Chapter:42

388 31 8
                                    

   ★★★★★★★★

لندن کے آسمان پر گھٹائیں چھائیں تھیں۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ اندھیرے اتر آئے تھے، بتیاں جل اٹھی تھیں۔ رات میں بھی دن کا سماں بندھ گیا تھا۔ سڑکیں، مال ،مارکیٹ میں ہر جگہ زندگی کے آثار تھے۔ شہر کی نائٹ لائف مکمل بیدار ہو چکی تھی۔ 
سردی شدید تھی تو گزشتہ کچھ دنوں سے وقفے وقفے سے ہونے والی بارش نے موسم کو مزید ٹھنڈا کر دیا تھا۔ بارش ابھی بھی برس رہی تھی اور ہر گزرتے لمحے شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ 
اس نے مین روڈ سے دائیں طرف گاڑی موڑ کر ایک ہی قطار میں استادہ کئی گھروں کی روشن کھڑکیوں کی جانب دیکھا اور  سڑک کنارے گاڑی پارک کر دی۔ چند لمحوں تک ونڈ سکرین پر متحرک وائپرز کو دیکھتا رہا۔ منظر دھندلا کر بس ایک لمحے کے لیے ہی صاف ہوتا تھا۔ عین سامنے ہی بلکل آخر میں روشن کھڑکیوں کے بیچ     ایک تاریک گھر نظر آ رہا تھا۔ 
گہری سانس لے کر اس نے جیسے ایک بار پھر خود میں ہمت مجتمع کی اور چھتری کھول کر باہر نکل آیا۔ 
سیاہ جینز پر سیاہ رنگ کا سویٹر اور اس پر سیاہ کوٹ میں ملبوس وہ عجلت میں قدم اٹھا رہا تھا۔ باڑ کے اس پار لان کا قطعہ تھا۔گھاس بےہنگم تھی۔ وہ لان عبور کرتا مرکزی دروازے تک گیا۔سٹپس چڑھ کر اس نے گہری سانس لی پھر چابی گھما کر دروازہ اندر کی جانب دھکیل دیا۔ 
اس نے اپنے اندر۔۔۔اپنے وجود کی تاریکی میں قدم دھر دیئے ۔۔۔ کہ وہ گھر اسکے اندر جیسا تھا۔۔۔ ساکن۔۔۔ویران۔۔۔خاموش۔۔۔سالہا سالوں سے بند۔۔۔۔ 
ہاتھ بڑھا کر لائٹس آن کرنے کا اسے ہرگز دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اس گھر میں اسے اندھیروں کی عادت تھی۔ وہ ہر منظر سے بھاگتا پھرتا تھا، ہر اس اذیت سے جو دیواروں پر رقم تھی۔ ہر اس دکھ سے جو اس فضاء میں رچا ہوا تھا۔ 
شاید وہ خون کی باس تھی۔۔۔ زخموں کا درد تھا۔۔۔روح کی چیخیں تھیں جو اسے اپنے آس پاس ایک بار پھر محسوس ہونے لگی تھیں۔۔۔ 
گہری سانس لے کر اس نے دیوار پر ہاتھ رکھا۔ مرکزی دروازے سے ھال سے تک زرکار بلب جل اٹھے۔۔مدھم سی روشنی میں گرد سے اٹی ہر ایک شئے نمایاں ہوئی۔ وہ اپنی جگہ کئی لمحوں تک کھڑا رہا۔ یوں جیسے لکڑی کے فرش نے اسکے قدم جکڑ لیے ہوں۔ شدت سے دھڑکتا دل مٹھی میں بند ہو رہا تھا۔ اسے اندر تک درد کی لہر اٹھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ آواز وہ جو لبوں پر آ کر دم توڑ رہی تھی۔ اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔ آہستگی سے قدم اٹھاتا لاونج تک گیا۔
سیاہ صوفے صفائی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ہیئت پر مٹی کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔۔۔ میگزین ، رسائل،اخبار کافی ٹیبل اور ٹیبل کے نیچے قالین پر بکھرے تھے۔۔کانچ کا ٹوٹا ہوا گلاس اسکے قدموں میں تھا۔ ٹکڑے یہاں وہاں بکھرے تھے۔ فرش پر کہیں کہیں خون کے بقیہ رہ جانے والے نشان بھی تھے۔۔۔ یہ صرف وہی جانتا تھا۔۔ اور اپنے خون کو صرف وہی پہچانتا تھا۔۔۔ 
کچن اتنا سنسان۔۔۔۔جیسے کبھی وہاں کوئی رزق نہیں لایا گیا تھا۔ میز پر چند ایک سفید خون کی پٹیاں۔۔۔چھری۔۔۔ فرسٹ ایڈ کا باکس جوں کا توں رکھا تھا۔۔۔۔
وہ خود کو سر جھکائے اسی میز پر بیٹھا ہوا سکتا تھا۔نظر ہٹا کر سیڑھیوں کا رخ کیا۔وزن پڑنے پر آواز آتی تھی۔ اس نے ریلنگ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ 
اوپر کمرہ تھا۔۔۔ اسے کھولنے سے پہلے  رک کر اپنے حواس بحال کرنا پڑے۔ اس قدر شدید سردی میں بھی اسکی پیشانی عرق آلود  ہو رہی تھی۔ 
