'تاج محل ' کرشن چندر کے ناول " سڑک واپس جاتی ہے " کا اقتباس ہے۔
************************************
آگرہ پہنچ کر مہادیو نے انہیں راجہ منڈی کے اسٹیشن کے قریب اتارا اور بختیار نے انہیں اسٹیشن دکھاتے ہوئے کہا۔
"سڑکوں میں مارے مارے پھروگے تو کبھی بمبئی نہ پہنچ سکو گے۔ یہاں سے گاڑی سیدھی بمبئی جاتی ہے۔ کسی طرح بابو کی نظر بچا کر اسٹیشن کے اندر چلے جاؤ اور جب بمبئی کی گاڑی آۓ تو چپکے سے اند گھس جاؤ۔آگر رات کی گاڑی میں بیٹھ گئے تو مزے میں رہو گے۔ رات کو بالعموم کوئی ٹکٹ چیکر نہیں آتا۔"
ترنا اور راجو نے ان دونوں کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ بختیار نے مہادیو کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
"چلو اب چلیں مہادیو ۔"
مگر مہادیو وہیں کھڑا رہا۔ پہلے تو اس نے اپنے سر کو کھجایا پھر اپنے چہرے کی بڑھی ہوئی شیو پر الٹا ہاتھ پھیرا۔ آخری اس نے سر جھکائے اپنی جیب سے پانچ روپے کا نوٹ نکالا اور اسے ترنا کے ہاتھ میں دیکر بولا۔
" یہ راستے کے لئے ہے ۔"
"کا ہے کے لئے؟" راجو حیرانی سے بولا۔
شہر کے اندر میرا دم گھٹنے لگا تھا۔
راجو کے لئے کسی شہر کو اندر سے دیکھنے کا پہلا موقع تھا۔ پٹھان کوٹ میں دلّی میں، امرتسر کہیں پر اسے شہر کو اندر دیکھنے کا موقع نہ ملا تھا۔
" تمہیں شہر کیسا لگا؟" ترنا نے پوچھا۔
"شہر اندر سے گندہ ہوتا ہے اور بدبودار ہوتا ہے۔"
"اور ؟" اور لوگوں کے چہرے گھبراۓ ہوئے ہوتے ہیں۔"
"اور؟" اور لوگ اس طرح چلتے ہیں، جیسے کسی مصیبت سے پیچھا چھڑانے کے لیے کہیں بھاگ رہے ہوں۔"
"مگر یہ لوگ اس طرح سے کیوں چلتے ہیں ۔ انہیں کہاں جانا ہے؟"
"کہاں؟" تاج محل" تاج محل' کیا ہے وہ۔؟"
"وہاں دو قبریں ہیں."
"قبریں؟" مگر ہم زندہ' قبروں میں جاکر کیا کریں گے۔ میرا مطلب ہے دیکھ کر کیا کریں گے ۔قبروں پر تو مسلمان جاتے ہیں۔"
"صرف مسلمان ہی نہیں جاتے۔ ان قبروں کو دیکھنے کے لئے ساری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔"
"ساری دنیا کے لوگ؟ دو قبروں کو دیکھنے کے لئے؟"
راجو کھلکھلا کر ہنس پڑا۔"ترنا ! تم مجھ کو خوب بے وقوف بناتی ہو۔"
"نہیں راجو' سچ کہتی ہوں۔ تم خود چل کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔"
راجو کچھ دیر خاموشی سے ترنا کے ساتھ چلتا رہا ۔اس کے ساتھ کچھ سوچ کی شکنیں ابھر آئیں۔بہت دیر کے بعد بولا۔"تمہیں کیسے معلوم ہے کہ ان دو قبروں کو دیکھنے کے لیے ساری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔"
مہادیو نے کہا " بغیر ٹکٹ تو کسی نہ کسی طرح چلے جاؤگے مگر بغیر کھانا کھائے کیسے پہنچو گے۔"