..........................EPISODE:05..........................."سحر!!! سحر آخری بار کہہ رہی ہوں اٹھ جاؤ۔۔۔۔ تنگ مت کرو مجھے"۔
وہ اُس کے سر پر کھڑی ایک ہاتھ کمر پر ٹکائے دوسرے ہاتھ سے اسے ہلاتی کہہ رہی تھی۔
"کیا ہے عنایہ آپی۔۔ تھوڑی دیر اور سونے دیں۔"
سحر نے دوسری طرف کروٹ لیتے کہا۔
"سحر اُٹھ جاؤ نہ مجھے یونیورسٹی کے لیے دیر ہو رہی ہے اور تمہارے کالج کا بھی وقت جا رہا ہے۔ آخری بار کہہ رہی ہوں آٹھ جاؤ ورنہ اب میں تمہیں چھوڑ کر ہی چلی جاؤں گی۔ پھر اماں سے اچھی والی کلاس لگے گی تمہاری"۔
عنایہ اس بار شدید غصے سے بولی۔
"توبہ ہے آپی۔ میری بہن کم سوتیلی ماں زیادہ لگتی ہیں آپ۔"
سحر منہ بناتی اُٹھ بیٹھی۔
"شاباش چندا!! جلدی سے تیار ہو کر باہر آ جاؤ ورنہ میرا تو پتا نہیں اماں تمہاری ساس بننے میں بالکل دیر نہیں لگائیں گی۔"
وہ اپنی ہنسی دباتی اس کے بکھرے بالوں میں ہاتھ چلاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
"استغفر اللہ !!! اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں نہ آپ یہ دونوں عورتیں مجھ پر کتنا ظلم کرتی ہیں۔ "
سحر جلدی سے بستر سے اُٹھتی بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگی۔
*******************************
"تم دونوں کیا پہن رہے ہو شام کو؟ "
وہ تینوں اس وقت پریشے کے گھر میں موجود تھیں جب ہالا نے اشتیاق سے ان سے پوچھا۔
"شام کو؟۔۔۔۔۔ شام کو کیا ہے؟"
پریشے نے ناسمجھی سے ہالا کو دیکھا۔
"لو بھئی اب تمہیں یہ بھی نہیں پتا۔"
روحاب کا دل چاہا وہ اپنا سر پیٹ لے۔
"یار لاسٹ ایئر کے بیچ کی گریجویشن پارٹی ہے۔۔ اور اگر تمہیں یاد نہ ہو تو میں یاد دلاتی چلوں کہ ہم تینوں بھی اس میں انوائیٹیڈ ہیں۔"
ہالا تفصیل سے بولی۔
پریشے کچھ پل کو خاموش ہو گئی۔۔ اس دن کہی گئی لیلیٰ کی باتیں ایک بار پھر ذہن میں گردش کرنے لگیں۔
"میں نہیں جا رہی۔۔۔ تم لوگوں کو جانا ہے تو شوق سے جاؤ۔"
نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کی آواز بھرا گئی۔
"تم کیوں نہیں جا رہی؟"
روحاب نے کڑے تیور لیے اسے دیکھا.
"میرا دل نہیں ہے۔"
پریشے نے نظریں جھکاتے کمزور لہجے میں جواب دیا۔ وہ ان کو کیسے بتاتی کہ آج اگر وہ وہاں گئی تو واپس نہیں آ پائے گی۔ کسی جان سے عزیز شخص سے آخری ملاقات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اُس کے دل کے کسی کونے سے آواز آئی تھی کہ کاش!!! کاش یہ وقت تھم جائے اور ابراہیم ہمیشہ اُس کی نظروں کے سامنے رہے.
"ایسے کیسے دل نہیں ہے تمہارا؟ ابراہیم نے اتنے پیار سے بلایا ہے اور تم جانے سے انکار کر رہی ہو۔۔۔ "
ہالا کی آواز نے اسے خیالوں سے باہر کھینچا۔
"میں نے کہا نہ مجھے نہیں جانا۔۔۔"
پریشے اب بھی اپنی ضد پر اڑی رہی۔
"پریشے دیکھو اگر تم اس لیلیٰ کی وجہ سے منع کر رہی ہو تو اس کی فکر مت کرو۔ پہلی بات تو وہ ابراہیم کی اس دن والی کلاس کے بعد تم سے پنگا نہیں لے گی اور اگر اس نے کچھ کہہ بھی دیا تو ہم ہیں نہ۔" روحاب اس کے ساتھ بیٹھی اسے منانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔
"ہاں بالکل منہ نہ توڑ دوں میں اس کا اگر اس نے کچھ کیا تو." ہالا تو جیسے جزبات میں بہہ گئی تھی۔
"ارے کس کا منہ توڑنے کی باتیں ہو رہی ہیں؟"
آمنہ بیگم چائے کی ٹرے ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہوئیں۔
"آنٹی آئیں۔۔ آپ ہی اسے سمجھائیں۔ ہماری تو اس نے سننی نہیں ہے۔ آج یونی میں پارٹی ہے اور یہ ہے کہ جانے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔"
آمنہ بیگم کو دیکھ روحاب نے بات بدل دی۔
"کیوں پری۔۔ کیوں نہیں جا رہی بیٹا؟"
آمنہ بیگم پریشے کو دیکھتی بولیں۔
"امی میرا دل نہیں کر رہا نہ۔۔۔۔ "
پریشے اپنا نچلا لب کاٹتی ہلکا سا منمنائی۔
"دیکھیں آنٹی کون سا روز روز جانا ہوتا ہے ۔۔ آج ایک دن جانے کو کہہ دیا ہے تو اس کے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے۔ "
ہالا نے بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا۔
پریشے نے گھور کر ان دونوں کو دیکھا ۔
"بچوں پریشان مت ہو پری جائے گی تم لوگوں کے ساتھ۔ " آمنہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"مگر امی۔۔۔۔۔"
"کوئی اگر مگر نہیں آنٹی نے بول دیا تو مطلب ہم سب جا رہے ہیں بس ۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے پریشے کچھ اور بولتی ہالا نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔
"ہاں! چلو آؤ تمہارے کپڑے ڈیسائیڈ کریں۔ " روحاب بھی خوشی سے اسے کھڑا کرتی بولی۔
پریشے ایک لمبا سانس بھرتی کھڑی ہو گئی۔
VOCÊ ESTÁ LENDO
راہِ عشق
Romanceزندگی میں صرف ایک چیز ایسی ہے جو انسان کو جی بھر کے خوار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور وہ ہے محبت۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہے، کبھی آپ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہونے کا اتنا گہرا احساس دلاتی ہے کہ انسان کو لگتا ہے وہ اپنی مُٹھی میں...