تیرے آنے سےاز زوہا آصف
قسط نمبر3اس نے ہمت کر کے اس کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔جس کمرے کو کھولنے یا اس کے اندر جانے کے لئے خان ولا کا ہر فرد گھبراتا تھا۔کمرا میں مکمل اندھیرا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر سوچ بارڈ سے ساری بتیاں جلا دی تھیں۔۔ کمرے اک دم روشنی میں نہا گیا تھا۔یہ کمرا بہت خوبصورت تھا۔ اگر یہ کہا جاتا کہ یہ کمرا خان ولا کا سب سے خوبصورت کمرا تھا تو غلط نہیں تھا۔۔ اس نے ابھی تک خان ولا کے جتنے بھی کمرے دیکھے تھے۔۔ اس کمرے کی بات ہی الگ تھی۔کمرے کے شروع میں سامنے قالین کے اوپر اک میٹ بچھا یا گیا تھا،،زگ زیگ سیاہ لائنوں ولا یہ میٹ گرے رنگ کی دیواروں کے بنے کمرے کی خوبصورتی کو نکھار رہا تھا۔اس میٹ کے پیچھے جہازی سائز کا بیڈ تھا۔ اس بیڈ کے دائیں جانب بڑی سی کھڑکی تھی جو سیدھے لان میں کھلتی تھی۔۔ اس کھڑی کے ساتھ ہی اک چھوٹا سا ٹیرس بنایا گیا تھا۔۔ ٹیرس سے باہر کی جانب دائیں جانب اک چھوٹا سا سٹڈی ٹیبل تھا جہاں آفس کی دیگر فائلز اور کچھ ضروری سامان رکھا گیا تھا۔۔ بیڈ کے دائیں جانب باتھروم کا دروازہ تھا اور اس کے بہرونی حصے میں دو سٹائلش سے کرسیاں رکھی گئیں تھیں۔۔ کمرا بہت سلیقے سے سیٹ کیا گیا تھا۔
”واہ کمرا تو بہت خوب ہے سڑے ہوئے مینڈک کا“ زمل نے دل میں سوچا۔۔ اس نے آگے بڑھ کر بے خوفی سے ٹیرس پر قدم رکھا۔ وہ اس کمرے میں آکر بلکل بھی نہیں گبھرا رہی تھی۔۔ ایک اپنائیت سی محسوس ہوئی تھی، جانی پہچانی سی اپنایئت۔وہ یہاں ہر چیز یوں دیکھ رہی تھی جیسے اسے ہی یہ حق حاصل تھا۔ اور یہ حقیقت بھی تو تھی۔
ٹیرس سے پورے خان ولا کا منظر دکھائی دیتا تھا۔۔ اس نے اک نظر پورے منظر پر ڈالی تھی۔۔ وہ نظارہ یقینا ً بہت حسین تھا۔۔
”تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟“ اپنے عقب میں دانیر کی آواز سن کر زمل پوری جان سے لرزی تھی۔۔ اوہ اللہ تعالیٰ سیو می۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے مڑی تھی۔
”وہ۔۔ میں۔۔“اس نےکوئی عذر پیش کرنا چاہا۔۔ سوچ زمل سوچ۔۔ اسے فوراً خیال آیا تھا منسا۔۔۔ دانیر کی عزیزِ جان بہن ۔۔ وہ اس کے نام پر کچھ نہیں کہے گا۔۔
دانیر نے ابرو اچکا کر اسے سوالیہ نگاہوں سے گھورا۔
”منسا نے کہا تھا آپ کو سحری کے لئے جگا دوں۔“اس نے ایک ہی سانس میں بول دیا تھا۔
”منسا نے؟“وہ حیران کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔
”جی۔۔ آکر سحری کر لیں۔۔“ وہ کہہ کر وہاں سے بھاگنے کی تیاریوں میں تھی۔۔ جب دانیر نے اس کا بازو سختی سے تھاما تھا۔ ٹی شرٹ ہالف سلیو ہونے کی وجہ سے دانیر کا سخت مردانہ ہاتھ کا لمس اسے اپنی جلد میں محسوس ہو رہا تھا۔۔ اس نے اتنی سختی سے اس کا بازو دبوچا تھا کہ زمل کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔۔۔
”کیا ہے چھوڑیں مجھے۔۔“ وہ ضبط کرتے بولی۔۔
”آئیندہ میرے کمرے میں تمہاری موجودگی میں برداشت نہیں کروں گا“ اس نے اتنی سختی سے کہا تھا کہ اک پل کو اس کے سرد لہجے کی کڑواہٹ کو از خو د محسوس کر کے وہ بھی پوری جان سے لرز اٹھا تھا۔
