قسط نمبر 11

22 5 5
                                    


____________  EPISODE: 11   _____________

رات کا کھانا پرسکون ماحول میں کھایا گیا۔ پریشے تھوڑی دیر ان کے ساتھ بیٹھ کر طبیعت خرابی کا کہتی کمرے میں چلی گئی۔ سارہ اسے دیکھ حقیقتاً حیران ہوئی تھی۔
"اچھا انکل اب اجازت دیں۔" اذہان صوفے سے کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
"ارے بیٹا تھوڑی دیر اور بیٹھتے۔" اسے کھڑا ہوتا دیکھ طاہر صاحب بھی کھڑے ہوئے۔
"نہیں انکل بہت شکریہ کل صبح واپس کراچی کی فلائٹ ہے ۔" وہ معذرت خواہ انداز میں بولا۔
"آپ آئے ہمیں بہت خوشی ہوئی بیٹا پھر کبھی لاہور آنا ہوا تو ہمارے پاس ضرور چکر لگانا۔" ندرت بیگم سارہ کو ایک طرف سے حصار میں لیتی خوش دلی سے بولیں۔
سارہ دھیمے سے مسکرا دی۔
"جی آنٹی ضرور۔" اذہان جبراً مسکراتے ہوئے بولا۔
وہ باہر نکلے تو کچن کے پاس سحر اور پریشے کو کھڑا پایا۔
"اچھا سحر ہم چلتے ہیں۔" سارہ نے آگے بڑھ کر سحر کو گلے لگایا۔
"آپ سے مل کر بہت اچھا لگا۔" سحر مسکراتے ہوئے بولی۔
"مجھے بھی۔" وہ مسکراتے ہوئے پریشے کی طرف بڑھی جو گم سم سی کھڑی تھی۔
"تم بہت پیاری ہو ۔" سارہ آسودگی سے مسکراتے ہوئے اس کو دیکھ بولی۔ وہ نیلی آنکھوں والی لڑکی اس کے تصور سے زیادہ خوبصورت تھی۔
پریشے نے چونک کر اسے دیکھ پھر اذہان کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا مگر اس کے دیکھتے ہی نظریں چرا گیا۔
"آپ بھی بہت پیاری ہیں۔" پریشے نے مسکرانے کی کوشش کی مگر مسکرا نہ سکی۔
"چلیں سارہ۔" اذہان پریشے کو نظرانداز کئے سارہ سے بولا۔
"جی چلیں۔" وہ پریشے کے گلابی گالوں کو ہلکا سا چھوتی آگے بڑھ گئی۔
ڈبڈبائی آنکھوں سے وہ کھڑکی سے اذہان اور سارہ کو دیکھے گئی۔ گاڑی میں بیٹھتے اذہان کی نظر کھڑکی پر پڑی تو ایک پل کو نظریں ساکت رہ گئیں۔ چاند کے ہالے میں چمکتا وہ چہرہ اسے کبھی اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا مگر شاید وہ اسے آخری بار دیکھ رہا تھا۔ اسے پریشے کی نم آنکھوں میں کئی شکوے دکھے جو بن کہے بھی اُس کے دل کو تیر کی طرح چیر گئے تھے۔ اس سے نظریں چراتا وہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔
"اتنی ٹھنڈ میں یہاں کیوں کھڑی ہیں آپی؟" سحر اس کے کندھوں پر گرم شال اوڑھتے ہوئے بولی ۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"آپی اُنہیں بھول جائیں۔ وہ اپنی زندگی میں بہت خوش ہیں."
"ہاں۔۔۔۔۔ آج مجھے یقین ہو گیا کہ وہ بہت خوش ہے۔" کھڑکی سی باہر نظر آتے چاند پر نظریں ٹکائے وہ کھوئی کھوئی سی بولی۔
"آج ابراہیم کو سارہ کے ساتھ دیکھ مجھے بہت برا لگا وہ جب اس کے ساتھ کھڑا تھا تو یوں لگا جیسے مجھ سے میری سانسیں چھن گئی ہوں یوں جیسے مجھے ننگے پاؤں تپتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا ہو۔" اس کی پیٹھ کو دیکھتے سحر کو اس کے آواز میں نمی گھلتی ہوئی محسوس ہوئی۔
"مگر جانتی ہو سحر اس سب کے بعد کیا اچھا ہوا ہے؟وہ مڑ کر سحر کو دیکھتے ہوئے بولی۔
لال سرخ سوجے ہوئے پپوٹے اور چہرے پر آنسوؤں کے نشان دیکھ اسے پریشے کی حالت پر ترس آیا۔
"میرے دل میں کہیں جو اس کے مل جانے کی امید باقی تھی وہ آج ختم ہو گئی ہے۔۔۔۔ شاید اب میرے لیے اسے بھول جانا آسان ہو جائے۔" اس نے مسکراتے ہوئے سحر کو دیکھا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے وجود سے ٹکرایا۔ آسمان پر چمکتے چاند نے افسوس سے اس لڑکی کو دیکھے گیا۔
"رات بہت ہو گئی ہے سحر جاؤ سو جاؤ۔۔۔" وہ پھر سے آسمان پر نظریں جماتے ہوئے بولی۔
"اور آپ؟" سحر نے فکرمندی سے اسے دیکھا۔
"تم جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آتی ہوں۔" وہ یونہی اپنی جگہ پر ساکت کھڑی رہی۔
سحر کچھ دیر اسے دیکھتی رہی مگر جب وہ نہ ہلی تو لمبا سانس خارج کرتی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

راہِ عشقDonde viven las historias. Descúbrelo ahora