قسط نمبر 1

207 11 4
                                    


تیرے آنے سے از زوہا آصف
قسط نمبر 1

ٹورنٹو میں معمول کے مطابق اک خوبصورت شام اپنی دلکشی سے لوگوں کے دل کو قرار بخش رہی تھی۔ ایسے میں سیم جیمز کافی بار میں بیٹھی دو لڑکیاں اپنی کافی انجوائے کرتے ہوئے کسی اہم مسئلے پر الجھی ہوئی تھیں۔۔
"میں بس پاکستان نہیں جا رہی کہہ دیا میں نے۔۔"  اس نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا۔
"اور میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ تم جا رہی ہو" اینڈی نے اس کی بات خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا تھا۔
"نو اینڈی ناٹ دس ٹائم۔۔۔وہاں جانا بہت بارنگ ہے۔۔" اس نے ناپسندیدگی سے کہا تھا۔
"شرم کرو اپنے آبائی وطن کو کون ایسے کہتا ہے" اینڈی کی بات پر وہ بدمزہ ہوئی تھی۔
"پتہ نہیں تمہیں کیا چارم نظر آتا ہے پاک میں"  اس نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا تھا۔
"اففو یار میری ڈریم کنٹری ہے پاکستان۔۔ آئی مسٹ سے، تم تو بہت ناشکری ہو" اینڈی کی بات پر اس کا پہلے سے بگڑا منہ مزید بگڑا۔۔
"تم اور تمہاری ڈریم کنٹریز۔۔" اس نے کافی کا کپ ہونٹوں سے لگایا۔
"ویسے یو شوڈ بی ایکسائٹڈ۔۔" اینڈی کی بات پر وہ اسے گھورنے لگی۔۔
"I'm not excited, the reason is I'm not going anywhere"اس نے سنجیدگی سے کہا۔
"دیکھ لیں گیں۔۔" اینڈی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"Let's go home" اس نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
"گھر ہم تبھی جائیں گے جب تم اس بات کا جواب دو گی کہ ہم پاکستان جا رہے ہیں یا نہیں"اینڈی کے اس طرح کہنے پر وہ مزید الجھی۔
"دیکھ یار میرا بالکل بھی دل نہیں ہے اس بار پاکستان جانے کا کیونکہ وہاں پر وہ گندا سڑا ہوا مینڈک بھی ہوگا اور میں اس کے منہ بالکل بھی نہیں لگنا چاہتی"زمل کی بات پر وہ سمجھتے ہوئے سر ہلانے لگی۔۔
" تو تجھے اس کے منہ لگنے کو کون کہہ رہا ہے بس آرام سے ہم اپنی ٹرپ انجوائے کریں گے۔۔۔"  اینڈی کی بات پر وہ سیدھی ہو کر بیٹھی اور اس کا بغیر میک اپ کا چہرہ تکنے لگی۔
"یہ تیرے ہم کا کیا مطلب ہے؟ اور کونسی ٹرپ؟" زمل کے سوال پر اس نے بتیسی کی نمائش کی۔
"ایسے ہی کہہ رہی تھی۔"  اینڈی نے بات بدلنا چاہی۔
" جلدی بول نہیں تو آج کی کافی سیلفی کینسل۔۔" زمل کی بات پر وہ مایوسی سے اسے دیکھنے لگی۔
"ایسا نہیں کرو گی تم" وہ مان سے زمل کو دیکھتے ہوئے بولی۔
"تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟" اس کے سوال پر وہ اپنی روہانسی شکل بناتے ہوئے زمل کو جذباتی کرنے کی کوشش شروع کرنے لگی۔
" دیکھ یار پچھلی بار میں بھی تیری خاطر مالدیپ گئی تھی نہ؟" اس کے یوں پوچھنے پر وہ ہاں میں سر ہلانے لگی۔