”جی۔۔“وہ بس اتنا کہہ کر وہاں سے جانا چاہتی تھی مگر دانیر کی گرفت بہت محضبوط تھی۔۔ وہ چاہ کر بھی اس سے اپنا آپ نہیں چھڑوا پا رہی تھی۔۔۔ اس نے مارے ضبط کے اس کی گہری، چمکتی، سیاہ کانچ سی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ بال ہمیشہ کی طرح ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔اس کی گہری آنکھوں کے سمندر میں کوئی بھی ڈوب سکتا تھا۔ کھڑا ناک اور سنجیدگی سے بھینچے ہوئے لب، اس کا چہرہ شفاف تھا۔۔ بغیر کسی دھبے یا داغ کے۔۔ زمل کا دل چاہا چھو کر دیکھے۔۔ اسے یہ احساس اب سے پہلے کبھی زندگی میں محسوس نہیں ہوا تھا۔
”لیو می“ اس نے التجاکرتے کہا تھا۔بمشکل اس کے چہرے سے دھیان ہٹایا نگاہیں پھیریں۔
”یو شیور؟“ دانیر نے اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔
”امم۔۔“ وہ خاموش تھی۔ سر جھکا گئی تھی۔۔
”ہاں؟“ دانیر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
”آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟“ زمل خان نے بھی اب کی بار بڑی بہادری سے اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ بہت گہری تھیں۔ زمل خلیل خان ان میں ڈوب سکتی تھی۔۔ بڑی گہرائی میں جا کر ڈوب سکتی تھی، یا شاید ڈوب گئی تھی۔۔
”کیا مطلب؟“ دانیر نے اسے دیکھا۔
”اس کمرے سے جانے کی؟“ زمل کے انداز میں بے چینی تھی۔ جس کا مطلب سمجھ کر دانیر محظوظ ہوا تھا۔ تو گویا وہ سمجھ رہی تھی کہ دانیر خان اسے اپنی زندگی سے نکالنے والا تھا۔
”نہیں۔“ دانیر نے اسے الجھا دیکھ کر مزید الجھن میں ڈالا۔
”تو؟“ وہ ڈری سہمی سے اس سے پوچھنے لگی۔۔ اس کا دل انجانے خوف سے تیز تیز دھڑکنے لگا۔
”یہاں سے جانے کی۔“زمل اس کی بات کا مطلب سمجھ نہیں پائی تھی۔ اس کا اشارہ اپنے چوڑے سینے کی جانب تھا۔ آخر جو بھی تھا۔۔ اسے اپنی بچپن کی محبت سے بہت لگاؤ تھا۔۔ وہ پہلے تو کیسے بھی کر کے صبر کر چکا تھا مگر اب۔۔ دوبارہ اسے دیکھ لینے کے بعد اس کا سارا ضبط جیسے کہیں کھو گیا تھا۔۔ وہ زمل سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ ایک دوسرے سے میلوں دور رہ کر بھی وہ ایک دوسرے کے رہے تھے۔۔ ایک دوسرے کے لئے جو بے تحاشہ محبت دونوں کے دلوں کو زندہ رکھے ہوئے تھی وہ ویسے کی ویسے تھی۔۔ اس میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا تھا۔۔
”زندگی سے؟“ زمل نے اس کی آنکھوں میں براہِ راست جھانکا۔
”زندگی میں تم آئی کب؟“ دانیر کے الٹے سوال پر وہ خاموش ہو گئی۔
”آپ کو یاد نہیں؟“ زمل نے اسے جانچنا چاہا۔
”کیا؟“ دانیر نے دلچسپی سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھے۔
”ہم۔۔ہمارا۔۔ن۔۔نکاح۔“ وہ دھیرے سے بولی تھی۔۔ اتنا کہ دانیر بمشکل سن پایا تھا۔
اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا۔ اینڈی اور منسا یہاں آئی تھیں۔
” تمہیں بس دانیر بھائی کو اٹھانے کے لئے بھیجا تھا گپیں لگانے کو نہیں“ اینڈی کے بولنے پر وہ اک دم سیدھی ہوئی،
”میں آہی رہی تھی۔۔“ اس کی گبھراہٹ، کہیں دور بھاگی تھی اور وہ اب پھر سے پہلے والی کانفیڈینٹ زمل خان بن چکی تھی۔۔ جانے کیوں دانیر کے سامنے وہ کچھ پزل ہو رہی تھی۔وہ اب وہ دانیر نہیں رہا تھا جسے وہ جانتی تھی، جس سے اس کی بچپن میں سب سے زیادہ دوستی تھی۔۔ وہ بدل چکا تھا۔۔ سنجیدہ کھروس اور سخت ہو چکا تھا زمل کو تو یوں ہی لگا تھا۔۔ اس لئے اب وہ دانیر سے نا چاہتے ہوئے بھی خوف کھانے لگی تھی۔۔یہاں آتے ہوئے وہ نڈر تھی۔۔ مگر اب دانیر کے بدلے رویے نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔
”دانیر بھائی خیر سے آپ بھی آجائیں۔۔“ افزا کی بات پر اس نے سر ہلایا۔
”آئیندہ مجھے اٹھانے تم میں سے کوئی بھی نہ آئے۔“ اس نے سختی سے کہا تھا۔وہ ان سب پر اپنا سخت تاثر قائم رکھنا چاہتا تھا۔۔اس لئے نا چاہتے ہوئے بھی روڈ ہوا تھا۔
”جی۔“ افزا نے منہ پھلا کر کہہ کے وہاں سے واپسی کی راہ لی تھی۔۔ اس کے پیچھے وہ دونوں بھی تھیں جو اپنی اپنی جگہ الجھن میں تھیں۔ زمل نے اس کے کمرے سے جاتے ہوئے آخری بار شکوہ کناں نگاہ اس پر ڈالی تھی۔۔ جو اسے ویسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ جیسے کچھ دیر پہلے دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے دیکھنے کے انداز سے کنفیوز ہو رہی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”زمل اک بات پوچھوں؟“ وہ دونوں یوگا میٹ پر بیٹھیں یوگا کرنے کے اراداہ رکھتی تھیں جب اینڈی کو چین نہ آیا اور دل میں اٹھتے سوال اس سے پوچھنا چاہے۔
”پہلے اجازت لے کر پوچھتی ہو؟“ زمل کے جواب پر وہ کھی کھی کرنے لگی۔
”مگر معاملہ سیریس ہے“ اینڈی کے یوں کہنے پر وہ اسے دیکھنے لگی۔
”ہنہ پوچھو؟“ زمل کا سارا دھیان اب اینڈی کی طرف تھا۔
”تمہارے اور دانیر بھائی کے درمیان کچھ ہوا ہے؟“ وہ جھجھکتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ مارے خوف سے کہ زمل کہیں اس کے سوال پر مائینڈ نہ کر لے حالانکہ وہ دونوں بیسٹ فرینڈز تھیں۔
”ہاں“ اس کے اک لفظی جواب پر وہ ساکن ہوئی۔
”کک۔۔کیا؟“ اینڈی نے پریشانی سے پوچھا۔ وہ دانیر کے کھردرے انداز کی وجہ سے پوچھنا چاہ رہی تھی۔۔ کوئی خلش یا لڑائی جھگڑا نہ ہو۔۔ مگر اس کے جواب پر اینڈی کا دل چاہا اپنا اور اس کا دونوں کا سر پیٹ لے۔
”نکاح “ زمل نے مطمعین ہو کر جواب دیا۔
”اففف۔۔۔۔۔۔“ اینڈی نے دانت پیسے۔
”کیا ہوا؟“ اس کے سکون کو دیکھ کر اینڈی کا سکون کہیں جا رہا تھا۔
”یہ مجھے پتہ تھا ایڈیٹ “ اینڈی نے اسے گھورا۔
”تو دوبارہ کیوں پوچھ رہی ہو؟“زمل نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا۔
”تم تو اس نکاح سے راضی نہیں تھی نہ؟“ اینڈی نے اس سے پوچھا۔
”اب بھی نہیں ہوں۔“ زمل نے جھوٹ بولا تھا یہ اس کا دل جانتا تھا۔
”آخر کیوں؟“ اینڈی نے اسے دیکھتے پوچھا۔
”اٹیٹیوڈ دیکھا ہے تم نے ان کا؟“ زمل کی بات پر اینڈی نے سر ہلایا۔
”ہاں اسی لئے تو پوچھ رہی تھی۔۔ تم نے تو نہیں انہیں کچھ کہہ دیا“ اینڈی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں نے کیا کہنا ہے یار؟ وہ خود اکھڑے اکھڑی رہتے ہیں“ زمل نے نا چاہتے ہوئے دل میں مچے طوفان کی ذرا سی بھنک اینڈی کےسامنے پیش کی۔
”وجہ معلوم ہے؟ یا معلوم کرنے کی کوشش کی ہے؟“اینڈی کے سوال پر وہ گہری سوچ میں پڑ گئی۔
”نہیں تو۔“زمل نے سچ کہا۔
”کیوں؟“اینڈی نے پوچھا۔
”کیونکہ وہ ہر وقت فضول کا اٹیٹیوڈ دکھاتےہیں۔۔ سڑا ہوا مینڈک“ زمل کی کمنٹنگ پر اینڈی کی ہنسی نکل گئی۔
”دھیان سے کہیں وہ سڑا ہوا مینڈک تمہارا فراگ پرنس نہ بن جائیں۔“ اینڈی کی بات پر اس نے اسے گھورا۔
