قسط نمبر 2

50 8 2
                                    


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔02:EPISODE NO ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہاشم مجھے کل تک اس فائل پر کام مکمل چاہیے۔" وائٹ ڈریس شرٹ پر بلیک جینس پہنے چہرے پر سرد تاثرات لیے اذہان اس وقت آفس میں بیٹھا ماتھے پر تیوریاں ڈالے سامنے کھڑے ورکر سے بات کر رہا تھا۔ چہرے پر ہلکی داڑھی دونوں گالوں کے اطراف میں پڑتے گڑھے جو تب ہی نظر آتے تھے جب وہ بات کرتا بلاشبہ وہ کسی بھی لڑکی کا دل دھڑکا سکتا تھا۔ جو چیز اُسے منفرد بناتی تھی وہ تھیں اس کی آنکھیں۔۔۔۔۔ سیاہ گہری آنکھیں جن میں جانے کتنے غم دبے تھے۔۔۔۔۔
وہ ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ اُسکا فون بجا۔
"ٹھیک ہیں آپ کام شروع کریں باقی ہم بعد میں ڈسکس کرتے ہیں۔"
اُس نے ایک نظر بجتے فون پر ڈال کر ہاشم سے کہا اور فون اٹینڈ کر لیا۔
ہاشم یس سر کہتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
"اسلام و علیکم بابا"۔
اذہان نے فرقان صاحب کا نمبر دیکھ نرمی سے سلام کیا تھا۔
"اذہان تمہاری ماں کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی ہے بیٹا تم جلدی سے گھر آ جاؤ۔"
اسپیکر میں فرقان صاحب کی پریشان آواز سنائی دی تو وہ جھٹ سے سیدھا ہو کر بیٹھا۔
"کیا ہوا ہے مام کو؟"
اذہان نے پریشانی سے پوچھا۔
"پتا نہیں بیٹا۔ تم جلدی سے گھر آ جاؤ۔ وہ بے ہوشی میں بس تمہیں ہی پکار رہی ہے۔"
"میں۔۔۔۔ میں ابھی پہنچتا ہوں بابا۔"
اذہان جھٹ سے گاڑی کی چابی اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا۔

     *******************************

"پریشے جہانزیب نام ہے اسکا۔ دو ہفتے پہلے ہی آئی ہے یونیورسٹی میں۔ فائن آرٹس کی سٹوڈنٹ ہے۔"
وہ تینوں اس وقت کینٹین میں بیٹھے تھے جب اسد نے ابراہیم کو پریشے کے بارے میں بتایا۔
پریشے کے نام پر ابراہیم کی آنکھیں سرخ ہوئیں۔ گزرے روز کا منظر ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا تھا۔
"پریشے جہانزیب"۔۔۔۔۔۔۔
ابراہیم نے ذیرِ لب اس کا نام دہرایا۔
"ابراہیم دیکھ بھول جا اس بات کو۔ وہ واقعی اچھی لڑکی ہے۔ کچھ غلط مت کرنا اس کے ساتھ۔ معاف کر دے اسے۔ "
احمد نے پریشے کے نام پر اس کے بدلتے تیور دیکھ اسے سمجھانا چاہا۔
احمد کی بات پر اس کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ در آئی۔ اچھی لڑکی۔۔ ہنہہ۔۔ وہ تو وقت بتائے گا کہ کتنی اچھی لڑکی ہیں مس۔۔۔ "پریشے جہانزیب"۔ اس نے پریشے پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"تو کیا کرنے والا ہے ابراہیم۔"
اُس کو کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ اسد نے کہا۔
"کچھ نہیں معافی مانگنی ہے مجھے اُس سے۔ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ غلطی میری بھی تھی مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا۔"
اس کی آنکھوں کے تاثرات یکدم بدلے۔ ایک بار پھر ہلکی سے مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا۔
اسد اور احمد نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔
"کیا کہا؟؟ معافی مانگنی ہے۔۔۔ تجھے۔۔۔ وہ بھی ایک لڑکی سے۔۔۔ طبیعت ٹھیک ہے تیری؟.۔۔" اسد نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ احمد بھی حیرت میں ڈوبا اسی کی طرف متوجہ تھا۔
ابراہیم کے چہرے ایک بار پھر مسکراہٹ آئی تھی مگر وہ بولا کچھ نہیں۔
اس نے ذرا سا سر موڑا تو نظر کینٹین کی اینٹرینس سے داخل ہوتی روحاب اور ہالا سے باتیں کرتی پریشے پر پڑی۔
ابراہیم پر نظر پڑی تو اس نے ناگواری سے نظریں پھیر لیں۔ اسے ایسا کرتا دیکھ ابراہیم کو برا نہیں لگا بلکہ اِس بار ابراہیم کی آنکھیں چمکی تھیں۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ ہنور برقرار تھی۔۔۔۔۔  وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا اسے دیکھتا رہا۔۔۔۔

راہِ عشقTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang