تیرے آنے سے بقلم زوہا آصف
قسط نمبر 4”چلیں دانیر بھائی۔؟“ منسا کے معصومیت سے پوچھنے پر ا س نےمسکرا کر اپنی بہن کو دیکھا تھا۔
”تمہاری باقی بہنیں آجائیں“ دانیر نے اکتاتے ہوئے کہا تھا۔
”وہ سب تیار ہونے میں اتنی دیر کیوں لگاتی ہیں؟“ منسا نے معصومیت سے پوچھا تھا۔
”کیونکہ وہ اپنے آپ سے مکمل طور پر متفق نہیں ہیں۔۔“دانیر نے اس کے بال کان کے پیچھے اڑساتے ہوئے کہا تھا۔
اس سےپہلے وہ کچھ مزید بولتی۔۔ وہ سب بھی خان ولا سے باہر آتی دکھائی دی تھیں۔۔ سب کے حلیے ٹھیک تھے مگر دانیر کو زمل کے کپڑے بہت مایوب لگے تھے۔ اس نے سرخ رنگ کی چھوٹؔی سی فراک کے نیچے وائٹ رنگ کا پلازو ڈال رکھا تھا۔۔ شرٹ کی لمبائی گھٹنوں سے بہت اوپر تھی۔۔ اور دوپٹہ نام کی شے اس کے پاس موجود ہی نہیں تھی۔۔ بال اس نے کھول رکھے تھے۔۔
”عزہ بھابھی۔ میں کسی بے حیا لڑکی کو اپنے ساتھ ہر گز نہیں لے کر جاؤں گا۔۔“ اس کے اس قدر سخت الفاظ پر وہ سب ساکت تھے۔
”کک۔۔کون؟ دانیر ؟“عزہ کے گبھرا کر پوچھنے پر اس کی اک سخت تنقیدی نگاہ زمل پر کافی تھی۔۔ وہ سب سمجھ چکے تھے۔۔ زمل پانی پانی ہو گئی تھی اس قدر بے عزتی پر۔
”جاؤ زمل تم چینج کرلو“ عزہ نے خشمگیں نگاہوں سے اسے پیار سے کہا تھا۔
”کیوں؟ آخر اس ڈریسنگ میں کیا برائی ہے؟“ وہ بدتمیزی سے بولی۔
اس کے اس انداز پر منسا افزا عزہ اینڈی سب خاموش تھے۔
”میں بات دوہرانے کا قائل نہیں۔“ وہ سختی سے بولا۔
”میری بات کا جواب دیں۔ کیا برائی ہے اس میں؟“ زمل دانیر سے مخاتب تھی۔
”میں تمہارے سوالوں کے آگے جواب دہ نہیں۔تم نے جانا ہے تو ڈھنگ کا لباس پہنو۔ورنہ میں باقیوں کو لے کر جا رہا ہوں“دانیرنے پہلے سے زیادہ سختی سے کہا تھا۔
”تو ٹھیک ہے۔ جائیں آپ سب“وہ غصے سے کہتی اندر جا چکی تھی۔۔ اینڈی اس کے پیچھے جانے والی تھی کہ دانیر نے اسے روکا۔
”سوچ لو۔۔تمہارا بھائی تمہیں روز روز ایسی آئس کریمز کی آفرز نہیں کروائے گا “ دانیر نے مسکرا کر کہا تھا اس کے یک دم بدلے ہوئے انداز پر سب حیران تھے۔
”پر۔۔“اینڈی منمنائی۔۔ زمل کے برعکس وہ مکمل مشرقی حلیے میں تھی۔
”چلو۔۔ لیٹ ہو رہے ہیں ہم۔“ دانیر کے یوں کہنے پر وہ چاہتے نہ چاہتے سب کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔۔
مگر اسے زمل کی فکر ستا رہی تھی۔۔ وہ محض دیکھنا چاہتا تھا کہ دانیر کی باتوں کا زمل پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ جیسے زمل ظاہر کرتی تھی بے فکری والی طبیعت وہ حقیقت میں ایسی تھی نہیں ۔۔ وہ خوش تھا۔۔ اسے فرق پڑتا تھا۔۔ وہاں پر اس کا سارا دھیان زمل کی ذات پر تھاجو غصے سے آگ بگولا ہوئی خان ولا میں رک گئی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ غصے سے آج پھر پول والے حصے میں گھوم رہی تھی۔۔اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھاکہ دانیر نے یوں سب کے سامنے اسے بے عزت کیا تھا۔
