راہ یاب 1

6 1 1
                                    


      وہ اس وقت یہاں اکیلی بیٹھی تھی جس ہوٹل میں وہ روکے تھے اُس کی کھڑکی سے سامنے نظر آنے والے اُس منظر کو دیکھ رہی تھی جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں ترسا کرتی ہے ، جسے دیکھنے کی تمنّا ہر مسلمان رکھتا ہے۔ وہ مکّہ مکرمہ میں تھی اور اس وقت وہ کھڑکی پر سے لگ کر بیٹھی ہوئی تھی وہ بس ابھی یہاں آئے تھے۔۔۔ کمرے میں اپنا سامان رکھتے ہی وہ اس کھڑکی کی جانب کھچی چلی آئی تھی ، وہ کیوں کھینچی چلی آئی تھی ؟ یہ جاننا کوئی بہت مُشکِل کام نا تھا۔ اُس کی نگاہ اس وقت، اِس دُنیا میں پائے جانے والے سب سے حسین ترین اور سب سے مقدس مقام کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اُس نے  کسی چھوٹے بچے کی مانند کانچ کی کھڑکی پر ہاتھ رکھا ، یوں جیسے وہ ابھی خانہ کعبہ کو چھو لے گی۔ اُس کا ہاتھ کانچ کی کھڑکی پر تھا اور اس کی نظر خانہ کعبہ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔! اُس کے آنسو جاری ہوئے تھے ، اُنھیں روک پانا اُس کے بس سے باہر تھا۔۔۔ وہ رو رہی تھی۔۔۔ اُسے رونا آ رہا تھا۔۔۔! اُسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کا دل کسی بھی وقت بند ہو سکتا ہے اُس کی دھڑکنیں بے قابو تھی۔۔۔ اُس کی سانسیں اٹک رہی تھی۔۔۔ اُس کا گلہ خُشک ہوا تھا۔۔۔۔!!! اگر اُسے موت آنی تھی تو یقیناً بہت حسین موت آنی تھی۔۔۔!!!
       اگلے لمحے جیسے اُس کے دل نے ایک سوال اُس کے در پیش کیا تھا۔۔۔ اب اُس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی۔ وہ شرم سے اپنی گردن جھکانا چاہتی تھی لیکن یہ نا ممکن تھا اُس کی نظر خانہ کعبہ سے ہٹنے کو راضی نا تھی۔۔۔۔ سوال تھا ہی ایسا ، ایک لمحے میں اُس کی ساری زندگی اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئی تھی۔
وہ جہاں کھڑی تھی ، کیا وہ سچ میں اِس قابل تھی؟
کیا سچ میں اُس کی آنکھیں اِس منظر کو دیکھنے کے قابل تھی؟
کیا سچ میں اللّٰہ نے یہاں کی ہواؤں میں اُس کی سانسوں کا بھی حق لکھ رکھا تھا ؟ کیا سچ میں ؟….اُس کی تمام زندگی اُس کی آنکھوں میں گھوم گئی تھی۔۔۔! بس ایک پل میں۔۔۔

