وہ دوکان سے سامان لے کر نکل رہی تھی کہ اسکی نظر دور روتے بچے پر پڑی جس کے پاس ایک مرد کھڑا اس سے کچھ کہہ رہا تھا۔۔ دانین کو لگا کہ شاید وہ بچہ اس آدمی کی وجہ سے رو رہا ہے ۔اسے اس آدمی کے ارادے ٹھیک نا لگے تو اس نے فوراً بچے کی طرف قدم بڑھائے۔
"کون ہیں آپ؟؟ اور اس بچے کے پاس کیا کر رہے ہیں ؟؟ یہ بچہ اتنا رو کیوں رہا ہے؟کیا کہا ہے آپ نے اس سے؟؟"دانین نے نان سٹاپ سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔مقابل کی پیشانی پر سلوٹیں مزید بڑھیں کیونکہ وہ اس آواز کو پہچان چکا تھا۔
اسکے جواب نا دینے پر دانین گھوم کر اسکے سامنے آئی اور سامنے ارہاب کو دیکھتے وہ منہ کھولے اسے دیکھتی رہی۔
"تم؟ تم نے پارٹ ٹائم بچوں کو اغوا کرنا بھی شروع کر دیا ہے کیا؟دانین نے حیرت سے اسکی طرف دیکھتے کہا جو آسمانی رنگ کی شرٹ اور بلیو جینز میں غضب ڈھا رہا تھا اور چہرے پر ہمیشہ کی طرح بیزاریت طاری کیئے اسکو دیکھ رہا تھا۔۔
"دیکھو تم اپنے کام سے کام رکھو ۔۔ ہر جگہ نظر آ کر بندے کا دماغ گھما دیتی ہو۔۔"ارہاب نےتمام تر لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔
دانین اسکے لہجے میں چھپی نا گواری واضح طور پر محسوس کر چکی تھی۔مگر فی الوقت اس کا دھیان بچہ کی جانب تھا جو مسلسل رو رہا تھا۔
"بیٹا یہ ڈریگن جیسے انکل آپ سے کیا کہہ رہے تھے؟؟" دانین نے جھک کر پیار سے بچے کے گال پر سے آنسو صاف کرتے پوچھا۔
"آنٹی یہ انکل تو اتنے پالے(پیارے) ہیں آپ انہیں ڈیگن(ڈریگن) کوں (کیوں )بول رہی ہیں۔۔"بچے نے رونا بند کر کے دانین کی بات کا جواب دیا۔دانین تو بچے کے سامنے زبردستی مسکرائی لیکن دل میں ارہاب کی خوب برائیاں کیں۔ارہاب نے بچے کے منہ سے اپنی تعریف اور دانین کے چہرے پر ناگواری دیکھ کر اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا اور نیچے پاؤں کے بل بیٹھ کر بچے کو چاکلیٹ پکڑائی اور اس کے گال پر بوسہ دیا۔
"بیٹا جو خود جنات کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں نا وہ دوسروں کو بھی وہی سمجھتے ہیں۔۔آؤ ہم آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔۔" ارہاب نے دانین پر طنز کرتے بچے کا ہاتھ پکڑا جسے جھٹ سے دانین نے دوسرا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
اب منظر ایسا تھا کہ بچے کا ایک ہاتھ دانین اور دوسرا ارہاب نے پکڑ رکھا تھا۔۔بچہ کبھی ایک کو دیکھتا تو کبھی دوسرے کو جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو آنکھوں میں غصے لیے دیکھ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں تم بچے کا ہاتھ چھوڑو۔
یہ دیکھتے پاس سے گزرتے ایک کپل نے آپس میں سرگوشی کی"ماشاءاللہ پرفیکٹ فیملی" جسے وہ دونوں بخوبی سن چکے تھے۔یہ سنتے ان دونوں کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے لیکن وہ کپل جا چکا تھا۔
(اس سڑے ہوئے کریلے سے میں کر ہی نا لوں شادی ہونہہ۔۔) دانین نے دل میں سوچا۔
("یہ مس آتش فشاں اور میری بیوی ۔۔ہونہہ امپوسیبل۔۔")ارہاب نے سوچتے سر جھٹکا اور بچے کا ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگا جب دانین نے ایک دم سے شور مچا لیا۔
"ارے بھائی سنیئے سب ۔۔یہ بندہ اس بچے کو زبردستی اپنے ساتھ لے جا رہا ہے ۔۔"دانین کی پکار سنتے آس پاس سے گزرتے لوگ وہیں آگئے۔۔کچھ ہی لمحوں میں وہاں لوگوں کا رش لگ چکا تھا۔
