سخاوت کی بہترین مثال
بھائ مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں.....مجھے شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے.....اس کا علاج شہد سے ممکن ہے ۔*
*افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے.....ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے.....لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا ، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے.....وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں.....مجھے امید ہے ، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے ۔*
*ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے ۔*
*آخر قافلہ آتا نظر آیا ۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے ۔*
*انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا : جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں ، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں ۔*
*غلام نے یہ سن کر کہا : آقا ! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا : تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں ۔*
*یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا : آقا ! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا ۔ اس پر آقا نے کہا : تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو ۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ ضرورت مندان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا ۔*
*وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا ، یہ شخص کس قدر سخی ہے ، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا ۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے ۔ مٹکے ہی نہیں ، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے ۔*
*اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا : جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے ، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے ، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے ۔ اس کی کیا وجہ تھی ۔*
*غلام نے جواب دیا : آقا ! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہےگا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا ، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا : اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئ اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے ۔ اس لیے میں نے دوڑ لگادی ۔
*اس پر آقا نے کہا : اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
*جواب میں غلام نے کہا : آقا ! میں آزادی نہیں چاہتا ، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے ، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا ۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔
*آپ کو معلوم ہے ۔ یہ آقا کون تھے ۔ یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے..!!
رضی اللہ تعالیٰ عنہ