قسط نمبر 09

25 6 5
                                    


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 09: EPISODE۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مجھے تو تم بھول ہی گئی تھی پری۔"
وہ دونوں پریشے کے کمرے میں بیٹھے تھے جب روحاب اُسے دیکھ شکوہ کرتے ہوئے بولی۔
"تمہیں کیسے بھول سکتی ہوں روحا۔ تم نے میری مدد نہ کی ہوتی تو آج میں یہاں نہ ہوتی۔"
پریشے نے پھیکا سا مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"تم کیسی ہو؟ گھر میں سب کیسے ہیں؟" پریشے نے بات بدلتے ہوئے سوال کیا۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میری شادی ہو گئی ہے پری۔۔۔یہیں لاہور میں۔۔۔ میں نے کچھ دنوں پہلے تمہیں یونیورسٹی کے باہر دیکھا تھا اس لیے میں تم تک پہنچ سکی ہوں۔" وہ پریشے کو تفصیل بتاتے ہوئے بولی۔
"تمہاری شادی ہو گئی؟؟" پریشے نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"ہاں۔ میں نے تمہیں بہت بار فون کرنے کی کوشش کی مگر تمہارا نمبر ہمیشہ بند ملا۔ تم نے مجھ سے بھی رابطہ ختم کر دیا۔۔۔ میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔" روحاب نے ایک بار پھر اُس کی ویران آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شکوہ کیا۔
"مجھ سے تمہارا نمبر کھو گیا تھا اور کوئی ذریعہ ہی نہیں بچا تھا رابطے کا۔"
وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی۔وقت کے ساتھ ساتھ کتنا کچھ بدل گیا تھا۔۔۔۔ روحاب بغور اسے دیکھتی رہی۔
"کیا ہو گیا ہے پریشے۔۔۔تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے۔۔۔۔ دو سال ہو گئے ہیں اور تم اب بھی وہیں کھڑی ہو۔۔"  روحاب افسوس سے اُس کا پس مردہ چہرہ دیکھ رہی تھی جہاں زندگی کی کوئی رمک نہیں تھی۔
"کچھ بھی نہیں ہوا روحا۔۔ میں بہت خوش ہوں یہاں۔۔۔ تم زیادہ سوچ رہی ہو۔۔"
اُس نے مسکراتے ہوئے روحاب کو مطمئن کرنا چاہا۔
"تم آج بھی وہی پریشے ہو جس کا جھوٹ میں چند سیکنڈز میں پکڑ لیا کرتی تھی۔ دو سال مجھ سے دور رہی ہو تو تمہیں لگتا ہے میں تمہاری آنکھوں کی ویرانی دیکھ نہیں پاؤں گی؟"
روحاب نے آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
پریشے نے نظریں جھکا لیں۔ دل کی تکلیف بڑھتی جا رہی تھی۔
"مجھے سب نے چھوڑ دیا روحا۔ پہلے بابا چلے گئے۔۔۔۔۔۔ پھر امی اور بھائی۔۔۔۔۔ کسی نے میرے بارے میں نہیں سوچا سب مجھے اِس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ گئے۔ کیوں روحا۔۔۔ کیوں؟؟؟ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا۔۔۔۔۔"
بس۔۔۔۔۔ یہاں اس کے صبر کا دامن چھوٹ گیا اس کا ضبط جواب دے گیا۔ وہ روحاب کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"پری حوصلہ کرو وہ سب اللہ کی امانت تھے اللہ نے انہیں واپس لے لیا۔ ایسے شکوہ نہیں کرتے میری جان۔"
روحاب کو اس نازک سی لڑکی کو اجڑے حال میں دیکھ اس پر شدید ترس آیا۔
"میں کیوں بچ گئی پھر؟؟ اچھا ہوتا میں بھی ان کے ساتھ مر جاتی۔مجھے یہ زندگی بہت تکلیف دیتی ہے روحا۔۔۔ میں تھک گئی ہوں روز خود کو مضبوط دکھاتے دکھاتے۔۔۔۔۔"
وہ بچوں کی طرح روحاب کے ہاتھوں پر اپنا چہرہ رکھے بولی۔
"ایسا نہیں کہتے پری۔۔۔۔۔ میں آ گئی ہوں نہ۔۔۔ میں اب ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گی۔ بس اب رونا بند کرو۔ اللہ انسان کو اتنی تکلیف نہیں دیتا جتنی وہ برداشت نہ کر سکے۔ اور جو لوگ اپنی زندگی کی آزمائشوں میں صبر سے کام لیتے ہیں نہ وہ اللہ کو بہت پسند ہوتے ہیں۔" وہ پریشے کا چہرہ ہاتھوں میں لیے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
"روحا ابراہیم۔۔۔۔ اُس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا...مجھے یوں زندہ درگور کر کے کیا ملا اُسے۔۔۔۔۔ "
آج اُس کے اندر چھپے سارے دکھ لفظوں کی صورت بہہ رہے تھے۔
"اُس نے مجھے خود سے محبت کرنے کی بہت بڑی سزا دی ہے۔۔۔۔۔ میں نے کیا بگاڑا تھا اُس کا۔۔۔۔۔"
"پریشے میری جان بھول جاؤ اُسے۔۔۔۔ کسی برے خواب کی طرح اُس کی یادیں مٹا دو۔"