"اوئے تمہاری اتنی جرأت ۔۔۔ٹھہر جا ابھی پولیس کو کال کرتے ہیں۔۔"بھیڑ میں سے ایک بندہ بولا۔
"ارے پہلے بچے سے ہی پوچھ لو۔۔" بھیڑ میں سے ایک عورت نے مشورہ دیا۔سب کی نظریں بچے پر تھیں۔
ایک عورت جھک کر پیار سے پوچھتے بچے سے بولی،"بیٹا۔۔یہ بیڈ انکل آپ کو کڈنیپ کر رہے تھے کیا؟؟" جس پر ارہاب نے ہاتھ کو کھول کر دوبارہ بند کیا جیسے ضبط کر رہا ہو۔
"نو آنٹی۔۔یہ انکل تو اتنے اچھے ہیں۔۔آپ سب انکو برا کوں(کیوں) کہہ رہے ہیں۔۔میری مما گم ہو گئی ہیں یہ میری ہیلپ کر رہے تھے۔۔" بچے نے ذرا خفا لہجے میں دانین اور اس عورت کی طرف دیکھتے جواب دیا۔
"جی بالکل یہ بچہ مجھے روتا ہوا نظر آیا تو میں اسے چپ کروانے کے لیئے آ گیا۔۔لیکن آپ سب ایک چلتے پھرتے پاگل کی بات کا اعتبار کر کے مجھ پر چڑھ دوڑے ۔۔"ارہاب نے سخت لہجے اور آنکھوں میں غصہ لیئے دانین کی طرف دیکھتے اپنی بات جاری رکھی۔
"حقیقت جانے بغیر دوسروں کے بارے میں اچھی یا بری رائے قائم مت کیا کریں۔۔" ارہاب نے دانین کو سناتے اپنی بات پوری کی ۔اتنے میں ایک عورت بھاگتی ہوئی آئی اور اس بچے کو گلے سے لگا لیا۔
"کہاں چلے گئے تھے آپ بیٹا ۔۔" وہ عورت جو یقیناً بچے کی ماں تھی پچے کو سینے سے لگائے بولی۔
"بہت شکریہ آپ دونوں کا ۔۔آپ نے میرے بچے کی حفاظت کی۔۔اللہ پاک آپکی جوڑی سلامت رکھے۔"بچے کی ماں نے ارہاب اور دانین کو دیکھتے کہا کیونکہ دونوں نے بچے کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے۔
اس عورت کی یہ بات سنتے دانین اور ارہاب دونوں کو جیسے کرنٹ لگا اور دونوں نے بچے کے ہاتھ چھوڑ دیئے اور حیران ہوتے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
وہ عورت ان کا شکریہ ادا کرتی اپنے بچے کو لیئے چل دی ۔۔لوگوں کو ہجوم بھی چھٹنے لگا تھا کہ جاتے جاتے دانین سے ایک بندے نے بولا۔"بی بی ۔۔۔شور مچانے سے پہلے بات کی تہہ تک تو چلی جایا۔۔فضول میں تماشا لگا دیا۔۔"اس کی بات سن کر دانین کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا اور ارہاب نے غصیلی نگاہ اس پر ڈالتے لفٹ کی جانب قدم بڑھا دیئے۔۔دانین نے اسے روکنا چاہا کیونکہ اسے اپنے غلط کا اندازہ ہو گیا تھا مگر وہ تو یہ جا وہ جا۔دانین بھی منہ بناتے ابیہا لوگوں کی طرف چل دی۔
¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶
وہ چاروں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھے تھے۔ منان ارہاب کی کمر سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اسی طرح ارہاب منان کی کمر کا سہارا لیئے بیٹھا تھا۔ان کے ساتھ ہی بدر اور اسفند بھی اسی پوزیشن میں بیٹھے تھے۔ان سب کے چہرے پر بوریت واضح تھی۔
درخت کا سایہ اس گرمی کی تمازت میں اپنے سائے سے انہیں کچھ سکھ پہنچا رہا تھا۔منان بور ہوتے ہوئے ٹیڑھی میڑھی شکلیں بنا کر سیلفیز لے رہا تھا۔۔ارہاب فون میں گھسا ہوا تھا ساتھ ہی ہینڈزفری لگائے نا جانے کیا سن رہا تھا۔۔اسفند آنکھیں بند کیئے بیٹھا بدر سے ٹیک لگائے ہوئے تھا اور بدر۔۔۔وہ ادھر ادھر نظرین گھماتے کچھ سوچ رہا تھا۔
"ارےےے۔۔۔یہ کیا تم لوگ سڑی ہوئی شکلیں بنائے بیٹھے ہو۔۔۔مجھے سکون نہیں مل رہا۔"بدر بیزاریت سے کہتا اٹھا تو اس کے سہارے آنکھیں بند کیئے اسفند جو بیٹھا تھا جھٹکے سے زمین سے لگا۔یہ سب اچانک سے ہوا تو اسفند کو سنبھلنے کا موقع نا ملا اور اس نے خوب کوسا بدر کو۔۔