اس نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھول دیا۔ لائٹس آن کر دیں۔ 
کمرہ روشن ہو کر بھی اسکے لیے تاریک اور مبھم سا رہا۔ 
اس نے پلکیں جھپکائیں۔سانس بھاری ہو گیا۔ سینے پر بوجھ پڑ گیا۔قلب میں درد ٹھہر گیا۔
بیڈ پر بےترتیبی سے بکھرے کشن۔۔کچھ نیچے گرے ہوئے۔۔۔وارڈ روب کھلی ہوئی۔۔۔ ڈریسنگ ٹیبل کا سامان بےترتیبی لیے ہوئے۔۔۔کچھ نیچے گرا ہوا۔۔کچھ ٹوٹ کر بکھرا ہوا۔۔۔
"کون ہو تم؟؟"
ٹوٹے ہوئے آئینے سے اسکی نگاہ کھڑکیوں کی طرف گئی۔کافی دیر تک وہاں ٹھہری رہی۔ پھر وہ آگے بڑھ گیا۔ بیڈ سائڈ ٹیبل کے پاس بیٹھتے ہوئے اس نے دراز کھینچا۔ ایک ساتھ کئی رپورٹس  اسکے ہاتھ میں آ گئیں۔ سنبھال کر رکھی گئی تھیں۔ سنبھلی ہوئی ملی تھیں۔ اسے لگا اسکا سانس بند ہو جائے گا۔ دل پھٹ جائے گا۔وہ اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا۔ اس کمرے سے باہر کہیں جا نہیں سکے گا۔وہ درد ایسا ہی تھا۔ وہ غم۔۔۔ وہ آزمائش۔۔وہ مصیبت ایسی ہی تھی۔ اسکی آنکھیں مکمل تر ہو چکی تھی۔ اسکا وجود شعلوں کی زد میں آ چکا تھا۔ اسکا مستقبل۔۔۔اسکا حال مٹ گیا تھا۔ ماضی ٹھہر گیا تھا۔ماضی رہ گیا تھا۔کتنی ہی دیر تک وہ بےجان کاغذوں پرزندگی کی نشاندہی کرتی مبھم لکیروں  کو تکتا رہا تھا۔  اندر ایک شور سا بپا تھا۔ ضمیر ملامتی ہو رہا تھا۔ انگلیاں اسکی طرف اٹھ رہی تھیں ۔ وہ برپا ہونے والی قیامت کا ذمہ دار خود تھا۔ 
ہر طرح کے خیالات کو جھٹک کر وہ الماری تک گیا۔ پٹ کھول دیئے۔۔ اسکے برانڈڈ کپڑے ، قیمتی گھڑیاں، جوتے ہر ایک شئے جوں کی توں رکھی تھی۔ مگر وہ ان چیزوں کے لیے نہیں آیا تھا۔ 
وہ اپنی اشیاء کو الٹ پلٹ کر رہا تھا۔ اور اسے ڈھونڈنے پر بھی وہ نشانی۔۔۔ انتظار ،الفت اور محبت سے جڑی شئے نہیں مل رہی تھی۔ اور پھر جیسے کپڑوں کے نیچے سے بیگ مل گیا۔ اسے نکال کر زیپ کھولی۔۔۔
کچھ دیر تک ان چیزوں کو ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا۔ چیزیں بےجان تھیں۔غیر متحرک۔۔۔ بلکل ساکت۔۔۔۔اسکی طرح۔۔
وقت ایک بار پھر رک گیا تھا۔اپنے اندھیروں سے لڑتا وہ کتنی ہی دیر تک  فرش پر بےحس و حرکت بیٹھا رہا تھا۔
کئی منظر آنکھوں میں لہرائے۔ کئی باتیں یاد آئیں۔ کئی غلطیاں۔۔کئی سزائیں۔۔۔کئی فیصلے۔۔۔۔کئی کوتاہیوں کا خیال آیا۔ وہ اپنی ہتھیلیوں کو دیکھ رہا تھا۔ اسکے ہاتھ خالی تھے۔۔۔بار بار خالی ہو رہے تھے۔۔۔ 
وہ بیگ میں کاغزات  وغیرہ رکھ کر اٹھا۔ زیپ کھینچ کر کندھے پر  ڈالا اور لائٹس آف کر کے باہر آ گیا۔ باوجود اس کے کہ وہ اس  گھر سے،اسکے بوسیدہ ماحول سے ,تکلیف دہ یادوں سے  جلد از جلد نکل جانا چاہتا تھا۔مگر پھر بھی اسکے قدموں میں عجلت نہیں تھی۔
وہ بھاری تنفس کے ساتھ دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ لاک لگا کر مڑا تو جھٹکے سے رک گیا۔ 
ایک ادھیڑ عمر انگریز خاتون چھاتا تانے، ہاتھ میں فلیش اٹھائے بہت حیران ہو کر اسے دیکھ رہی تھیں۔ فلیش لائٹ کی روشنی آنکھوں پر پڑی تو اس نے بےساختہ ہاتھ اوپر کیا۔۔ 
"فااااریییس!!!" ہمیشہ کی طرح اس نے کافی لمبا نام کھینچا۔آنکھوں میں بچوں جیسا اشتیاق اور خوشی لہرائی "!میں نے صوفی  سے کہا تھا یہ لڑکا ضرور آئے گا"
وہ انہیں دیکھ کر رہ گیا۔ اتنے سالوں بعد وہ اسے پہچان گئی تھیں۔
کافی بوڑھی ہو چکی تھیں۔بمشکل چل پاتی تھیں۔ آگے بڑھ کر اسکا بازو پکڑا۔۔بلکل ویسے ہی جیسے وہ دس گیارہ سال پہلے پکڑا کرتی تھیں۔ وہ قوت رکھتے ہوئے بھی نہ  بازو چڑھا سکا۔۔۔نہ  سکت رکھتے ہوئے انکار کر سکا۔اسکے گھر کی باڑ ایک طرف سے ٹوٹی ہوئی تھی ۔ وہ یقیناً وہیں سے آئی تھیں۔وہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئیں۔ دروازے میں لمحے بھر کے لیے وہ جھجھکا کہ پہلی نگاہ ہی اس سفید ریشوں والی بلی پر پڑی تھی جو بلکل سامنے بیٹھی تھیں۔ 
