تیرے آنے سے بقلم زوہا آصف
قسط نمبر 2وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی پاکستان آئے تھے۔ خان ولا پہنچ کر سب سے رسمئی سا مل کر وہ اپنے لئے تیار کردہ کمرے میں آ گئی تھی۔۔ کمرا بہت سلیقے سے خصوصی طور پر اس کے لیے تیار کروایا گیا تھا۔ کمرے کے شروع میں دائیں جانب بڑی سی ایل ای ڈی لگی ہوئی تھی۔۔ اس سے آگے بڑھتی پوری دیوار پر بڑی سی کھڑکی تھی۔ جس سے باہر بنے لان کا منظر دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کی اختتامی دیوار کے ساتھ جہازی سائز کا خوبصورت بیڈ رکھا گیا تھا۔ بیڈ کے ساتھ پڑے ہوئے جدید طرز کے بنے سائیڈ ٹیبلز اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا رہے تھے۔۔ بیڈ کی دوسرے دیوار کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل رکھا گیا تھا۔۔ اور اسکے بلکل ساتھ باتھروم کا دروازہ کھلتا تھا۔ اس نے اک مکمل نگاہ اپنے کمرے پر ڈالی تھی۔
"واہ ذوق تو اچھا ہے میرے گھر والوں کا" اس نے مسکرا کر سوچا۔
وہ اپنی سوچوں میں الجھی ہوئی تھی کہ اس کے کمرے کا دروازہ بجا تھا۔ وہ مڑی تھی۔ آنے والے شخص کو دیکھ کر اس کے لبوں کی مسکراہٹ سمٹی تھی.....۔وہ نروس ہوئی تھی، پر مقابل پر اس نے نہیں ظاہر ہونے دیا تھا۔
"جی؟" اس کے سرد لہجے میں پوچھا تھا۔
"سامان" دانیر کے سنجیدہ جواب پر وہ اسے دیکھنے لگی۔
" رکھ دیں یہاں" زمل نے ویسے ہی انداز سے بولا تھا۔
"خاش تمہیں تھوڑا لحاظ ہوتا۔۔ کاش تمہارے ہنستے بولتے لہجے میں میرے لئے بھی تھوڑی سی مٹھاس ہوتی، جیسے سب سے ہنس کر بات کرتی ہو مجھ سے بھی کرتی ہوتی۔" وہ بڑبڑایا۔
کاش تم بدل گئی ہوتی۔۔ کاش تمہارے فیصلے میں تھوڑی لچک ہوتی۔۔
"منہ پر بولنے کی ہمت نہیں؟" زمل نے طنز کرتے جلا دینے والی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے کہا۔
دانیر نے اس بار بھی اس کی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔
"لگتا ہے یہاں کے لوگوں میں روکھا پن ضرورت سے زیادہ ہے۔" زمل نے اس کے وجیہہ چہرے کو بغور دیکھتے کہا تھا۔ رشتے میں اس کے سامنے کھڑا یہ شخص اس کا شوہر تھا۔۔ وہ اچانک نکاح کے بعد اپنے بچپن کے سب سے اچھے دوست کو اس حیثیت سے قبول نہیں کر پائی تھی۔۔ اور کچھ حد تک سمجھتی تھی کہ اس نکاح کی وجہ آغا جان سے زیادہ دانیر کی اپنی ذاتی خواہش تھی۔ اور اس کے ساتھ خان ولا کے مکینوں نے مرضی نہیں حکم سنایا تھا۔۔ پر اس معاملے میں جتنی مجبور وہ تھی اتنا ہی بے قصور دانیر خان تھا۔۔
دانیر نے اک سرد نگاہ اس پر ڈالی اور اس کا سامان رکھ کر وہاں سے چل دیا۔ زمل اس کے سرد انداز پر بہت حیران تھی۔۔
