_______________ EPISODE: 15 ____________"آپی آپ ہاسپٹل سے امی کی رپورٹس لے آئی تھیں؟" سحر نے اسے کتاب پڑھتے دیکھ کہا۔
کچھ روز قبل ندرت بیگم کی طبیعت خرابی کی وجہ سے انہیں ہاسپٹل لے جایا گیا تھا جہاں ان کے کچھ ٹیسٹ ہوئے جس کی رپورٹس آج ملنی تھیں۔
"اوہ!! میرے تو ذہن سے ہی نکل گیا سحر۔۔۔ اچھا کیا تم نے یاد دلا دیا۔" پریشے نے کتاب بند کرتے گھڑی پر نظر دوڑائی جہاں دن کے بارہ بج رہے تھے۔
"اچھا کوئی بات نہیں میں ابو سے کہہ دیتی ہوں وہ رات کو آتے وقت لے آئیں گے۔" سحر کہتے ہوئے مڑنے ہی لگی تھی جب وہ فوراً کہہ اٹھی۔
"نہیں ابو کو تنگ مت کرو وہ پہلے ہی رات کو تھکے ہارے گھر آتے ہیں ہاسپٹل کہاں جائیں گے انہیں بہت دیر ہو جائے گی۔ ایک کام کرو تم تیار ہو جاؤ ہم خود جا کر لے آتے ہیں۔"
"ہاں یہ بھی ٹھیک رہے گا۔ چلیں پھر میں فریش ہو کر آتی ہوں۔" سحر کہتے ہوئے واشروم کی طرف بڑھ گئی اور وہ اپنے بال باندھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
____________________________"امی میں تھک گئی ہوں۔۔۔۔ اور کتنی دیر تک ہاسپٹل میں رہنا پڑے گا۔ بستر پر لیٹ لیٹ کر اکتا گئی ہوں میں۔" سارہ بیڈ سے ٹیک لگئے بیٹھی تھی۔ سرپر پٹی ہنور بندھی تھی۔ حمنا بیگم اور اپنی والدہ کو دیکھ چڑ کر بولی جو اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھی تھیں۔
"سارہ بیٹا یہ سب تمہارے ہی فائدے کے لیے ہے تم ابھی مکمل صحت یاب نہیں ہوئی ڈاکٹر کہتے ہیں ابھی ایک دو دن اور تمہیں یہاں رکھنا پڑے گا۔" سارہ کی والدہ نے سوپ سے بھرا چمچ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جسے وہ برا سا منہ بناتے ہوئے پی گئی۔
نظریں اُس دشمنِ جاں کی تلاش میں تھیں جو جانے کہاں غائب تھا۔ سارہ نے بے اختیار اپنے سیدھے ہاتھ کو چھوا۔ وہ جانتی تھی کہ اذہان رات بھر اس کے پاس بیٹھا رہا تھا۔ یہ لمس تو وہ کروڑوں کی بھیڑ میں بھی پہچان سکتی تھی۔ اذہان سارہ کے پاس ہو اور وہ اس کی موجودگی سے لا علم رہے۔۔۔۔ یہ کہاں ممکن تھا۔
"آنٹی۔۔۔ وہ اذہان کہاں ہیں؟" اُس نے کچھ جھجھکتے ہوئے حمنا بیگم سے پوچھا۔
"بیٹا وہ ذرا ہوٹل گیا ہے فریش ہونے۔ جب سے تم ہاسپٹل میں ہو وہ ہر وقت تمہارے ساتھ موجود رہتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ تو کھانا پینا بھی بھول گیا تھا۔۔۔ بہت پریشان تھا. صبح ہی گیا ہے تھوڑی دیر تک واپس آ جائے گا۔" وہ اپنی ہی رو میں بول رہی تھیں اور سارہ حیرت سے انہیں دیکھے گئی۔
"وہ پریشان تھے۔۔۔۔ میرے لیے؟" سارہ کی آنکھوں میں واضح بے یقینی تھی۔
"لو بھئی۔۔۔ بیوی ہو تم اس کی۔۔۔ تمہارے لیے پریشان نہیں ہو گا تو کس کے لیے ہو گا۔" سارہ کی والدہ جو کب سے ان کی باتیں سن رہی تھیں اس کی کم عقلی پر اسے کہنے لگیں۔ سارہ غائب دماغی سے ہاں میں سر ہلا گئی۔ پھر وہ دونوں اس سے کتنی ہی باتیں کرتی رہیں مگر اس کا دماغ اب صرف اذہان کے گرد بھٹک رہا تھا۔
___________________________وہ دونوں ہاسپٹل کے ریشیپش پر کھڑی لڑکی سے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔
"اور کتنی دیر لگے گی ڈاکٹر کو؟" پریشے ریسیپشن پر کھڑی لڑکی کو دیکھ بولی۔
"میم وہ ابھی ایک امرجنسی کیس دیکھ رہے ہیں۔ آپ ایک کام کریں آپ ان کے روم میں انتظار کر لیں وہ آنے ہی والے ہوں گے۔" وہ لڑکی شائستگی سے کہتی دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
پریشے سحر کی جانب مڑی جو ادھر ادھر چکر لگا رہی تھی۔
"سحر چلو ڈاکٹر کے آفس میں چل کر انتظار کر لیتے ہیں۔"
"آپی آپ چلیں مجھے بہت پیاس لگ رہی ہے۔ میں کہیں سے پانی لے کر آتی ہوں"
" چلو میں بھی چل لیتی ہوں تمہارے ساتھ۔ ڈاکٹر تو ابھی آئے نہیں ہیں"
"میم.. ڈاکٹر فارغ ہو گئے ہیں آپ جا کر ان سے مل لیں پھر انہیں دوسرے پیشنٹس کو بھی بھی دیکھنا ہے."
