سنبھال لیا ہو۔
" میں نے جو غلطی پہلے کی۔وہی غلطی دوبارہ نہیں دہرانا چاہتی۔ آپ یہ مت سمجھیں کہ جزبات میں لیا ہوا فیصلہ ہے۔ جزبات میں ایسا کرنا ہوتا تو بہت پہلے کر لیتی۔منجہاں میری کوئی جگہ نہیں وہاں میں زبردستی جگہ نہیں بنانا چاہتی۔اپنی اولاد کو استعمال کر کے تو۔۔۔ بلکل بھی نہیں۔۔۔"
بات ختم ہو چکی تھی۔ وہ اٹھ کر باہر چلی گئی تھی۔
اپنے اندر بہت سی خاموشیاں لیے صابرہ خاتون اپنی جگہ گم صم اپنی بیٹھی رہ گئی تھیں۔
★★★★★★★★
★★★★★★★★
★★★★★★★★
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...