"آؤ نا! "
وہ چند ثانیوں کے لیے رکا پھر انکا اصرار دیکھ کر اندر آ گیا۔ لاونج کے صوفے پر بیٹھتے ہی اسے چھینک آئی ۔۔ بلی صوفے کے نیچے سے ۔۔اور بلکل اسکے قدموں میں سرسرا کر گزری تھی۔
"اتنا عرصہ کہاں گم رہے تم؟ایک بار بھی نہیں آئے؟؟" ساتھ ہی اس نے کسی کو آواز دی۔۔اور پھر یاد آنے پر ہنسی۔۔ "ارے میں تو بھول ہی گئی ہوں ۔۔میں تو اکیلی رہتی ہوں۔۔۔"
کچن میں جا کر نیا گلاس نکالا۔ اس میں جوس ڈال کر لائی۔پہلے کی نسبت وہ کافی صحت مند ہو گئی تھیں۔ ٹھہر ٹھہر کر قدم اٹھاتی تھیں۔نظر بھی کمزور تھی۔ اسکے سامنے صوفے پر بیٹھ کر اون کا گولا اٹھا لیا۔
وہ چھینکوں میں الجھا ہوا تھا۔ مفلر ناک تک کھینچا، جیب سے ٹشو نکالا۔ بلی کافی سے زیادہ فرینڈلی تھی۔ اسکے بلکل قریب ہی بیٹھی تھی۔ اور پھر اسے ادراک ہوا وہ ایک نہیں تھی۔۔۔اسکے کئی بچے بھی تھے۔۔صوفے کے نیچے۔۔میز کے نیچے۔۔۔ قالین پر رینگتے ہوئے۔۔۔ 
اسکی آنکھوں سے اب باقاعدہ پانی آ رہا تھا۔گردن کے پچھلے حصے پر، خارش ہونے لگی تھی مگر وہ پھر بھی بیٹھا رہا تھا۔۔
"تم اتنے دن کہاں غائب رہے؟"بغور دیکھ کر پوچھا۔"پھر کسی سے لڑ کر آئے ہو؟؟"خفگی سے گھورا۔"اس بوڑھے آرتھر نے کہا کہ یہ گھر اب بک جائے گا۔۔ کیا ایسا ہی ہے؟"اب کے ذرا پریشان ہوئیں۔ " تم کیوں بیچ رہے ہو؟تم یہاں آ کر رہتے کیوں نہیں ہو؟ " 
"میں پاکستان شفٹ ہو چکا ہوں!"سنجیدگی سے کہہ کر اس نے گلاس اٹھایا۔ اسے زکام ہو چکا تھا۔کھانسی بھی ہو رہی تھی۔ آنکھوں سے لگاتار پانی آ رہا تھا۔
"اوہ اچھا!!" اون کا گولا رکھ کر بلی کو گود میں لے لیا۔ جیسے ایک ننھے معصوم بچے کو گود میں لیا جاتا ہے بلکل ویسے ہی۔ "لیکن تم تو پاکستان کبھی نہیں جانا چاہتے تھے۔۔۔۔" 
وہ انہیں دیکھ کر رہ گیا۔انکی یاداشت میں سب آگے پیچھے ہو چکا تھا۔بہت سی باتیں وہ بھول گئی تھیں۔⁦بہت سی حکایتیں انہیں یاد نہیں رہی تھیں۔ یہ بھی کہ اس وقت وہ اٹھارہ سال کا نہیں ہے۔۔۔ اور یہ بھی کہ اب وہ انکے پڑوس میں نہیں رہتا ہے۔۔
"تمھارا پسندیدہ جوس۔۔۔۔ کوکیز لو نا۔۔۔سب حلال ہے!" بس وہ یہ نہیں بھولی تھیں کہ وہ مسلمان ہے۔ اور یہ بھی نہیں کہ وہ اکیلا ہے۔
"اب میں چلتا ہوں!" خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے اٹھا۔کھانسی زیادہ ہو رہی تھی۔ 
"فاریییس!!" وہ خود بھی اٹھ کر اسکے پاس آئی۔ وہ چاہ کر بھی ان سے دو چار قدم دور نہیں ہو سکا۔
"اتنا شور تھا تمھارے گھر۔۔سب ٹھیک ہے نا؟؟بیوی کہاں ہے تمھاری؟؟"
یہ سوال صدمہ تھا۔یہ سوال اذیت تھی۔
 اسکی حالت بہت ابتر ہو چکی تھی مگر وہ پھر بھی اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلا تھا۔جواب کے لیے منتظر نگاہوں سے اسے دیکھتیں وہ اپنا سوال بھول گئیں۔
  اپنا جھریوں زدہ ہاتھ اٹھا کر اسکے گال پر رکھا۔پھر دوسرا رکھا۔ بھول گئیں پہلے کیا کہہ رہی تھیں۔ اب کیا کہنے والی تھیں۔ " ارے تم تو بہت ہینڈسم ہو گئے ہو۔۔۔" انکی کمزور آنکھوں میں خوشی اتری۔۔ وہ بدقت مسکرایا۔آنکھوں میں آنسوؤں کی آمیزش شامل ہو گئی۔۔ 
"میں۔۔ پھر۔۔ آؤں گا۔۔۔" کہہ کر جانا چاہا۔
"ہاں ہاں! ٹھیک ہے۔۔۔ پڑھائی بھی تو کرنی ہو گی۔۔" انہوں نے ہاتھ ہٹا لیے۔۔ وہ دروازے کی طرف بڑھا تو کچھ یاد آ جانے پر اسے پھر سے  پکارا۔۔ 
"فاااریییس!!تمھارے پاس پیسے تو ہیں نا؟؟ "
وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہ گیا۔ مڑ کر انہیں دیکھا۔ جانے کہاں سے پیسے ڈھونڈ لائیں۔ زبردستی اسکے ہاتھوں میں پکڑائے۔ "کچھ کھا لینا!"
