"پریشے !! چندا اٹھ جاؤ۔ یونیورسٹی کا پہلا دن ہے آج ہی دیر کر دو گی۔ اٹھ جاؤ میری جان۔"
آمنہ بیگم اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے نرمی سے اسے اٹھا رہی تھیں۔
ان کی آواز پر پریشے مندی مندی آنکھیں کھولتے اٹھ بیٹھی۔
"اسلام و علیکم امی۔" اس نے آمنہ بیگم کے گرد حصار باندھتے ہوئے نرمی سے سلام کیا۔
"واعلیکم السلام میری جان اب اٹھ جاؤ روحاب آتی ہی ہو گی اور تم ابھی تک بستر سے ہی نہیں نکلی۔ دیکھو تمہارا بھائی بھی آفس چلا گیا ۔ اٹھ جاؤ میں ناشتہ بناتی ہوں۔ "
"جی امی اٹھ گئی۔" پریشے نے کمر پر بکھرے لمبے بالوں کو کیچر میں باندھتے ہوئے آمنہ بیگم کو جواب دیا۔***************************
"اسلام و علیکم آنٹی۔ کیسی ہیں آپ؟" روحاب نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔
آمنہ بیگم نے اک نظر روحاب کو دیکھا جو ہلکے پھلکے لان کے سوٹ میں دوپٹہ گلے میں ڈالے بالوں کو پونی میں مقید کیے تیار کھڑی تھی۔
"واعلیکم السلام بیٹا۔ الحمدللہ میں ٹھیک ہوں۔
دروازہ کھلا تھا کیا؟" انھوں نے دروازے کی طرف نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
"جی آنٹی آپ دودھ لینے کے بعد بند کرنا بھول گئی ہوں گی۔" روحاب نے تحمل سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"ہاں شاید!! کیا کروں بیٹا بوڑھی جو ہو گئی ہوں۔" آمنہ بیگم نے ناشتہ ٹیبل پر لگاتے ہوئے کہا۔
"ارے کہاں آنٹی ابھی تو آپ جوان ہیں۔ آپ پری کی ماں کم اور بہن زیادہ لگتی ہیں۔" روحاب نے غیر سنجیدگی سے بات ہوا کی۔ جس پر وہ دونوں ہی ہنس پڑیں۔
"بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے روحا امی آپ تو واقعی میری بہن لگتی ہیں۔" کمرے سے نکلتی پریشے نے روحاب کی آخری بات سنی تو اس کی ہاں میں ہاں ملا دی۔
"ارے بس کرو بھئی کیا ہو گیا ہے تم لڑکیوں کو۔ آؤ جلدی سے ناشتہ کرو ورنہ دیر ہو جائے گی۔ "
"دیر ہو کیا جائے گی آنٹی دیر ہو رہی ہے ۔ آپ کی یہ صاحبزادی اتنی دیر لگاتی ہے تیار ہونے میں۔" روحاب نے منہ چڑاتے ہوئے پریشے کو گھورا۔
"واقعی امی دیر ہو رہی ہے ہم چلتے ہیں۔" پریشے نے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر اک نظر ڈالی اور آگے بڑھ کر سینڈوچ اٹھا لیا۔
"لیکن بیٹھ کر ناشتہ تو کر لو۔" آمنہ بیگم ان کی افراتفری کو دیکھتے ہوئے بولیں۔
"نہیں امی بس بہت ہے لے لیا ۔" پریشے روحاب کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھی۔
آمنہ بیگم نے پریشے کو دیکھا جو ان کو اپنا خیال رکھنے کی ہدایت دے رہی تھی۔ لمبا قد، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی کاجل سے لبریز نیلی آنکھیں جو کسی کو بھی اپنا اسیر بنانے کا فن رکھتی تھیں۔ سر کو دوپٹے میں چھپائے وہ بےانتہا خوبصورت تھی۔ چہرے پر بیک وقت معصومیت اور پاکیزگی چھائی تھی۔
آمنہ بیگم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کی نظر اتاری۔ ان پر دعائیں پھونک کر انہیں یونیورسٹی کے لیے روانہ کیا تھا۔
روحاب پریشے کی بچپن کی ساتھی تھی۔ ان دونوں نے ایک ہی اسکول سے پڑھا تھا پھر پریشے کے والد کی وفات کے بعد آمنہ بیگم برہان اور پریشے نے وہ گھر چھوڑ کر کسی اور جگہ گھر خرید لیا۔ لیکن اتفاقاً کچھ ہی عرصے بعد روحاب اپنے والدین کے ساتھ ان کے ساتھ والے گھر میں شفٹ ہو گئی۔ پریشے اپنی دوست کے واپس مل جانے پر بہت خوش ہوئی تھی پھر انہوں نے ایک ہی کالج میں پڑھا اور اب ایک ہی یونیورسٹی میں دونوں کا داخلہ ہو گیا ۔
پریشے جہانزیب اور برہان جہانزیب دو بہن بھائی تھے۔ برہان پریشے سے پانچ سال بڑا تھا۔ ان کے والد کی وفات کے بعد برہان نے ہی اپنی ماں اور بہن کو سنبھالا تھا۔ برہان کے والد صاحب کا اپنا بزنس تھا جو ان کی وفات کے بعد برہان چلا رہا تھا۔
CZYTASZ
راہِ عشق
Romansزندگی میں صرف ایک چیز ایسی ہے جو انسان کو جی بھر کے خوار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور وہ ہے محبت۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہے، کبھی آپ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہونے کا اتنا گہرا احساس دلاتی ہے کہ انسان کو لگتا ہے وہ اپنی مُٹھی میں...