"تو؟" زمل نے اسے شک کی نگاہوں سے دیکھا۔
"تو اس بار تو جائے گی میری خاطر سمپل میرے ساتھ۔" اس نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے سارا معاملہ ہی ختم کر ڈالا تھا۔
"کس خوشی میں؟" زمل نے اسے گھورا۔ اس کے ساتھ جانے پر وہ شاک زدہ تھی۔
" تیرے جیٹھ جی کی شادی کی خوشی میں" اینڈی نے کہہ کر بیگ اٹھایا تھا۔ جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب وہ وہاں سے جانے کا ارادہ کر چکی تھی۔
"اینڈی یو آر جسٹ ورسٹ" زمل نے غصے سے کہہ کر اپنا بھی بیگ اٹھا لیا تھا۔
" آئی نو اندر اندر سے تمہارا بھی دل کر رہا ہے" اینڈی نے آنکھ دبا کر بل پے کیا۔
"اب اگر تم نے کوئی بکواس کی تو جان سےجاؤ گی پاکستان نہیں۔" زمل نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا۔
"اوکے معاف کر دو۔۔" اینڈی نے مسکرا کر کہا تھا۔ اس کی بات پر وہ بس اس پر اک غصیلی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گئی تھی۔۔ اینڈی نے سر جٹھکا تھا۔ اسے دنیا کا سب سے مشکل کام اپنی بچپن کی سہیلی کو کسی کام کے لئے منانا لگتا تھا۔ اور وہ اس بار بھی بڑی منتوں کے بعد آخر کار اس میں کامیاب ہو چکی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سب لاؤنج میں بیٹھ کر فاز اور عزہ کی شادی کی ڈریسنگ دیکھ رہے تھے۔ ان  لڑکیوں نے سیم تھیم رکھنے کا سوچا تھا۔ اور اپنے ساتھ ساتھ زمل کے لئے بھی ویسی ڈریس خریدی تھی۔۔
"آپی میرا یہ پنک والا ہوگا۔"  افزا نے سارے ڈریسز کو دیکھتی عزہ سے کہا تھا۔
" پنک والا تو زمل کے لئے رکھا گیا ہے“
عزہ نے اسے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا تھا۔
" تو کیا فرق پڑتا ہے آپی۔۔ وہ بلیک والا پہن لیں گی۔۔ میں  یہ پہنوں گی۔۔" افزا نے ضد لڑاتے ہوئے کہا تھا۔
" منسا تمہیں کونسا چاہیے۔۔"  عزہ نے افزا کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے پاس خاموشی سے بیٹھی منسا سے پوچھا تھا۔
"کونسا منگوایا ہے میرے لیے آپی؟" منسا نے بڑی معصومیت سے پوچھا تھا۔
"یہ اورنج والا لہنگا۔۔" عزہ نے پیار سے اسے دیکھتے ہوئے بتایا تھا۔
"جو منگوا لیا ہے وہ ٹھیک ہے۔" منسا نے معصومیت سے کہا تھا۔
"کچھ سیکھو افزا۔۔۔" عزہ نے پہلے پیار سے منسا کو دیکھا تھا اس کے بعد افزا کو جو وہی ڈریس یوں اپنے پاس لپیٹ کر بیٹھی تھی جیسے ابھی کوئی آ کر اس سے چھین لےگا۔
"نا آپی میں نے تو پہننا ہی یہ ہے۔۔" افزا نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا تھا
"کیا ہو رہا ہے؟" اپنے عقب سے دانیر کی آواز سن کر وہ تینوں مڑی تھیں۔اور اپنی اپنی جگہ سیدھی ہوئی تھیں۔
"دانیر بھائی ہم  لہنگے ڈیسائیڈ کر رہے ہیں۔" افزا نے خوشی سے چہکتے چہرے سے اسے دیکھتے کہا تھا۔