”سمجھتےکیا ہیں خود کو۔“ اس نے غصے سےکہا۔
”سڑے ہوئے مینڈک“ اس نے منہ بسورا۔۔ اپنا غصہ نکالنے کا اسے بس یہی طریقہ ملا تھا۔
”کون کیا سمجھتا ہے؟“ سمیر کی آواز پر وہ غصے سے پلٹی۔
”تمہارا بھائی۔“ وہ تیزی سے بولی۔وہ سمجھ گیا اس وقت زمل غصے میں تھی۔
”پر اللہ کی قسم میری تو بس دو بہنیں ہیں۔۔ اک بھی بھائی نہیں۔۔ اللہ میاں جانتے تھے میری معصوم ماں مجھ جیسے دو نہیں سنبھال سکتی تھی۔“ اس کی روہانسی انداز اور مزاحیہ بات پر بے ساختہ ہنس دی تھی۔۔
”سنبھالے تو خیرتم اک بھی نہیں جاتے“ زمل کی بات پر وہ ہنس دیا۔
”ہاں بس ایسی بالائیں کم ہی زمین پر اترتی ہیں“ اس کی بات پر وہ کھلکھلا دی۔
”تم خود ہی کو بلا کہہ رہے؟“ زمل نے ہنس کر پوچھا۔
”ہاں نہ۔۔ بس تمہارے سامنے حقیقت تسلیم کر رہا ہوں ۔۔ اور کسی کو مت بتانا۔“ سمیر نے رازدارانہ انداز میں کہا۔
”اوکے شش۔۔۔“ زمل نے شرارت سے منہ پر انگلی رکھی۔
”اپنی اس کھٹی میٹھی کینڈی کو بھی نہیں۔“سمیر نے بھی انگلی لبوں پر رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”وہ کینڈی نہیں اینڈی ہے“ زمل نے اسے گھورا۔
”جو بھی ہے۔۔ مجھے کیا۔۔ بس مت بتانا“ سمیر نے ہنستے ہوئے کہا۔
”اوکے۔“وہ ہنسی۔
”ویسے اک بات بتاؤ؟“ سمیر نےاسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں؟“ زمل نے اس کے ساتھ ٹہلتے جوا ب دیا۔
”تم یہاں اکیلی کیا کر رہی ہو؟ باقی سب کہاں ہیں؟“ سمیر کے پوچھنے پر وہ پھر بدمزہ ہوئی۔
”وہ سب آئس کریم کھانے گئے ہیں“ اس نے سیدھا سا جواب دیا۔
”حیرت ہے تم نہیں گئی۔“ اس نے اسے دیکھتے جواب دیا۔
”ہاں موڈ نہیں تھا۔“ زمل نے کوور کیا۔
”تم گئی نہیں یامسٹر ہلاکو خان تمہیں لےکر نہیں گئے؟“سمیر کے اس قدر ٹھیک اندازے پر وہ چپ رہی۔
”سمجھ گیا۔۔ کوئی نہیں بہن۔۔ ساری زندگی تم نے ایسے ہی مسٹر ہلاکو خان ساتھ گزارنی ہے ۔۔ صبر رکھ میری بچی۔۔“ اس کے بزرگانہ انداز پر زمل کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔
”ویسے انہیں پتہ ہے کہ تم نے ان کا نام ہلاکو خان رکھا ہوا ہے؟“زمل نے دلچسپی سے پوچھا۔
”نہیں بابا۔۔۔ مرواؤ گی تم تو“ سمیر نے خوف سے اسے دیکھتے کہا۔
”اب تو ضرور بتاؤں گی “ زمل نے اسےمزید ڈراتے ہوئے کہا۔
”تو ٹھیک ہے، میں بھی انہیں بتاؤں گا کہ کوئی انہیں سڑا ہوا مینڈک کہتا ہے۔“ سمیر نے اسے فاتحانہ نگاہوں کے حصار میں لیا۔
”یہ چیٹنگ ہے۔ تمہیں کیسے معلوم“ زمل نے فوراً پینترا بدلا۔
”بسس۔۔ دیکھ لو۔ با با ہیں ہم “ سمیرنے گردن اکڑائی۔۔
”ہاں بابا توہو مگر۔۔“ زمل نے بات ادھوری چھوڑی۔
”مگر کیا؟“سمیر نے اشتیاق سے پوچھا۔