وہ جزبات کے حدت سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ کھڑا رہا۔پھر ہوڈی سر پر چڑھاتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ 
"کون تھا باہر؟" صوفی سچ مچ سیڑھیوں سے اتری تھی۔ 
"کون؟؟" وہ ذرا سا حیران ہوئی کھڑی تھیں۔ 
" ابھی جو آیا؟"
"کوئی بھی تو نہیں آیا۔" بڑبڑاتے ہوئے دروازے سے ہٹ گئیں۔پھر خالی گلاس اور کوکیز  دیکھ کر صوفی سے لڑ پڑیں۔ "میرے کوکیز۔۔۔تم نے میرے کوکیز کھا لیے۔۔۔"
ہمیشہ کی طرح اپنی مہمان نوازی بھول کر وہ سارا الزام اسکے سر ڈال رہی تھیں۔لان میں کسی اجنبی کو سڑک کی طرف جاتے دیکھ کر صوفی گہری سانس لے کر رہ گئی تھی۔
                         ★★★★★★★★
 
اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کس قدر قوت سے دروازہ کھینچ کر بند کر دیا تھا۔کپکپاتے ہاتھوں سے  کمپارٹمنٹ باکس کھول اپنی میڈیسن نکالی۔اسکی سانسیں بھاری ہو چکی تھیں۔ کھانسی نے حالت ابتر کر دی تھی۔ میڈیسن لینے کے بعد  اپنی سیٹ کے ساتھ ہی کمر ٹکائے، گردن سیدھی کیے وہ اب سانسیں کھینچ رہا تھا۔شدید بارش میں ہر سو بےانتہاء تاریکی تھی۔ قریب گزرتی گاڑی کی ہیڈ لائٹس آنکھوں پر پڑی۔۔جھماکے سے ٹوٹتے شیشوں کا منظر آنکھوں میں لہرایا۔وہ ایک چیخ تھی جو اس نے سنی۔۔ وہ اذیت تھی جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ وجود لہولہان تھا۔۔ سٹریچر کے پہیے شور کرنے لگے۔۔۔کاریڈور کی ٹائلز پر کوئی وجود ڈھیر ہونے لگا۔۔۔وہیل چیئر کے ہتھے پر رکھا ہاتھ کپکپا اٹھا۔۔سر جھکا ہوا تھا۔ سر جھکا ہی رہا۔۔۔
روح  میں وحشت اتر گئی۔۔اضطراب انگ انگ میں ٹھہر گیا۔سوئی ہوئی اذیتیں جاگ اٹھیں۔ذہنی دباؤ بڑھ گیا۔
"میں آپ کو برباد کر دوں گا!" وہ خود کو سن سکتا تھا۔واضح سن سکتا تھا۔
اس نے فل نیک  جیکٹ کی زیپ کھینچ ڈالی۔ جیب سے موبائل نکالا۔کال لاگ میں پہلا نمبر عدیل احمد کا تھا۔ اسے کال کر کے اب  وہ کھانستے ہوئے بمشکل لفظ ادا کرتا اپنا ایڈریس بتا رہا تھا۔۔
"ایک نام ہے اور وہ بھی تمھارا نہیں ہے۔۔۔۔۔"
اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ دیئے۔۔۔مگر آواز بند نہ ہوئی۔۔شور کم نہ ہوا۔۔۔
دور کہیں گاڑی کا ہارن بجا تھا۔ ہیڈلائٹس پھر سے روشن ہوئی تھیں۔ شور مبھم ہو کر اب معدوم ہو چکا تھا۔ اب بارش کی بھی آواز نہیں تھی۔
پسنجر سیٹ پر رکھا بیگ۔۔۔۔اس میں جمع شدہ اشیاء۔۔۔ان اشیاء سے جڑی یادیں۔۔۔ان یادوں سے جڑی اذیتیں۔۔۔اسکے ہاتھ یکایک خون آلودہ ہو گئے۔ اسکی غلطیاں اسکے سامنے آ کر کھڑی ہو گئیں۔اسکا حوصلہ ٹوٹ گیا۔۔اسکی ہمت ختم ہو گئی۔۔۔اس کی آنکھوں میں پانی تھا۔۔اب آنسو آ گئے تھے۔ریشز صرف گردن تک  تھے۔۔اب روح پر آ گئے تھے۔۔
یکایک کھڑکی کے شیشے پر دستک ہوئی۔ بمشکل سانس لیتے اس نے سر اٹھایا۔ عدیل احمد  دروازہ کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے شیشہ بجا رہا تھا۔
اس نے لاک ہٹا دیا۔ دروازہ کھل گیا تھا۔
"سر آر یو آلرائٹ؟" وہ کچھ پریشانی سے پوچھ رہا تھا۔ اس نے جواب نہیں دیا۔ اسکے پاس جواب دینے کی سکت نہیں رہی تھی۔
اسے سہارا دے کر عقبی نشست پر بٹھا کر عدیل احمد نے خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی۔دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ اسے قریبی ہاسپٹل کے آیا تھا۔ ایمرجنسی ٹریٹمنٹ کے بعد اسکی بگڑتی ہوئی حالت کچھ حد تک سنبھل گئی تھی۔
عدیل احمد راہداری میں ٹہل رہا تھا۔ اس نے کال کر اسے بلایا تو وہ فورا آ گیا۔
"سر ڈاکٹر کہہ رہا تھا آپ صبح تک یہیں رہیں تو۔۔۔" اسے کوٹ پہنتا دیکھ کر بول پڑا۔ 
اس نے جن کڑی نگاہوں سے اسے دیکھا وہ بات اُدھوری چھوڑ کر سر جھکا گیا۔ تین گھنٹے تو اس نے گزار ہی لیے تھے۔حالت خطرے سے باہر تھی البتہ کھانسی ،زکام اور طبیعت کا فرق ویسا ہی تھا۔۔ آنکھوں کی سوجن بس کچھ ہلکی ہو گئی تھی مگر سرخی ہنوز ٹھہری تھی۔۔گردن  پر ریشز بھی نمایاں تھے۔ اسے اپنی نہیں جنت کی فکر تھی۔ وہ صبح سے باہر تھا اور وہ گھر میں اکیلی تھی۔  چھوٹی چھوٹی باتوں پر از حد پریشان ہو جاتی  تھی۔ اسکا گھر میں ہونا ضروری تھا۔
کوٹ پہن کر اٹھا تو طبیعت خرابی کے باعث قدم جمانے اور توازن برقرار رکھنے میں تھوڑی سی دشواری ہوئی۔ عدیل احمد نے مدد کرنا چاہی تو اسکا ہاتھ سختی سے جھٹک دیا۔ وہ اپنے باس کو حیرت سے دیکھ کر رہ گیا۔