اس سڑے ہوئے مینڈک کو کیا ہوا۔۔ آج تو جواب تک دینا ضروری نہیں سمجھا جناب نے۔۔
وہ شاکڈ تھی۔۔ دانیر تو ہمیشہ اس کے ساتھ بہت پیار سے رہا تھا۔۔ شاید اس نکاح کی وجہ سے ہمارے درمیان یہ تلخی آ گئی ہے۔۔کاش آغا جان ہمارے ساتھ یہ زیادتی نہ کرتے۔۔ کاش۔۔سب پہلے جیسا ہوتا۔۔
وہ سوچ کر شاور لینے کے ارادے سے باتھروم گھس گئی تھی مگر اس بات سے انجان تھی کہ ان کے درمیان تلخی کا سبب آغا جان نہیں بلکہ اس کی اپنی ذات تھی۔۔۔ اور وہ اس کڑوی حقیقت سے انجان تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج تئیسواں روزہ تھا۔ وہ دیر رات اپنا پراجیکٹ مکمل کرتی رہی تھی اس لئے سحری تک جاگی تھی۔ مسلسل تین گھنٹے کی ان تھک محنت کے بعد اب وہ تھوڑی واک کرنا چاہتی تھی۔ اس نے بیڈ سے اٹھ کر اپنے سلپرز پیروں میں پہنے تھے۔ ابھی سحری میں کچھ وقت باقی تھا۔۔اور گھر بلکل سنسان تھا۔ ابھی سحری بنانے والوں میں سے بھی کوئی نہیں اٹھا تھا۔ اس نے لان میں جا کر واک کرنے کا سوچا تھا۔
آدھی رات کا وقت اور ہلکی پھلکی چلتی خوشنما سی ہوا۔ اس کا سارا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے کافی تھی۔۔ وہ اس وقت ڈارک پنک لوز سی ٹی شرٹ اور سیاہ رنگ کے پاجامے میں ملبوس تھی۔ اس کے سٹائلش شالڈر کٹ بال اس کے کندھوں پر یونہی بکھرے ہوئے تھے۔ وہ دبے پاؤں چلتے ہوئے گھر کے اندرونی حصے سے اب لان میں آچکی تھی۔۔ اس نے عقبی لان میں جانے کا ارادہ کیا تھا۔ خان ولا کا وہ حصہ بہت خوبصورت بنایا گیا تھا۔ وہاں پر اک بڑا سا پول بھی تھا۔۔ جس میں ہر وقت ٹھنڈا پانی موجود ہوتا تھا۔۔ اس نے وہاں جانے کے لئے قدم بڑھائے تھے۔۔ وہ ائیر پوڈز لگائے اپنا من پسند میوزک سنتے اس حصے کی جانب گئی تھی۔ گھر کے اس حصےمیں اندھیرا کچھ زیادہ تھا۔ وہ پول کی سائیڈ پر واک کر رہی تھی۔ ٹہلتے ہوئے اس کا سارا دھیان اس کے کانوں میں گونجنے والی دھن پر اور اس میں بولے جانے والے لیرکس پر تھا۔۔ اک دم پول میں پانی اچھلا تھا۔۔ اک دم ہربراہٹ میں وہ مڑی تھی۔۔ تاریکی کے باعث وہ یہاں اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی محسوس ہی نہیں کر پائی تھی۔
"کون ہے؟" اس نے کپکپاتے لبوں سے پوچھا تھا۔۔ مگر وہاں مکمل سکوت چھایا ہوا تھا۔
اسے جوابی کوئی آوا ز سنائی نہیں دی تھی۔
وہ ڈری سہمی وہیں کھڑی رہی تھی۔ کچھ دیر بعد خود میں ہمت پیدا کر کے اس نے اپنے فون کی ٹارچ آن کی تھی۔۔ اس کی روشنی اس نے پول کی جانب کی تھی۔اسے فلیش لائٹ کی روشنی میں پانی میں اک سیاہ رنگ کا لمبا سا سایہ محسوس ہوا تھا۔