”جن باباہو“ اس نے ہنس کر کہا۔۔ اس کی بات پر سمیر کا بھی قہقہہ بلند ہوا۔۔ ان دونوں کا یوں اک ساتھ ہنسنا شاید ادھر قدم بڑھاتے اک شخص سے برداشت نہیں ہوا تھا۔۔ اس لئے وہ غصے سے مٹھیاں بھینچے وہیں سے واپس پلٹ گیا تھا۔۔ زمل اس بات سے انجان ہی تو تھی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”وہ خلافِ توقع صبح سویرے اٹھ چکی تھی۔۔ اس نے اٹھ کر شاور لیا تھا اور تیار ہوئی تھی۔ نارنجی رنگ کی ٹاپ اور جامنی رنگ کا کھلا ٹراؤزر پہنے بالوں کو اونچی پونی میں قید کیے سن گلاسز لگائے وہ باہر جانے کے لئے تیار تھی۔۔ نیچے اتر کر اس نے لاؤنج میں اندر جھانکا تھا۔ جہاں فاز جلدی میں نکلنے کی تیاریو ں میں تھا۔
”فاز بھائی۔؟“ اس نے اسے اٹھتے دیکھ کر آواز دی۔
”ارے تم۔۔ اتنی صبح؟ “فاز نےحیرت سے کہا۔
”جی۔۔ مجھے مارکیٹ جانا تھا۔“ اس نے جھکجھکتے ہوئے کہا۔
”اوہ۔۔۔ کس کے ساتھ جا رہی ہو؟“ اس کے یوں پوچھنے پر وہ کھجل ہوئی۔
”آپ چھوڑ آئیں۔۔ میں واپس خود ہی آجاؤں گی۔“ اس نے سر جھکا کر کہا تھا۔
”ارے ایسے کیسے خود ہی آجاؤ گی۔۔ میری تو میٹنگ ہے میں آج ذرا جلدی میں ہوں نہیں جا سکتا۔تم ایسا کرودانیر کے ساتھ چلی جاؤ“ اس کے یوں کہنےپر زمل کا سانس اٹکا تھا۔۔ وہ سڑا ہوا مینڈک چلا ہی نہ جائے۔
”لو۔۔آگیا “ فاز نے مسکرا کر کہا تھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس کے بلکل پیچھے وہ ٹراؤزر شرٹ پہنے رف سے حلیے میں بھی بہت وجہیہ لگ رہا تھا۔
”کیا ہوا بھائی؟“اس کے سنجیدگی سے پوچھنے پر فاز نے ان دونوں کو دیکھا۔
”وہ زمل کو مارکیٹ تک جانا ہے۔۔ لے جاؤ۔۔ میں ذرا لیٹ ہورہاہوں۔۔ اوکے اللہ حافظ “ فاز جلدی میں کہتا اپنی فائلز اٹھا کر وہاں سےنکلا تھا۔ اب لاؤنج میں بس وہ اور زمل تھی۔
”کہاں جانا ہے؟“ دانیر نے سنجیدگی سے بازو سینے پر باندھتے ہوئے پوچھا تھا۔
”مارکیٹ“ اس نے بھی اسی سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔
”چادر لے کر آؤ“ دانیر کہہ کر رکا نہیں تھا۔۔ بلکہ چل دیا تھا۔۔ وہ اب تک اتنا تو جان چکی تھی کہ دانیر اسے خود کا جسم ڈھامپے بغیر باہر نہیں لے کر جانے والا تھا اس لئے اس نے خود ہی اپنے کمرے میں جا کر اینڈی کے کپڑوں میں سے اک ہلکی کڑہائی والی چادر اوڑھ لی تھی۔۔ اس کا مارکیٹ جانا بہت ضروری تھا کیونکہ اس کا بغیر ائیر پوڈز کے گزارہ مشکل تھا اور وہ مجبوراً دانیر کے ساتھ جانے پر رضامند ہو گئی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جب سے خان ولا سے نکلے تھے سفر مکمل خاموشی اور سکوت سے کٹا تھا۔ اس خاموشی کو دانیر خان کی گھمبیر آوا ز نے توڑا۔
”ہمم۔۔ کیا لینا ہے تم نے؟“ وہ سنجیدگی سے ڈرائیو کرتے ہوئے بولا تھا۔
”آپ بس چھوڑ دیں۔۔ میں خود لے لوں گی“ زمل نے خاصے سرد لہجے میں کہا۔
”میں تمہارا ڈرائیور یا غلام نہیں ہوں۔“ دانیر نے اس کی بات پر کڑے تیوروں سے اسے گھورا،
”تو مجھے کلئیر کر دیں کون ہیں آپ میرے“ زمل نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اس کے سوال پر دانیر نے اسے خاموش نگاہوں سے دیکھا۔