" ارے واہ۔۔ میری پرنسس کا کونسا ہے؟" اس نے اپنے پاس بیٹھی منسا کو پیار سے دیکھتے پوچھا تھا۔
"یہ اورنج والا۔۔" عزہ نے مسکرا کر بتایا۔
"بہت خوبصورت ہے۔" اس نے مسکرا کر کہا تھا اور منسا کے سر پر ہاتھ رکھ کر جانے لگا تھا جب افزا کے پکارنے پر رک گیا تھا۔
"دانیر بھائی؟" افزا کی آواز نے اس کے لاؤنج سے باہر جاتے قدم روک لیے تھے۔
"جی؟" وہ سنجیدگی سے بولا۔
"وہ ان میں سے زمل بھابھی کے لئے کونسا رکھیں؟" اس کے سوال پر جہاں دانیر کے چہرے کے تاثرات بدلے تھے وہیں منسا اور عزہ بھی اپنی اپنی جگہ سن ہوئی تھیں۔۔ خان ولا میں سب دانیر خان کے سنجیدہ مزاج سے بخوبی واقف تھے  اور اس سے مخاتب ہونے سے پہلے اک بار سوچ ضرور لیتے تھے۔مگر اک یہ افزا تھی جو پھر بھی اس سے نہیں ڈرتی تھی۔۔
"جو تم سب کو مناسب لگے۔" وہ کہہ کر جانے لگا تھا۔۔ مگر افزا کے دوبارہ پکارنے پر ضبط کر کے رکا تھا۔
" کلر بتائیں۔۔" افزا نے شرارت سے مسکرا کر پوچھا تھا۔
"بلیک والا رکھ لو۔" دانیر نے اک نظر سامنے پھیلے سب لہنگوں کو دیکھا تھا اور پھر سنجیدگی سے کہہ کر چل دیا تھا۔ ان میں سے کوئی یہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ فاز اور عزہ کی مہندی کے لیے دانیر کا اپنا کرتا بھی سیاہ رنگ کا تھا۔۔وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے وہاں سے جا چکا تھا۔ افزا نے سکھ کا سانس لیا تھا کیونکہ وہ گلابی لہنگا اب اس کے حصے آ یا تھا۔
"کیا ضرورت ہوتی ہے افزا ہر ایک سے پنگے لینے کی؟ پتہ ہے نہ تمہیں دانیر کا ابھی ڈانٹ دیتا۔۔" عزہ نے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا تھا ۔
" پر ڈانٹا تو نہیں نہ۔۔دیکھیں اب پکا پنک والا میرا ہے۔۔" اس نے خوشی سے گلابی لہنگا اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا تھا
"ٹھیک ہے۔۔ باقی کے سارے بھی سمبھالو۔۔" عزہ نے آرڈر لگاتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر جانا چاہا تھا۔
"دیکھ لیں آپی ابھی سے ہم پر بھابھیوں کی طرح حکم چلا رہی ہیں۔۔" افزا نے منہ بسور کر شکوہ کیا۔
"تم پر تو ساس بن کر حکم چلاؤں گی بچ کر رہو تم۔" وہ اسے شرارت سے دیکھتے بولی تھی۔۔
" ہا آپی۔۔ کچھ تو خیال کریں آپ کی سگی بہن ہوں۔" افزا نے اسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا۔
"اسی لیے تو تمہارے لیے سپیشل آفر ہے" عزہ منسا کے ساتھ لہنگے سمیٹتے ہوئے بولی۔
" ہائے فاز بھائی۔" افزا نے عزہ کے عقب میں دیکھ کر مسکرا کر کہا تھا۔۔ عزہ کا سانس وہیں رک گیا تھا وہ سانس روکے افزا کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے ابھی اس کی روح پرواز کر جانی تھی۔۔
"پر آپی فاز بھائی تو یہاں نہیں ہیں۔" منسا کے معصومیت سے بولنے پر جہاں عزہ کا اٹکا سانس بحال ہوا وہیں افزا نے معصوم منسا کو گھور کر دیکھا۔