"ہو آر یو؟؟ " اس نے آگے بڑھ کر پوچھا تھا۔ اب اسے یقین ہو چکا تھا کہ اس وقت خان ولا کے اس حصے میں اس کے علاوہ کوئی اور بھی موجود تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے قدم بڑھائے تھے۔۔ اب وہ بلکل پول کے قریب کھڑی تھی۔ اک ہلکا سا قدم اسے پول کے اندر پہنچا سکتا تھا۔
اک دم سے پھر سے ویسے ہی پانی زور سے اچھلا تھا۔۔ پانی میں ہونے والی یہ ہلچل اس کا دل بھی بری طرح ہلا چکی تھی۔۔ اس نے ہربراہٹ میں وہاں سے پیچھے ہٹنا چاہا تھا مگر جلدی اور پھسلن کی وجہ سے اس کا پیر پھسلا تھا۔۔ وہ خود کو بچانے کی بھرپور کوشش کرنے کے باوجود پانی میں گر چکی تھی۔۔ اس کا آئی فون اس کے ائیر پوڈز اور اس کا پورا جود پانی میں اچھی طرح بھیگ چکا تھا۔۔
"ہو دا ہیل آر یو؟" اپنے آئی فون اور ائیر پوڈز کے گیلے ہونے پر وہ اب کی بار غصے سے چیخی۔۔ سارا ڈر سارا خوف کہیں دور جا چکا تھا۔۔
"آہستہ چیخو۔۔ سب جاگ جائیں گیں۔" اپنے بلکل قریب اک جانی پہچانی مگر کرخت آواز سن کر اسے سانپ سونگھ گیا تھا۔۔ اس نے ہمت کر کے اپنا وجود اس آواز کے تعاقب میں موڑا تھا۔
اب کی بار وہ سن ہو چکی تھی۔۔ اس کے بلکل سامنے اتنے قریب رشتے میں وہ شخص اس کا محرم لگتا تھا۔ دونوں کے بھیگے وجود، اور تاریکی کا یہ عالم۔۔ حالت غیر ہوتی دونوں کو محسوس ہوئی تھی۔
"آپ ۔۔" وہ کچھ بول نہ سکی۔۔ اس کا سارا غصہ کہیں دور جا چکا تھا۔
"اس وقت تم یہاں کرنے کیا آئی تھی؟" دانیر کے سختی سے پوچھے گئے سوال پر وہ چپ رہی۔
"آئی ہیو آسکڈ یو سم تھنگ۔" کچھ دیر کے توقف کے بعد پھر سے اس سناٹے میں دانیر کی آواز سنائی دی تھی۔
"آئی جسٹ کیم ہیر فار آ واک"زمل نے ہمت کرتے کہا تھا۔۔ اس کی پلکیں لرز رہی تھیں۔۔ رات کے اس وقت بھیگنے کے باعث اس کا وجود اب کپکپا رہا تھا۔ ماحول میں کھنکی اس کے لئے بڑھ چکی تھی۔
"از اٹ رائٹ ٹائم فار آ واک؟" دانیر کے سوال پر وہ پھر سے چپ رہی۔۔ اس میں ہمت نہیں تھی کہ کچھ کہہ پاتی، اسے اک دم ڈھیر ساری شرمندگی نے گھیر لیا تھا۔
"امم۔۔" وہ منمنائی۔
"ابھی کے ابھی اپنے کمرے میں جاؤ" دانیر نے سختی سے کہا تھا۔
"پر۔۔" وہ کچھ کہنے لگی۔
"سنا نہیں تم نے؟" دانیر نے مزید سختی سے کہا۔
"جج۔جی۔۔" وہ سر ہلاتے وہاں سے جانے لگی۔۔ اس کے وہاں سے جانے پر دانیر کے دل میں بے چینی بڑھی تھی مگر وہ اپنے دل پر قابو کرنا اچھے سے جانتا تھا۔ اس کو وہاں سے احتیاط سے نکال کر وہ دوبارہ پول میں گھسا تھا۔ آخر جو بھی تھا وہ اس کی بیوی تھی۔۔
"سن۔۔سنیں" زمل کی آواز پر وہ وہیں سے اسے دیکھنے لگا۔۔
"ہمم؟" اس نے اس جانب دیکھا۔ مگر پھر سے ان کے درمیان تاریکی ہائل ہو چکی تھی۔
