★★★★★★★★
وہ کمرے میں آئی تو فارس موجود نہیں تھا۔اٹیچڈ باتھ سے شاور چلنے کی آواز آ رہی تھی ۔ اس نے بیڈ سائڈ ٹیبلز کی تلاشی لے کر اپنا موبائل اٹھایا اور نیچے آ گئی۔ کچن کاونٹر ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے موبائل آن کیا۔مسڈ کالز کے کافی نوٹیفیکیشن تھے۔
گیلری بلکل صاف تھی۔عدینہ زبیر کی طرف سے واٹس ایپ پر موصول ہونے والی تصاویر اور مسجز مٹائے جا چکے تھے۔ وہ فارس کی اس حرکت پر لب بھینچ کر رہ گئی۔
بےشمار ان دیکھے مسجز آئمہ کی طرف سے منتظر تھے،سائرہ خالہ اور سدرہ کے مسجز بھی۔۔۔۔ اس نے مسزلغاری کے واٹس ایپ چیٹ کھولی۔۔نیچے سے اوپر تک سکرول کرتی گئی۔
کتنے گڈ مارننگ اور گڈ نائٹ کی عبارتیں تھیں، سوال تھے ،پھول اور رنگ برنگے دل تھے، ریکارڈنگز تھیں۔۔۔ وہ ایک ایک کر کے سنتی گئی۔ زید کی باتیں ،اسکے قصے۔۔۔دوستوں سے لڑائی۔۔اپنی نھنی بہن کی شرارتیں۔ ماں سے ناراضگی۔۔۔اور فارس کی شکایتیں تو اتنی تھیں کہ بس۔۔۔۔۔
وہ سنتی گئی اور حیران ہوتی گئی کہ اس کی طرف سے "اوکے ، فائن، ڈونٹ وری،" جیسے مختصر مسجز بھی بھیجے گئے تھے۔ آخری ریکارڈنگز میں وہ منگنی کی انگوٹھی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ ایک نیلے رنگ کی تھی اور دوسری گلابی رنگ کی۔۔ فارس نے گلابی رنگ والی انگوٹھی کو ڈن کر کے وہ نمبر بلاک کیا ہوا تھا۔ اور وہ اپنی جگہ ششدر سی بیٹھی تھی۔ سمجھتا کیا ہے یہ خود کو؟؟؟ تڑپ کر نمبر ان بلاک کیا۔زید کو ریکارڈنگ بھیجی۔شکریہ ادا کیا۔ معذرت بھی کی کہ وہ اس سے بات نہیں کر سکی۔ پھر آئمہ کے مسجز کا جواب دیا۔اسی وقت اسکی کال آ گئی۔
"اوہ مائی گاڈ جنت!! تم کہاں سے زندہ ہو گئی؟؟"
وہ خفیف سا ہنس دی۔
"فارس بھائی نے بتایا تھا تم اپنے میکے گئی ہوئی ہو۔"
"ہاں وہ میں۔۔خالہ کی طرف تھی۔۔" کھنکھار کر کہا۔ساتھ ہی گلاس میں پانی انڈیلا۔
" مجھے تو پورا شک تھا لڑ کر گئی ہو ، اسی لیے فارس بھائی اداس پھر رہے تھے! "پانی پیتے ہوئے جنت کو زور کا اچھو لگا۔ کھانستے ہوئے گلاس ٹیبل پر رکھا۔ اداس پھر رہے تھے؟؟ صدمہ!!!!
"مسئلہ حل ہو گیا کیا؟" آئمہ کی آواز میں شرارت تھی۔
"م۔۔مسئلہ تو کوئی نہیں تھا!"وہ گھبرائی۔
" اوہ کم آن جنت!! شاید تم بھول رہی ہو میری ایک عدد بھابھی بھی ہیں۔ وہ جب بھی میکے جاتی ہیں ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رہتیں۔ بھائی پہنچ جاتے ہیں لینے۔ لیکن ایک بار جب ان دونوں کی لڑائی ہو گئی تھی تو بھابھی پورا مہینہ میکے رہی تھیں!" وہ بتاتے ہوئے ہنسی۔
اور جنت نے بےساختہ اپنی پیشانی کو چھوا۔ یہ آئمہ کتنی پہنچی ہوئی چیز تھی!
"ہاں مگر۔۔۔ ایسا کچھ نہیں تھا!"
