★★★★★★★★
دروازے لاک ہو چکے تھے۔ گاڑی اسٹارٹ تھی تقریبا۔۔مگر ابھی حرکت میں نہیں آئی تھی۔اندر باہر سناٹا سا چھایا تھا۔۔ایک مکمل خاموشی دونوں کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔
وہ فکروں میں گھری شیشے کا رخ کیے بیٹھی تھی۔ناخن انگلی تلے دبائے۔۔۔شال کے اندر مٹھی سختی سے بند کیے۔۔۔
"کیا حال ہے؟" برابر میں بیٹھے فارس وجدان نے خاموشی توڑی۔
"مجھ سے کوئی بات مت کرو!"
"یہ سوال میں نے۔۔کسی اور سے بھی پوچھا ہے!"
جنت کا چہرہ سرخ پڑا۔"ہم سے کوئی بات مت کرو!"
اور جس استحقاق سے اس نے "ہم" کہا،وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔ اپنی قسمت ،اپنا نصیب اسے آج سے پہلے کبھی اتنا اچھا نہیں لگا تھا۔
"لیکن میں کرنا چاہتا ہوں!" اس نے کہا۔
عدیل احمد کی گاڑی برابر سے گزر کر آگے ہوئی تو اس نے سٹیرنگ وہیل پر گرفت جمائے ایک بار پھر رخ موڑ کر جنت کو دیکھا۔ سینے پر بازو باندھے وہ کھڑکی کی طرف رخ کیے بیٹھی تھی۔ چہرہ اوجھل تھا۔خفا آنکھیں باہر کہیں تاریکیوں سے الجھ رہی تھیں۔
"تم نے مجھ سے پوچھا نہیں وہ سرپرائز کیا تھا جو میں کراچی سے واپسی پر تمہیں دینا چاہتا تھا؟" وہ آہستگی سے گویا ہوا۔
" پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ جب وہ سرپرائز خود چل کر میرے سامنے آ گئی تھی۔۔۔ "جل کر جواب دیتے ہوئے اب کے اس نے اپنا رخ فارس کی طرف موڑا۔ "بائے دا وے مسٹر شیرازی! میں صرف آنٹی کی وجہ سے گھر جا رہی ہوں۔ تمھارے ساتھ جو میری ڈیل ہوئی تھی وہ ابھی بھی قائم ہے۔میں نے تو آنٹی سے کہہ دیا ہے ،بھلے سے تمھاری دوسری شادی ہو، تیسری شادی ہو،چوتھی شادی ہو۔۔ آئی ریئلی ڈونٹ کیئر!!! مجھے صرف اپنی طلاق سے غرض ہے!"
خاموشی سے اسکی پوری بات سن لینے کے بعد وہ تمام تر توجہ ڈرائونگ پر مرکوز کر چکا تھا۔ہمیشہ کی طرح اسکا پرسکون رویہ جنت کو اندر تک سلگا گیا۔
"اور گاڑی میں بھی اس لیے بیٹھی ہوں۔۔کیونکہ انہوں نے مجھ سے کہا۔۔۔اس لیے نہیں کہ میں بیٹھنا چاہتی تھی۔۔۔۔تمھارا تو مجھے پتہ ہے۔۔تم تو یہی سوچو گے۔۔۔تمھاری ساری پلیننگز کا بیڑہ غرق جو ہو چکا ہے۔۔۔ "وہ شروع ہو چکی تھی۔
"کچھ لو گی؟" فارس نے عقبی نشست کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔پیچھے کھانے کے پیک کیے لوازمات رکھے تھے جو مسز شیرازی گھر سے لائی تھیں۔ اپنی بات قطع ہو جانے پر اس نے سرد نظروں سے اسے دیکھا پھر غصے سے رخ موڑ گئی۔"ڈونٹ ٹاک ٹو می!"
وہ دکھ سے مسکرایا۔ جانتا تھا بات کرنا چاہے گا تو وہ الجھ پڑے گی، یا کانوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگ جائے گی۔ اور وہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔ ان آنکھوں نے بہت رو لیا تھا۔ اب اور نہیں۔۔۔۔
ان کے مابین ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔جنت نشست کے ساتھ پشت ٹکائے ایزی ہو کر سامنے دیکھ رہی تھی۔ گاڑی میں روڈ پر سرعت پکڑے ہوئے تھی۔ آس پاس اندھیرے میں روشنیاں بکھیرتی گاڑیاں گزر رہی تھیں۔
ڈرائونگ کرتے ہوئے وہ ہر تھوڑی دیر بعد اسکی طرف دیکھتے ہوئے جیسے تسلی کر لیتا تھا۔ حقیقت کو خواب ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟سکا خوف ،اسکا خدشہ ،اسکی تمام تر اذیتیں اپنی جگہ قائم تھیں۔ شیشے کے ساتھ پیشانی ٹکائے۔۔کسی گہری سوچ۔۔ کسی گہرے خیال میں گم جنت نے آنکھیں موند لی تھیں۔ زندگی نے ایک بار پھر راستوں کا تعین کر لیا تھا۔منزل ابھی بھی دھندلی تھی۔بےنام اور غیر واضح سی تھی۔ انجام ابھی بھی نہیں بدلا تھا۔فرق حالات پر پڑا تھا۔۔نفسیات پر بھی۔۔۔اعصاب پر بھی۔۔۔
اسکے کندھے کسی بوجھ سے جھکے نہیں جا رہے تھے۔ دل سے جیسے کوئی ثقیل شئے ہٹ گئی تھی۔ وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا سا محسوس کر رہی تھی۔ ماضی ہنوز جڑا ہوا تھا مگر ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اسکی تکلیف اسے اپنے حال کا احاطہ کرتی ہوئی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ یہ خوشی چند لمحوں کی ہی سہی۔۔ یہ سکون کچھ پل کا ہی سہی۔۔۔۔لیکن ملا تو سہی۔۔۔۔ وہ مسز شیرازی کو ایک بار پھر سوچنے لگی تھی۔
غموں کے بادل پوری طرح سے نہیں چھٹے تھے مگر اسے آسمان ابھی سے۔۔بہت اجلا۔۔بہت نیلا نظر آنے لگا تھا۔ وہ کچھ ادھورے خوابوں کو آنکھوں میں سجائے آنے والے کل کو سوچ رہی تھی۔۔۔ادھوری تصویر کا ایک حصہ مکمل ہونے والا تھا۔
پرسکون خاموشی میں اسکی آنکھیں آہستگی سے بند ہونے لگیں۔سختی سے بند انگلیوں کی گرفت ڈھیلی پڑی۔ شال کے ایک سرا کندھے سے سرک کر پہلو میں آن گرا۔ باہر ہلکی ہلکی سی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔
فارس کے ساتھ واپسی کا ہر سفر ایسے ہی بادلوں سے اور بارشوں سے گھرا رہتا تھا۔ اور کسے علم تھا۔۔واپسی کے اس سفر میں وہ دو نہیں تین ہوں گے؟؟ وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔۔ اور فارس وجدان اپنی نگاہیں روڈ پر جمائے یکسوئی سے ڈرائونگ کرتا رہا۔
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...