یہ حقیقت تھی کہ وہ سخت اور بےانتہاء روڈ تھا مگر اس حالت میں اسکا یہ رویہ اچھنبے کا باعث تھا۔ چونکہ فارس وجدان کا حکم اس کے لیے فرض کی طرح تھا تو کوئی بھی اعتراض کیے  بغیر وہ اسکے پیچھے چل دیا تھا۔۔۔
                          ★★★★★★★
جنت کی  آنکھ کھلی تو اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ باہر شدید بارش ہو رہی تھی۔ گرج چمک کی آواز بھی وقفے وقفے سے سنائی دینے لگتی تھی۔ پردے سمٹے ہوئے تھے تو روشنیوں میں شہر بھیگا ہوا  لگ رہا تھا۔ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنے برابر میں دیکھا تھا۔ فارس وہاں نہیں تھا۔
اس نے آٹھ بجے کال کر کے کہا تھا وہ تاخیر سے گھر آئے گا تبھی وہ کھانا کھا کر جلد ہی سو گئی تھی مگر اب تو کافی وقت ہو چکا تھا۔  موبائل اٹھایا۔نوٹیفیکشن چیک کیے۔ پھر اونی شال اوڑھ کر باہر آ گئی۔ پورے اپارٹمنٹ میں مدھم سی زرکار روشنی اندھیرے سے الجھتے نظر آ رہی تھی۔
وہ سیدھا کچن میں گئی۔ پانی پیا۔یکایک سماعت سے کھانسی کی آواز ٹکرائی تو وہ اپنی جگہ تھم گئی۔جھٹکے سے مڑ کر لاونج کی طرف دیکھا۔ پھر آگے بڑھ کر سنٹرل لائٹ جلائی۔ نیچے کارپٹ پر شاپنگ بیگ وغیرہ رکھے تھے۔
کیا فارس گھر پر ہے؟ وہ کچھ چونک کر تیزی سے آگے بڑھی۔راہداری سے گزر کر  سیٹنگ ایریا کی طرف گئی جہاں وہ اسے دیوار گیر کھڑکیوں کے آگے کاوچ پر  نیم دراز دکھائی دے گیا۔
قریب آئی تو ٹیبل پر پانی کی بوتل۔۔الرجی ٹیبلٹس ، آوٹو انجکٹر وغیرہ رکھے نظر آئے۔موبائل سر کے پاس ہی تھا ۔۔ اور مسلسل بجے جا رہا تھا۔مگر اسکی  آواز سے فارس کی نیند میں ذرا سا بھی خلل نہیں آیا تھا۔
وہ یک دم گھبرا  کر اس پر جھکی۔چہرے کا رخ موڑا۔یشانی پر ہاتھ رکھا۔نبض چیک کی۔بےاختیار سکھ بھری سانس لی کہ اسکا تنفس ہموار تھا۔
اس نے میز سے ٹیبلٹسں اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہوا اس نے سلیپنگ پلز اور اینٹی ڈپریسنٹ بھی لے رکھیں تھیں۔ وہ بلکل سن بیٹھی رہی۔ آج سے پہلے ایسی ادویات اس کے بیڈروم میں ،اسکی سائڈ ٹیبل میں اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔
کچھ فکرمندی سے دوبارہ اسے دیکھا۔ جانے اسے ٹھنڈ لگ رہی تھی یا اندر کا موسم واقعی میں اتنا سرد۔۔اتنا سفاک ہو گیا تھا کہ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔  وہ بیڈ روم سے لحاف اٹھا کر لے آئی۔ اچھے سے اس پر پھیلایا۔سر کے نیچے تکیے کی بھی پوزیشن درست کی۔ اب وہ نیچے کارپٹ پر بیٹھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔انکھوں میں بہت ساری فکر، بہت سارا خوف، بہت ساری پریشانی تھی۔
سمجھ نہیں آ رہا تھا کسی کو کال کر ڈاکٹر بلوائے یا پھر اسکے جاگنے کا انتظار کرے!؟ وہ بہت محتاط رہتا تھا، اگر کوئی سیریس معاملہ ہوتا تو یقینا وہ گھر نہ آتا۔سیدھا ہاسپٹل ہی جاتا۔ لیکن ہر طرح کے دلیل کے باوجود اسکی ٹنشن کسی صورت کم نہیں ہوئی تھی۔
وہ بےسدھ سا  کافی گہری نیند سو رہا تھا۔ سانسیں کبھی ہموار۔۔اور کبھی غیر ہموار ہو جاتی تھیں۔ یقینا دواؤں کے اثر میں تھا۔لیکن وقفے وقفے سے اسے کھانسی ضرور ہونے لگتی تھی۔ ایک دو بار اس نے کندھا ہلا کر جگانے کی کوشش کی۔ مگر نو رسپانس!!
جنت کی ٹنشن بڑھتی گئی۔بےقراری کے عالم میں پورے گھر کا ایک چکر کاٹ کر وہ ایک بار پھر اسکے پاس آ کر بیٹھی۔ کندھا ہلا کر ،اور آواز دے کر جگایا۔ اب جب تک وہ جواب نہ دیتا اسکی تسلی نہیں ہو سکتی تھی۔۔کندھے سے پکڑ کر تقریبا جھنجھوڑ ہی ڈالا  تو اسکے حواس کچھ  بیدار ہوئے۔۔
"ہونہہ!"بمشکل آنکھیں کھولیں
اسکی آنکھیں بےتحاشہ سرخ،پپوٹے ذرا سے بھاری اور سوجے ہوئے۔۔۔ ہونٹ خشک ۔۔رنگت زرد تھی۔۔
"تمھاری طبیعت کیسی ہے اب؟" فکرمندی سے پوچھا
"ٹھیک ہوں ۔۔۔" کہہ کر آنکھیں بند کرنا چاہیں۔۔ جنت نے دوبارہ سے کندھا ہلا کر جگایا۔ وہ بمشکل بیدار ہو کر اسے دیکھنے لگا۔
"میرے خیال سے ہاسپٹل چلنا چاہیے!"
وہ نیم غنودگی کے عالم میں اسکی آنکھوں میں اپنے لیے خوف ،فکر اور اضطراب دیکھ سکتا تھا۔
"اسکی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"
"ضرورت ہے!" پریشان ہو کر اسکا  موبائل اٹھا لیا۔ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ فارس نے اسکے ہاتھ سے موبائل لے لیا۔
"جنت میں ٹھیک ہوں!"