"پھر تمھارا موبائل کیوں آف تھا؟؟مسج کے جواب کیوں نہیں دیئے تم نے؟"
"وہ دراصل۔۔۔۔۔" وہ صحیح معنوں میں پھنس گئی۔دوسری طرف آئمہ آنکھوں میں شرارت لیے بیٹھی تھی۔
" اچھا چھوڑو۔۔۔ " اسے جیسے ترس آ گیا۔ " میں تمھاری نند بھی تو ہوں۔۔کسی معاملے میں میری ہیلپ چاہیے ہو تو میں حاضر ہوں!میں تو اپنی بھابھی کا بھی پورا پورا ساتھ دیتی ہوں۔ ناراض ہو کر جب میکے جاتی ہیں تو انکی تیاری میں خود کرواتی ہوں۔بھائی کی ساری خبریں بھی میں ہی پہنچاتی ہوں۔ کہاں سے آ رہے ہیں، اب کہاں جا رہے ہیں، کیا کھا رہے ہیں۔۔کتنے اداس ہیں۔۔یا کتنے خوش نظر آ رہے ہیں ۔۔سب ۔۔۔ "
"تمھارا کوئی حل نہیں! " جنت ہنس دی۔ آئمہ کو بات کر کے اچھا لگا۔ عجیب سی انسیت ہوتی تھی اسے جنت سے۔
"شام کا کیا پلان ہے؟کہیں باہر چلیں؟؟" وہ اپنی روزمرہ کی روٹین ،پڑھائی اور آخری سمسٹر کا رونا دھونا شیئر کرنے کے بعد پوچھ رہی تھی۔جنت کو مسز شیرازی کے ساتھ کچھ وقت گزارنا تھا۔پھر طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لیے معذرت کر لی۔ "میں خود بتاؤں گی تمہیں،پھر پلین کریں گے کچھ۔۔ "
آئمہ سے بات کرنے کے بعد کچھ دیر تک سائرہ خالہ کو سوچ کر فکرمند ہوتی رہی۔ کئی بار کانٹیکٹ نمبر نکالا ،اور ہر بار کال کرتے کرتے رک جاتی۔ انہی الجھنوں میں گھری بیٹھی تھی کہ زید اپنی نھنی بہن کا ہاتھ تھامے سکول یونیفارم میں ہی اپنی سکول سے واپسی پر سیدھا اس سے ملنے آ گیا۔
وہ بہت خوش ہوئی۔ بچے مسز شیرازی سے مل کر اور انکی پیٹنگز کا نظارہ کر کے آئے تو وہ کچن میں تھی۔
اپنے نھنے مہمانوں کی خاطر مدارت میں ہلکان ہوتی وہ ڈائننگ ٹیبل پر پلیٹیں رکھ رہی تھی جب اس نے فارس وجدان کو سیڑھیاں اترتے دیکھا۔
نیلی جینز پر سفید ٹی شرٹ میں ملبوس، بھیگے بال کچھ سلیقے سے جمے ہوئے ،آنکھوں میں ہلکی سی سوجن ابھی بھی موجود تھی۔
زید کی نظر اس پر پڑی تو اسکا پھولا ہوا چہرہ مزید پھول گیا۔
"گڈ مارننگ!" ڈائننگ ہال سے گزرتے ہوئے اس نے کہہ دیا۔
"گڈ آفٹر نون کہو!" جنت کے منہ سے بےساختہ نکلا۔
موصوف نے کلائی موڑ کر وقت دیکھا۔پھر پیشانی مسلی،جھک کے پلیٹ سے فرنچ فرائز اٹھائے اور راہداری کی طرف بڑھ گیا۔
شکایتوں کا پٹاری کھل گئی۔ زید شروع ہو گیا۔
" یہ مجھے آپ سے ملنے نہیں دیتے تھے، کبھی کہتے تھے آپ گھر پر نہیں ہیں، کبھی کہتے تھے،آپ سو رہی ہیں، کبھی کہتے تھے آپ بزی ہیں۔۔۔میں نے آپ کو کارڈ بھی لکھا تھا۔ کینڈی بھی بھیجی تھی۔میں سوزی کو بھی لایا تھا۔۔۔ انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا۔۔۔"
جنت نے بڑی مشکل سے اسے سمجھا بجھا کر اسکا غصہ ٹھنڈا کیا۔
" اس دن ہم باہر کھیل رہے تھے۔ انہوں نے میرا فٹ بال مجھے واپس نہیں کیا۔ " یہ ایک اور قصہ تھا۔ جنت نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا۔یہ تو وہ بھی جانتی تھی فارس بچوں سے الجھ پڑتا تھا،مگر ایسے الجھتا ہو گا اسکی توقع نہیں تھی۔
"آپ کو یہ بھی تو بتانا چاہیے کہ فٹ بال میرے سر پر لگا تھا!"
فارس کی آواز پر جہاں زید چونکا ،وہاں اتنے قریب سے اسکی آواز آنے پر وہ گڑبڑائی۔ وہ اسکی کرسی کے پیچھے،بہت قریب سے جھکا ہوا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر زید کی پلیٹ سے مزید فرنچ فرائز اٹھا لیے۔ زید نے لڑاکا عورتوں کی طرح کینہ توز نظروں سے اسے گھورا۔پھر اپنی پلیٹ پر دونوں ہاتھ رکھ لیے۔کہ اب اٹھا کر دکھاؤ!
اسکی نھنی بہن بڑے مزے میں تھی۔ پرتجسس نگاہوں سے کبھی بھائی کو، کبھی فارس کو دیکھتی پھر دوسرے نوالے کے لیے منہ کھول کر جنت کا رخ کر لیتی۔
وہ جیب میں والٹ رکھتا باہر چلا گیا۔
"مجھے یہ بلکل بھی۔۔ذرا سا بھی اچھے نہیں لگتے!" زید نے ایک ہزار بار کہے جانے والا جملہ ایک بار پھر دہرایا تھا۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گئی تھی۔
★★★★★★★★
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...