قسط نمبر 07

31 6 1
                                    


_______________Episode:07_______________

"ماما!!!! ماما کہاں ہیں؟؟....."
عباد کافی عجلت میں حمنا بیگم کو آواز دیتے کچن میں داخل ہوا۔
"کیا ہو گیا ہے عباد اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے۔"
سارہ اسے کچن میں داخل ہوتا دیکھ بولی۔
"ارے بھابھی یونیورسٹی کے لیے دیر ہو رہی ہے اور آپ کو پتا تو ہے چائے نہیں پی کر جاؤں گا تو راستے میں ہی بےہوش ہو جاؤں گا۔" وہ سارہ کو دیکھ تھوڑا تحمل سے بولا۔
سارہ اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرا دی۔
"چائے نہ ہو گئی جیسے نشہ ہی ہو گیا۔"
"نشہ ہی تو ہے بھابھی آپ چائے نہ پینے والے کیا جانیں اس نشے کے بارے میں۔" وہ کرسی پر بیٹھتا اُسے چڑاتا ہوا بولا۔
"ویسے آپ اتنی صبح کچن میں کیا کر رہی ہیں؟ "
وہ ایک نظر گھڑی پر ڈالتا ہوا بولا۔ دیر تو اسے ہو ہی چکی تھی اب وہ یونی جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
"تمہارے بھائی کے لیے کافی بنانے آئی ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر بعد لاہور کے لیے نکلنا ہے۔"
وہ کافی کا پانی چولہے پر چڑھاتے ہوئے بولی۔
"ویسے آپس کی بات ہے بھابھی آپ اتنے کھڑوس انسان کے ساتھ رہ کیسے لیتی ہیں؟" عباد نے برا سا منہ بنایا۔
"عباد!!! شرم کرو بڑے بھائی ہیں تمہارے۔" سارہ نے اسے گھور کر دیکھا۔
"بڑے بھائی ہیں تو کیا ہوا ۔۔۔ ہیں تو کھڑوس ہی۔"
عباد سامنے پڑی ٹوکری سے سیب اٹھاتے ہوئے بولا۔
"نہیں بالکل کھڑوس نہیں ہیں وہ۔" اس کا چہرہ پل بھر میں گلابی ہوا۔
"او ہوو!!! آپ تو بلش کر رہی ہیں بھابھی ۔۔۔۔ میں نے تو کچھ کہا بھی نہیں۔۔۔۔" عباد نے اسے مزید زچ کرتے ہوئے کہا۔
"تم بہت بے شرم ہو گئے ہو عباد۔"وہ اس کے کندھے پر دھپ رسید کرتے ہوئے بولی۔
"ہائے بھابھی کچھ تو خیال کریں اپنے معصوم کنوارے دیور کا۔" وہ اپنا کندھا سہلاتے ہوئے بولا۔
"اب تو تمہاری بیوی بھی آ ہی جانی چاہیے تاکہ تم بھی تھوڑے سدھر جاؤ۔" سارہ اب کافی کپ میں نکالنے میں مصروف تھی۔
"ہیں نہ۔۔۔۔ میں تو بول بول کر تھک گیا ہوں مگر مجال ہے جو کوئی میرے اوپر بھی نظرِ ثانی کرے۔" عباد ڈرامائی انداز میں دہائی دینے لگا۔
"میرے معصوم سے دیور کو کچھ زیادہ جلدی نہیں ہے شادی کی؟ " سارہ نے شرارت سے اسے دیکھا۔
"ہاں تو ہونی چاہیے نہ۔ بھائی نے خود تو شادی کر لی ہے میرے بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں ہے۔"
وہ کافی خفگی سے بولا جس پر سارہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
"ٹھیک ہے بھئی اب تو جلدی ہی کوئی پیاری سی لڑکی ڈھونڈنی پڑے گی۔۔ مگر ابھی میں یہ کافی لے جاؤں ورنہ تمہارے بھائی واقعی میں " کھڑوس" بننے میں بالکل وقت نہیں لگائیں گے۔" وہ شرارت سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی کپ لیے کچن سے باہر نکل گئی۔

        ______________________________

جانے رات کا کون سا پہر تھا جب وہ جائے نماز پر بیٹھی اللہ کے حضور ہاتھ پھیلائے ہچکیوں کے بل رو رہی تھی۔
" یا اللہ!! یہ کیسی مشکل ہے۔۔۔۔۔ میرے لیے یہ سفر آسان کیوں نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ میں کیا کروں وہ شخص مجھے بھولتا ہی نہیں ہے۔ اُس نے جو میرے ساتھ کیا۔۔۔۔۔میں نے بہت کوشش کی کے مجھے اُس سے نفرت ہو جائے یا وہ شخص کسی بُرے خواب کی طرح میرے ذہن سے نکل جائے۔ مگر وہ میرے دل و دماغ پر قابض ہو گیا ہے۔ " اس کا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔ سرخ آنکھیں مسلسل رونے کے باعث سوج گئی تھیں۔

راہِ عشقWhere stories live. Discover now