قسط نمبر 14

26 7 2
                                    


_____________ EPISODE: 14 _____________

سرد شام آہستہ آہستہ ڈوب گئی اور ہر سو رات کی سیاہی پھیلنے لگی۔ کمرے کی تمام بتیاں بجھی ہوئی تھیں جبکہ کھڑکی کے دونوں پٹ کھلے تھے جہاں سے ٹھنڈی ہوا کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ ٹھٹھرتی سردی میں کھڑکی کے پاس گھٹنوں پر چہرہ رکھے آنکھوں میں آنسو لیے چاند کو تک رہی تھی۔
اچانک دروازہ کھلا اور اسے قدموں کی چاپ سنائی دی مگر اس نے چہرہ موڑ کر نہیں دیکھا۔
سحر قدم قدم چلتی بالکل اس کے پاس آ کھڑی ہوئی لیکن وہ پھر بھی اسی طرح کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔ سحر نے لائٹس جلانے کے لیے ہاتھ بڑھایا جب اس کی آواز سنائی دی۔
"بند رہنے دو سحر." اس نے بغیر ہلے جواب دیا۔ سحر کا سوئچ بورڈ تک جاتا ہاتھ تھما۔ اس نے چونک کر پریشے کو دیکھا۔ اس کے لہجے میں کچھ تھا جو اسے عجیب لگا۔
"کیا ہوا ہے آپی؟" سحر اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی۔
اس نے نظریں چاند سے ہٹا کر سحر کو دیکھا۔ آنکھ کے کنارے پر اٹکا وہ آنسو جو کب سے وہاں موجود تھا سحر کو دیکھتے ہی بہہ گیا۔۔۔۔ پھر کتنے ہی آنسو یونہی بہتے گئے۔ اس نے چہرہ واپس موڑ لیا۔
"وہ مجھ سے محبت کرتا تھا سحر" اسے اپنی آواز دور کھائی سے آتی سنائی دی نا چاہتے ہوئے بھی اس کی آواز رندھ گئی۔
"کون؟" سحر نے نہایت حیرت سے اسے دیکھا۔
"مجھ سے غلطی ہو گئی سحر۔۔۔۔۔ میں نے اسے غلط سمجھا۔۔۔" وہ سحر کو نہیں سن رہی تھی بس چاند کو دیکھتے ہوئے کسی جزب کے عالم میں بولے جا رہی تھی۔ اس کے سلکی لمبے بال کمر پر بکھرے تھے جو تیز ہوا سے پیچھے کی طرف اڑتے خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔
"کون باجی؟" اس نے نا سمجھی سے پریشے کے بازو پر ہاتھ رکھا تو اس نے چونک کر سحر کو دیکھا۔
"اب۔۔۔ابراہیم۔"
کتنے ہی پل ماحول میں سکتا چھایا رہا۔
"کیا کہہ رہی ہیں آپی.. کسی نے آپ سے کچھ کہا ہے ؟" وہ پریشانی سے اسے دیکھ بولی۔
" میں نے کیوں اس کی بات نہیں سنی۔۔۔ اس نے مجھے بہت روکا تھا سحر۔۔۔ مگر میں نے اس کی ایک نہیں سنی۔"
" آپ سے یہ سب کس نے کہا ہے؟"
"لیلیٰ نے۔ وہ آج مجھ سے ملی تھی۔۔۔ اُس نے کہا کہ وہ سب اس نے کیا تھا تاکہ میں ابراہیم سے بدزن ہو جاؤں۔ اُس نے کہا کہ ابراہیم مجھ سے محبت کرتا تھا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ اب بھی مجھ سے محبت کرتا ہو گا نہ سحر۔" اپنی بات کہہ کر اس نے امید بھری نظروں سے سحر کو دیکھا جو خاموشی سے اس کے مرجھائے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔
"آپی آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ آپ سو جائیں پلیز" وہ اس سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔
"تم بتاؤ نہ۔۔۔۔ وہ اب مجھ سے محبت کرتا ہو گا نہ۔۔۔۔ بالکل ویسے جیسے میں اس سے کرتی ہوں" وہ اپنی بات پر خود ہی ہلکا سا مسکرا دی۔ چاند کی روشنی میں چمکتا اسکا چہرہ بالکل اُس اداس رات کا حصہ لگ رہا تھا۔
"آپی!!! کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔ ان کی شادی ہو گئی ہے۔" سحر نے افسوس سے اسے دیکھا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا اُس کے وجود سے ٹکرایا جو اس کے سارے جسم کو برف کر گیا۔
"وہ آپ سے کیسے محبت کر سکتے ہیں۔۔۔" سحر بہت آہستہ سے کہہ رہی تھی اور وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔ کہیں کچھ بہت زور سے ٹوٹا تھا۔۔۔۔۔ اُس کا دل۔۔۔۔۔ ارمان یا شاید۔۔۔۔۔ اس کے خواب وہ فیصلہ نہ کر پائی۔
وہ بھول گئی تھی۔۔۔۔ ہاں وہ بھول گئی تھی کہ اذہان کی شادی ہو گئی ہے۔۔۔۔
"سارہ" پریشے نے بہت دھیمے سے اسکا نام پکارا۔ بے اختیار اسے سارہ کا چہرہ یاد آیا۔۔۔۔۔۔
"آپی میرا مقصد۔۔۔۔۔"
"تم جاؤ" وہ بے تاثر سی سحر کو دیکھ رہی تھی۔
"لیکن آپی۔۔۔۔۔۔"
"خدا کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ دو سحر" اس نے سحر سے نظریں موڑ کر آسمان پر ٹکا دیں یوں جیسے وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتی ہو۔
سحر افسوس سے کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر خاموشی سے اُٹھتی باہر چلی گئی۔
کمرے میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔ دل چیر لینے والا سناٹا۔۔۔۔۔۔۔۔
اذہان ابراہیم شاہ اس کا نہیں تھا۔۔۔۔وہ اس کی قسمت میں لکھا ہی نہیں گیا تھا۔ اُس پر تو ہمیشہ سے کسی اور کا حق تھا۔ اُن دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ضرور تھی مگر اب۔۔۔ اس کی زندگی میں پریشے جہانزیب کی جگہ کہیں نہیں تھی۔ اُسے سارہ مل گئی تھی۔۔۔۔۔
پریشے کو اُس شام کا منظر یاد آیا جب اس کے گھر سے واپسی پر سارہ کا دوپٹہ دروازے میں اٹک گیا تھا۔۔۔۔۔کتنی چاہت سے اذہان نے وہ دوپٹہ نکالا تھا۔۔۔۔ وہ دونوں ساتھ بہت خوش تھے۔۔۔ مکمل تھے۔۔ پریشے جہانزیب تو کہیں نہیں تھی ۔۔۔ اذہان ابراہیم شاہ کی کہانی اُس کے بغیر ادھوری نہیں تھی۔۔۔ اُسے اب پریشے سے محبت نہیں تھی۔۔۔۔
ہاں۔۔۔۔ اذہان کو اب۔۔۔۔ پریشے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اسے ایک ایک ایسے انسان سے محبت ہوئی تھی جو کبھی اس کا تھا ہی نہیں۔۔۔
درد کی ایک شدید لہر اُس کے دل میں اُٹھی۔ اُس نے تکلیف سے آنکھیں بند کر لیں۔ کتنی ہی یادیں آنسوؤں کے ذریعے آنکھوں سے بہہ گئیں۔
بادلوں کی باڑ میں چھپا چاند افسوس سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو بلکل اس کی طرح تھی۔۔۔۔ ہزاروں کی بھیڑ میں تنہا۔۔۔۔۔
پریشے نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے آنکھیں کھولیں۔۔۔ وہاں بیٹھے بیٹھے اُس نے ایک عہد کیا تھا جو اب اسے ساری زندگی نبھانا تھا۔
سرد رات آہستہ آہستہ سرک رہی تھی مگر وہ یونہی بے حس بنی وہاں بیٹھی رہی۔
وہ رات اس پر بہت بھاری پڑی تھی جسے گزارنا بہت تکلیف دہ تھا۔

راہِ عشقWhere stories live. Discover now