”یہ تمہیں خود معلوم ہونا چاہیے۔“ دانیر نے نگاہیں سامنے کے منظر پر ٹکائیں۔
”خیر۔۔ مجھے موبائل مارکیٹ ڈراپ کر دیں۔“ اس نے موضوع بدلتے ہوئے کہا تھا۔
”موبائل مارکیٹ؟“ وہ حیران ہوا۔
”کیوں؟ نہیں کر سکتے؟ کوئی پرابلم ہے؟“ زمل نے اکھڑے لہجے میں پو چھا۔
”وہاں سے کیا لینا تم نے؟“دانیر نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”آپ سے مطلب؟“ زمل نے کھڑکی سے باہر جھانکتے جواب دیا۔
”بدتمیزی کرنے کے تمہیں کتنے پیسے ملتے ہیں؟“ دانیر نے اسے غصے سے گھورا۔
”آپ تو نہیں نہ دیتے، تو انٹرسٹ بھی نہ رکھیں۔“ زمل نے پھر سے بدتمیزی کرتے جواب دیا۔
”ضرور کوئی ٹاپ کی پیڈ وومن بن چکی ہوگی ابھی تک“ دانیر کی بات پر اس نے غصے سے لب بھینچے۔
”مجھے ائیر پوڈز لینے ہیں۔“ اس نے مدعے پر آتے جواب دیا۔
”ہیں تو تمہارے پاس“دانیر نے عام سے لہجے میں جواب دیا۔
”وہ آپ کی وجہ سے ویسٹ ہو گئے۔“ زمل نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”وہ صحیح سلامت ہیں۔ شام میں لے لینا“ دانیر نے اسے دیکھتے جواب دیا۔
”یو شیور؟“ اس نے اس سے پوچھا۔ وہ سمجھی تھی کہ اس کے پیارے ائیر پوڈز اللہ کو پیارے ہو گئے۔۔ مگر انہیں دوبارہ زندگی اس کی جان کے دشمن نے دی تھی۔
”پھر اب مجھے گھر ڈراپ کر دیں“ زمل نے فوراً کہا۔
”کیوں؟“ دانیر نے اک نظر اسے دیکھ کر اس کے تاثرات کا جائزہ لینا چاہا۔
”ائیر پوڈز لینے تھے۔۔ جب وہی ٹھیک ہیں تو کیا فائدہ مارکیٹ جانے کا۔ گھر لے چلیں“ زمل نے اسے دیکھتے جواب دیا۔
”کچھ اور لے کر دینا ہے تمہیں“ دانیر نے اسے گہری نگاہوں کے حصار میں لیا۔
”کیا؟“وہ حیران پریشان اسے دیکھنے لگی۔
”جا کر دیکھ لینا“ اس نے اسے الجھن میں چھوڑ کر اپنا سارا دھیان ڈرائیونگ پرمرکوز کر دیا تھا۔وہ بس تھوڑی دیر اسے دیکھتی رہی پھر بعد میں اپنا دھیان باہر کے مناظر پر لگا دیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”آپی۔۔ یہ پکوڑے کی ریسپی بتایئے گا“ اینڈی نے عزہ کو کیچن میں چکن کو میرینیٹ کرتے دیکھ کر کہا۔
”کیوں بھئی خیر ہے؟“عزہ نے مسکرا کر کہا۔
”جی میں نے سوچا۔۔ کہ پاکستان آکر پاکستانی ڈشز بھی سیکھنی چاہیے۔“اینڈی نے ہنس کر جواب دیا۔
”کیوں تم لوگ وہاں یہ سب نہیں بناتے؟“ عزہ نے حیران ہو کر پوچھا۔
”ارے آپی۔۔ ہر ٹائم زمل کے گھر تھوڑی ہوتی میں۔۔ یہ تو بس یہاں ہم ایسے ہیں۔۔ اور میں پوری ڈھٹائی سے اپنی بیسٹ فرینڈ کے گھر بغیر انویٹیشن پہنچی ہوئی ہوں“ اینڈی نے ہنستےہوئے کہا تھا اس کی بات پر عزہ بھی ہنسنےلگی۔
”مان گئی۔۔ مان گئی۔۔ “ اک دم سے سمیر کی آواز پر وہ دونوں چونکی۔
”کیا مان گئی؟“ اینڈی نے حیران ہو کر پوچھا۔
”کہ کینڈی صاحبہ ڈھیٹ ہیں“ سمیر نے یو یو ہنی سنگھ سٹائل بناتے انہیں اپنی طرف سے اک اہم خبر دی تھی مگر ان دونوں کی سنجیدہ اور اکتائی ہوئی نگاہیں دیکھ کر اس نے پوز بدلا۔
