رمز عشق

49 1 1
                                    

"رمز عشق"

از قلم ماریہ الطاف

ربا

سونے کی کان میں تانبے سے پیار ہو گیا

ہوا بھی یوں کہ بے شمار ہو گیا

ہائے او ربا

محبت کی دعائیں مانگتی رہی

محبت محبوب کا کاروبار ہو گیا

پھر سوہنیا تیرا کرم ہوا

میں ہر غم کا سزاوار ہو گیا

ہر جا عشق دکھنے لگا

جب سے تیرا طلب گار ہو گیا

سعدیہ اسحاق

(1)

وہ مرغے کی بانگ سے پہلے ہی اٹھ گئی تھی۔ بان کی چارپائی کی سخت رسیوں نے اسکے بازوں پہ عجیب نقش بنائے تھے' اسے وہ نقش بہت پیارے تھے ۔ تین اِدھر کو جاتیں اور تین اُدھر کو ' ماں اور چاچی کو وہ بہت کم عمر سے چارپائی بنتی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ اس چارپائی کا بننا ۔۔۔۔ زندگی کے لمحات کے بننے جیسا لگتا تھا۔۔۔۔ کبھی ابھار ۔۔۔ کبھی گھٹائی ۔۔۔۔۔ چارپائی کی 3/9 کی رسیاں بھی کچھ یوں ہی تھیں ۔ اس نے اپنا ڈوپٹہ سرہانے سے اٹھا کر لپٹ لیا اور آسمان پہ سینہ تان کے کھڑے چاند کو دیکھ کر مسکرائی کہ کچھ پہر کے بعد اسکا بھی زوال آنا ہے۔ صحن میں بچھی چارپائیوں پہ سب کھیس لپٹے گہری نیند سورہے تھے۔ چھ چارپائیوں کے دونوں طرف کھڑے پنکھے خود بھی جھوم رہے تھے اور بچاری ہوا کو بھی رقص پہ مجبور کر رہے تھے۔ وہ چند لمحات اکڑوں بیٹھی پنکھوں کو دیکھتی رہی اور کسی کی آواز کا لاشعوری طور پہ انتظار کرتی رہی۔۔۔ اسے محبت تھی اس آواز سے' چاندنی کے پھیلاؤ سے ' پرسرار سی خاموش رات ۔۔۔۔۔ اور نیم کے پیڑ کے نیچے بچھی چارپائی پہ وہ وجود۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2)

"زویا ۔۔۔۔۔۔۔ زویا ۔۔ ۔۔۔ گھر پہنچ کر میسج کر دینا کہ پہنچ گئی ہو." زویا نے سر کا دوپٹا ٹھیک کرتے ہوئے مڑ کر اسے دیکھا' وہ دور کھڑی اونچی آواز سے بول رہی تھی۔ اس نے مسکرا کر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ کر دے گی اور مڑ کر رکشے میں بیٹھ گئی۔ وہ رکشے میں بیٹھی کاروباری علاقے کو دور جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔ آدھے گھنٹے بعد کچا راستہ شروع ہو گیا ۔۔ تبھی فون بجا اس نے دیکھا ابا کا فون تھا ۔۔۔ اس نے گرین بٹن اوپر کر کے فون کان سے لگا لیا ۔" سلام بابا۔۔۔ جی جی بس پہنچ رہی ہوں ۔۔۔۔۔جی میں آکے بانٹ دیتی ہوں ۔۔۔ جی ٹھیک ہے ۔" اس نے انکو جلد پہنچنے کی اطلاع دی اور خدا حافظ کہہ کے فون بند کر دیا ۔۔وہ پھر سے سو بار دیکھے راستے کو دوبارہ دیکھنے لگ گئی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ گرے رنگ کا گیٹ پار کر کے گھر میں داخل ہوئی۔محلے کی لڑکیاں دری پہ بیٹھی یسین پڑھ رہیں تھی ۔۔۔ وہ سب کو بلند آواز میں سلام کرتی ۔۔۔ایک سائیڈ سے ہوتی اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔وہاں بیٹھی لڑکیوں میں سے سدرہ نے عیشا کو کہنی ماری " دیکھا کیسے گئی ہے مہارانی ۔۔۔۔ بس تو لکھ کہ رکھ لے کہ کسی دن یہ ہی اکڑ اسے لے ڈوبے گی۔" عیشا کمینی سی ہنسی ہنس دی ۔ رضیہ خالہ کے گھورنے پہ دونوں دوبارہ یسین کی طرف متوجہ ہوئی ۔ وہ بھی کپڑے پہن کے ' وضو کر کے باہر۔ آگئی ' ابھی اس نے دو بار یسین پڑھی ہی تھی کے چا چی نے نیاز کے لیے بلا لیا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اور باقی لڑکیاں اب اسکے ساتھ ساری نیاز محلے میں بانٹ رہی تھیں ' محلے والے جانتے تھے کہ ہر جمعرات کو دوپہر کا کھانا وزارت علی اور فضل علی کے گھر سے آتا ہے ۔ سب لڑکیاں اب اس کام میں مشغول تھیں۔سدرہ اور عیشا بھی نیاز بانٹ کے واپس آرہی تھیں جب انھیں زویا سامنے سے ٹرے اٹھائے واپس آتی دیکھائی دی ۔نیلے سادہ سے سوٹ میں سنہری موم کی پتلی لگ رہی تھی ' رنگ نا کالا نا گورا ' سنہرے سکوں کی سی چمک جو چلے تو اس کی چال میں کھنک تھی ۔ اسکا کا ملکانہ حسن دیکھ کر سدرہ کی بائیں آنکھ زور سے پھڑکنے لگی ۔۔۔ چہرے کی نرمی کی جگہ سختی نے لے لی تھی ۔ زویا انہے دیکھ کر مسکرائی۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Dec 10, 2022 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

رمز عشقWhere stories live. Discover now