وہ آج خُوب دل لگا کر تیار ہوئی تھی۔ اس کی پُھرتی سے لگ رہا تھا کہ وہ کتنی جلدی میں ہے۔ اس نے وارڈروب سے کپڑے نکالے لیکن یہ کیا اُنھی کو بیڈ پر اُچھال دیا یعنی پسند نہیں آئے۔ مُنہ ہی مُنہ میں گُنگُناتے اس کے ہاتھ میرون رنگ کی ساڑھی پر ہی ٹھہر گئے۔
ایک شرمگیں سی مُسکراہٹ نے اُس کے ہُونٹوں کا احاطہ کیا اور وہ لمحہ بھر کو اُس کے بات میں کہیں کھو سی گئی جب اُس نے کہا تھا؛ 'آج سے ٹھیک پانچ سال بعد جب ہم ملیں تو تُم میرون رنگ کی ساڑھی پہننا کیونکہ شوخ رنگ تُمھیں بہت ججتے ہیں'۔
اُس نے دوبارہ ساڑھی کو دیکھا اور بھاگ کر واش روم میں قید ہوگئی۔ آدھے گھنٹے بعد وہ نکلی تو دیکھا وہ کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔ سفید لباس اوڑھے 'مُحَبت' بھی اُسے دیکھ کر مُسکرانے لگی جبکہ دُور کھڑی تقدیر نے طنزیہ اُس کی تیاری کو دیکھا۔ اُس نے اپنے ہلکے گُھنگھریالے بالوں کو جلدی سے ڈرائیر سے خُشک کیا اور پھر سائیڈ سے ٹوئیسٹ ہیئر سٹائل بناکر پیچھے کیچر میں قید کرلیئے۔
بالوں کو باندھنے کے بعد اُس نے ہلکا سا میک اپ کیا اور میک اپ کیا کرنا؟! اُس نے آنکھوں میں سُرمے کی لکیریں کھینچی اور لپ سٹک کے نام پر ہونٹوں کو سُرخ رنگ سے رنگ دیا۔ ایک آخری بار خود کو آئینے میں دیکھنے کے بعد پاؤں میں چھوٹی ہیل والے سینڈل پہن کر باہر کی جانب بڑھی اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر منزل کی طرف بڑھنے لگی۔
آج وہ پورے پانچ سال بعد روبرو تھے۔ کالے رنگ کے لباس میں وہ بھی کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ اس کے گالوں پر پڑتا ڈمپل آج بھی اسے اپنے سحر میں جکڑنے کی طاقت رکھتا تھا۔
ان پانچ سالوں میں اگر اُس اپسرا کے بال لمبے ہوگئے تھے تو اس شہزادے کے چہرے پر بھی داڑھی کا اضافہ ہوگیا تھا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ہر ایک کو مات دے رہے تھے۔
'کیسے ہو؟' ابیرہ نے بات کا آغاذ کیا
'ٹھیک ہوں'۔ حمزہ نے جواب دیا
'بہت پیارے لگ رہے ہو۔' سر جھکا کر کہا گیا
'تم بھی'۔ سامنے سے جواب دیا گیا۔ پھر ان کے بیچ خاموشی چھا گئی۔ اس خاموشی کو حمزہ کی آواز نے توڑا
'میں کچھ کہنا چاہتا ہوں'۔ حمزہ نے اجازت طلب نظروں سے اس کی جانب دیکھ کر کہا
'ہاں کہو نہ'۔ ابیرہ نے اجازت دے کر سوالیہ نظریں اس کی جانب اٹھا کر دیکھا
تم نے شادی کرلی؟' اچانک سے پوچھا گیا
'یقینًا تم نے کہا تھا کی پانچ سال بعد تم مجھے ایسا ہی کچھ کہنے والے ہو'۔ ابیرہ نے مسکراتے ہوئے کہا
'لیکن میں یہاں کسی کو بلانا چاہتا ہوں؛ جو میری زندگی میں آنے کے بعد میرے جینے کی وجہ بنی'۔ حمزہ نے سامنے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
'ایسا کون ہے؟' ابیرہ اب بھی مُسکرا رہی تھی اور اس سے پوچھ بیٹھی
'علیزے' حمزہ نے بائیں جانب دیکھتے ہوئے کسی کو آواز دی
حمزہ کے منہ سے لڑکی کا نام سُن کر ابیرہ کے چہرے سے مُسکراہٹ فورًا غائب ہوئی لیکن پھر سنبھل کر اُس کی طرف دیکھنے لگی۔
YOU ARE READING
Lamhay Kuch Adhuray Se By Aleena Farid
Short Storyمحبت میں ہار جانے والی ایک مضبوط لڑکی کی کہانی