قسط نمبر 04

54 7 0
                                    


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   EPISODE : 04  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اسلام و علیکم!!!۔"
پریشے کتابوں میں سر دیئے بیٹھی تھی جب ابراہیم کی آواز پر اُس نے چونک کر سر اٹھایا۔
ابراہیم لاسٹ ایئر میں تھا اور کچھ ہفتوں سے ان کے ایگزامز چل رہے تھے جن کی وجہ سے وہ آج کافی دنوں بعد اُس سے ملنے آیا تھا۔
"واعلیکم السلام"۔
پریشے نے نظریں پھر سے کتابوں پر جھکاتے جواب دیا۔ معض اس کے کہ وہ پھر اُس ساحر کے سحر میں جکڑی جاتی۔
"کیسی ہو؟"
ابراہیم اس پر نظریں جمائے پوچھ رہا تھا۔
"ٹھیک ہوں۔۔۔"
پریشے کے دل نے ایک بار پھر شور مچانا شروع کر دیا تھا۔ وہ اُس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔۔
وہ اُس پر یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مگر اُسے سامنے دیکھ کر وہ ہمیشہ کی طرح بے بس ہو رہی تھی۔
"مجھ سے نہیں پوچھو گی؟"
ابراہیم کو اس کا سرخ پڑتا چہرا گھبرائی آنکھیں لطف دے رہی تھیں۔ اس لیے وہ اسے مزید تنگ کرتا ہوا بولا۔
"یقیناً ٹھیک ہی ہوں گے تبھی تو یہاں موجود ہیں۔"
پریشے نے تڑک کر جواب دیا ۔
اس کی بات پر ابراہیم کا قہقہہ ہوا میں گونجا۔
پریشے نے نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔ اسے پتا بھی نہیں چلا کہ کب ابراہیم کو دیکھتے دیکھتے اُس کے چہرے پر پیاری سے مسکراہٹ در آئی۔
ابراہیم نے ہنستے ہوئے اُسے دیکھا تو ایک پل کو اس کی آنکھوں میں اسے اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔
پریشے نے اپنی نظریں پھیر لیں۔ اُسے اپنی بے بسی پر رونا آنے لگا۔
"آج اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟"
ابراہیم بات بدلتے بولا۔
"ہالا اور روحاب دونوں نہیں آئیں آج"۔
پریشے مختصراً جواب دیتے ہوئے بولی۔
"اوہ۔۔۔ یاد آیا۔۔ میں تو تمہیں دعوت دینے آیا تھا۔"
"دعوت؟؟ کس چیز کی دعوت؟"
پریشے نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا۔
"گریجویشن پارٹی ہے ہماری۔ ڈگری مکمل ہو گئی ہے نہ۔"
"ہمیں کسی دو گیسٹس کو بلانے کی اجازت تھی۔ میں تمہیں بلانے آ گیا۔"
ابراہیم نے خجل ہوتے اپنی کان کی لوح مسلی اور مسکراتے ہوئے بتانے لگا۔
"گریجویشن پارٹی۔ مطلب آپ یونیورسٹی سے چلے جائیں گے۔"
اس کے جانے کا سوچ کر پریشے کا دل دُکھا تھا۔ کیا بس اتنا ہی سفر تھا اس کا ابراہیم کے ساتھ؟؟ کیا اب ان دونوں کے راستے الگ الگ ہیں؟
"ظاہر ہے۔ اب میں یہیں تو پوری زندگی گزارنے سے رہا۔"
ابراہیم اُس کے تاثرات نوٹ کرتا مزے سے بتا رہا تھا۔
جواباً پریشے نے خاموشی سے نظریں جھکا لیں۔
"ہمم۔۔۔میں نہیں آ سکوں گی۔ سوری آپ کسی اور کو انویٹیشن دے دیں۔"
وہ ہلکی آواز میں منمنائی۔
"کیوں؟؟ تم کیوں نہیں آ سکتی؟"
ابراہیم کی مسکراہٹ غائب ہوئی۔
"کیونکہ میں آنا ہی نہیں چاہتی۔"
اس کی آواز میں سختی در آئی تھی۔
"وہی تو پوچھ رہا ہوں کیوں نہیں آنا چاہتی۔"
ابراہیم اس کی باتوں سے زچ ہوتے ہوئے بولا۔
"میرا کیا کام ہے پارٹی میں؟ گریجویشن آپ کی پوری ہوئی ہے میری نہیں۔"
پریشے بڑی مشکل سے خود پر ضبط کیے بیٹھی تھی۔
وہ جتنا اس شخص سے دور رہتی تھی۔ وہ شخص اتنا ہی اس کے نزدیک آنے کی کوشش کرتا تھا۔
"یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ تمہیں اکیلے آنے میں مسئلہ ہے تو کوئی بات نہیں۔ اپنی دوستوں کو بھی ساتھ لے آنا۔۔ مگر انکار مت کرو میری خوشی کے لیے آ جاؤ پلیز۔"
ابراہیم مسلسل اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"میں نے کہا نہ۔۔۔"
" بس کچھ نہیں سنوں گا اب میں۔۔۔ میں نے کہہ دیا تم آ رہی ہو تو مطلب تم آ رہی ہو۔"
ابراہیم نے ٹیبل پر دونوں ہاتھ جمائے اس کی طرف ہلکا سا جھکا اس کی آنکھوں میں جھانکتا کہنے لگا۔
پریشے نے نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا۔ آنکھوں سے دو آنسو نکل کر گال پر بہہ گئے۔ اس وقت اُس کے دل نے شدت سے دعا کی تھی کہ کاش!!!! کاش یہ شخص اُس کی قسمت میں لکھ دیا جائے۔ مگر ہم تو صرف دعا کر سکتے ہیں۔ قسمت نے ہمارے لیے کیا لکھ رکھا ہے۔۔۔ یہ تو بس قسمت لکھنے والا جانتا ہے۔
ابراہیم گہری سانس بھرتا سیدھا ہوا اور آگے بڑھنے لگا۔
"پری!!"
پریشے نے ایک بار پھر اسے دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔
اُس کا دل زور سے دھڑکا۔ مگر وہ بولی کچھ نہیں۔
"آنکھیں دل کی آواز ہوتی ہیں۔ تم کچھ بھی نہ کہو مگر تمہاری یہ آنکھیں سب بیان کر دیتی ہیں۔ میں اتنا برا نہیں ہوں جتنا تم مجھے سمجھےی ہو۔ تم مجھ پر یقین کر سکتی ہو۔ وعدہ کرتا ہوں ابراہیم شاہ تمہارا اعتبار کبھی نہیں توڑے گا۔" مسکراتے ہوئے کہتا وہ اسٹوڈنٹس کی بھیڑ میں غائب ہو گیا۔
وہ ساحر اسے اپنے عشق میں جکڑتا آج مکمل بے بس کر گیا تھا۔
پریشے نے شدت سے چاہا تھا کہ وہ اُس شخص کی باتوں پر یقین لے آئے۔۔۔ وہ ساری باتیں پسِ پشت ڈال کر۔۔۔ساری دنیا کو بھلا کر اس پر اعتبار کر لے۔ اس نے اپنا بھیگا چہرا دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔ وہ چاہ کر بھی خود کو اس کی محبت میں جکڑنے سے نہیں روک پائی۔۔۔۔۔۔  پریشے جہانزیب۔۔ ابراہیم شاہ کی محبت میں اپنا آپ ہار بیٹھی تھی۔۔۔۔۔

راہِ عشقWhere stories live. Discover now