سور چربی کی تاریخ
ڈاکٹر ایم امجد خانہر مسلمان کے لئے یہ پڑھنا بہت ضروری ہے
یورپ سمیت تقریبا تمام امریکی ممالک میں گوشت کے لئے بنیادی انتخاب سور ہے۔ اس جانور کو پالنے کے لئے ان ممالک میں بہت سے فارم ہیں۔ * صرف فرانس میں ، پگ فارمز کا حصہ 42،000 سے زیادہ ہے۔ *
کسی بھی جانور کے مقابلے میں سور میں زیادہ مقدار میں FAT ہوتی ہے۔ لیکن یورپی اور امریکی اس مہلک چربی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس چربی کو ٹہکانے لگانا ان مملک کے محکمہ خوراک کی زمداری ہوتی ہے ۔ اس چربی کو ختم کرنا محکمہ خوراک کا بہت بڑا سردرد تھا۔
اسے ختم کرنے کے لیئے باضابطہ طور پر اسے جلایا گیا، لگ بھگ 60 سال بعد انہوں نے پھر اس کے استعمال کے بارے میں سوچا تا کہ پیسے بھی کمائے جا سکیں ۔ صابن بنانے میں اس کا تجربہ کیا گیا اور یہ تجربہ کامیاب رہا۔شروع میں سور کی چربی سے بنی مصنوعات پر contents کی تفصیل میں pig fat واضح طور پر مصنوعات کے لیبل پر درج کیا جاتا تھا۔
چونکہ ان کی مصنوعات کا بہت بڑا خرہدار مسلمان ممالک ہیں اور ان ممالک کی طرف سے ان مصنوعات پر پابندی عائد کر دی گئی ، جس کے نتیجے میں ان کو تجارتی خسارہ ہوا۔وقت کے ساتھ اگر آپ 1857 میں چلے جائیں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت رائفل کی یورپ میں بنی گولیوں کو برصغیر میں سمندر کے راستے پہنچایا گیا۔ وہاں پہنچنے میں مہینوں لگے اور سمندر کی نمی کی وجہ سے اس میں موجود بندوق کا گن پاؤڈر خراب ہوگیا اور گولیاں ضایع ہو گئیں۔
اس کے بعد گولیوں کو محفوظ کرنے کے لئے سور کی چربی کی پرت گولیاں پر لگانے لگے ۔ گولیوں کو استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے اس چربی کی پرت کو نوچنا پڑتا تھا۔ جب یہ بات پھیل گئی کہ ان گولیوں میں سور کی چربی کا استعمال ہوا ہے تو فوجیوں نے جن میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سبزی خور ہندو تھے نے لڑنے سے انکار کردیا ، جو آخر کار خانہ جنگی کا باعث بنا۔ یورپی باشندوں نے ان حقائق کو پہچان لیا ، اور PIG FAT لکھنے کے بجائے ، انہوں نے FIM لکھنا شروع کر دیا۔1970 کے بعد سے یورپ میں رہنے والے تمام لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ جب ان کمپنیوں سے مسلمان ممالک کے حکام نے پوچھا کہ یہ کیا ان اشیا کی تیاری میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ھے اور اگر ھے تو کون سی ہے تو ، ان کو بتایا گیا کہ ان میں گائے اور بھیڑ کی چربی ہے۔ یہاں پھر ایک اور سوال اٹھایا گیا ، کہ اگر یہ گائے یا بھیڑ کی چربی ہے تو پھر بھی یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے ، کیونکہ ان جانوروں کو اسلامی قانون کے مطابق حلال طریقہ سے زبح نہیں کیا گیا تھا۔
اس طرح ، ان پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی۔ اب ان کثیر القومی کمپنیوں کو ایک بار پھر کا نقصان کاسامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کی آمدنی کا بڑا حصہ مسلم ممالک کو اپنا سامان بیچنے سے حاصل ہوتا تھا۔
آخر کار انہوں نے کوڈڈ زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ، تاکہ صرف ان کے اپنےمحکمہ فوڈ کی ایڈمنسٹریشن کو ہی پتہ چل سکے کہ وہ کیا استعمال کر رہے ہیں ، اور عام آدمی اندھیرے میں ہی رہے۔ اس طرح انہوں نے ای کوڈز کا آغاز کیا۔ یوں اجکل یہ E-INGREDIENTS کی شکل میں کثیر القومی کمپنیوں کی مصنوعات پر لیبل کے اوپر لکھی جاتی ہیں ،
ان مصنوعات میں
دانتوں کی پیسٹ، ببل گم، چاکلیٹ، ہر قسم کی سوئٹس ، بسکٹ،کارن فلاکس،ٹافیاں
کینڈیڈ فوڈز
ملٹی وٹامنز اور بہت سی روائیاں شامل ہیں چونکہ یہ سارا سامان تمام مسلمان ممالک میں اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے
سور کے اجزاء کے استعمال سے ہمارے معاشرے میں بے شرمی ، بے رحمی اور جنسی استحصال کے رحجان میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ھےلہذا تمام مسلمانوں اور ل سور کے گوشت سے اجتناب کرنے والوں سے درخواست ھے کہ وہ روزانہ استعمال ہونے والے ITEMS کی خریداری کرتے وقت ان کے content کی فہرست کو لازمی چیک کرلیا کریں اور ای کوڈز کی مندرجہ ذیل فہرست کے ساتھ ملائیں۔ اگر نیچے دیئے گئے اجزاء میں سے کوئی بھی پایا جاتا ہھو تو ، پھر اس سے یقینی طور پر بچیں ، کیونکہ اس میں سور کی چربی کسی نہ کسی حالت میں شامل ہے۔
* E100 ، E110 ، E120 ، E140 ، E141 ، E153 ، E210 ، E213 ، E214 ، E216 ، E234 ، E252 ، E270 ، E280 ، E325 ، E326 ، E 327 ، E334 ، E335 ، E336 ، E337 ، E422 ، E41 ، E431 ، E432 ، E433 ، E434 ، E435 ، E436 ، E440 ، E470 ، E471 ، E472 ، E473 ، E474 ، E475 ، E476 ، E477 ، E478 ، E481 ، E482 ، E483 ، E491 ، E492 ، E493 ، E494 ، E549 ، E542 E572 ، E621 ، E631 ، E635 ، E904 *
ڈاکٹر ایم امجد خان
میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، ریاستہائے متحدہ امریکہ👈براہ کرم اس وقت تک شیئر کرتے رہیں جب تک کہ وہ بلائنس آف مسملز ورلڈ وائڈ پر نہ آجائیں۔
یاد رھے کہ شیئرنگ صدقة جاريه میں گردانی جا سکتی ھے