”کینڈی نہیں اینڈی“ اینڈی نے چڑتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں کینڈی صاحبہ“ سمیر نے اس کی بات کا نوٹس لئے بغیر کہا تھا۔
”چھوڑو اسے۔۔ آؤ میں تمہیں پکوڑےبنانا سکھاؤں“ عزہ نے سمیر کے کندھے پر چپت لگاتے ہوئے کہا تھا۔
”پکوڑے اور یہ کینڈی؟“سمیر نے قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسنا شروع کر دیا۔ کینڈی اوہ میرا مطلب اینڈی اس کی اس حرکت پرمزید چڑ گئی۔
”کیوں؟؟ میں بنا نہیں سکتی“اینڈی نےابرو اچکا کر اس سے پوچھا۔
”ضرور بنا سکتی ہو۔۔ بلکہ آج تک کسی نے ویسے پکوڑے نہیں بنائے ہوں گیں جیسے تم بناؤ گی“ سمیر نے شرارتی آنکھوں اور سنجیدہ چہرے سے اسے دیکھتے جواب دیا تھا۔ وہ دونوں اس کے اک پل میں بدلے انداز پر حیران رہ گئی تھیں۔
”اووہ۔۔ تھینک یو“ وہ دلکشی سے مسکرائی۔
”وجہ نہیں پوچھو گی؟“ اس کے اتنے شرافت سے کہنے پر اینڈی نے اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورا۔
”بولو۔“ اینڈی نے اسے سنجیدہ نظروں سے دیکھا۔ اب تک وہ جان چکی تھی کہ اب سمیر نے کوئی الٹی بات کرنی تھی کیونکہ وہ اتنا سویٹ کبھی غلطی سے بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
”تم پکوڑوں میں بھی کینڈیز ڈال دو گی نہ مس کینڈی “ سمیر نے اپنے پوری بتیس دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا تھا جو شاید ابھی پورے بتیس آئے بھی نہیں تھے مگر نمائش پوروں کی کی تھی۔۔ عزہ نے اس کی اس بات پر بے ساختہ اپنا سر پیٹا تھا اور ضبط سے اسے گھور رہی تھیں۔۔
”آپی یہ آپ کا سگا بھائی ہی ہے نہ؟“ اینڈی نے عزہ سے مخاتب ہوتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں بھئی۔۔“عزہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
”کیوں جی کینڈی صاحبہ“ سمیر نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کیونکہ تم اس فیملی کے لگتےنہیں، آئی تھوٹ تمہیں عیدی سینٹر سے اڈوپٹ نہ کیا گیا ہو“ اینڈی نے تلی لگا کر وہاں سے واپسی کی راہ لی تھی۔۔ جب کہ سمیر اس کے بدلے پر دل کھول کر ہنس دیا تھا۔ بے عزتی محسوس کرنا تواس نے
آج تک سیکھا ہی نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟“ اس نے اس بڑے سے مال کو اشتیاق سے دیکھتے ہوئے دانیر سے پوچھا تھا۔
”مال کیوں آتے ہیں؟“ دانیر کے ہمیشہ کی طرح سنجیدہ مزاج اور سوال پر اس کے مسکراتے لب سمٹے۔
”شاپنگ کرنے“ اس نے منہ بسور کر جواب دیا۔
”تو ہم بھی اسی مقصد کے لئے آئے ہیں“ دانیر نے اسے سنجیدہ مگر گہری نگاہوں کے حصار میں لیا۔
”کس لئے؟“ زمل نے اسے حیرانی سے پوچھا۔
”عید کے لئے“ دانیر نے سنجیدگی سے کہہ کر لفٹ کا بٹن دبایا تھا۔
وہ بس خاموشی سے اسے دیکھے گئی۔
”تمہارا فیورٹ کلر کونسا ہے؟“ ڈریس بوتیک کی شاپ میں کھڑے لیڈیز کرتے دیکھتے ہوئے دانیر نے اس سے پوچھا۔۔ جو بلکل لا تعلق سے وہاں اس کے ساتھ کھڑی تھی۔
