’’تم یقین کرو میں سانس کی نعمت سے واقف ہی نہیں تھا‘ کورونا کا بھلا ہو‘ یہ آیا اور اس نے مجھے نعمتوں سے جوڑ دیا‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ یہ ’’موسٹ پریکٹیکل‘‘انسان ہیں‘ قسمت‘ قدرت اور خدا پر یقین نہیں رکھتے‘کوشش کو بے انتہا اہمیت دیتے ہیں‘ بزنس مین ہیں‘ پوری زندگی پیسہ کمایا اور پیسہ جوڑا لیکن پھر اچانک ان کا رویہ 180 درجے بدل گیا‘ یہ اب روز اللہ کا نام بھی لیتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا ورد بھی کرتے ہیں‘ نماز بھی پڑھتے ہیں اوران کا دل بھی بہت نرم ہو چکا ہے۔ اتوار کے دن میرے پاس تشریف لائے اور دو گھنٹے میرے پاس بیٹھے رہے‘ ہر لمبی سانس کے ساتھ ’’یا اللہ تیرا شکر ہے‘‘ کہتے تھے اور اوپر دیکھتے تھے‘ میں نے ان سے پوچھا’’عزیز بھائی خیریت ہے‘ آپ بالکل ہی تبدیل ہو گئے ہیں‘‘ وہ بولے ’’کورونا کی مہربانی ہے‘ میں وبا کا شکار ہوا‘ سانس بند ہونے لگی‘ بچے اسپتال لے گئے‘ علاج ہوتا رہا‘ ڈاکٹروں نے آخر میں آئی سی یو میں ڈال دیا‘ اسپتال پرائیویٹ تھا‘ روزانہ ایک لاکھ سولہ ہزار روپے خرچ ہوتے تھے۔ میں بیس دن اسپتال رہا‘ اللہ نے رحم کیا‘ موت کی سرحد چھو کر واپس آگیا‘ ڈس چارج ہوتے وقت بل دیکھا تو 31 لاکھ روپے تھا‘ میں نے ڈاکٹر سے کہا‘ آپ مجھے 20 دنوں میں جو ادویات اور سہولتیں دیتے رہے کیا آپ مجھے اس کا بریک ڈاؤن دے سکتے ہیں‘ڈاکٹر پریشان ہو گئے‘ میں نے زور دیا تو وہ مان گئے۔
نیا بل سامنے آیا تو پتا چلا مجھے 9 لاکھ روپے کی آکسیجن لگی تھی بس یہ دیکھنے کی دیر تھی‘ میں نے وضو کیا‘ دو نفل پڑھے اور اپنے پروردگار کا شکر ادا کیا‘ یہ روز مجھے550لیٹر آکسیجن بھی دیتا ہے اور اس آکسیجن کو پھیپھڑوں تک پہنچانے اور واپس نکالنے کا بندوبست بھی کرتا ہے اوراس کے بعد مجھے کوئی بل بھی نہیں بھجواتا‘ آپ جاوید تصور کرو 20 دن تک آکسیجن پھیپھڑوں تک پہنچانے اور نکالنے کا خرچ 9 لاکھ روپے اور ٹوٹل خرچ 31 لاکھ روپے تھا جب کہ ہمارا اللہ ہمیں یہ سہولت روزانہ مفت دیتا ہے‘ ہم پر اس کا کتنا کرم کتنی مہربانی ہے؟‘‘ میں نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگایا‘ آسمان کی طرف دیکھا اور دیر تک اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہا۔ میرے ایک سینئر دوست ہیں‘ سیاست دان ہیں‘ سینیٹر ہیں‘ بہت پڑھے لکھے‘ تجربہ کار اور سمجھ دار انسان ہیں‘ میں ہفتے دس دن بعد کافی کے دو مگ لے کر ان کے پاس پہنچ جاتا ہوں‘ ان کے ساتھ ان کے لان میں بیٹھتا ہوں‘ کافی اور ان کی گفتگو انجوائے کرتا ہوں‘ میں پچھلے ہفتے ان کے پاس گیا تو شاہ صاحب نے ارشاد احمد حقانی مرحوم کے بارے میں ایک واقعہ سنایا‘ ارشاد احمد حقانی پاکستان کے سینئر صحافی اور کالم نگارتھے‘ ایک معاصر میں کالم لکھتے تھے‘ میری پوری نسل ان کے کالم پڑھ کر جوان ہوئی اور ان سے لکھنا سیکھا‘ شاہ صاحب نے بتایا میں 1998 میں ایران جا رہا تھا‘ ارشاد احمد حقانی سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے پوچھا‘ کیا آپ مشہد بھی جائیں گے؟ میں نے عرض کیا ’’جی جاؤں گا‘‘ انھوں نے فرمایا ’’آپ میرے لیے وہاں خصوصی دعا کیجیے گا‘‘ میں نے وعدہ کر لیا لیکن اٹھتے ہوئے پوچھا ’’آپ خیریت سے تو ہیں؟‘‘ حقانی صاحب دکھی ہو کر بولے ’’میری بڑی آنت کی موومنٹ رک گئی ہے‘ پاخانہ خارج نہیں ہوتا‘ میں روز اسپتال جاتا ہوں اور ڈاکٹر مجھے بیڈ پر لٹا کر مشین کے ذریعے میری بڑی آنت سے پاخانہ نکالتے ہیں اور یہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے‘‘ شاہ صاحب نے اس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگایا‘ توبہ کی اور کہا ’’ہمیں روز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ہم اپنے منہ سے کھا بھی سکتے ہیں اور ہمارا کھایا ہوا ہمارے پیٹ سے نکل بھی جاتا ہے ورنہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں اور نہ نکال سکتے ہیں‘‘ یہ بات سن کر مجھے بے اختیار چوہدری شجاعت حسین یاد آگئے‘ چوہدری صاحب خاندانی اور شان دار انسان ہیں‘ میرے ایک دوست چند دن قبل ان کی عیادت کے لیے گئے‘ چوہدری صاحب خوش تھے اور بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے‘ میرے دوست نے صحت کے بارے میں پوچھا تو چوہدری صاحب نے جواب دیا ’’میں بہت امپروو کر رہا ہوں‘ میں اب اپنے منہ سے کھا بھی لیتا ہوں اور اپنے پاؤں پر کھڑا بھی ہو جاتا ہوں‘‘ دوست نے پوچھا ’’ آپ کی حالت اس سے پہلے کیسی تھی؟‘‘ چوہدری صاحب بولے ’’میری ٹانگیں میرا بوجھ نہیں اٹھاتی تھیں اور میرے پیٹ میں ٹیوب لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر مجھے اس کے ذریعے کھلاتے تھے‘ میں منہ کے ذائقے کو ترس گیا تھا‘ الحمد للہ میں اب تھوڑا تھوڑا کر کے کھا بھی لیتا ہوں اور چل پھر بھی سکتا ہوں‘‘ چوہدری صاحب میٹنگ کے بعد اٹھے اور مہمان کو دروازے تک چھوڑ کر آئے اور وہ اس سے بے انتہا خوش تھے‘ مجھے اسی طرح ملک کے ایک اور نامور سیاست دان نے بتایاتھا‘ آصف علی زرداری نے انھیں کھانے کی دعوت دی‘ یہ دعوت پر پہنچے تو ٹیبل پر درجنوں کھانے لگے تھے۔ ان کے بقول میں نے اپنی پلیٹ اٹھائی تو زرداری صاحب کا سیکریٹری آیا اور ان کا کھانا ان کے سامنے رکھ دیا‘ چھوٹی چھوٹی کولیوں میں تھوڑی سی بھنڈی‘ دال‘ ابلے ہوئے چاول اور آدھی چپاتی تھی‘ زرداری صاحب نے چند لقمے لیے اور خانساماں ٹرے اٹھا کر لے گیا‘ میں نے ان سے ان کی سادہ خوراک کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنس کر بولے ’’میری خوراک بس بھنڈی اور سادہ چاول تک محدود ہے‘ میں ان کے علاوہ کچھ نہیں کھا سکتا‘‘ میں نے پوچھا ’’ کیا آپ گوشت نہیں کھاتے‘‘ وہ دوبارہ ہنسے اور بولے ’’میں گوشت کھا ہی نہیں سکتا‘‘ میرا بہت دل چاہا میں ان سے وجہ پوچھوں لیکن احترام کی وجہ سے خاموش رہا‘ میں کھانا کھا کر واپس آگیا لیکن آپ یقین کریں میں اس کے بعد جب بھی کھانا کھانے لگتا ہوں تو مجھے زرداری صاحب کی ٹرے یاد آ جاتی ہے اور میں کھانا بھول جاتا ہوں۔ میں بے شمار ایسے لوگوں سے واقف ہوں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اقتدار‘ شہرت اور پیسے سے نوازا‘ ان کی ہاں سے سیکڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل جاتی ہیں اور ناں سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے قدموں سے زمین کھینچ لیتی ہے لیکن یہ خود اپنی قمیص پہن سکتے ہیں اور نہ اتار سکتے ہیں‘ یہ جھک کر اپناجوتا بھی نہیں پہن سکتے‘ میں بینک کے ایک مالک کو جانتا ہوں‘ یہ صبح جاگتا ہے تو چار بندے ایک گھنٹہ لگا کر اسے بیڈ سے اٹھنے کے قابل بناتے ہیں‘ یہ اس کے پٹھوں کا مساج کر کے انھیں اس قابل بناتے ہیں کہ یہ اس کے جسم کو حرکت دے سکیں۔
اس کی گاڑی کی سیٹ بھی مساج چیئر ہے‘ یہ سفر کے دوران اسے ہلکا ہلکا دباتی رہتی ہے اوران کے دفتر اور گھر دونوں جگہوں پر ایمبولینس ہر وقت تیار کھڑی رہتی ہے‘ آپ دولت اور اثرورسوخ دیکھیں تو آپ رشک پر مجبور ہوجائیں گے اور آپ اگر اس کی حالت دیکھیں تو آپ دو دوگھنٹے توبہ کرتے رہیں‘ پاکستان میں ہوٹلز اور موٹلز کے ایک ٹائی کون ہیں‘ صدرالدین ہاشوانی‘ یہ پانچ چھ برسوں سے شدید علیل ہیں‘ ڈاکٹر اورفزیو تھراپسٹ دونوں ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں‘ ان کے پرائیویٹ جہاز میں ان کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ فزیو تھراپسٹ دنیا جہاں سے ان کے لیے فزیو تھراپی کی مشینیں تلاش کرتے رہتے ہیں‘ مجھے جرمنی کے شہر باڈن جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ مساج اوردیسی غسل کا ٹاؤن ہے‘ شہر میں مساج کے دو دو سو سال پرانے سینٹرہیں اور دنیاجہاں سے امیر لوگ مالش کرانے کے لیے وہاں جاتے ہیں‘ چھ چھ ماہ بکنگ نہیں ملتی ‘ آپ وہاں لوگوں کی حالت دیکھیں تو آپ کی نیند اڑ جائے گی‘ مریض کے پروفائل میں دس دس بلین ڈالر کی کمپنی ہوتی ہے لیکن حالت دیکھیں گے تو وہ سیدھا کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں ہوتا‘ہم انسان ایک نس کھچ جانے کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتے‘ ہم چمچ تک نہیں اٹھا پاتے اور نگلنے کے قابل نہیں رہتے‘ یہ ہماری اصل اوقات ہے۔ میں ایک بہت ہی عام انسان ہوں‘ میری اچیومنٹس اے کے برابر بھی نہیں ہیں لیکن چند دن قبل میرے ساتھ بھی دو واقعات پیش آئے اور انھوں نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا‘ میں 22 سال سے مسلسل واک کر رہا ہوں‘ میرے لیے دس پندرہ کلومیٹر عام سی بات ہوتی تھی‘ میں خود کو ’’سپر فٹ‘‘ بھی سمجھتا تھا‘ خوراک انتہائی کم تھی اور دماغ پر سکون‘ لائف اسٹائل پیس فل اور دن میں دو بار ایکسرسائز اور رات کے وقت واک لیکن پھر ایک دن چلتے چلتے میرے گھٹنے نے میرا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا‘ ٹانگ میں شدید درد ہوا اور میں چلنے پھرنے سے تقریباً لاچار ہو گیا۔ اللہ کا کرم اور رحم ہے فزیو تھراپی کی وجہ سے میں اب نارمل ٹریک پر واپس آ رہا ہوں لیکن یہ واقعہ مجھے میری اوقات سمجھا گیا‘ مجھے چند منٹوں میں پتا چل گیا اللہ کے اس سسٹم میں میری فٹ نس اور احتیاط دونوں بے معنی ہیں‘ دوسرا واقعہ اس سے بھی خوف ناک تھا‘ میں نے گولی نگلنے کی کوشش کی اوروہ میرے حلق میں اٹک گئی‘ وہ دس سیکنڈ میرے گلے میں پھنسی رہی‘ آپ یقین کریں وہ دس سیکنڈ میری زندگی کا مشکل ترین دورانیہ تھا۔ میں نے اس دوران موت کو بالکل اپنے سامنے دیکھا ‘ وہ مشکل وقت بھی گزر گیا‘ گولی بھی حلق سے پیٹ میں چلی گئی لیکن وہ دس سیکنڈ مجھے میری اہمیت‘ وقعت اور اوقات سب کچھ بتا گئے‘ میں اس کے بعد ہر لمحہ اٹھتے بیٹھتے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور روز صبح جاگتے ہوئے اور رات سوتے وقت اللہ کی نعمتیں شمار کر کے سوتا اور جاگتا ہوں‘ آپ بھی اللہ کی مہربانیاں گنتے رہا کریں اور ان لوگوں سے بھی ملتے رہا کریں جن کو دوا‘ ڈاکٹر اور اسپتال تینوں سہولتیں دستیاب ہیں لیکن وہ اللہ کے رحم سے محروم ہیں چناں چہ کھا سکتے ہیں‘ اٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی بیٹھ سکتے ہیں‘صرف بے چارگی سے دائیں بائیں دیکھ سکتے ہیں۔