" افزا کی بچی۔۔" عزہ نے اسے گھورا۔
" اب بنیں گی میری ساس؟" افزا نے منہ چڑاتے ہوئے پوچھا۔
" تم سے تو بعد میں نپٹوں گی۔۔ افطار بنانے دو مجھے۔" عزہ پیر پٹختی وہاں سے چل دی تھی۔۔
"جائیے جائیے۔۔" افزا نے اک ادا سے کہا تھا۔
عزہ بس اسے گھور کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔ اب ان دونوں کا سارا دھیان اپنے اپنے لہنگوں پر تھا۔۔ جو انہوں نے عید کے ایک ہفتے بعد ہونے والی عزہ اور فاز کی شادی کے لیے خریدے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"ہاں بھئی۔۔ بہت ایکسائٹڈ ہے کوئی" ہنزلہ کی بات پر وہ اسے گھورنے لگا۔
" کوئی بھلا کیوں ایکسائٹڈ ہوگا؟" اس کے الٹے سوال پر ہنزلہ ہنس دیا۔
" اب میرے سامنے ڈرامے نہ لگا۔" ہنزلہ نے اس کے آفس میں رکھی کرسیوں میں سے اک پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
"نہیں لگا رہا۔" دانیر نے مختصر سا جواب دیا تھا اور پھر اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگا تھا۔
"اصولاً تجھے تھوڑا سا پر جوش ہونا چاہیے۔۔" ہنزلہ کی بات پر وہ سیدھا ہوا۔
"کیوں؟" اس کے سوال پر وہ بد مزہ ہوا۔
"ظاہر ہے بھئی، بھابھی آرہی ہیں۔" ہنزلہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"وہ اس رشتے کو نہیں مانتی۔۔" اس نے بظاہر نارمل انداز میں کہا تھا مگر اندر دل جیسے مچلا تھا وہی جانتا تھا۔
"اور تو؟" اس کے سوال پر وہ خاموش ہوا۔
"ظاہر ہے جب وہ نہیں مانتی تو میں کیوں ماننے لگا۔" اس نے نظریں پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
"تو تم لوگ اب تک اس نکاح میں کیوں ہو؟ ختم کر دو پھر۔" ہنزلہ کی بات پر وہ درد سے آنکھیں بھینچ گیا تھا۔ مگر اس نے اپنے دل کی حالت بڑی مہارت سے اپنے سب سے عزیز دوست سے بھی چھپا لی تھی۔۔
" نہیں کر سکتا۔۔ اٹلیسٹ میں تو بلکل نہیں۔" دانیر کے سیدھے جواب پر وہ اسے دیکھنے لگا۔
"کیوں نہیں؟" ہنزلہ نے غور سے اسے دیکھا۔
"کیونکہ یہ آغا جان کی زندگی کی آخری خواہش تھی۔۔" اس  نے بات کہہ کر لیپ ٹاپ دوبارہ سے اپنے سامنے کیا تھا۔
"اگر بھابھی نے کر دیا تو؟" ہنزلہ کے سوال پر وہ اندر تک تڑپا تھا۔
"تو میری قسمت۔" دانیر نے مسکرا کر کہا تھا۔
" دانیر تجھے فرق نہیں پڑتا؟" اس کے سوال پر اس کے مسکراتے ہونٹ مزید کھلے۔
" نہیں۔ میں اللہ کی رضا میں راضی ہوں۔ اب چل افطار کا ٹائم ہو رہا۔" اس نے بڑی چالاکی سے اس کا سارا دھیان افطار پر کروایا تھا۔
"ہاں چل۔۔"  ہنزلہ نے کہہ کر اس کا آفس بیگ اٹھا لیا تھا۔۔دانیر بھی اپنا کوٹ اٹھا کر اس کے پیچھے آیاتھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ منظر تھا خان ولا کے بڑے لاؤنج کے اندرونی حصے کا جہاں اس گھر کے عرصے سے بیرون ملک گئے کچھ مکین واپس گھر تشریف لا رہے تھے۔۔
