قسط نمبر 17

31 8 2
                                    

_____________ EPISODE: 17   ____________

وہ ہال میں قدرے کونے پر پڑی میز پر خاموشی سے چہرہ ہاتھوں میں گرائے بیٹھی لوگوں کے ہجوم کو دیکھ رہی تھی۔ سمندری آنکھوں میں دنیا جہاں کی بیزاری چھائی تھی جیسے وہ ساری دنیا سے خفا ہو۔ اس نے سیاہ پاؤوں تک آتی لمبی فراک پہنی ہوئی تھی جس کے گلے اور دامن پر ہلکے موتیوں کا کام تھا ہاتھوں میں تھوڑی سی سیاہ چوڑیاں اور چہرے پر ہلکا سا میک اپ تھا۔سلکی لمبے بال اس نے خلاف معمول کمر پر کھلے چھوڑے تھے جن کی چند آوارہ  لٹیں اس کے چہرے کے اطراف میں پھسلی ہوئی تھیں۔ وہ جانے کتنے عرصے بعد ایسے تیار ہوئی تھی۔۔۔۔ اپنی چوڑیوں پر نظر گاڑے وہ سوچ میں ڈوبی تھی۔ آنکھوں کے سامنے ایک منظر سا لہرایا۔۔۔ پریشے نے افسوس سے سر جھٹکا۔
"آپی آئیں سٹیج پر رسم کرنے چلیں۔" سحر اپنی فراک سنبھالتی اس کے پاس آتی کہنے لگی۔
"نہیں سحر تم جاؤ۔۔۔ میں یہیں ٹھیک ہوں۔" وہ بےزاری سے گویا ہوئی ۔
"آپی آ جائیں نہ۔۔۔ امی بھی بلا رہی ہیں آپ کو۔"
اس کے اسرار پر وہ فراک سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"چل رہی ہوں مگر رسم کر کے فوراً واپس آ جاؤں گی۔۔۔ "
"اچھا ٹھیک ہے آپ چلیں تو سہی۔" سحر اس کا ہاتھ پکڑے سٹیج کی طرف بڑھنے لگی۔
سٹیج کے ایک طرف ندرت بیگم کچھ عورتوں کے ساتھ کھڑی تھیں پریشے کو دیکھ اس کا تعارف کروانے لگیں۔ اپنے خود پر کسی کی گہری نظروں کی تپش محسوس کرتے ہوئے اس نے گردن اِدھر اُدھر گھما کر دیکھا پھر سر جھٹک کر سٹیج کی جانب بڑھ گئی۔ رسم کے دوران اور پھر سٹیج سے اتر کر اپنی میز پر آتے تک وہ خود کو کسی کی نظروں کے حصار میں محسوس کر رہی تھی مگر وہاں موجود لوگوں میں کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہ تھا۔ ابھی اسے بیٹھے پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اس کی نظر مُہد پر پڑی وہ ٹو پیس میں ملبوس ایک ہاتھ جیب میں ڈالے کھڑا کسی سے مسکرا کر باتیں کر رہا تھا۔ پریشے غور سے اسے دیکھ رہی تھی جب مہد کی نظر اس پر پڑی۔۔۔ پل بھر کو وہ مہبوت سا پریشے دیکھے گیا پھر چہرے پر بکھری مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔ پریشے نے بغیر کسی احساس کے نظریں اس پر سے ہٹا لیں۔ اس نے دیکھا کہ مہد اس کی جانب آ رہا ہے وہ خاموشی سے بیٹھی رہی۔۔۔۔ اسے دیکھ کر آج پریشے کو غصہ نہیں آیا تھا۔۔۔۔ کوئی احساس پیدا نہیں ہوا تھا۔
"اسلام وعلیکم... کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟" وہ دلکشی سے مسکراتا ہوا اس کے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
"واعلیکم السلام۔۔۔۔ یہ کرسی میں گھر سے نہیں لائی اس لیے آپ کو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس کا لہجہ نا چاہتے ہوئے بھی سخت ہو گیا تھا۔
مُہد اس کی بات پر ہنستا ہوا ساتھ رکھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"ویسے یہ بتائیں۔۔۔ کہ اتنی خوبصورت باتیں صرف میرے لیے سنبھال کر رکھتی ہیں یا یہ سب کے حصے میں برابر آتی ہیں۔" مہد کافی غور سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ پریشے نے آگے سے کوئی جواب نہیں دیا بس ایک کاٹ دار نظر اس پر ڈال کر چہرہ موڑ گئی۔ کچھ دیر دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔
"پریشے کیا آپ کو کبھی کسی نے بتایا ہے کہ آپ کی آنکھیں کتنی خوبصورت ہیں۔۔۔۔ سمندر کی طرح گہری۔..." اس کے اچانک کہنے پر پریشے نے چونک کر اسے دیکھا۔ دور کہیں کسی کی خوبصورت مدھم آواز کانوں میں گونجتی سنائی دی۔۔۔۔۔
"تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔۔ ان میں آنسو مت آنے دیا کرو کسی دن یہ میری جان لے لیں گی۔" پریشے کی آنکھوں میں کرچیاں سی چبھنے لگیں۔
"کہاں کھو گئیں۔" وہ جو بڑے غور سے اس کے چہرے کے اتاؤ چڑھاؤ دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے بولا۔ مہد کی آواز پر وہ اپنے خیالوں سے باہر آئی۔ ان کرچیوں کی چبھن کو اس نے اندر کہیں دور چھپا لیا تھا۔
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں مہد بھائی۔۔۔ پھپھو کب سے آپ کو ڈھونڈ رہی ہیں۔" اس سے پہلے کہ پریشے کچھ کہتی سحر مہد کو ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچ گئی۔
" یار سحر۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ غلط وقت پر انٹری مارتی ہو تم" سحر کو وہاں کھڑا دیکھ وہ کافی بدمزہ ہوتے ہوئے بولا۔
"کیوں بھئی۔۔۔۔ یہاں کیا ہو رہا تھا جو میں نے غلط ٹائم پر انٹری مار دی؟" وہ شکی نگاہوں سے اسے اور پریشے کو دیکھنے لگی جو خالی خالی نظروں سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"اپنے چھوٹے سے دماغ پر اتنا زور مت دو۔۔۔ کچھ نہیں ہو رہا تھا۔اب بتاؤ امی کہاں ہیں۔۔۔ اور مجھے کیوں بلا رہی تھیں؟" وہ ایک گہری نظر پریشے پر ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"آئیں میرے ساتھ میں بتاتی ہوں." سحر اسے ساتھ لیے آگے بڑھنے لگی۔
"مہد بھائی مجھے ایک بات بتائیں۔۔۔۔ یہ آج کل آپ کچھ زیادہ ہی آپی کے ارد گرد نہیں گھومنے لگے؟" اس کے ساتھ چلتے ہوئے سحر نے شاکی نگاہوں سے اسے گھورا۔ سحر کی بات پر مہد کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ در آئی۔
"لڑکی تم تو بڑی تیز ہو۔۔۔۔۔ چیل جیسی نظریں ہیں تمہاری توبہ۔۔۔۔" اسے دیکھنے ہوئے مہد نے جھرجھری لی۔
"چیل نہیں عقاب کہیں۔۔۔۔ آپ میری بہن پر ڈورے ڈال رہے ہیں اور میں چپ چاپ سب دیکھتی رہوں؟"
"استغفرُللہ۔۔۔ تم نے مجھے کب اس پر ڈورے ڈالتے دیکھا ہے؟"
"یہ ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ آپی کے ساتھ بیٹھے کیا کر رہے تھے پھر؟"
"وہ تو بس ایسے ہی ۔۔۔۔۔۔" وہ مسکرا کر کہتے ہوئے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔
"جی جی ایسے ہی۔۔۔۔۔۔ یہ تو شکر کریں کہ انہوں نے اب تک آپ کی حرکتوں پر غور نہیں کیا ورنہ۔۔۔۔" وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئی۔
"ورنہ؟؟"
"ورنہ انہوں نے واقعی آپ کا سر پھاڑ دینا تھا." مہد نے اس کی بات پر زوردار قہقہہ لگایا۔
"کیسی بہن ہو یار۔۔۔۔ مجھے ہمت دینے کے بجائے تم مجھے ڈرا رہی ہو."
"مسٹر مہد ارسلان یہ مت بھولیں کہ میں ان کی بھی بہن ہوں۔۔۔ ابھی جا کر میں نے انہیں سب بتا دیا نہ تو پھر اپنی خیر مناتے رہیے گا۔" وہ اسے چڑانے کے لیے ناک سکوڑتے ہوئے بولی۔
"حد ہے۔۔۔۔ دونوں بہنیں ہی ایک سے بڑھ ایک ہیں۔۔۔ مگر کوئی نہیں میں بھی مُہد ارسلان ہوں دیکھتا ہوں کہ تمہاری بہن کب تک مجھ سے بھاگتی پھرتی ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے گردن موڑ کر دیکھا جہاں وہ پھر سے چہرہ دونوں ہاتھوں میں گرائے بیٹھی تھی۔۔۔۔
         ______________________________

راہِ عشقWaar verhalen tot leven komen. Ontdek het nu