"وہ میرے ائیر پوڈز۔۔" ا س نے سر جھکا کر کہا تھا۔ عین اس وقت ماحول بدلا تھا۔ تاریکی کی جگہ ہلکے نارنجی رنگ کی روشنی پھیلی تھی۔۔اک دم روشنی کی وجہ سے بے ساختہ زمل نے چہرے کے آگے ہاتھ رکھا تھا۔ اس کو یوں اس حالت میں دیکھ کر دانیر کا سانس رکا۔۔ وہ پوری بھیگ چکی تھی۔۔ اس کے شالڈر کٹ بال اس کے چہرے سے چپکے ہوئے تھے۔۔ اس کا پاجاما اور ٹی شرٹ بھی پوری گیلی تھی۔۔ اپنے سرخ و سپید چہرے کو اس نے اپنے مومی ہاتھوں سے ڈھکا ہوا تھا۔۔ وہ اس نارنجی رنگ کی روشنی میں یو ں اس کے سامنے اس حالت میں کھڑی اس کے دل کا کڑا امتحان لے رہی تھی۔۔ان کےدرمیان اک مضبوط محرم رشتہ تھا مگر دوری بھی حائل تھی۔
"ڈھونڈ دیں۔" س کے دوبارہ بولنے پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا۔ اس نے اب ہاتھ ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اس کا لال سفید چہرہ اب دانیر با آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔ گھنی دراز پلکیں ناک میں چھوٹی سی لانگ، قندھاری انار جیسے لال گال اور خوبصورتی سے تراشے گئے لب۔۔ اس کے سرخ لب و رخصار کو دیکھ کر دانیر کا دل مچلا۔۔ مگر و ہ ایک مظبوط مرد تھا۔ اپنے دل اور دل کے معاملات کو قابو کرنا اچھے سے جانتا تھا۔۔
"میں دیکھ لوں گا تم جاؤ۔" وہ سنجیدگی سے بولا۔
"تھینک یو۔" زمل نے اک نظر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا تھا۔
"سنو۔" اس بار پکار دانیر کی جانب سے تھی۔ دو قدم آگے بڑھے زمل واپس پیچھے پلٹی۔
"یہ ٹاول لے جاؤ۔" اس نے سائیڈ پر ٹیبل پر پڑے ٹاول کی جانب اشارہ کیا تھا۔ جو وہ اپنے علاوہ کسی کو نہیں دیتا تھا۔۔ وہ اپنی پرسنل اشیاء شئیر کرنے کا عادی نہیں تھا مگر سامنے کھڑی یہ لڑکی اس کے لئے خاص تھی۔۔ شاید بہت خاص۔۔
وہ سر جھکا کر ٹاول پکڑ کر خود کو اچھے سے ڈھامپ کر وہاں سے بھاگتے ہوئے چلی گئی تھی۔۔ پیچھے اس ماحول میں اپنی موجودگی کا احساس چھوڑے وہ دانیر کوپریشان کر چکی تھی۔۔
اس نےاک بار پھر پانی میں غوطہ لگایا تھا۔۔ پانی میں اسے اک چھوٹی سی چیز تیرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔۔ اس نے ہاتھ مار کے دیکھا تو وہ زمل کا ائیر پوڈ تھا۔ یہ لڑکی ہائے اللہ۔۔وہ سوچ کر مسکرایا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"ارے بھابھی آپ اس ٹائم نہا آئیں ہیں؟"افزہ کے یوں پوچھنے پر وہ الجھی۔ اپنے لئے یہ نیا نیا سا نام سن کر وہ حیران تھی۔
وہ نہا کر ڈائننگ روم میں آئی تھی۔۔جہاں عزہ افزا منسا اور حیرت انگیز طور پر اینڈی بھی ان کے ساتھ سحری کی ڈشز لگا رہی تھیں۔۔
"ہاں۔۔ فریش ہو کر آئی ہوں ذرا۔" اس نے پول والی بات مکمل طور پر غول کرتے ہوئے کہا۔