"تم سے بات تک نہیں کی جا رہی!" وہ رو دینے کو تھی۔
"میں نے میڈیسن لی ہے۔۔خطرہ نہیں ہے۔۔۔۔اب بہتر ہوں!" بمشکل لفظ ادا کر کے اسے تسلی دینا چاہی۔ اس خیال سے کہ وہ اسکی وجہ سے پریشان ہو رہی تھی،وہ خود بھی بےچین ہوا تھا۔ "صبح تک ٹھیک ہو جاؤں گا۔ "اس نے کہا مگر جنت کے اضطراب میں کمی نہیں آئی تھی۔
" تم⁦ آوٹو انجکٹر استعمال کر لو۔۔" وہ اپنی کہے جا رہی تھی۔ پچھلی بار  وہ موت کے منہ میں جاتے جاتے بمشکل بچا تھا۔اسکی پریشانی بجا تھی۔۔
"میں ہاسپٹل گیا تھا!" اس نے گہری سانس لے کر بتایا۔خیال تھا اسکی پریشانی کم ہو گی۔مگر وہ آنکھوں میں صدمہ لیے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ وہ اتنی  تکلیف میں تھا اور  اس نے بتایا تک نہیں۔خاموشی سے گھر آ گیا اور  جگایا تک نہیں ۔
وہ آنکھوں میں مبھم سی نمی لیے اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی تھی۔
"ایپی پن رکھا ہے۔۔۔ اگر دوبارہ حالت خراب ہوئی تو۔۔۔۔ " اس نے آوٹو انجکٹر کی طرف اشارہ کیا۔یہ جانے بغیر کہ اس وقت وہ اسکی کسی بھی بات سے مطمئن ہونے کے بجائے مزید اذیتوں میں گھر گئی تھی۔
اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے جنت نے گہری سانس لی۔ ہر طرح کے منفی خیال کو جھٹک دیا۔  اپنی اس کیفیت سے باہر نکل آئی۔
"تمہیں اپنا پراپر علاج کروانا چاہیے!" اب وہ آوٹو انجکٹر ہاتھ میں لیے اسکی طرف رخ کیے قالین پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ محتاط ہو کر۔۔۔ اسکی پرواہ نہ کرنے کا تہیہ کر کے اسکی تکلیف میں مکمل مبتلا ہو کر۔۔۔۔۔
"مجھے یہ وراثت میں ملا ہے، اپنے دادا سے۔۔۔۔۔" فارس کی آنکھیں بند تھیں۔وہ کس قدر کوشش سے خود کو بیدار رکھے ہوئے تھا تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔
"اوہ!!" جنت کے لب گول ہوئے۔
"تو تمھارے کسی اور فیملی ممبر کو نہیں ہے؟ میرا مطلب ہے تمھارے والد۔۔۔یا پھر۔۔۔۔۔" لمحے بھر کو رکی۔۔ "تمھارے بھائی کو؟؟؟۔۔۔۔"
اس عرصے میں پہلی بار جنت کمال نے اسکے بھائی کا ذکر کیا تھا۔
"نہیں۔۔۔۔صرف مجھے! " کھانستے ہوئے جواب دیا۔
"تمہیں کافی مشکل ہوتی ہو گی۔۔۔ایسے کھلی یا صاف ستھری فضاء میں بھی  ہر وقت الرٹ ہو کر رہنا۔۔۔۔"
"ہوں!!" اس پر پھر سے غنودگی چھانے لگی۔مگر وہ اس کے لیے بیدار ہونا چاہتا تھا۔"تم نے کھانا کھا لیا تھا؟"
"ہاں!" وہ آوٹو انجکٹر  پر لگے سٹیکر کو کھرچ رہی تھی۔
"ممی۔۔سے بات۔۔ہوئی تھی؟"
"ہاں۔۔۔۔وہ ٹھیک ہیں!" جواب دے کر اسکی جانب دیکھا۔
پھر خاموشی۔۔۔۔
مزید خاموشی۔۔۔فارس کی آنکھیں مکمل بند ہو چکی تھی۔
وہ گھٹنوں پر ٹھیوڑی ٹکائے اسے دیکھے گئی۔باہر بجلی چمکی تو کھڑکیوں کی طرف گردن موڑی۔شیشوں پر بوندیں ابھرتی اور پھسلتی جا رہی تھیں۔ہوائیں یکایک تیز ہوئی تھیں۔ روشنیوں میں نہایا ہوا شہر یکایک دھندلا ہوا تھا۔۔
"ممی مجھے کب۔۔۔۔ لینے آ رہی ہیں؟" مدھم سی بڑبڑاہٹ نما آواز سماعت سے ٹکرائی ۔جنت اپنی جگہ تھم گئی۔مڑ کر حیرت سے فارس کو دیکھا۔چونک کر گھٹنوں کے بل اوپر ہوئی۔
"کیا کہہ رہے ہو؟"چہرے پر  جھک کر پوچھا۔
"ممی۔۔۔وہ ۔۔۔حماد کو نہیں۔۔چھوڑ سکتیں۔۔۔ اس لیے نہیں آتیں۔۔۔" بند آنکھوں کے ساتھ وہ ہنوز بڑبڑایا۔ جنت کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے جگانا چاہا۔۔پھر رک گئی۔
"تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟"
"اگر میں نہ گیا ۔۔۔تو وہ مجھے مار دیں گے...." وہ کہہ رہا تھا۔
"کون؟؟"
"اعظم شیرازی۔۔۔۔"
جنت کا دل رکا۔ سانسیں تھم گئیں۔ وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ یقینا کسی غیر حقیقی سچویشن میں پھنس گیا تھا۔اس کے علاؤہ وہ اور کچھ نہیں سوچ سکتی تھی۔کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔
"وہ مجھے۔۔مار دیں گے۔۔۔۔"اسکی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے تھے۔۔جنت نے بےساختہ اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔  "وہ مجھے۔۔مار۔۔۔دیں گے۔۔۔۔۔"
"فارس!!" نرمی سے پکارا۔
"وہ مجھے۔۔ مار۔۔ دیں گے۔۔۔۔"
"فارس!!!"
"وہ۔۔۔وہ۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔"
جنت اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔آنکھیں کھل گئیں۔حواس کچھ بیدار ہوئے۔ وہ نیم وا آنکھوں سے اسکی شکل دیکھ کر روہانسا ہوا۔
"جنت!!مجھے سونے دو۔۔پلیز!!!"
