___________ EPISODE: 10 ______________
رات کی سیاہی میں چاند کی روشنی ہر سو پھیلی تھی۔ سرد رات اور تیز ہوا نے موسم کو مزید ٹھنڈا بنا دیا تھا۔ ایسے میں سحر ندرت بیگم کے پاس کچن میں کھڑی باتوں میں مشغول تھی۔
"امی مہمان کب آئیں گے۔ اب تو مجھے نیند بھی آنے لگی ہے۔" اس نے بمشکل جمائی روکتے ہوئے کھیرے کا ایک ٹکرا اٹھا کر منہ میں ڈالا۔
"8 بجے کا وقت دیا تھا تمہارے ابو نے بس آنے ہی والے ہوں گے۔" ندرت بیگم کباب تلتیں ایک نگاہ گھڑی پر ڈالتے ہوئے بولیں۔
سحر کا ہاتھ ایک بار پھر کھیرے کی پلیٹ تک جاتا اس سے پہلے ہی ایک زور دار دھپ اس کی کمر پر رسید ہوئی۔
"کتنی دفعہ منع کیا ہے میں نے ایسے بیچ میں سے اٹھا کر نہیں کھاتے بے برکتی ہوتی ہے۔" ندرت بیگم غصے سے بولیں۔
"ہائے امی کیا ہے ایک ہی تو لیا تھا۔" سحر نے اپنی کمر سہلاتے ہوئے برا سا منہ بنایا۔
"عنایہ کہاں ہے؟ جب سے اس کی دوست گئی ہے تب سے چپ چپ گھوم رہی ہے۔" اب کہ وہ کباب ٹرے میں نکالتے ہوئے بولیں۔
"پتا نہیں کمرے میں ہی ہوں گی۔ میں انہیں کپڑے بدلنے کا کہہ کر آئی تھی۔" ندرت بیگم کو متوجہ نا پا کر اس نے چپکے سے کھیرے کا ٹکڑا اٹھا کر جلدی سے منہ میں ڈالا۔
"جا کر دیکھو اسے وہ تیار ہوئی تو اسے بلاؤ۔" انہوں نے مڑ کر سحر کو دیکھا تو اس کے چلتے منہ کو بریک لگی۔
بامشکل جی امی کہتی وہ کچن سے باہر بھاگ گئی۔
_______________________________وہ دونوں سفر پر رواں دواں تھے۔ گاڑی میں مکمل خاموشی چھائی تھی۔ اذہان گاڑی چلانے میں مصروف تھا تو سارہ کھڑکی سے باہر منظر پر نظریں ٹکائےبیٹھی تھی۔
دفعتاً اس نے چہرہ موڑ کر گاڑی چلاتے اذہان کو دیکھا اور نگاہیں جیسے اس پر جم سی گئیں۔
کالے رنگ کی شلوار قمیض پہنے آستین کہنیوں تک موڑے بھورے بالوں کو نفاست سے سیٹ کیے وہ دنیا جہاں بھلائے ڈرائیونگ میں مہو تھا۔ مدھم روشنی میں اس کا چمکتا چہرہ۔۔۔۔۔۔ سارہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔
اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس کرتے اذہان نے گردن موڑ کر سارہ کو دیکھا۔ وہ بغیر پلک جھپکائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں حیرت ابھری مگر وہ نظر انداز کرتا روڈ کی طرف چہرہ موڑ کیا۔
کچھ دیر بعد اس نے پھر سارہ کو دیکھا تو وہ اب بھی سیٹ پر سر ٹکائے محویت سے گردن موڑے اسے دیکھ رہی تھی۔ اذہان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
" کیا دیکھ رہی ہو؟" اس نے اپنی نگاہیں پھیرتے ہوئے کہا۔
"آپ کو دیکھ رہی ہوں۔" وہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولی۔
"ہاں مگر ایسے کیوں دیکھ رہی ہو۔ " وہ اس کی نظروں سے زچ ہوتے ہوئے بولا۔
سارہ کے ہونٹوں پر تبسم بکھرا۔ "آپ اچھے لگ رہے ہیں اس لیے۔ "
اذہان نے چونک کر اسے دیکھا۔
"سچ کہہ رہی ہوں۔" اس کے ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ دوڑ گئی۔
"مجھے یونہی دیکھتی رہی نہ تو اور کچھ ہو نہ ہو تمہاری گردن ضرور اکڑ جائے گی۔" اذہان نے ہنستے ہوئے کہا۔
"آپ کو تو ساری عمر یوں بیٹھ کر دیکھ سکتی ہوں میں۔" آسودہ سی مسکراہٹ لیے وہ اذہان کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔
اذہان نے تعجب سے اسے دیکھا پھر خاموشی سے چہرہ موڑ گیا۔
سارہ کچھ پل اس کے جواب کا انتظار کرتی رہی مگر جواب نہیں آیا۔۔۔۔ جواب آنا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ بھیگی آنکھ کے گوشے کو ناخن کی نوک سے صاف کرتے اس نے اپنی نظریں ایک بار پھر باہر چلتے منظر پر مزکور کر دیں۔
کسی کی آنکھ پُر نم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
زباں پر قصہ غم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
کبھی ہنسنا کبھی رونا، کبھی ہنس ہنس کر رو دینا
عجب دل کا یہ عالم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
خوشی کا حد سے بڑھ جانا بھی، اب اک بےقراری ہے
نہ غم ہونا بھی اک غم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
کسی کو سامنے پا کر، کسی کے سرخ ہونٹوں پر
انوکھا سا تبسم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
جہاں ویران راہیں تھیں، جہاں حیران آنکھیں تھیں
وہاں پھولوں کا موسم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
__________________________
YOU ARE READING
راہِ عشق
Romanceزندگی میں صرف ایک چیز ایسی ہے جو انسان کو جی بھر کے خوار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور وہ ہے محبت۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہے، کبھی آپ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہونے کا اتنا گہرا احساس دلاتی ہے کہ انسان کو لگتا ہے وہ اپنی مُٹھی میں...