”نہیں یار۔۔۔ میں وہ پرنسس نہیں جسے مینڈکوں سے پیار ہو “ زمل نے اتراتے ہوئے کہا
”دیکھ لو،وقت سدا ایک سا نہیں رہتا “اینڈی کی بات پر وہ اسے گھورنے لگی۔
”تم چپ کر کے پریکٹس کرو“اسے پریکٹس پر لگا کر وہ اینڈی کی ہی باتوں میں الجھی ہوئی تھی۔۔ سچ تو یہ تھا کہ اسے خود بھی نہیں پتہ تھا دانیر اس سے کیوں اتنا دور جا چکا تھا اور اس نے پتہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خان ولا میں اس وقت سب افطاری کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ سب بڑے ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے جب کہ ان سب بچوں کے لئے خصوصی دسترخوان لگوایا گیا تھا۔
”جن کا روزہ نہیں ہے وہ افطار بھی نہیں کریں گے۔“ سمیر کی آواز پر وہ سب چونکے۔
”یعنی تم آج افطار نہیں کروگے“ اینڈی کے جواب پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے۔ اینڈی ان چند ہی دنوں میں سب سے مانوس ہو گئی تھی۔۔
”جی نہیں محترمہ۔۔آج تم افطار نہیں کرو گی۔“سمیر کی بات پر اس نے منہ پھلایا۔
”کیوں؟“اینڈی کی بجائے زمل نے سوال کیا تھا۔
”کیونکہ افطار روزہ دار کرتے ہیں۔۔ اور روزے مسلمان رکھتے ہیں“سمیر نے اتراتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر زمل مسکرائی۔۔ مگر اینڈی توغصے میں اس سے محاذ لڑنے کی تیاری بھی کر چکی تھی۔
”تمہارا مطلب میں مسلمان نہیں ہوں؟“ اس کے سوال پر وہ کھل کر مسکرایا۔
”جی کینڈی صاحبہ “ سمیر نے اسے چڑایا۔
”کینڈی نہیں اینڈی “ وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔
”جو بھی ہے تم کونسا مسلمان ہو“ سمیر نے اسے جتایا۔ مگر زمل کی بات سن کر وہ شاکڈ تھا۔۔ اس کے علاوہ سب جانتے تھے کہ وہ مسلمان تھی۔۔
”اس کا نام علینا ہے اینڈی تو بس ہم سب اسےپیار سے کہتے ہیں۔۔ اینڈ فار یار کائنڈ انفارمیشن شی از مسلم۔ اب ہم پاگل تو ہیں نہیں آپ کی طرح کہ ایسے ہی کسی غیر مسلم کو فیملی کی طرح ٹریٹ کریں“ زمل کی بات پر وہ سیدھا ہوا۔۔ تھوڑی سی شرمندگی ضرور ہوئی تھی مگر وہ سمیر ہی کیا جو اپنا آپ سب پر ظاہر کر دے۔۔
”اچھا تو کینڈی صاحبہ۔۔“ سمیر کی بات اینڈی نے غصے سے کاٹی تھی۔۔
”کینڈی نہیں اینڈی “ اینڈی نے اسے گھورا۔
”واٹ ایویر۔۔ تمہارے مسلمان ہونےکی خوشی میں آج کی افطار میری طرف سے۔“سمیر نے دل کھول کر کہا تھا۔
”مگر میر بھائی۔۔ یہ افطار تو عزہ بھابھی نے ریڈی کروائی ہے“ منسا کے معصومیت سے کہنے پر جہاں سب کے قہقہے بلند ہوئے وہیں سمیر نے اسے دانت پیس کے دیکھا۔ فاز اور دانیر کے درمیان بیٹھی منسا کو ان دونوں نے پیار کیا تھا۔
”تم کبھی میر بھائی کا ساتھ مت دینا۔“ سمیر نے آہ بھرتے ہوئے کہا تھا۔
”میر بھائی کی حرکتیں ہی ایسی ہیں کوئی کیا ساتھ دےگا“ افزا کے کہنے پر اسے اس کے ساتھ بیٹھے سمیر نے دھموکا پڑا تھا۔
”تم سب خاموشی سے افطار نہیں کر سکتے؟“ دانیر کی سخت آواز پر سب کو سامپ سونگھا تھا۔۔
”لو آ گئے اپنے ہلاکو خان روپ میں۔“ سمیر نے افزا کے کا ن میں گھس کر سرگوشی کی۔
”چپ کر جاؤ نہیں تو تم ہی ہلاک ہو جاؤ گے“ افزا کے ڈپٹنے پر وہ چپ ہوا۔۔ جبکہ اصل بات یہ تھی کہ مغرب کی اذان سن کر اس کے بولتے ٹر ٹر کرتے لب بند ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