قسط:۲۴ (آخری قسط)

77 9 6
                                    

چلو اختتامِ کہانی کرتے ہیں__
لفظِ محبت لکھتے ہیں اور ایک اور عنایت کرتے ہیں__

وہ جو جی جان سے ہم پر مرتے ہیں__
ان پر ایک مہربانی کرتے ہیں__

محبت ہمیں بھی اُن سے ہی ہے__
چلو آج یہ بھی اقرار کرتے ہیں__!!
ماہی__!

شہر سارا سونا پڑا ہوا تھا۔کہیں کوئی اکا دکا گاڑی یا بائک سڑک سے گزرتی اور پھر دل موہ لینے والا سناٹا چھا جاتا۔
پولیس اسٹیشن سے نکل کر وہ ہسپتال گئے تھے اور اب گھر جا رہے تھے۔احان کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اُسے اٹھائے اور گاڑی سے باہر پھینک دے۔
بھلا اگر کوئی پریشانی تھی تو اُس نے اُن میں سے کسی کو کیوں نہیں بلایا؟اور اسے یہ بات مزید غُصہ دلا رہی تھی۔
"ذیشان بھائی آپ تو اپنا موڈ۔۔۔۔"
"زارون بكواس نہ کرو میرے ساتھ سمجھے۔خاموش ہو جاؤ بالکل خاموش۔۔۔!!!" ذیشان کا لہجہ بھی برہم ہوا تھا۔
"میں کہہ تو رہا ہوں غلطی ہو گئی معاف کر دیں آئندہ خیال رکھوں گا"اُس نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
"یہ اپنی حالت دیکھی ہے تم نے؟؟"ذیشان نے پیچھے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا اور ہاتھ سے اُس کے چہرے کی طرف اشارہ کیا۔
"بھائی یہ سب۔۔۔۔۔"اُس کے الفاظ منہ میں ہی تھا جب احان نے درشتگی سے اُس کا جملہ کاٹا۔
"نہیں زارون تو آج بتا ہی دے تو خود کو سمجھتا کیا ہے؟بہت ٹارزن یا ہیرو کی اولاد ہے تو؟ کبھی اپارٹمنٹ چھوڑ کر کہیں دفع ہو جاتا ہے تو کبھی آدھی رات کو کسی کے ساتھ ہاتھا پائی کرتا ہے اور تھانے پہنچ جاتا ہے؟ٹھیک ہے اگر اتنی ہی ہیرو گری دکھانی ہے تو کم از کم بتا کر تو دفع ہو کہ کہاں تشریف لے جا رہا ہے ابھی تو "صرف" ماتھے،بازو اور یہ چھوٹا سا ہونٹ پھٹا ہے اور اگر کوئی ہتھیار ہوتا اُس کے پاس تو تم کیا کرتے۔۔۔؟؟"احان نے "صرف" کو چبا کر بولا تھا جبکہ زارون بس اپنے سر میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
"احان سچی میرا ارادہ لڑائی کا ہرگز نہیں تھا وہ تو بس یونہی علی کو کچھ خاص مسئلہ ہے مجھ سے،اس کے ساتھ جو بھی ہوا وہ اُس سب کا مجھے قصور وار ٹھہرا رہا ہے لائک سیریسلی!؟"زارون کا لہجہ سنجیدہ تھا جبکہ علی کا ذکر کرتے ہوئے وہ جھنجھلایا۔
"تو زارون کیا ضرورت تھی اُس کے منہ لگنے کی؟"ذیشان نے اب کی بار خود کو نارمل کرتے سوال کیا۔
"بھائی میں اُس سے نہیں ملا تھا۔میں مال گیا تھا اور وہ بھی وہیں تھا تو جب میں باہر نکلا مال سے وہ بھی پیچھے ہی آگیا۔پہلے اُس نے بتمیزی کی میرے ساتھ اور پھر مجھ پر اپنا ہاتھ اٹھانا چاہا۔۔۔۔"
"تو یہ تمہارے ماتھے پر اور یہ ہونٹ اور بازو پر کیسے چوٹ لگی ہے؟"ذیشان نے فکرمندی سے پوچھا۔
"اب جب مار رہا تھا تو اُس نے بھی تو آگے سے مارنا ہی تھا نہ سو یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔۔۔"وہ مسکرا دیا۔
"اور تم پولیس اسٹیشن کیسے پہنچ گئے؟"
"پولیس راؤنڈ پر نکلی ہوئی تھی تو وہاں بھی آگئی اور پھر آگے جو ہوا اُس سب سے تو آپ واقف ہیں"وہ کھسیانہ سا ہنس دیا۔
"بہت فخر کی بات ہے زارون سکندر!!شاباش۔۔!!"ذیشان نے واضع طنز کیا۔
"اب تو بیٹا اپنی فکر بنا کیوں کہ گھر والے تجھے اس حالت میں دیکھ کر خاموش تو نہیں رہیں گے"احان نے بیک ویو مرر سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"تو میں فخر سے بتاؤں گا کہ اُن کا بیٹا بزدلوں کی طرح مار کھا کر نہیں آیا بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اُس نے۔۔۔"