جنت  نے ہاتھ ہٹا لیے، خود بھی پیچھے ہٹ گئی۔قالین پر دوزانوں بیٹھے وہ اسے دیکھ رہی تھی اور تب تک اسے دیکھتی رہی جب تک کہ وہ پوری طرح سے سو نہیں گیا۔
حماد۔۔۔۔
اعظم شیرازی۔۔۔۔۔
وہ اٹھ کر واش روم میں گئی۔ ٹھنڈے پانی کے چھپاکے چہرے پر دے مارے۔ واش بیسن پر ہاتھ جمائے کتنی ہی دیر تک  کھڑی رہ گئی۔اسکی دھڑکن معمول سے ہٹ کر تھی۔ائینے میں خود کو دیکھا تو عقب میں باتھ ٹب پر رکھے کپڑون پر نگاہ پڑی۔
جینز ،شرٹ,سویٹر، کوٹ ۔۔ اور سب ہی بھیگے ہوئے۔۔۔اس نے اٹھا کر دیکھا۔ اتنی شدید بارش میں آخر وہ کہاں گیا تھا؟پھر اس نے کوٹ کی جیبیں ٹٹولیں تو ایک کی چین ہاتھ آ گئی۔ اسکا ایک سرا ٹوٹا ہوا تھا۔ تین چابیاں جڑی ہوئی تھیں۔سیاہ رنگ کا ایک موبائل فون تھا۔مہنگا مگر تین چار سالہ قدیم ماڈل۔۔۔سکرین پر کریک تھے۔ اس نے وہ چیزیں جیسی تھیں ویسی رکھ دیں۔ گہری سانس لے کر ایک بار پھر اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔
نیند کی حالت میں اسکا داہنا ہاتھ  گردن تک آیا تھا۔جلد پر جس جگہ ریشز تھے شاید وہاں خارش ہو رہی تھی۔ اس نے فارس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے ہٹا دیا۔شرٹ اور سویٹر کے اوپری بٹن کھول کر اس نے  گردن اور سینے پر جہاں جہاں سرخ نشان دیکھے کریم لگایا۔ ایک بار پھر اسے بہت فکرمندی سے دیکھا۔  آنکھوں میں اب کے عجیب سا تاثر ابھرا۔ خشک لبوں کو تر کرتے ہوئے وہ اسکا ہاتھ  اپنے ہاتھوں میں لیے بیٹھی رہی۔ وہ نیند میں بھی کافی سے زیادہ بےچین تھا۔  گردن کو جنبش دیتے ہوئے ہر بار اسکے چہرے پر تکلیف دہ تاثرات ابھر آتے تھے۔پیشانی پسینے سے تربتر تھی اور سانسیں  غیر ہموار ہونے لگتی  تھیں۔ ⁦
وہ ساری رات جنت  نے پریشانی کے عالم میں اسکے پاس قالین پر بیٹھ کر آنکھوں میں گزار دی۔صبح کی نماز کے بعد جب اسکی حرارت کچھ کم ہوئی اور وہ نیند میں بھی کچھ پرسکون ہوا تو اسکی  جان میں بھی جان آ گئی۔تکیہ اور کمفرٹر اٹھا کر وہ اسکے برابر میں نیچے قالین پر سوئی تو پھر دوپہر کے ڈھائی بجے ہی آنکھ کھلی۔نیم کھلی آنکھوں سے وہ میز  کو دیکھتی یہی سوچتی رہی وہ قالین پر کیا کر رہی ہے۔ اور جیسے ہی فارس کا خیال آیا ،گھبرا کر اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
وہ صوفے پر اسکی طرف رخ کیے لیٹا تھا،ایک کشن سر کے نیچے،دوسرا ٹانگوں میں پھنسا تھا۔ کمفرٹر آدھا صوفے پر تو ۔۔آدھا نیچے گرا ہوا تھا۔ وہ آرام دہ حالت میں بازو موڑ کر سر کے نیچے رکھے جانے کب سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
اسکے احساسات سے ،جزبات سے ،آنکھوں کے تاثر ،اور تاثرات کی حکایتوں سے مکمل بےخبر وہ گھٹنوں کے بل اوپر ہوئی۔ ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔
"تم ٹھیک ہو؟" انداز ایسا تھا جیسے اگر اس نے "نہ" کہا تو وہ وہیں فوت ہو جائے گی۔
خاموشی۔۔۔۔۔
"فارس!" گھبرا کر  آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا۔ پھر اسکی پیشانی  پر اپنا ٹھنڈا ہاتھ رکھا۔ حرارت تو بلکل بھی نہیں تھی۔
"اب ٹھیک ہوں!" اس نے کہا۔آواز بھاری۔۔گھمبیر۔۔اور بےانتہاء گہری تھی۔ جنت نے بےاختیار سکھ بھری سانس لی۔پھر اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورا۔
"تم نے مجھے بتایا نہیں کل رات تمھاری بلیوں کے ساتھ میٹنگ تھی!"
فارس کے لبوں پر تبسم بکھر گیا۔ آنکھوں کی نمی کچھ اور بڑھ گئی۔
"تم کیا کرتیں؟"
"تمھارے ساتھ جاتی۔۔اور کیا؟" جل کر بولی۔ بخدا اس نے بلیوں سے قطع تعلق کر لیا تھا مگر شوہر نامدار کو ہر دوسرے تیسرے ہفتے پھر بھی الرجی ہو جاتی تھی۔ فائدہ بلیوں سے دور رہنے کا؟؟؟
وہ قالین پر تھی،اور صوفے پر کہنی ٹکائے انتہائی سنجیدگی اور کچھ برہمی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ فارس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے گال پر پھسلتی لٹ کو کان کے پیچھے کر دیا۔"تم کیسی ہو؟"
"مجھے کیا ہونا ہے؟" شان بےنیازی سے کہا۔
"کافی پریشان تھیں تم!"
"نہیں! بلکل بھی نہیں! مجھے تو صرف آنٹی کی فکر ہوتی ہے جنہیں تمھارے جیسا لاپرواہ اور نالائق بیٹا ملا ہے!"
"یہی نالائق شیرازی انٹرپرائزز کا سی ای او ہے!"وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ نگاہیں سنٹرل ٹیبل پر رکھی اپنی ادویات پر پڑیں تو ایک دم سے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔اینٹی ڈپریسنٹ اور سلیپنگ پلز سامنے ہی رکھے تھے۔
"تم رات کہاں گئے تھے؟" وہ پوچھ رہی تھی۔
"شاپنگ مال!"
"اس کے علاؤہ؟"
"کہیں نہیں!" مختصر کہہ کر کہیں اور دیکھنے لگا۔
وہ چند لمحوں تک منتظر رہی شاید وہ کچھ کہے گا مگر۔۔۔۔
"ہاں!! مجھے کیوں بتاؤ گے تم!!۔۔۔۔" جنت کو  غصہ آ گیا۔ " میں تمھاری لائف پارٹنر تھوڑی ہوں جس سے تم اپنے غم یا راز شیئر کرو گے!" پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئی۔ فارس نے سر اٹھا کر اسے جاتا دیکھا۔نگاہیں بھٹکتی ہوئی فرش پر آ ٹھہریں۔وقت گزر گیا تھا۔زخم بھر گئے تھے۔درد پھر بھی اٹھ رہا تھا۔سر سے، بازو سے، پیٹ کے داہنے حصے سے بھی۔۔ہاتھ بھی زخمی تھے۔۔روح بھی مجروح تھی۔وہ اسے کیا بتائے؟؟ وہ اسے کیا دکھائے؟؟
گہری سانس لے کر اینٹی ڈپریسنٹ اور سلیپنگ پلز جیب میں رکھتا  واش روم چلا گیا۔ فریش ہو کر باہر آیا تو وہ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا چکی تھی۔ ناشتے کا وقت تو ویسے بھی گزر چکا تھا۔ وہ کرسی کھینچ کر اسکے سامنے بیٹھ گیا۔
کھانے کے دوران مکمل خاموشی رہی۔نہ وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ اور نہ وہ کوئی بات کر رہی تھی۔ البتہ گاہے بگاہے ایک نظر اس پر ضرور ڈال لیتی تھی۔
کھانے کے بعد چائے بنا کر وہ لاونج میں آ گئی۔ ایک کپ اسکے آگے رکھا اور اپنا کپ ہاتھوں میں لیے دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔
وہ بےمقصد چینل بدل رہا تھا۔معمول کے برعکس بہت خاموش تھا۔
"چائے ٹھنڈی ہو جائے گی!" اس نے کہا تو ٹرے قریب کرتے ہوئے اس نے  پانی کا گلاس اٹھا لیا۔ اپنی ٹیبلٹس منہ میں رکھتے ہوئے پانی پیا۔
اسے فارس کی خاموشی پر غصہ آنے لگا۔ اسکے ہر معاملات پر نظر رکھ کر  وہ اپنے  سبھی معاملات سے  اسے بےخبر  رکھے ہوئے تھا۔اور یہ نہیں کہ کوئی بات شیئر کر لے۔۔۔ سوچ کر تپ چڑھی۔ سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کل رات تم مجھ سے باتیں کرتے رہے!"ایک لمحے کا توقف کر کے  اضافہ کیا۔"نیند میں!"
