........................ EPISODE#12 ..........................وہ سارہ کو لیے ہاسپٹل پہنچا تو رات کے بارہ بجنے کو تھے۔ وہ تیزی سے اُسے اٹھائے اندر کی طرف بھاگا۔
"کیا ہوا ہے انہیں؟ " سامنے سے آتی دو نرسز نے سٹریچر اس کے سامنے روکتے ہوئے پوچھا۔
"پتا نہیں۔۔۔ کچھ دیر پہلے تک تو بالکل ٹھیک تھی پھر اچانک پتا نہیں کیا ہوا بے ہوش ہو گئی اور جب میں نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔" اذہان کے چہرے پر خوف صاف دکھائی دیتا تھا ہاتھ ہلکے ہلکے لرز رہے تھے۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے سارہ کو سٹریچر پر لٹایا تو اس کا ہاتھ اذہان کے ہاتھوں میں آ گیا۔
"ٹھیک ہے ہم انہیں امرجنسی میں لے جاتے ہیں آپ ہاسپٹل کی رکوائرمنٹس پوری کر دیں۔" وہ تیزی سے سٹریچر کو چلاتے امرجنسی کی طرف بڑھ گئے۔ اس کے ہاتھوں سے سارہ کا ہاتھ چھوٹ گیا۔ وہ تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک سٹریچر اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گیا۔اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔کچھ دیر بعد وہ امرجنسی روم کے سامنے کھڑا شیشے سے سارہ کے بے جان وجود کو دیکھ رہا تھا جو کچھ گھنٹوں میں ہی مرجھا سا گیا تھا۔ مختلف مشینوں سے جکڑا اس کا پیلا پڑتا وجود صدیوں سے بیمار لگتا تھا۔ اس کے دل میں درد کی ایک شدید لہر اُٹھی وہ تکان سے چلتا سر ہاتھوں میں گرائے کرسی پر بیٹھ گیا۔
نفاست سے سیٹ کیے بال بکھر گئے تھے چہرے پر عجیب ویرانی و پریشانی سی تھی۔ ابھی اسے بیٹھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ امرجنسی روم کا دروازہ کھلا اور ایک نرس باہر نکلی۔
وہ تیزی سے کھڑا ہوتا نرس کے پاس گیا۔ "سارہ کیسی ہے؟"
"آپ پیشنٹ کے ساتھ ہیں؟" وہ اس کے سوال کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے بولی۔
"جج۔۔۔جی۔ "
آپ کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے روم میں بلایا ہے۔ آپ جا کر ان سے مل لیں۔
"لیکن۔۔۔۔۔" اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا نرس اسے اطلاع دیتی آگے بڑھ گئی۔
___________________________وہ دروازے پر دستک دیتا اندر داخل ہوا۔
"آئیے مسٹر اذہان." ڈاکٹر نے فائل بند کر کے ایک طرف رکھتے ہوئے اسے دیکھا۔
"جی۔" اذہان ڈاکٹر کے سامنے والی کرسی پر آ بیٹھا۔
"وہ۔۔۔۔ ڈاکٹر سارہ۔۔۔۔ "
"سارہ اذہان۔۔۔۔۔ آپ انہی کے ساتھ ہیں نہ۔" وہ اپنے سامنے پڑی ایک اور فائل پر نظر دوڑاتے ہوئے بولے۔
"جی ہاں۔" کرسی پر بیٹھے اس کی ایک ٹانگ مسلسل ہل رہی تھی۔
"کیا رشتہ ہے آپ کا ان سے؟" وہ دونوں ہاتھ آپس میں ملاتے تھوڑا آگے ہو کر بیٹھے۔
"وہ۔۔۔۔۔ میری بیوی ہے۔" اسے اپنے آواز دور کھائی سے آتی سنائی دی۔
"آپ کی شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟ "
"ابھی کچھ مہینے ہی ہوئے ہیں مگر آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔۔ یہ کیوں نہیں بتا رہے کہ سارہ کیسی ہے۔" وہ ان کی باتوں سے زچ ہوتے ہوئے بولا۔