"گل بابا، یہ قالین اوپر زمل کے کمرے میں بچھوا دیں" عائشہ نے گل بابا کو حکم سناتے ہوئے کہا تھا جو اس کی تکمیل کرتے ہوئے فوراً اس گھر کی دوسری منزل کی طرف بڑھ گئے تھے۔
"عائشہ استقبالی پھول منگوا لیے ہیں یا نہیں؟" عاصمہ کی آواز پر وہ چونکی۔
"جی بھابھی" وہ تھوڑا مدہم لہجے میں بولیں۔
"اور اوپر سب کے کمرے سیٹ کروا دیے ہیں؟" عاصمہ نے اک نظر لاؤنج کے صاف ستھرے ماحول کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا تھا۔
"جی بھابھی تقریباً سب کام مکمل ہو گیا ہے۔" عائشہ نے کہا تھا۔
"باقی سب تو ٹھیک ہے مگر تمہیں پتہ ہے نہ زمل کا" وہ مسکراتے ہوئے بولی تھیں۔
"بسس بھابھی اکلوتی بیٹی ہو اور لاڈلی بھی تو نکھرے تو کرنا بنتا ہی ہے۔۔ وہ تو ہے بھی ہماری بہو" عائشہ بھی ہنستے ہُوئے بولیں تھیں۔
"ہاہا کوئی نہیں۔۔بہو نہیں بیٹی ہی کہو۔۔ ماں باپ کے ساتھ ہی تو بیٹیاں لاڈ اٹھواتی ہیں، نکھرے کرتی ہیں۔۔ پھر نصیب جانے ان کے ساتھ کیا سلوک کرے۔۔ اس لئے تو انہیں یہاں خوب مرضی کے مطابق رہنے دیتے ہیں۔۔ ان کے نصیب سے ڈر لگتا ہے عائشہ۔۔" عاصمہ کی سنجیدگی سے کی گئی بات پر وہ بھی خاموش ہو گئی تھیں۔۔ ان کی  خاموشی محسوس کر کے وہ مسکراتے ہوئے دوبارہ بولیں۔۔
"پر ما شاءاللہ ہماری عزہ کا میکہ اور سسرال اسی گھر میں ہے تو اس کے لیے تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے" وہ ان کے پریشان چہرے پر نگاہ ٹکاتے ہوئے بولی تھیں۔ غالباً وہ ان کی پریشانی سمجھ چکی تھیں۔۔
"اور بھابھی میری افزا؟" وہ معصومیت سے بولیں تھیں۔۔
"اس کی ابھی فکر نہ کرو۔۔ اللہ ہماری سبھی بیٹیوں کے نصیب بہت اچھے کرے آمین۔۔" عاصمہ نے مسکرا کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا تھا۔
"جی بھابھی جیسے آپ کہیں۔" عائشہ ان کی بات پر ہاں میں ہاں ملاتے کہنے لگیں۔
"نور بانو۔۔" انہوں نے زور سے نور بانو کو آواز لگاتے ہوئے کہا تھا۔
"کیا ہوا بڑی بھابھی؟" نور بانو فوراً وہاں آئی تھی۔
"یہاں کی صفائی کس نے کی ہے؟" وہ سختی سے پوچھنے لگیں۔ ان کے انداز پر عائشہ بھی گھبرا گئی تھیں۔کیونکہ عاصمہ بہت صفائی پسند تھیں۔۔انہیں اگر کہیں مٹی کا اک ذرہ بھی نظر آ جاتا تو اس گھر کے تمام ملازمین کی خیر نہیں ہوتی تھی۔
"بڑی بھابھی میں نے کی ہے" وہ سر جھکاتے ہوئے بولی تھی۔
"یہ گلدان مٹی سے بھرا دکھائی نہیں دیا یا تم نے اسے دیکھ کر بھی صاف کرنے کی زحمت نہیں کی؟" ان کے کرخت انداز پر وہ گھبرا گئی۔
" میں ابھی کر دیتی ہوں۔" وہ فوراً ندامت سے بولی۔
"اگر ابھی مہمان نہ پہنچ رہے ہوتے پھر بتاتی میں تمہیں۔" وہ دبے دبے غصے سے بولی تھیں۔