فارس کو اچھو لگا۔ کھانستے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔
"میں باتیں کرتا رہا؟" آنکھوں میں بےیقینی اتر آئی۔
جنت نے اثبات میں سر ہلایا۔
"تم سے؟" حیرت۔۔۔
"ہاں!"
"نیند میں؟؟!"۔۔۔صدمہ۔۔۔۔
"بلکل!"
وہ اندر تک سن ہوا۔لیکن پھر یہ سوچ کر کہ جنت اس طرح کی باتیں صرف تنگ کرنے کے لیے کر سکتی ہے تو کچھ  پرسکون ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نائس ٹرائے!!لیکن مجھے نیند میں باتیں کرنے کی عادت نہیں ہے!"اپنا کپ اٹھا کر  مسکرایا۔ وہ بھی مسکرائی۔
"ہاں جانتی ہوں لیکن کل رات تم نے باتیں کیں۔ خود سے بولتے رہے۔۔۔"
وہ مذاق میں لے رہی تھی مگر فارس کے تاثرات میں یکایک سنجیدگی اتر آئی ۔
"ایسا نہیں ہو سکتا!"وہ قطعی لہجے میں بولا۔
"ہو چکا ہے! "وہ مزے میں تھی۔
" کیا بات کی میں نے؟" اب کے وہ اسکی آنکھوں میں اضطراب دیکھ سکتی تھی۔
"لو تم تو ابھی مان ہی نہیں رہے تھے !" وہ ہنسی۔
"جنت میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں!"وہ سنجیدہ تھا۔
"میں بھی بہت سیریس ہو کر بات کر رہی ہوں!" وہ چائے میں شوگر ڈال کر چمچ ہلانے لگی.
"میں نے کیا کہا؟"
"کچھ ایسا جو پہلے کبھی نہیں کہا!" وہ اسکی کیفیت سے محظوظ ہو رہی تھی۔
فارس نے گھور کر اسے دیکھا۔
"میں بھلا تمہیں کیوں بتاؤں؟؟"جوابا اس نے اور زیادہ گھورا۔
"تو پھر کسے بتاؤ گی؟"
"ڈاکٹر بخاری کو ۔۔ اور کسے؟؟،"
"ڈونٹ یو ڈیئر!!"اس نے کپ رکھ دیا۔
جنت  کے چہرے پر ہر طرح کے مسرت بھرے رنگ بکھرے۔۔اتنے دنوں سے وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔ بلآخر آج وہ اسے زچ کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔
"مجھے ڈاکٹر بخاری نے کہا تھا اگر میں تمھارے behavior میں کسی بھی طرح کا بدلاو دیکھوں۔۔یا کسی بھی میڈیسن کے استعمال کے بعد کچھ بھی تبدیلی ملاحظہ کروں تو انہیں ضرور آگاہ کروں۔۔۔۔"
"میں تھکا ہوا تھا۔مجھے الرجی بھی ہوئی۔ اگر دواؤں کے اثر میں کچھ کہہ بھی دیا تو کیا ہو گیا؟؟"
"کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔کیا میں نے کوئی اعتراض کیا؟" وہ مزے سے چائے کے گھونٹ لے رہی تھی۔
"جنت!" وہ اچھا خاصا چڑ گیا۔
"جو بھی بات ہو گی۔۔ڈاکٹر بخاری سے ہو گی۔" اسنے ہاتھ اٹھا کر اعلان کیا۔
"تم جانتی ہو وہ ممی سے رابطے میں رہتے ہیں!" وہ صحیح معنوں میں اسے پریشان نظر آیا تھا۔
" نہیں میں بلکل نہیں جانتی!"وہ اسے تنگ کر کے بہت خوشی محسوس کر رہی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"میرے لیے یہ بہت سیریس بات ہے۔۔پلیز!!!"وہ از حد سنجیدہ تھا۔
"تم ڈر کیوں رہے ہو؟"
"میں ڈر نہیں رہا ہوں۔۔میں۔۔۔"وہ کچھ کہتے کہتے رکا،" تمہیں مجھے جگانا چاہیے تھا۔۔ناکہ اس طرح مجھے سنتیں رہتیں۔۔۔۔" اس نے جھڑک دیا۔
"جگایا تو تھا تم نے مجھے ڈانٹ دیا آگے سے۔۔۔"
وہ آنکھوں میں اضطراب لیے کھڑا رہ گیا۔
"اور اگر سن بھی لیا تو کیا ہو گیا؟!" اس نے لہجے میں نرمی سمو کر معصومیت سے پلکیں جھپکائیں۔ 
فارس کے لب بھنچ گئے۔ آنکھوں میں ناراضگی اتر آئی۔۔۔پیشانی پر ڈھیر سارے بل لیے وہ لاونج سے چلا گیا۔
"چائے تو پی لو!"وہ اٹھ کر تیزی سے اسکے پیچھے آئی۔
مگر  کوئی بھی جواب دیئے بغیر اس نے  بیڈ روم کا دروازہ غصہ سے بند کر دیا تھا۔
جنت اپنی کھڑی رہ گئی تھی۔
                         ★★★★★★★★

(باقی آئندہ ماہ ان شاءاللہ)



𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now