✷✷✷✷✷



"ماہی۔۔۔ بیٹا یہاں آ جاؤ ایسا نہیں کرتے ، نیچے آؤ دادی کی بات نہیں مانو گی !" بوڑھی خاتون ، ہاتھ میں دوپٹہ لیے اُسے آواز دے رہی تھی۔ وہ اِس وقت گھر کے اندر ہی کونے میں بنے ایک چھوٹے سے چبوترے پر چڑھی ہوئی تھی۔ پُرانا سی یہ چبوترے نما جگہ جہاں کچھ سالوں پہلے سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں ہوا کرتی تھی۔
اب اُس نے یہ جگہ اپنے چھپنے کے لئے بنا کی تھی۔ جب اُس سے کوئی شرارت يا توڑ پھوڑ ہو جایا کرتی وہ یہاں چڑھ کر بیٹھ جاتی تھی۔
" مُجھے نہیں آنا ، میں نہیں آؤنگی نیچے !"
اُس نے ڈھیٹائی سے کہا تھا۔ ذرا سی اُٹھی ہوئی ناک جس میں بہت سی انا تھی۔
" ماہی بیٹا کیوں دادی کو تنگ کر رہی ہو ؟ چپ چاپ نیچے آ جاؤ ! ورنہ میں اگر اوپر آ گئی نا تو تھپڑ لگانا ہے زور سے۔۔۔"
آسماں نے کچن سے گردن نکال کر اُسے گھورا تھا اور ساتھ ہی ایک دھمکی بھی دی تھی۔
" امی ، دادی مُجھے یہ گندا سا اسکارف پہنا رہی ہے ! مُجھے نہیں پہننا۔۔۔"
اُس نے بیچارگی سے کہا تھا۔ آواز میں انتہا کی پریشانی تھی۔
" پہلی بات یہ اسکارف نہیں حجاب ہے اور دوسری بات تم سے کس نے پوچھا کے یہ کیسا ہے ؟ تمہیں پہننے کو کہا گیا ہے چپ چاپ نیچے آ جاؤ اور پہن لو اسے۔۔۔" اُنھوں نے اب کی بلند آواز سے کہا تھا۔ البتہ وہ اب بھی بے فکری سے اوپر بیٹھی ہوئی تھی۔
" آسماں ، چلّا کیوں رہی ہو میری بچی پے ، پہن لے گی وہ۔۔۔" امّا جی سے دیکھا نہیں گیا تھا کے کوئی اُن کی اِس ننھی سے جان پر غصّہ کریں۔ اگر کسی نے اُسے سر چڑھارکھا تھا تو وہ اُس کی دادی اور باپ تھے۔
" کیا ہو رہا ہے ؟۔۔۔ گڑیاں کیا ہوا ؟ تم وہاں کیوں چڑھی ہوئی ہو ؟ " احمد صاحب ابھی اپنے کمرے سے ہال میں آئے تھے ، اور ماہی کو اُس چبوترے پر چڑھا دیکھ وہ فوراً وہاں آئے۔
اُنھیں اُس کا وہاں چڑھنا بلکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا کبھی وہ گر گئی تو ؟ وہ بس سوچ کے رہ جاتے تھے۔
" بابا ، امی مُجھے مار رہی ہے !" اُس نے جھٹکے سے کہا تھا۔
جھوٹ بولنے میں اُس کی زبان کا اپنا الگ ورلڈ ریکارڈ تھا۔
" ہا۔۔۔ جھوٹ۔۔۔! ماہی میں نے منہ توڑ دینا ہے تمہارا نیچے آ جاؤ بس ، دیکھ رہے ہیں آپ کیسے جھوٹ بول رہی ہے ! بس آپ دونوں نے مل کر بگاڑا ہے اسے۔۔۔" اُنھوں نے احمد صاحب اور امّا کی جانب اُنگلی دکھاتے ہوئے کہا اور وہاں سے کچن میں چلی گئی۔
" ماہی چلو بیٹا نیچے آ جاؤ جلدی سے اب !" آسماں بیگم کے جاتے ہی احمد صاحب نے اُسے نیچے بلایا وہ جلدی سے نیچے آئی تھی۔
" بابا دیکھیں نا ، دادی مُجھے زبردستی یہ اسکارف پہنا رہی ہے !" اُس نے سیڑھی سے نیچے اُترتے ہوئے ہی مسئلہ پیش کر دیا تھا۔
احمد صاحب نے اُس کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا جسے نرمی سے تھامتے وہ اُن کے ساتھ صوفے پر آ بیٹھی تھی۔ امّا بھی سامنے کُرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