"ہاں ماشااللہ ماشااللہ! ایسا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے تم نے کہ دو گھنٹے تھانے میں بھی رہے تھے اور اُس بیچارے کا بازو توڑ دیا۔۔۔"احان کے لہجے میں واضع طنز تھا۔
"ہاں شکر وہ تھانے دار جانتا تھا ہمیں ورنہ جیل میں گھسے ہوتے تم"ذیشان نے بھی احان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"یار معاف کر دیں اب پلیز گھر چلیں میرا سر بہت چکرا رہا ہے"
"ماشاءاللہ سے بہادری کے نشانات نے بھی تو اپنا اثر چھوڑنا ہے نہ اب!"واضع طنز کے نشتر بچھائے گئے اور وہ مسکرا دیا۔سر اُس کا کافی دکھ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اُس کا انتظار کرتے کرتے صوفے پر ہی سوچکی تھی۔اُس کا سر صوفے کی پشت کے ساتھ ٹکا ہوا تھا جبکہ اُس کے چہرے پر پریشانی واضع تھی۔
وہ ہلکے سے دروازہ کھولے کمرے میں داخل ہوا اور آرام سے دروازہ بند کیا۔
دروازہ بند کرتے اُس کی نظر صوفے پر بیٹھے نفوس پر پڑی تو تکلیف میں بھی اُس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اُس کی جانب آیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔
اُس کے سر پر چوٹ لگی تھی سو درد کی وجہ سے سب گھومتا ہوا نظر آرہا تھا۔
اُس کے چہرے پر بکھرے بالوں کو اُس کے پیچھے کیا اور وہ جو پہلے ہی بے چین سی سو رہی تھی فوراً آنکھیں کھولیں۔
اُسے سامنے دیکھ کر وہ فوراً کھڑی ہوئی اور بغیر اُس کی حالت کا خیال کیے غصے سے بولنے لگی۔
"آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟بتائیں مجھے؟پہلے اپنی محبت کا ہر وقت اظہار کرتے رہتے ہیں اور پھر اچانک شام سے گھر سے غائب ہو جاتے ہیں نہ فون اٹھاتے ہیں اور نہ ہی اپنی خیریت سے آگاہ کرتے ہیں؟کیا ہے یہ سب بتائیں مجھے؟"آخر میں اس کی آواز روندھا گئی۔اُس کا لہجہ اونچا تھا۔
اُس کے اس طرح بولنے پر زارون کے چہرے پر ہلکی سی مسکان آئی وہ بھی اُس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔کمرے میں لیمپ کی روشنی چل رہی تھی جو کافی مدھم تھی سوع وہ اُس کے زخم نہیں دیکھ پائی تھی۔
"آپ پریشان ہو رہی تھیں؟لیکن کیوں؟"لہجہ اُس کا قدرے دھیما تھا۔
"نہیں میں پریشان نہیں ہو رہی تھی۔۔۔"اُس نے غصے سے کہا جب مزید کچھ کہنے سے پہلے زارون نے اُس کی بات کاٹی.
"ہاں آپ بھلا کیوں پریشان ہوں گی میرے لیے؟آپ کون سا مجھ سے محبت کرتی ہیں"اُس کا لہجہ ہنوز ویسا ہی تھا جب کہ گل خاموش رہی۔
"پریشان تو اُن کے لیے ہوا جاتا ہے جن سے محبت کی جائے،جن کا خیال رکھا جائے۔بغیر محبت کے کوئی کسی کے لیے کیوں پریشان ہوگا؟"وہ اُسے سننا چاہ رہا تھا۔
"آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک لڑکی کی خاطر گھر چھوڑ جانا، اپنے رشتوں سے دور ہوجانا حتیٰ کہ اپنے بزنس کو بھی چھوڑ کر جوب کرنا یہ سب محبت ہے؟"اُس نے یہ کہا جبکہ زارون کے دل میں کچھ ہوا تھا۔کیا اُس کے احساسات گل کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ہاں اُس کا دل ٹوٹا تھا اور اُسے اپنے باقی زخم سے زیادہ "یہاں"سب سے زیادہ تکلیف ہوئی تھی۔کیا دل ٹوٹنے کی تکلیف سے زیادہ اور کوئی تکلیف "تکلیف" ہوتی ہے؟
اور وہ جو اُسے سننا چاہتا تھا اس جملے پر اس کے دل نے حسرت کی کہ کاش وہ یہ سب سننے اسے پہلے بہرا ہو جاتا۔۔۔