"تیرے اندر نا جانے کون سا فیچر انسٹال ہے کہ تو سکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔۔۔انکل آنٹی نے بھی تجھے ڈاؤنلوڈ کرنے سے پہلے ایک پل کے لیئے دوسروں کے سکون کا نہیں سوچا جو تجھے راس نہیں آتا۔۔"اسفند کمر سہلاتے ہوئے بدر سے بولا ۔
"یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ایک خطرناک قسم کا پیدائشی وائرس ہے اس لیئے اس کے تمام فیچرز صحیح سے کام میں نہیں آ رہے اور یہ دوسروں کی لائف کرپٹ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔۔"منان بھی موبائل بند کرتا انکی جانب متوجہ ہوا ۔
"فلحال میرے سسٹم کو شدید قسم کی پنگے بازی اپڈیٹ کی ضرورت ہے یاروں۔۔کچھ کرو۔۔" بدر ارہاب کے ہینڈزفری کھینچتا ہوا بولا۔
"کیا ہوا؟"ارہاب نے بدر کو خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔
"کیا ہواااا۔۔۔۔تیرا وعدہ۔۔۔۔"منان اپنے تازہ تازہ کرش کو یاد کرتے ہوئے گنگنایا۔
"وہ قسم۔۔۔وہ ارادہ۔۔۔۔"منان نے اگلی لائن گنگنائی اور بدر کی آنکھیں چمکیں۔
"مانا کہ تو اچھا سُر لگا لیتا ہے مگر لڑکیوں کا کرش پھر بھی جنید صفدر ہی رہے گا جانی۔۔"اسفی نے منان پر حقیقت واضح کی جو گانا گنگناتے شاید خود کو جنید صفدر سمجھ بیٹھا جو آج کل ہر جگہ ہیڈلائنز کی صورت میں چھایا ہوا تھا۔
"ابے اس دو نمبر شاعر اور فلاپ سنگر کو چھوڑو اور میری بات سنو۔۔" بدر پھر سے بیٹھتا ہوا بولا جس پر منان نے اسے آنکھیں دکھائیں جو کہ بدر نے نظرانداز کر دیں۔
"ارہاب تو اور خان تو۔۔تم دونوں کے اندر اتنا ٹیلنٹ ہے ۔۔یہ نہیں کر سکتے کہ مجھ بیچارے کو کچھ انٹرٹین ہی کر دو۔۔جس کے اندر ٹیلنٹ نہیں وہی بس کان کھاتا رہتا ہے۔۔"بدر نے اسفی اور ارہاب کو معصومیت سے دیکھتے منان کو بھی رگڑا۔وہ سب اسکا اشارہ سمجھ چکے تھے۔
"جو تو چاہ رہا ہے نا وہ اس جگہ پر نہیں ہو سکتا۔۔" ارہاب نے صاف انکار کیا۔
"اپنی حکمرانی ہے میرے یار تو ٹینشن نا لے۔۔"بدر ان سے کہتا اٹھا اور واپس آیا تو ہاتھ میں ایک عدد گٹار تھا۔اب کسی سے مانگ کر لایا تھا یا چھین کر یہ وہی بتا سکتا تھا مگر وہ اجازت کم ہی لیتا تھا ۔
گٹار اس نے ارہاب کو پکڑایا اور خود بھی بیٹھ گیا۔
اتنے میں باقی سٹوڈنٹس بھی وہیں آگئے سب جانتے تھے کہ یہ چاروں ساتھ ہیں تو ضرور کچھ نا کچھ کر رہے ہونگے۔سب نے ان چاروں کو گھیر لیا اور انتظار میں تھے کہ کب شو شروع ہو گا۔
"چلو میرے یارو۔۔۔دکھا دو اپنے جلوے۔۔" بدر بیٹھتا ہوا بولا۔ بدر نے بولا تو ان چاروں کے گرد کھڑے سب لڑکے بھی بولنے لگے تو ناچار انکو ماننا پڑا۔
"اہمم۔۔تو آغاز کرتے ہیں "اسفند نے گلا کھنکارا اور ارہاب نے گٹار تھام لیا۔منان نے اپنا موبائل ایک لڑکے کو پکڑا دیا تھا ان خوبصورت لمحوں کو قید کرنے کے لیئے۔
Da Stargi Jadugari De, Da Meena Lewanye Da
Janaan janaan
Janan Che Pake Ose, Somra Khkuli Dunyagai Da
Janan Janan Janan Janan
KAMU SEDANG MEMBACA
یار دیوانے
Fantasiکہانی ہے دیوانوں کی۔۔انکی دوستی کی جو محبت، خلوص،احساس،پیار،ایثار سے جڑے ہیں۔۔دوستی ایک بے غرض رشتہ ہے۔۔نا لفظوں کا محتاج نا ملنے کا پابند ۔۔کیونکہ یہ رشتہ دل سے نہیں روح سے ہوتا ہے ۔۔داستان ہے مخلوق کی خالق سے رابطے کی درستگی کی۔۔داستان ہے اپنا آپ...