قسط نمبر 06

26 7 2
                                    


.........................EPISODE:06...........................

"اپنی پیکنگ کر لو ہمیں کل صبح ہی نکلنا ہے۔"
اذہان کمرے میں آیا تو سارہ کو بیڈ پر بیٹھا دیکھ بولا۔
سارہ نے چہرہ اٹھایا تو وہ ایک پل کو اسے دیکھ کر ساکت رہ گیا۔ اس کا چہرہ زرد پڑ رہا تھا جیسے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔
"کیا ہوا ہے سارہ تم ٹھیک ہو؟؟"
اذہان نے پریشانی سے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
"جی۔۔۔ بس سر میں تھوڑا درد ہے"۔ سارہ نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے تھکے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
اذہان کچھ دیر خاموشی سے اُسے دیکھتا رہا۔
" اپنا خیال رکھا کرو سارہ بہت بیمار رہنے لگی ہو۔ تم میری بیوی ہو اور مجھے تمہاری فکر ہے۔"
وہ نرمی سے اسے کہہ تہا تھا لہجے سے پریشانی صاف چھلک رہی تھی۔
اذہان کی اتنی فکر پر سارہ کا دل بھر آیا۔ اس کا دل کیا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر روئے اور اس شخص سے پوچھے کہ اُسے اس سے محبت کیوں نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔
اس نے آنسوؤں کا گولا اپنے اندر اتارتے ہوئے جبراً ہونٹوں پر مسکراہٹ لاتے ہاں میں سر ہلا دیا۔
کچھ دیر دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی جیسے دونوں کہنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہے ہوں۔
"ایک بات کہوں اذہان؟ "خاموشی کو سارہ کی آواز نے توڑا۔
"ہاں کہو۔۔۔" وہ خلافِ معمول اس سے بہت نرمی سے بات کر رہا تھا۔
یہی نرمی سارہ کی تکلیف میں اضافہ کر رہی تھی۔ اس نے کہاں دیکھا تھا اذہان کا یہ شہد لہجہ۔۔۔۔
"اذہان میں جانتی ہوں کہ ہمارا رشتہ بہت کمزور ہے۔ ہمارے بیچ کچھ ہے ہی نہیں جو اسے قائم رکھ سکے۔ہم دونوں ایسے پرندوں کی مانند ہیں جو ایک ساتھ پڑے دو الگ الگ پنجروں میں قید ہیں جتنی بھی کوشش کر لیں مل نہیں سکتے۔ میں۔۔۔ مانتی ہوں آپ کے لیے مجھ سے محبت کرنا بہت مشکل ہے مگر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم دوست بن کر رہ لیں۔۔۔۔ کم از کم ہمارے بیچ یہ اجنبیت کی دیوار تو نہ ہو گی۔ "
اس نے آنکھوں میں امید لیے اذہان کی طرف دیکھا۔
اذہان کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا پھر ہلکا سا مسکرا دیا۔
"ہاں ضرور بن سکتے ہیں۔"
اس کے گالوں میں پڑنے والے ڈمپلز نے ایک بار پھر سارہ کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔
سرخ و سپید رنگت سیاہ گہری آنکھیں شہد رنگ بال چہرے پر موجود ہلکی داڑھی اور دونوں گالوں کے اطراف میں پڑتے ڈمپل۔۔۔ بلا شبہ وہ شخص بہت حسین تھا۔  مگر اس کی اداسی دیکھ سارہ کا دل دُکھتا تھا۔
"کہاں کھو گئی؟؟" اسے کسی سوچ میں کھوئے دیکھ اذہان نے اس کے آگے چٹکی بجائی۔
"نن۔۔ نہیں کہیں نہیں۔۔۔۔۔" سارہ نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا۔
"چلو اب سو جاؤ رات بہت ہو گئی ہے کل صبح جلدی نکلنا ہے۔"۔۔۔۔ وہ اس کے پاس سے اٹھتے ہوئے بولا۔
"اذہان اُس لڑکی کا کیا نام تھا؟" کافی ہمت جمع کر کے وہ ایک بار پھر یہ سوال کر بیٹھی۔
اذہان کے چلتے قدم ساکت ہوئے۔ اس نے مڑ کر سارہ کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر تکلیف کے اثرات دیکھ سارہ کو یہ سوال کرنے پر افسوس ہوا۔۔۔
کیا تھا کہ وہ یہ سوال نہ کرتی۔۔ کم از کم وہ شخص کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر اس کے ساتھ مسکرا تو رہا تھا۔
"سارہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اس بارے میں بات نہ کریں؟" وہ بولا تو اب لہجے میں نرمی نہیں تھی۔
سارہ اس کی سرخ پڑتی آنکھوں کو دیکھتی رہی۔
"ٹھیک ہے اذہان۔۔۔ لیکن جب اندر کی تکلیف حد سے زیادہ بڑھ جائے اور اندر کا شور آپ کو کھانے لگے تو اپنے جزبات کو بہنے دیا کریں۔ اپنا درد کسی سے کہہ دیا کریں ورنہ یہ اندر ہی اندر زہر بن جائے گا"۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی چمکی جسے وہ بڑی مہارت سے چھپا گئی۔
اذہان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بس خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔

راہِ عشقDonde viven las historias. Descúbrelo ahora