"زارون اتنا سب کچھ سہا آپ نے فقط میرے لیے؟"اُس کا لہجہ بھرایا تھا اور آنکھوں سے آنسو باڑ توڑ کر گال پر گرے تھے۔"اتنی محبت کی آپ نے مجھ سے اتنی کہ میں بھی آپ سے محبت کرنے پر مجبور ہو گئی ہوں"اور وہ جو خاموشی سے کھڑا تھا چونکا۔"ہاں! میں نہیں جانتی تھی آپ نے اتنا سب سہا میرے لیے لیکن پھر بھی میرے دل نے آپ کی محبت کو تسلیم کر لیا تھا۔یہ میں ہی بیوقوف تھی جو خود پر آپ کی محبت کو فقط ہمدردی کی نظر سے دیکھتی تھی"اُس نے اپنے آنسو صاف کیے۔"زارون آج میں آپ سے فقط اس لیے نہیں کہ میں سب جان چکی ہوں کہ آپ نے کیا سہا ہے میرے لیے،اسی لیے اقرار نہیں کر رہی بلکہ آپ کی محبت،آپ کی عزت اور آپ کے رویے نے مجھے آپ سے،آپ کے ہر انداز سے محبت کرنے پر مجبور کیا ہے۔آپ کے بنا ایک پل بھی اب ناممکن لگتا ہے،پلیز ایسے بن بتائے مت جایا کریں"وہ چلتی آگے آئی تھی اور اُس کا ہاتھ تھاما اور روندھائے ہوئے لہجے میں کہا جبکہ اُس کے یوں خود کو چھونے پر وہ واپس ہوش میں آیا۔
یقیناً یہ سب سے خوبصورت اظہارِ محبت تھا۔وہ مسکرایا اور اُسے اپنے سینے میں چھپا لیا اور اپنے لب اُس کے بالوں میں رکھے۔
وہ سیدھی ہوئی اور اُس کے سینے پر مکہ مارا۔
"آپ نہایت برے ہیں کہاں تھے شام سے؟ میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی تھی؟"اُس نے شکوہ کیا۔
"یار تمہارے لیے تحفہ لینے گیا تھا لیکن کچھ پسند نہیں آیا اور واپسی پر۔۔۔۔۔"وہ خاموش ہوگیا جبکہ گل نے اب اُس کے چہرے کی جانب دیکھا۔پیشانی پر پٹی ہوئی وی تھی وہ چونکی اور ہونٹ بھی پھٹا ہوا تھا،وہ فوراً بولی۔
"ی۔۔۔یہ یہ کیسے ہوا ہے؟آپ ٹھیک تو ہیں؟یہ چوٹ کیسے آئی ہے؟"اُس نے سوال کرنے شروع کر دیے۔
"وہی تو میں دیکھ رہا تھا بیوی کو اپنے بیچارے شوہر کا خیال ہی نہیں اور وہ اپنے اظہار کیے جا رہی ہے"اُس نے شرارت سے کہا۔
"زارون پلیز بتائیں آپ کو کیا ہوا ہے؟یہ چوٹ کیسے لگی ہے؟"فکر تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔
"کچھ نہیں بس چھوٹا سا جھگڑا ہوگیا تھا کسی سے"اُس نے نارمل انداز میں کہا جبکہ سر گھوم رہا تھا۔
"اللہ!! اسے چھوٹا سا کہتے ہیں زارون؟آپ اپنی حالت دیکھ رہے ہیں سر پر پٹی لگی ہے اور یہ ہونٹ پر بھی زخم آئے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں چھوٹا سا جھگڑا!؟"
"پیاری بیوی پریشان مت ہوں۔ڈاکٹر کے پاس سے ہو کر آیا ہوں بس یہ پیشانی پر گہرا زخم ہے اور سر بھی چکرا رہا"
"آپ چلیں فوراً سے بیڈ پر ریسٹ کریں اللہ نہ کرے طبیعت مزید نہ بگڑ جائے آپ کی"اُس نے اُسے بازو سے پکڑا اور بیڈ کی جانب لے کر چلی گئی۔وہ بھی خاموشی سے اُس کے ساتھ چلنے لگا۔اُسے گل کا خود کا خیال کرنا اچھا لگ رہا تھا اور اب تو وہ اظہار و اقرار بھی کر چکی تھی۔
"آپ بیٹھیں میں میڈیسن دیتی ہوں آپ کو بخار نہ ہو جائے"وہ اُس پر چادر سہی کرتی جانے لگی جب زارون نے اُس کا بازو پکڑا وہ پلٹی اور اُس کی جانب دیکھا جو محبت پاش نظروں سے اُس کی جانب دیکھ رہا تھا۔درد کی وجہ سے اُس کی آنکھوں کے کنارے ہلکے ہلکے لال ہو رہے تھے۔
"تم نہیں جانتی گل کہ آج تمہارے اقرار نے مجھے کتنا سرشار کیا ہے۔تھینک یو میری زندگی میں آنے کے لیے،تھینک یو میری محبت کو قبول کرنے کے لیے!" اُس نے محبت بھرے انداز میں کہا تو گل شرما گئی۔
"میں۔۔ میں میڈیسن لاتی ہوں"وہ کہے کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ وہ بیڈ کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں موند گیا۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora