قسط نمبر 18 (2nd Last Episode)

28 8 4
                                    

______________ EPISODE : 18  ____________

رات ہونے کو آئی تھی مگر اذہان اب تک گھر واپس نہیں آیا تھا۔ سارہ کا دل عجیب بے چینی میں گِھرا تھا اسے اپنی کہی باتوں پر افسوس ہو رہا تھا وہ اذہان کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی وہ تو سِرے سے اس بات سے  ناواقف تھی کہ اذہان اس سے محبت کرنے لگا ہے۔ یہ سوچ آتے ہی اس کے چہرے پر دلکش سی مسکراہٹ اُبھر آئی۔ اُس نے دعاوں میں کتنا مانگا تھا اس شخص کو۔۔۔ شاید یہ اس کے صبر کا پھل تھا جو نہایت خوبصورت انداز میں اسے لوٹایا گیا تھا۔ سارہ کمرے میں بیٹھی بیٹھی بور ہونے لگی تو وہ اُٹھ کر باہر لاؤنچ میں آ گئی جہاں ایک صوفے پر حمنا بیگم بیٹھی تھیں اور عباد ان کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔
"ارے سارہ تم کیوں آ گئی بیٹا۔۔۔ کچھ چاہیے تھا تو مجھے بتا دیتی میں لا دیتی." اسے دیکھ وہ فکر مندی سے گویا ہوئیں۔
"نہیں امی مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میں کمرے میں اکیلی بیٹھی بیٹھی بور ہو رہی تھی اذہان بھی پتا نہیں کہاں گئے ہیں ابھی تک واپس نہیں آئے۔" وہ ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھتی ہوئی پریشانی سے بولی۔
"ابھی تک نہیں آیا وہ؟ میں نے اسے جاتے تو دیکھا تھا مگر میں سمجھی کہ اب تک لوٹ آیا ہو گا۔۔۔ کہاں گیا ہے وہ؟"
"پتا نہیں امی بتا کر نہیں گئے۔۔۔" ان کے سوال پر سارہ خجل ہوتی شرمندگی سے بولی۔
"میری بات ہوئی تھی ان سے کہہ رہے تھے کہیں کام سے جا رہے ہیں آنے میں تھوڑی دیر ہو جائے گی۔" عباد سارہ کے بیٹھنے ہر اٹھ بیٹھا۔
"ایک تو اس لڑکے کی سمجھ نہیں آتی مجھے۔۔۔ اب اِس انجان شہر میں کون سا ضروری کام آ گیا اسے جو رات کے اس پہر چلا گیا ہے۔" حمنا بیگم کے کہنے پر اس کا جھکا سر مزید جھک گیا۔
"بھابھی آپ کو ایک بات بتاؤں۔۔" عباد اشتیاق سے آگے کو ہو کر بیٹھا۔
"ہاں بتاؤ۔۔۔" سارہ نے سر جھٹکتے ہوئے توجہ عباد کی بات پر مزکور کی۔
"دیکھیں میں مانتا ہوں کہ یہ جو میرے بھائی ہیں تھوڑے اکھڑ ہیں۔۔۔۔مسکراتے بھی تھوڑا کم ہیں۔۔۔ اور سنجیدگی تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔۔۔ مگر دل کے بہت اچھے ہیں۔۔۔ اوپر اوپر سے ظاہر کرتے ہیں جیسے انہیں کسی کی فکر نہیں ہے مگر آپ جانتی ہیں جب آپ ہاسپٹل میں تھیں نہ تو ایک پل تو میں بھی انہیں پہچان نہیں پایا تھا کہ یہ وہی بے حس انسان ہے جسے میں دو سال سے دیکھتا آ رہا ہوں۔۔۔ اس دن میں نے بھائی کے چہرے پر وہی خوف دیکھا تھا جو دو سال پہلے دیکھا تھا۔۔۔ کسی جان سے عزیز چیز کے چھن جانے کا خوف۔۔۔" وہ مذاق میں کہتے کہتے آخر میں سنجیدہ ہو گیا۔ سارہ کے گلٹ میں کچھ اور اضافہ ہوا۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے۔۔ حمنا بیگم نے اس کی بھیگی آنکھیں دیکھی تو انہوں نے ایک زور دار تھپڑ عباد کی کمر پر رسید کیا۔
"کیا باتیں لے کے بیٹھ گئے ہو عباد۔۔۔۔ میری بچی کو رلا دیا تم نے ۔۔" انہوں نے آگے بڑھ کر سارہ کو گلے لگایا۔ وہ مسکراتے ہوئے آنسو پوچھ گئی۔
"ہائے ظالم ماں۔۔۔۔۔ اتنی زور سے کون مارتا ہے۔۔۔۔" عباد نے اپنی کمر سہلاتے ہوئے دہائی دی۔
"مار کھانے والی حرکتیں نہ کیا کرو نہ پھر۔"
"دیکھا بھابھی یہ یہی کرتی ہیں میرے ساتھ۔۔۔ بھائی کو کبھی کچھ نہیں کہتیں۔۔۔ سارہ غصہ مجھ معصوم پر نکالتی ہیں۔" وہ معصومیت کے سارے رکارڈ توڑتے ہوئے بولا۔ ابھی حمنا بیگم کا ہاتھ ایک بار پھر اس تک پہنچتا وہ اچھل کر ان سے دور ہو گیا۔
"امی مت ماریں میرے معصوم سے دیور کو۔" سارہ مسکراہٹ چھپاتے ہوئے شرارت سے بولی۔
"دیکھا کوئی تو ہے جسے میری فکر ہے۔۔۔ ورنہ یہاں تو میں کسی کو نظر ہی نہیں آتا" اس کی دہائیاں عروج پر تھیں۔
"شکل تو ایسی معصوم بنائی ہے جیسے میں تمہیں جانتی نہیں ہوں" حمنا بیگم اسے دیکھ کر غصے سے بولیں۔ ان کی بات پر سارہ کھل کر مسکرا دی۔
"آپ کو کہاں لگتا ہوں میں معصوم۔۔۔ بھائی کی شادی کروا کر آپ تو بھول ہی گئی ہیں کہ آپ کا ایک اور کنوارا بیٹا بھی رہتا ہے۔" وہ سارہ کی توجہ پچھلی بات سے ہٹانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ سارہ اب مزے سے ان دونوں ماں بیٹے کی نوک جھوک دیکھ رہی تھی۔
"تم نےدیکھا ہےسارہ۔۔۔ کتنا شوق ہے اسے شادی کروانے کا۔۔۔ پڑھائی ان صاحب زادے سے ہوتی نہیں ہے چلے ہیں یہ شادی کرنے۔"
"کچھ تو خیال کریں مام پورے بیس سالوں سے پڑھ ہی تو رہا ہوں۔۔۔ وہ الگ بات ہےکہ کبھی دل نہیں لگا پڑھائی میں۔۔ مگر پھر بھی دیکھیں مر مر کے ہی سہی ڈگری تو لے ہی لی نہ۔۔" عباد ایسے بتا رہا تھا جیسے کوئی ںہت عظیم معرکہ سنا رہا ہو۔۔۔
"صحیح تو کہہ رہا ہے امی۔۔۔ اب تو آپ کو اس کے لیے بھی کسی کو ڈھونڈ ہی لینا چاہیے مجھے بھی ایک دیورانی مل جائے گی۔۔۔ کیوں عباد۔۔" سارہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے چھیڑا۔
"ہائے آپ کے لیے بھائی کے پیسوں کی ڈھیر ساری چاکلیٹس۔۔۔ دیکھا مام ایک بھابھی ہی ہیں اس گھر میں جن کو میرا اتنا خیال ہے۔۔۔" وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھتا منہ پھولا کر کہنے لگا۔
حمنا بیگم نے ایک اور زور دار دھپ اس کے سر پر رسید کی۔
"مامممم۔۔۔۔۔۔" عباد کی دہائیاں ایک بار پھر عروج پر تھیں۔ اس کی حالت پر سارہ کے لیے اپنی ہنسی چھپانا مشکل ہو گیا۔
"دیکھو تو سہی۔۔۔ آج کل کے بچوں میں شرم ہی مر گئی ہے کیسے اپنے منہ سے اپنی شادی کی بات کر رہا ہے۔۔"
"ہم نئی جنریشن ہیں مام۔۔۔۔" وہ فرضی کالر جھاڑتے ہوئے فخر سے بولا۔
"توبہ توبہ۔۔۔ اللہ بچائے ایسی نئی جنریشن سے۔۔ اب ایسے کیوں بیٹھے ہو؟" وہ اسے سر جھکائے بیٹھا دیکھ بولیں۔
" آپ کی ہی کرم نوازی ہے سب مام۔۔۔ آپ کے ہاتھ اسی رفتار سے مجھ پر برستے رہی نہ تو میری شادی ہو نہ ہو۔۔۔ میں نے ضائع ضرور ہو جانا ہے۔۔" وہ اتنی معصومیت سے بولا تھا کہ سارہ کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔
"عباددددد۔۔۔" حمنا بیگم کا ہاتھ ایک بار پھر اس تک پہنچتا اس سے پہلے ہی ان کا ارادہ بھانپتے ہوئے وہ کرنٹ کھا کر صوفے سے اٹھا اور کمرے کی طرف بھاگا۔۔۔۔
"کچھ رحم کریں مجھ معصوم پر۔۔۔ یہاں تو کھلم کھلا دہشت کردی چل رہی ہے۔۔۔۔" کمرے میں داخل ہونے سے پہلے عباد کی آواز ان دونوں کو سنائی دی۔ سارہ قہقہہ لگا کر ہنس دی۔
"بدتمیز نہ ہو تو۔۔" سارہ کو ہنستے دیکھ حمنا بیگم بھی مسکرا دیں۔
"ہمیشہ خوش رہو بیٹا۔۔" ان کی بات پر سارہ کی مسکراہٹ سمٹی اور بے اختیار اس کی نظر گھڑی پر گئی جو رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔
"دیکھو زرا اس کے چکر میں کتنی دیر ہو گئی ہے۔۔ اچھا بیٹا تم اب جا کر آرام کرو میں بھی سو جاؤں ورنہ فجر پر آنکھ نہیں کھلے گی۔ اور ہاں اذہان کا انتظار مت کرنا اسے اکثر دیر ہو جاتی ہے۔۔۔ تم جاؤ سو جاؤ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔" وہ اس کے سر پر پیار کرتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"جی امی۔۔۔" سارہ نے مسکرا کر ان کی جانب دیکھا۔ حمنا بیگم کمرے میں چلی گئیں تو اُس نے بےبسی سے بند دروازے کی جانب دیکھا اور تھک ہار کر کمرے میں آ گئی۔
         ___________________________

راہِ عشقDonde viven las historias. Descúbrelo ahora