"مسز سارہ کو یہ بیماری کب سے ہے؟" ڈاکٹر کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتے رہے پھر بولے تو ان کی آواز میں عجیب سا تاثر تھا۔
"بیماری؟" اذہان نے نا سمجھی سے ڈاکٹر کو دیکھا۔
"جی مسٹر اذہان آپ کی وائف کو برین ٹیومر ہے۔ اور ان کی حالت کافی critical ہے۔"
اور اذہان کا وجود ایسا ہو گیا تھا کہ گویا کاٹو تو لہو نہیں۔۔۔۔ ہاسپٹل کی چھت جیسے اس کے سر پر آ گری تھی۔
"مجھے تو حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ آپ کی وائف کی بیماری لاسٹ سٹیج پر ہے اور اس سٹیج میں تو Symptoms کافی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ کیا آپ کو کبھی کچھ محسوس نہیں ہوا۔۔۔"
ڈاکٹر کہہ رہے تھے اور وہ پتھر کا مجسمہ بنا انہیں دیکھ رہا تھا۔ کتنے ہی منظر آنکھوں کے سامنے لہرائے تھے جب سارہ اسے بیمار لگی تھی مگر ہر بار وہ اس کی ذرا سی تسلی پر مان جایا کرتا تھا۔۔۔۔۔ وہ اپنے آپ میں اتنا گم تھا کہ کبھی اسے سارہ کی تکلیف کا احساس ہی نہ ہوا۔۔۔۔۔۔ اس نے کرب سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ اب کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا۔
"اب ان کی حالت اتنی سیریس ہے کہ ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے۔"
"لیکن کوئی تو آپشن ہو گا نہ ڈاکٹر۔۔۔۔" اذہان نے آس بھری نظروں سے انہیں دیکھا۔
"ہاں۔۔۔۔ اب اپریشن ایک آخری حل ہے آپ کو جلد از جلد آپریشن کروانا ہو گا مگر ہم سو فیصد شیور نہیں ہیں کہ آپریشن کامیاب ہو گا۔ جس حال میں آپ کی وائف ہیں ہم کوئی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ وہ سروائیو کر سکیں گی یا نہیں۔"
"دیکھیں مسٹر اذہان زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ہم ڈاکٹرذ تو صرف ذریعہ ہوتے ہیں۔ وہ جسے چاہے اسے زندگی دے دے۔ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ جلد از جلد ان کا آپریشن کروا لیں۔ ایک امید ہے کہ آپریشن کے بعد وہ بچ سکتی ہیں ورنہ زیادہ سے زیادہ وہ کچھ مہینے ہی سروائیو کر پائیں گی۔" ڈاکٹر نے اپنی بات کہہ کر اسے دیکھا جس کا چہرہ کسی بھی تاثر سے عاری تھا۔ ان کی بات سن کر اذہان نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ مسلا۔
"آپ ۔۔۔۔ آپریشن کر دیں ڈاکٹر انشاللہ اُسے کچھ نہیں ہو گا۔" نہ جانے کیوں یہ کہتے اس کا لہجا لڑکھڑایا۔
"انشااللہ!! " اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ڈاکٹر روم سے باہر چلے گئے اور وہ دیر تک یونہی بے وجہ وہاں بیٹھا کھڑکی سے باہر اُڑتے پرندوں کو دیکھتا رہا۔
______________________________
YOU ARE READING
راہِ عشق
Romanceزندگی میں صرف ایک چیز ایسی ہے جو انسان کو جی بھر کے خوار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور وہ ہے محبت۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہے، کبھی آپ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہونے کا اتنا گہرا احساس دلاتی ہے کہ انسان کو لگتا ہے وہ اپنی مُٹھی میں...