"بیگم آج تو چہرہ کھلا ہوا رکھیں۔۔" سلامت کی آواز پر وہ مڑی تھیں۔ نور بانو ان کی اچانک موجودگی پر خدا کا شکر کر رہی تھی۔ جبکہ اب عائشہ بھی مطمئین تھیں کیونکہ وہ نرم دل کی تھیں اور معصوم اتنی کہ ملازمین کو بھی بہت پیار سے ٹریٹ کرتی تھیں۔ سلامت کے آنے پر انہوں نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔ کیونکہ سلامت کی موجودگی میں عاصمہ ملازمین پر زیادہ سختی نہیں کر پاتی تھیں۔۔
"سلامت رہنے دیں آپ درمیان میں مت آئیں" انہوں نے ان کو ناراض نظروں سے دیکھا تھا۔
"چھوڑیں نہ۔۔ جائیں ریڈی ہو جائیں۔۔ وہ بس پہنچنے والے ہیں۔" سلامت نے ان کے خوبصورت چہرے کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے شرارت کی تھی۔
"کیا مطلب تیار ہو لوں؟ میں آپ کو تیار نظر نہیں آ رہی؟" عاصمہ ہکا بکا ہو کر انہیں دیکھنے لگیں۔
"کیا مطلب آپ تیار ہیں؟" سلامت نے شرارت سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ عائشہ بھی مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھیں۔۔
"سلامت اب آپ مجھ سے بات مت کریے گا" وہ بھی نروٹھے انداز میں کہتے ہوئے وہاں سے جانے لگیں تھیں۔۔
"آپ سے نہ کروں تو کس سے کروں؟" سلامت نے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
"نور بانو سے" انہوں نے غصے سے کہہ کر وہاں سے واپس جانے کے لئے قدم بڑھائے۔
"نور بانو سنیے۔" اپنے عقب میں سے سلامت کی آواز سن کر وہ غصے سے مڑی تھیں۔ ان کا لال ٹماٹر چہرہ دیکھ کر سلامت ہنسنے لگے۔
"سلامت اب آپ مجھ سے بات مت کریے گا" وہ ناراض ہو کر جانے لگیں۔
"اچھا سنو تو۔۔" سلامت نے انہیں پیار سے روکا۔
"سنایے۔" وہ بغیر مڑے بولیں۔۔
"ریڈی تو ہو جاؤ" ہنسی دبا کر کہتے ہوئے وہ بہت معصوم دکھائی دے رہے تھے۔ عاصمہ نے ان کو جواب دینے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ گیراج سے گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی تھی۔
"لگتا ہے وہ لوگ آ گئے۔۔ بعد میں پوچھوں گی میں آپ کو" وہ ان کو غصے سے دیکھ کر عائشہ کو بلانے چلی گئی تھیں۔۔ جبکہ سلامت مسکرا دیے تھے۔ خان ولا میں سے کے سربراہ ہونے کے باوجود ان کی یہ ہنس مکھ طبیعیت ہی وجہ تھی کہ وہ اپنی فیملی میں چھوٹے بڑے سب کے فیورٹ تھے۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خان ولا میں دو بھائی اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ مقیم تھے۔ سلامت خان اور بابر خان۔۔ سلامت کی بیگم عاصمہ تھیں اور ان کے تین بچے تھے۔ بڑا بیٹا فاز خان جس کی شادی بابر کی بڑی بیٹی عزہ خان سے ہونے والی تھی۔۔ چھوٹا بیٹا دانیرخان جس کا نکاح ان کے سب سے چھوٹے بھائی خلیل کی بیٹی زمل سے  تین سال قبل ہو چکا تھا۔۔ اور سب سے چھوٹی بیٹی منسا خان۔۔ جو ان دونوں بھائیوں کی لاڈلی تھی۔۔ پھر تھے بابر اور ان کی بیگم عائشہ۔۔ ان کے بھی تین بچے تھے۔ پہلی دختر عزہ پھر اس سے چھوٹی افزا اور ایک بیٹا سمیر۔۔جسے سب پیار سے میر کہتے تھے۔