وہ جو سحر کے ساتھ جانے لگی تھی اس لڑکی کی بات پر رکی۔
"آپی آپ جا کر رپورٹس لیں میں پانی لے کر آتی ہوں."
"اچھا ٹھیک ہے" وہ کہہ کر ڈاکٹر کے روم کی طرف بڑھ گئی جبکہ سحر باہر کی جانب نکل گئی۔
وہ ہاسپٹل سے منسلک کیفے کی طرف بڑھ رہی تھی جب اس کا فون بجنے لگا۔ بیگ سے فون نکال کر دیکھا جہاں ندرت بیگم کا نام جگمگا رہا تھا۔ سحر نے آگے بڑھتے ہوئے فون کان سے لگایا۔
"نہیں امی ابھی رپورٹس نہیں ملی۔"
"جی۔۔جی۔۔۔۔ سیدھا گھر ہی آئیں گے آپ فکر مت کریں." وہ ان سے بات کرتی شیشے کا دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی جب کوئی اندھی طوفان کی طرح اس سے ٹکرایا اور اس کا فون چھناکے کی آواز کے ساتھ زمین پر جا گرا۔ سحر نے بے یقینی سے نیچے گرے اپنے فون کو دیکھا جس کی اسکرین کا جنازہ نکل گیا تھا پھر اسی بے یقینی سے چہرہ اٹھا کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا جو اسی حیرانی سے اس کے ٹوٹے فون کو دیکھ رہا تھا۔
"آئی۔۔۔آئی ایم رئیلی سوری۔۔" عباد نہایت شرمندگی سے اسے دیکھ بولا۔
سحر کے چہرے پر بے یقینی کی جگہ غصہ نے لے لی۔
"اندھے ہیں؟ نظر نہیں آتا آپ کو۔۔۔ آنکھیں کرائے پر دے کر نکلے ہیں کیا؟......یا اللہ میرا فون۔۔۔۔۔" وہ غصے سے کہتی فون اٹھانے کے لیے نیچے جھکی جہاں اس کا فون تین ٹکروں میں بٹا پڑا تھا۔
"دیکھیں مس میں نے جان بوجھ کر آپ کا موبائل نہیں توڑا۔۔۔ وہ تو آپ یوں اچانک سے میرے سامنے آ گئیں تو ٹکر ہو گئی۔" وہ بھی اس کے ساتھ نیچے بیٹھتے ہوئے افسوس سے اس کا فون دیکھنے لگا۔ وہ واقعی شرمندہ لگ رہا تھا۔
"اچھا۔۔۔ مطلب کہ میں سامنے سے آ گئی۔۔۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے؟" وہ اب ٹوٹے فون کو اٹھا کر کھڑی ہو چکی تھی۔ عباد کو غصے سے گھورتے ہوئے بولی۔
" آپ کیوں بات کو بڑھا رہی ہیں۔۔۔ آپ کا جو نقصان ہوا ہے میں اس کی قیمت ادا کر دیتا ہوں۔ مگر غلطی آپ کی بھی تھی" عباد کو بھی اب اس پر غصہ آنے لگا جو بلا وجہ کب سے اسے سنائی جا رہی تھی۔
"اچھا میں فون پر بات کر رہی تھی تو آپ کی تو آنکھیں سلامت تھیں کہ نہیں؟"
"آپ کب سے مجھ سے بدتمیزی کر رہی ہیں۔۔۔ میں آپ سے معافی مانگ چکا ہوں اور میں یہ بھی کہہ رہا ہوں کہ میں آپ کے فون کی قیمت ادا کرنے پر بھی راضی ہوں مگر آپ اپنی غلطی ماننے کے بجائے الٹا مجھ سے لڑ رہی ہیں۔"
ان دونوں کو یوں لڑتا دیکھ آس پاس لوگ جمح ہونے لگے تھے۔
"مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ سے لڑنے کا سمجھے۔ اور اپنے پیسوں کا دھونس کہیں اور جا کر جمائیں۔ آپ کے پیسے آپ کو ہی مبارک۔"
"بہت بہتر لیکن اگلی بار یوں دنیا سے بے خبر فون پر بات کرتے ہوئے مت چلیے گا ورنہ اس فون کی جگہ آپ کی ہڈیوں کے ٹکڑے ہوئے ملیں گے۔" وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتا ایک دل جلانے والی مسکراہٹ اچھالتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔
"تم۔۔۔۔۔۔۔ ہنہہہ۔۔۔بدتمیز۔۔۔.۔۔ بندر کہیں کے...." اس نے تیش سے عباد کو مڑ کر دیکھا مگر وہ اس کی پہنچ سے بہت دور نکل گیا تھا۔ ایک نظر اپنے ہاتھ میں پکڑے ٹوٹے فون پر ڈالتی وہ پیر پٹختی آگے بڑھ گئی۔
_____________________________

KAMU SEDANG MEMBACA
راہِ عشق
Romansaزندگی میں صرف ایک چیز ایسی ہے جو انسان کو جی بھر کے خوار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور وہ ہے محبت۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہے، کبھی آپ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہونے کا اتنا گہرا احساس دلاتی ہے کہ انسان کو لگتا ہے وہ اپنی مُٹھی میں...