روحاب اسے اس حال میں دیکھ حقیقتاً پریشان ہوئی تھی۔
"کسی کو بھولنا اتنا آسان نہیں ہوتا روحا۔۔۔۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں اُسے بھلا دوں مگر اس کا نام میرے دل پر نقش ہو گیا ہے۔۔۔میں تو اُس سے محبت کرنے لگی تھی۔ اُس کے اندر مجھے اپنی دنیا نظر آنے لگی تھی۔ مگر ابراہیم نے۔۔۔ اُس نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔ اُس نے مجھے ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے نہ میں آگے بڑھ سکتی ہوں اور نہ ہی اب پیچھے مڑنا میرے اختیار میں ہے۔۔۔۔۔"
روحاب کو وہ بہت بدلی ہوئی لگی۔ اس کے چہرے کی ویرانی۔۔۔۔ اس کے اندر کا دکھ۔۔۔۔ روحاب کو اس کی حالت دیکھ رونا آنے لگا۔۔ وہ پھول سی لڑکی ایسی تو کبھی نہ تھی۔
"محبت انسان کو اتنا بے بس کیوں کر دیتی ہے روحا؟ کہ جس سے آپ محبت ہو وہ ساتھ رہے تو لگتا ہے کہ ساری دنیا آپ کی ہے اور اگر دور چلا جائے تو اپنا آپ بوجھ لگنے لگتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے جسم سے روح فنا ہو گئی ہو۔"
پریشے نے آنکھیں اٹھا کر روحاب کو دیکھا جو آنکھوں میں آنسو لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"پری میری جان تم نے خود کو کس اذیت میں ڈال لیا ہے۔۔ اس سب سے ابراہیم کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ سب کر کے تم بس خود کو تکلیف دے رہی ہو۔۔۔ "
"دلوں میں محبت تو اللہ ڈالتا ہے وہ چاہے تو دو لوگوں کو ملا بھی سکتا ہے اور جدا بھی کر سکتا ہے ان دو سالوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی میرے دل سے یہ دعا نکلی ہے کہ اللہ اُس شخص کے دل میں میری محبت ڈال دے۔ مگر اب۔۔۔۔۔۔ اب تو میں اُسے مانگ بھی نہیں سکتی۔" کھڑکی پر نظریں جمائے اُس کے لبوں پر زخمی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
"وہ اب میرا ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی اور کا حق کیسے مار سکتی ہوں؟" اس کی آواز رندھ گئی کرب سے اس نے آنکھیں میچ لیں۔
"کیا مطلب۔۔۔ تم ابراہیم سے ملی ہو؟"
روحاب نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔
پریشے نے آنکھیں کھول کر چہرہ روحاب کی طرف موڑا۔
"ہاں!! اتفاقاً مال میں میری اس سے ٹکر ہو گئی تھی۔ "
"یعنی اُسے پتا چل گیا کہ تم زندہ ہو۔"
روحاب نے ایک لمبا سانس خارج کرتے ہوئے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا۔
"ہاں۔۔۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔"
پریشے نے نظریں پھر سے کھڑکی پر مزکور کر لیں۔
"وہ اکیلا تھا؟ اُس نے تم سے کچھ کہا؟"
"نہیں اکیلا نہیں تھا۔۔۔۔"
اس کے چہرے پر پھر ہلکی سی مسکراہٹ در آئی۔
" اس کی بیوی اس کے ساتھ تھی۔۔۔"
"کون؟؟"
روحاب کو لگا جیسے اسے سننے میں غلطی لگی ہو۔
"ابراہیم کی بب۔۔۔۔بیوی۔"
اس کا لہجہ لڑکھڑایا۔۔آنکھیں ہنور کھڑکی پر مزکور تھیں۔
"اُس نے شادی کر لی..."
روحاب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
"ہاں۔۔۔۔ وہ کون سا محبت کرتا تھا مجھ سے۔۔۔"
دل میں اک ہوک سی اٹھی۔
روحاب کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
"پری۔۔۔۔ اب تو خود کو سنبھال لو۔۔۔ اپنے آپ کو اس دلدل میں مزید مت دھکیلو جہاں سے نکلنا تمہارے لیے ناممکن ہو جائے۔ جو کچھ بھی ہوا اسے بھول جاؤ۔ اسے قدرت کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لو۔"
روحاب نے افسوس سے اس کی جانب دیکھا جو کسی موم کی گڑیا کی طرح اکڑوں بیٹھی خلا میں گھور رہی تھی۔
اس کی بات پر پریشے کے بے جان وجود میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔۔۔
"وہ شخص میرے خیالوں میں ہے۔۔ میرے خوابوں میں ہے غرض وہ مجھ میں مجھ سے زیادہ بستا ہے۔۔۔۔ بس نہیں ہے تو وہ میری تقدیر میں نہیں ہے
۔۔۔ تم دعا کرو کہ اللہ مجھے اُس کی محبت سے نجات دلا دے۔۔۔"
اس کے ہونٹوں سے نہایت دھیمی آواز میں یہ لفظ ادا ہوئے۔۔۔ وہ نہیں ہلی۔۔۔۔ وہ نہیں روئی۔ بس ایک آنسو  بغاوت کرتا آنکھ کی بار توڑتے ہوئے گال پر پھسل گیا۔

راہِ عشقDonde viven las historias. Descúbrelo ahora