”بھول گئے؟“ زمل کے منہ سے شکوہ پھسلا۔
”کیا؟“دانیر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
”بچپن کی دوستی، ہربات بھول گئے؟“ زمل نے اسے شکوہ کناں نگاہوں کے حصار میں لیا۔
”یاد رکھنی تھیں؟“ دانیر نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں تو۔“ وہ خاموش ہو گئی۔
”بہت کچھ بدل چکا ہے بچپن سے اب تک“ دانیر نے اسے دیکھتے کہا۔
”میں نہیں بدلی، میں چاہتی ہوں آپ بھی نہ بدلیں۔“ زمل نے سٹیٹ فارورڈ کہا تھا۔
”جس دن مجھے واقعی تم وہی بچپن والی زمل لگی۔ میں بھی وہی دانیر بن جاؤں گا۔“ دانیر نے جواب دیا تھا۔
”کاش۔۔“وہ بس اتنا ہی بول پائی۔
”کلر بتاؤ“
”وہی ہے جو ہمیشہ سے تھا۔“ زمل نے اسے گھورتے ہوئے کہا
” وائٹ؟“ دانیر فوراً بولا۔ مگر اس نے نگاہیں فوراً اس کے چہرے سے ہٹا لیں تھیں کہیں اس کی چوڑی پکڑی نہ جائے۔زمل کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ مطلب سب ٹھیک تھا۔ سب پہلے جیسا تھا پھر وہ کیوں اس سے اتنا دور ہو گیا تھا۔۔
”دیکھا کہا تھا نہ کچھ بھی نہیں بدلا۔“ زمل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہ والا کیسا ہے؟“ دانیر نے بات بدلتے ہوئے کہا تھا۔
”اچھا ہے“ اس نے سرسری سا دیکھتے جواب دیا۔
”اپنے لئے دیکھو۔“دانیر نے ہینگر اسے تھماتے ہوئے کہا تھا۔
”میں اب اس طرح کے ڈریس نہیں پہنتی۔“ زمل نے بیزاری سے کہا۔
”میں چاہتا ہوں تم ایسے ہی ڈریسز پہنو۔“ دانیر نے اسے سنجیدہ مگر گہرائی سےدیکھا۔
وہ کچھ بول نہ پائی۔۔
”تم کہتی ہو کچھ نہیں بدلا۔ تو جاؤ پروو اٹ “ دانیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا،
”کیسے؟“ وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔
”گو اینڈ وئیر اٹ۔۔ بچپن میں بھی میری ساری باتیں فوراً مانتی تھی نہ، اب مانو گی تو ہی مانوں گا“ دانیر نے ہاتھ سینے پر باندھتے جواب دیا۔
”چیلنگ اسیپٹڈ۔“ وہ پر عزم ہو کر اس کا پکڑایا ڈریس لے کر چینجنگ روم گئی تھی۔ دانیر کے چہرے پر اس وقت بہت مسرور، بہت گہری مسکراہٹ تھی۔۔شاید میں اپنی محبت سے اسے بدل سکتاہوں۔۔ وہ محبت جو بچپن سے اس نے میرے دل میں اپنے لئے پیدا کی ہوئی ہے۔۔ وہ محبت جو اس کے علاوہ کبھی کسی اور کا سوچنے نہیں دیتی۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب وہ اس کا پسند کیا سفید رنگ کا کرتا پہنے نیچے گلابی رنگ کا ٹراؤزر پہنے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ دوپٹہ دائیں کندھے پر ڈالے وہ آج جانے کتنے عرصے بعد اسے اس مشرقی حلیے میں دیکھ رہا تھا۔۔ اسے دیکھتے ہوئے اس کی سیاہ آنکھوں میں اک انوکھی چمک تھی۔ محبت کی چمک، چاہت کی چمک۔۔
”ہو گیا شوق پورا؟“ زمل نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تھینک یو۔“ دانیر نے مسکرا کر کہا تھا۔ جب سے زمل پاکستان آئی تھی وہ اسے آج پہلی دفعہ مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔وہ آج بھی ویسا ہی تھا۔ وجہیہ۔۔ حسین مرد۔۔ ایک ایسا لڑکا جس کی خواہش ہر لڑکی کرتی تھی۔