احمد صاحب نے ایک نظر امّا کی جانب دیکھا، جو بیزاری ظاہر کر رہی تھی، پھر وہ ماہی کی جانب دیکھنے لگے۔
" میری گڑیاں پیاری ہے اور میں چاہتا تھا کے وہ اور پیاری لگے اس لیے میں یہ حجاب لایا تھا۔۔۔ تمہیں نہیں پہننا !" اُنھوں نے اُداسی سے اُس سے پوچھا تھا۔
اُسے اپنے بابا اُداس اچھے نہیں لگتے تھے اور وہ اُداس ہوئے تھے۔
" بابا اب پیاری تو لگتی ہوں نا میں ، اور پیاری لگونگی تو مُجھے نظر لگ سکتی ہے ! اِس لیے نہیں پہن رہی۔۔۔" اُس نے بڑی ہی مہارت سے ایک مسئلہ درپیش کیا تھا۔
احمد صاحب مسکرائے تھے۔
" نہیں بیٹا ایسے ہی نظر نہیں لگ سکتی ، جب تک اللہ نا چاہے۔۔۔ اور پھر دیکھو تو ، تم اللہ تعالٰی کے لیے حجاب پہنو گی تو وہ کیوں چاہے گا کے۔تمہیں نظر لگے ؟ بلکہ اللہ تعالٰی تو اور زیادہ تمہاری حفاظت کرے گا ! ہیں کے نہیں ؟" اُاُنھوں نے اُس کے مسئلے کو پل۔میں رفع دفع کیا تھا۔ وہ دنگ رہ گئی تھی۔
" لیکن بابا ، سب ہنسینگے مجھ پر ! مذاق اڑائیں گے میرا۔۔۔ اسکول میں کوئی بھی نہیں پہنتا اسکارف پھر میں کیوں ؟" اُس نے بیزاری سے کہا تھا۔
" میری گڑیاں ، کوئی نہیں پہنتا تو نا پہنے۔۔۔۔ ہمیں سب کے مطابق نہیں چلنا چاہیے، تم پہنو گی تو بہت پیاری لگو گی!" اُنھوں نے امّا کے ہاتھ سے حجاب لیتے ہوئے کہا۔
" بابا مُجھے نہیں پہننا۔۔۔" اُس نے پھر سے مزاحمت کی تھی۔
احمد صاحب چند لمحے اُسے دیکھتے رہے۔
" ٹھیک ہے ! امّا یہ لے جائے ماہی کو نہیں پہننا۔۔۔" وہ ناراض ہوۓ تھے تبھی تو وہ اُسے " ماہی" کہہ کر پُکار رہے تھے۔
" بابا ناراض ہو گئے؟۔۔۔۔" اُس اُن کا چہرہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اپنی جانب کیا جو امّا کی جانب مڑا ہوا تھا۔
" چھوڑو نا ماہی تمہیں کیا فرق پڑھے گا۔۔۔! جاؤ جا کر ناشتہ کر لو۔۔۔!" اُنھوں نے باقاعدہ ناراضگی سے کہا تھا۔
" اچھا نا بابا ناراض تو نا ہوئیے ! میں پہن لیتی ہوں یہ اسکارف۔۔۔" اُس نے عجیب سے شکل بناتے ہوئے کہا تھا۔
" سچ میں ؟" اُنھوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
" ہاں۔۔۔" اُس نے بھی مسکرانے کے کوشش کی تھی لیکن اصل میں وہ بیزار تھی۔
" شاباش میری بچی ! یہاں آو میں تمہیں یہ پہنا دیتی ہوں۔۔۔" امّا نے احمد صاحب کے ہاتھ سے حجاب لیا اور کُچھ ہی دیر کے بعد اُنھوں نے وہ حجاب اُسے پہنا دیا۔
" دیکھو تو میری گڑیاں کتنی پیاری لگ رہی ہے۔۔۔" احمد صاحب نے اُس کا چہرہ اپنی جانب کرتے ہوئے کہا۔ وہ واقعی میں بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ اُنھوں نے اُس کے گالوں پر بوسہ دیا تھا اور وہ مسکرائی تھی۔

راہ یاب (raah yab ) از قلم : الفیا Where stories live. Discover now