"ویسے بھابھی آپ بہت پیاری ہو گئیں ہیں پہلے سے۔" منسا نے معصومیت سے کہا تھا۔۔ اس کے اتنے پیار سے کہنے پر وہ بے ساختہ مسکرائی۔
"پر تم تو مجھ سے بھی زیادہ پیاری ہو۔"اس نے منسا کا گال تھپتھپاتے ہوئے محبت سے کہا۔ منسا لڑکی ہی ایسی تھی سب سے معصوم سب سے بھولی بھالی۔۔ دانیر اور فاز کی لاڈلی بہن۔۔اسے دیکھ کر خود ہی اس پر پیار آتا تھا۔
"ارے واہ۔۔ مجھےتو ایسے کبھی نہیں کہا۔" اینڈی نے شکوہ کرتے کہا۔
"تم پیاری ہوتی تو تمہیں بھی ضرور کہتی۔" زمل نے اسے چڑایا۔ وہ چڑ گئی۔
"ہنہ۔۔ تمہیں تو ویسے ہی قدر نہیں ہے۔" اینڈی نے منہ بسورتے ہوئے کہا تھا۔
"چلو لڑکیوں باقی کی ڈشز رکھو۔۔ اور سب کو اٹھا لاؤ" عزہ نے بڑی بہن کا فرض نبھاتے ہوئے سب کو حکم سناتے ہوئے کہا تھا۔
"پر آپی کون کسے اٹھا کرلائے گا؟" افزا نے مسکرا کر پوچھا۔
"ظاہر ہے جیسے روز اٹھاتے ہیں۔۔" عزہ نے معصومیت سے کہا تھا۔
"نہیں آج ہمارے پاس آپ دونوں کے لئے ایک ڈئیر ہے۔" افزا نے شرارت سے عزہ اور زمل کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اس نے اینڈی کو آنکھ ماری جو اس کا اک اشارہ سمجھ چکی تھی۔۔ دونوں کے شیطانی دماغ اتنا ملتے تھے کہ دو ہی دنوں میں ان کی اتنی بانڈنگ بن چکی تھی۔
"نہیں یار۔۔ آئی ایم ناٹ ان موڈ" زمل نے فوراً انکار کرتے ہوئے کہا۔
"آہاں بچو۔۔۔ایسے کیسے موڈ نہیں" اینڈی نے شرارت سے اسے دیکھا، جس کے بدلے میں زمل نے اسے گھورا تھا۔۔
"اینڈی باز آؤ۔۔" کچھ کچھ وہ سمجھ چکی تھی۔۔
"بھئی اگر آج آپ دونوں نے یہ ڈئیر پوری کر لی تو ابھی کے سارے برتن میں اکیلی دھو لوں گی۔"افزا کی بات پر عزہ کا پورا منہ کھل گیا تھا۔جو نک چڑھی کبھی کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی۔۔ آج خود برتن دھونے کی بات کر رہی تھی۔۔
"اوکے ڈن۔"زمل نے اکڑتے ہوئے کہا تھا۔
"پر زمل۔۔ " عزہ نے گبھراتے ہوئے کہا تھا۔
"کیا ہوا عزہ آپی۔"وہ اس کی گبھراہٹ محسوس کرتے پوچھنے لگی۔
"تم اس کے شیطانی دماغ کو نہیں جانتی۔۔" عزہ نے افزاکے چہرے کی چمکتی مسکراہٹ دیکھتے کہا تھا۔
"پر میں ڈئیرنگ ہوں۔۔ اور آپ پریشان مت ہوں بس اس کے لئے ٖڈھیر سارے برتن جمع کریں۔" زمل نے اپنے شالڈرکٹ بال اک ادا سے پیچھے کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
"چلو بتاؤ کیا ڈئیر ہے۔؟" عزہ نے منہ پھولا کر پوچھا تھا۔۔
"ڈئیر یہ ہے کہ۔۔" افزا کی ڈئیر پر وہ منہ کھول کر اسے دیکھ رہی تھیں۔۔ اب وہ پیچھے بھی نہیں ہٹ سکتیں تھیں۔۔ مگر جو کام انہیں کرنے کو دیا گیاتھا وہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