وہ مسکرائی۔ وہ بھی مسکرایا۔انہوں نے اک دوسرے کو دیکھا۔۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کبھی کوئی دوری ان کے درمیان آئی ہی نہیں تھی۔۔
زمل نے اس کے لئے اک نہیں ڈھیر سارے پاکستانی ڈریسز لئے تھے۔۔وہ خوش تھا۔۔ وہ بھی خوش تھی۔ ان دونوں نے اک عرصے بعد اک ساتھ اتنا اچھا وقت گزارا تھا۔۔بچپن کی دوستی شاید پھر سے برقرار ہونے والی تھی۔۔ وہ دوستی جو ان دونوں کے دل کا قرار تھی۔۔ مگر اس بات سے دونوں بے خبر تھے کہ قسمت ان کا بہت بڑا امتحان لینے والی تھی۔۔وہ دونوں اس با ت سے انجان شاپنگ کر رہے تھے۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج انتیسواں روزہ تھا۔ وہ سب لڑکیاں مل کر افطار کی تیاریوں میں مشغول تھیں۔۔
”امم۔۔ منسا ایک بات توبتاؤ؟“ زمل نے اپنے ساتھ سموسے فل کرتی منسا کو مخاتب کیا۔
”جی بھابھی۔؟“ وہ معصومیت سے اسے دیکھنے لگی۔
”تمہارے بھائی کی فیورٹ ڈش کیا ہے؟“ وہ سرگوشی نما آواز میں بولی۔
”کونسے بھائی کی؟“ منسا کے معصومیت مگر بلند آوا ز میں پوچھنے پر اس کا دل چاہا اپنا ہی سر پیٹ لے۔
اس کے یوں پوچھنے پر اینڈی اور افزا نے اسے شرارت بھری نظروں سے گھورا تھا۔
”کیا ہے؟“ زمل نے خفت سے انہیں دیکھتے ہوئے اپنی طرف سے بہت مظبوط ہو کر پوچھا تھا۔
”کیا پوچھ رہی ہیں بھابھی میرے بھائیوں کے بارے میں؟“ افزا نے شرارت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”نہیں۔۔ میں نے کیا پوچھنا“ زمل نے کھی کھی کرتےہوئے ان کا دھیان ہٹانا چاہا۔۔ مگر مقابل بھی اس کے ٹکڑ کے تھے۔
”منسا؟؟“ اینڈی نے مٹھاس سے گوندے لہجے میں منسا کو پکارا جو فوراً پیاری سی مسکراہٹ دیتی اس کی طرف مڑی۔
”جی آپی “ منسا نے مسکرا کر کہا۔
”بھابھی کیا پوچھ رہی تھیں؟“ اینڈی نے اتنے پیار سے پوچھا کہ زمل حیران ہو کر بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔۔
”بولو منسا“ افزا کے بھی اسی طرح لاڈ پیار سے پوچھنے پر زمل نے اپنی خیر منائی۔۔ پیاری نند پلیز کچھ مت بولنا۔۔ پلیز منہ بند رکھنا۔۔۔وہ دل ہی دل میں اپنے ساتھ بیٹھی منسا سے مخاتب تھی۔۔
”انہوں نے پوچھا میرے بھائی کی فیورٹ ڈش کیا ہے“ وہ معصومیت سے بولی۔۔ اس کے بولنے پر جہاں افزا اور اینڈی نے شوخ نگاہوں سے زمل کی چوڑی پکڑی وہیں زمل نےخفت سے چہرہ جھکایا۔۔ مگر پھر فوراً سمبھل کر ادھر ادھر یوں نگاہیں گھمائیں جیسے ابھی ابھی جو اس کی حرکت پکڑی گئی تھی وہ اس کی نہیں کسی اور کی تھی۔۔۔
”بیٹا کیا چل رہا ہے؟“ اینڈی کے یوں شرارت بھری نظروں سے پوچھنے پر وہ پزل ہو گئی۔۔ اس نے اٹھ کر وہاں سے جانا چاہا تھامگر سامنے کا منظر دیکھ کر وہیں سانس روکے کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