بیرون ملک کینیڈا میں مقیم ان کے بھائی خلیل اور ان کی اہلیہ آمنہ کے بس دو بچے تھے۔ بڑی بیٹی زمل اور چھوٹا بیٹا عزان جس کو صحت مند ہونے کی وجہ سے سب موٹو کہتے تھے۔۔ زمل کی بچپن کی دوست تھی اینڈی جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہی تھی۔۔ اور اس دفعہ پاکستان بھی اس کے ساتھ آنے والی تھی۔۔ اگر یہ کہا جاتا کہ زمل پاکستان اینڈی کی وجہ سے آ رہی تھی تو اس میں کوئی غلط بات نہیں تھی۔ کیونکہ زمل نکاح والی بات کے بعد یہاں واپس نہیں آنا چاہتی تھی ۔۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ دانیر کو شوہر کی حیثیت  کی وجہ سے اب سامنہ کرنے سے کتراتی تھی۔۔مگر اینڈی کی بے جا ضد پر وہ مان گئی تھی۔۔
رمضان کا تیسرا عشرہ شروع ہوا تھا۔۔ ان سب کی پاکستان کی کل کی فلائٹ تھی۔۔ وہ سب پیکنگ کر رہے تھے۔۔  زمل اور اینڈی زمل کے کمرے میں تھے۔
"تم سچ میں وہاں ایسی ڈریسنگ کروگی؟" زمل نے منہ بناتے ہوئے اینڈی کے کپڑوں کو دیکھا تھا جو اس نے سپیشل پاکستان جا کر پہننے کے لیے نئے خریدے تھے۔
"ہاں تو؟ ان کو کیا ہے؟" اینڈی کے سوال پر وہ اسے دیکھنے لگی۔
"یہ ڈریس آکوارڈ نہیں ہیں؟ ایزی نہیں لگ رہے بلکل" زمل نے عذر پیش کیا۔
" ویل، مجھے ان ڈریسز سے زیادہ کوئی ڈریس اتنا ایزی نہیں لگا۔" اینڈی کی بات پر وہ حیران ہوئی۔
"تم نے ٹرائے کیے؟" زمل نے اس سے پوچھا۔
"ظاہر ہے۔۔" اینڈی نے خوشی سے بتایا۔
"آئی کینٹ بیلیو۔" زمل نے لمبا سانس خارج کرتے ہوئے کہا تھا۔
"تم نے پیکنگ کر لی؟" اینڈی کے سوال پر اس نے تھمز اپ کا اشارہ دیا۔
"پاکستانی ڈریسز رکھے ہیں؟" اینڈی نے اسے مشکوک نگاہوں کے حصار میں لیا۔
"نہیں  بھئی۔۔۔ جینز شرٹس زندہ باد۔۔" زمل کی بات پر اس کا دل چاہا اپنا سر پیٹے۔
"کیا ہوا؟" اس کے چہرے کو دیکھ کر زمل نے معصومیت سے پوچھا۔
"ارے یار پاکستان جا کر بھی اگر تم نے یہ جینز شرٹس ہی پہننی ہیں تو تمہارے پاکستان جانے کا فائدہ؟" اینڈی کی بات پر وہ مسکرائی۔
"میں تو پہلے ہی نہیں جانا چاہتی۔۔ تم لوگ ہی لے کے جا رہے" زمل نے اسے کہا تھا۔
"مہربانی تمہاری" اینڈی نے اسے گھور کر کہا تھا۔ زمل نے کندھے جھاڑے تھے۔۔اینڈی نے اب اس سے پنگے لینا مناسب نہیں سمجھا تھا کیونکہ اس کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ وہ ابھی کے ابھی بھی سارا معاملہ ختم کر سکتی تھی۔
زمل سے کسی بھی وقت کسی بھی کام کی توقع کی جا سکتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تیرے آنے سے (COMPLETED)Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin