قسط نمبر 5

79 3 0
                                    

تیرے آنے سے بقلم زوہا آصف
قسط نمبر 5

”آپ“ وہ بس اتنا ہی بول پائی۔۔۔ اپنے سامنے مسکرا کر اسے دیکھتے دانیر خان کو دیکھ کر اس کا وہیں سانس اٹکا تھا۔ جبکہ دانیر کو دیکھ  کر باقی تینوں بھی سیدھی ہوئی تھیں۔۔
”کیوں ہم یہاں نہیں آسکتے؟  “دانیرکے مسکرا کر پوچھنے پر اینڈی افزا اور منسا حیران تھیں۔۔ عرصے بعد اسے یوں مسکراتے دیکھ کر عزہ کو بھی غش آنے لگے تھے۔۔
”نہیں میں نے کیا  کہا۔۔“ وہ بس کسی طرح وہاں سے جانا چاہتی تھی مگر اک تو دانیر بلکل دروازے کے وسط میں کھڑا تھا۔۔ وہاں سے بھاگنے کا فلحال کوئی راستہ نہیں تھا۔
”یہ لو۔“ اس نے زمل کے ہاتھ میں اک شاپر پکڑایا۔
”یہ۔۔؟“ زمل نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔ باقی چاروں مسلسل ان دونوں کو چھیڑتی نگاہوں کے حصار میں لئے ہوئی تھیں۔۔
”گول گپے ہیں  تمہارے لئے“ دانیر نے مسکرا کر کہاتھا۔۔ اس کا تو حیا سے چہرہ جھک گیا تھا۔۔
”واہ۔۔۔بھئی۔۔“ افزا کے منہ سے پھسلا۔ دانیر نے اسے گھورا۔
”کیا ہے؟“ وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔
”آپ کو کیسے پتہ بھابھی کو گول گپے پسند ہیں؟“ افزا  نے شرارت بھری نگاہوں سےاسے دیکھا۔
”بچپن سے جانتا ہوں اس کی  پسند“ دانیر نے مسکرا کر کہا تھا زمل کا جھکا سرمزید جھک گیا تھا۔
”ارے واہ۔“اینڈی نے بھی لقما دیا۔زمل نے ان سب کو گھورا۔ عزہ بس مسکرا کر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
”چلو بھئی۔۔ افطار کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔ لڑکیوں ڈائننگ پر سرو کرو سب کچھ۔۔ اور دانیر تم جاؤ سب کو بلا لاؤ۔“ زمل کو یوں خفت میں پھنسا دیکھ کر عزہ نے سب کو کام پر لگایا تھا۔۔
”جی آپی۔“ سب نے سیلیوٹ کیا۔ عزہ ہنس دی تھی۔۔ دانیر جاتے جاتے بھی زمل کو اپنی لو دیتی نگاہوں میں قید کر کے گیا تھا۔۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔ اپنی کھلی لٹوں کو اس نےکان کی لو کے پیچھے کیا تھا۔۔
”چلو گول گپی۔۔ تمہارے گول گپے بھی سرو  کرنے ہیں۔۔“ اینڈی نے اسے کہنی مارتے ہوش کی دنیا میں واپس گھسیٹا۔
”باز آؤ“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”اب تو تم دیکھنا تمہارے ساتھ ہوتا کیا۔ “ وہ مزاق سے کہہ کر اس کے ہاتھ سے شاپر لے کر جا چکی تھی۔۔ وہ بھی سر جھٹک کر وہاں سے چلی گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس وقت کمرے میں بے انتہا بور ہونے کے بعد نیچے لان میں جانے کا ارادہ کیے قدم بڑھا ہی رہی تھی جب اسے سمیر بھی اپنے کمرے سے نکلتا دکھائی دیا تھا۔
”ارے پریٹی وومن کہاں چلی؟“ سمیر نےشرارت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”باز آؤ“ وہ اسے دیکھ کر مسکراہٹ روکتے کہنے لگی۔
”کون باز؟ کون باز؟“ وہ ہنستے ہوئے پوچھنے لگا۔
”تم اور کون“ زمل بھی ہنس دی تھی۔
”ویسے یہ کہاں جانے کی تیاریوں میں ہو؟“ سمیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”میں بس لان میں جا رہی تھی۔“ زمل نے اسے دیکھتے ہوئے بتایا۔
”کیوں بھئی؟“ سمیر کے پوچھنے پر وہ اسے دیکھنے لگی۔
”ہاں بس میں بور ہو رہی تھی۔“ زمل نے بات ختم کرتے ہوئے کہا تھا۔
”ہلاکو خان نے بلایا ہے وہاں؟ “ سمیر نے اک ادا سے کہا تھا مگر اس کی آنکھیں اس کی شرارت کا پتہ دے رہی تھیں۔
”ہاں بلکل“ زمل نے اطمینان سے جواب دیا۔
”ہاں میرا پیچھا مت کرنا، انہوں نے کہا تھا اکیلے آنا“ وہ اسے بدھو بناتے ہوئے بولی۔
”بہت ہی ناشکری ہو۔ بیسٹ فرینڈ کو ایسے کہتے ہیں“ وہ ناراض سا بولا۔
”کون بیسٹ فرینڈ“ وہ ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے ہوئے بولی۔
”میں۔“ سمیر بولا۔
”میں پہلے بور ہو رہی ہوں تم بھی دماغ پکا رہے ہو میرا“وہ بھی خفا ہوئی۔
” آؤ لان میں چل کر ٹرتھ اینڈ ڈئیر کھیلتے ہیں ۔۔ تمہاری تو بوریت دور کریں“سمیر نے منہ بناتے ہوئے کہا تھا۔
”اوکے لیٹس گو“ وہ ایکسائٹڈ ہو کر اسے لیڈ کرتے لان میں چلی گئی تھی۔۔اس بات سے بے خبر یہ گیم آج اس کی زندگی بدلنے والی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”بھائی۔۔“ وہ اپنے لیپ ٹاپ پر اپنے کسی کام میں مصروف تھا جب اسے اپنے کمرے کے دروازے پر منسا کھڑی نظر آئی۔
”کم ان میری پرنسس“دانیر نے مسکرا کر کہا تھا
”بھائی۔۔ بال بنا دیں“ منسا نے معصومیت سے کہا تھا۔
”ماما کہاں ہیں؟“ دانیر نے اٹھ کر  کاؤچ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔
”وہ سو گئی ہیں۔۔ اور فاز بھائی بھی جانے کہاں ہیں۔“ منسا نے اسے دیکھ کر بتایا تھا۔
”اچھا چلو میں بنا دیتاہوں آؤ بیٹھو۔“ دانیر نے مسکرا کر کہا تھا۔ اس کے لمبے گھٹنوں تک آتے بال اس سے خود سمیٹے نہیں جاتے تھے اس لئے ہمیشہ عاصمہ اس کے بال بنایا کرتی تھیں۔۔ عاصمہ نہ موجود ہوتیں تو اس کے دونوں بھائی لاڈ سے اس کے بال بنا دیتے تھے۔۔
”بھائی آرام سے کیجیے گا“ منسا نے معصومیت سے کہا تھا۔
”آرام سے کروں گا پرنسس“ دانیر نے اسے دیکھ کر کہا تھا۔ وہ اس کے قدموں کے پاس نیچے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔اس کے ہاتھ میں آئل کی باٹل پکڑا کر اب اپنی انگلیوں کے ساتھ کھیلتی وہ بہت معصوم لگ رہی تھی۔۔ دانیر اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔
”پرنسس اک بات تو بتاؤ “ اس نے منسا کے بالوں کی آئلنگ کرتے ہوئے اسے پکارا۔ وہ اپنے سب کام چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہوئی،
”جی بھائی پوچھیں“ منسا نے کہا۔
”تمہیں بھابھی کیسی لگتی ہیں؟“ اس نے مسکرا کر پوچھا تھا۔ منسا چونکہ اس کی طرف پشت کیے بیٹھی تھی اس لئے اس کے چہرے پر موجود اب کی جاندار مسکراہٹ اس سے چھپی ہوئی تھی۔
”کونسی والی بھابھی؟“ منسا کے اس قدر معصومیت سے پوچھنے پر وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔۔ شام میں منسا نے یہی حرکت اس کی منکوحہ ساتھ بھی کی تھی۔۔ اور اب وہ خود پھنس گیا تھا۔
”زمل“وہ اس کا نام لے کر خود ہی مسکرانے لگا۔ منسا نے اک بار پیچھے مڑ کر اسے دیکھا تھا۔۔ پھروہ بھی کھلکھلائی۔۔
”کیوں ہنس رہی ہو؟“ دانیر نے اسے مصنوعی خفگی سے گھورا۔
”یونہی۔۔ آپ پہلے ایسی باتیں نہیں نہ کرتے اس لئے“ وہ بھائی کی حرکت پر ہنستے ہوئے بولی۔
”اچھا بتاؤ نہ پرنسس“ دانیر نے اسے لاڈ سے کہا تھا۔
”بیسٹ ہیں “ منسا نے تھمز اپ کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا۔
”کیا کہتی ہو؟ عزہ بھابھی کے ساتھ آپ کی زمل بھابھی بھی آ جائیں؟“ دانیر نے دل میں آتےمنصوبے کو ا سکے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا،
”وہ کیسے بھائی؟“ منسا نے حیرت سے پوچھا۔
”آپ  کےدونوں چارمنگ بھائیوں کی اک ساتھ شادی کر دیتے ہیں؟“دانیر نے مسکراہٹ دباتے اسے سنجیدگی سے کہا۔
”شیور۔۔ بہت مزہ آئے گا بھائی۔۔ میری دونوں کیوٹ بھابھیاں ایک ساتھ آجائیں گی “ منسا نےخوشی سے چہکتے ہوئے کہا تھا۔۔
”چھوٹی بھابھی زیادہ کیوٹ ہیں اوکے“ دانیر نے ہنستے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”خبردار“ فاز کی آوا ز پر وہ دونوں حیران ہوئے۔
”تو کب آیا“ دانیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”جب تو اسے اپنی شادی کی پٹیاں پڑھا رہا تھا۔“فاز اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کے کان کھینچتے ہوئے بولا۔
”بھائی پر دانیر بھائی میرے بال بنا رہے تھے پٹیاں نہیں پڑھا رہے تھے  “ اس کے معصومیت سے بولنے پر وہ دونوں ہنسنے لگے،
”یار دیکھ۔۔ مانا تیری والی زیادہ کیوٹ ہے مگر میری والی بھی کم نہیں ہے کسی سے“ فاز نے اسے شہادت کی انگلی دکھاتےہوئے کہا تھا۔ دانیر ا سکی بات پر ہنس پڑا۔
”ہنس مت۔۔ سیریس ہے تو؟“ فاز نے اسے جانچتی نگاہوں کے حصار میں لیا۔
”ون ہنڈریڈ پرسنٹ “ دانیر نے منسا کے بالوں میں برش کرتے ہوئے کہا تھا۔
”صبح ہی کرتے ہیں بابا سے بات“ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔
”اب اگر آپ کے پلانز بن گئے ہوں تو میری دو چوٹیاں بنا دیں“ منسا نے مڑ کر ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”جی مادام۔ آپ کا حکم، سرآنکھو ں پر“فاز نے سر کوخم دیتےہوئے کہا تھا۔اب منسا ان دونوں کے آگے نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔۔ اس کے آدھے بال دانیر کے ہاتھ میں تھے اور آدھے فاز کے ہاتھ میں۔۔ وہ دونوں اپنی اپنی طر ف سے اس کی چوٹی بنانے میں مگن تھے۔ان تینوں کو دیکھ کر  دروازے میں کھڑے سلامت مسکرا دیے تھے۔۔ان تینوں کی دائمی خوشیوں کی دعا مانگتے وہ وہاں جس خاموشی سے آئے تھے اسے خاموشی سے واپس چلے گئے تھے۔۔ صبح بتاؤں گا تمہیں دانیر خان صاحب سلامت مزے سے  سوچتے ہوئے وہاں سے چلے گئے تھے۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ دونوں سمنگ پول کے پاس بنے بینچ پر بیٹھے ٹرتھ اینڈ ڈئیر کھیل رہے تھے۔۔
”ہاں اگلی ٹرن تمہاری ہے زمل بھابھی۔“ سمیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ٹرتھ۔ “ زمل نے کانفیڈینٹ سے کہا تھا۔
”اوکے۔۔ لیٹ میں آسک یو سم تھنگ پرسنل“ سمیر نے پر سوچ انداز میں اس سے پوچھا۔
”شیور  برو۔“ زمل نے اسے دیکھتے ہوئےجوا ب دیا تھا۔
”آر یو ہیپی ود یور میرج؟“ سمیر کے یوں پوچھنے پر ا سکا چہرہ لال ہوا۔
”ہنڈریڈ پرسنٹ“ اس نے فوراً جواب دیا تھا۔
”یہ تو بہت خوشی کی بات ہے بھابھی۔۔ لگتا ہے میرے کھروس بڑے بھائی میرا  مطلب ہلاکو خان سے دوستی ہو گئی ہے“ سمیر نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
”ہان بچپن سے ہے وہ تو“زمل نے اکڑ کر کہا تھا۔
”اوکے میری ٹرن۔“ سمیرنے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ٹرتھ یا ڈئیر “ زمل نے ابرو اچکا کر اس سے پوچھا تھا۔
”آئی ایم سو ڈیرنگ۔۔ سو ڈئیر“سمیر نے کالر جھاڑتے ہوئے کہا تھا۔
”اوکے سے دیور جی۔۔ابھی کے ابھی پول میں 10 ڈائوز کر کے دکھاؤ“زمل نے اسے دیکھ کر کہا تھا۔
”بس؟؟“سمیر نے اسے ہنستے ہوئے پوچھاتھا۔
”ہوگا تم سے یہ بھی نہیں“ زمل نے اس کا مزاق اڑایا۔
”تم بس کاؤنٹنگ سپیڈلی کرنا بھابھی۔“ سمیر نے اسے منہ چڑاتے کہا تھا۔
”اوکے کم آن گو“ زمل نے اسے مزے سے دیکھا۔اس کے دیکھتے دیکھتے سمیر سچ میں سومنگ پول میں کودا تھا۔اس نے دو منٹ کے اندر اندر دس ڈائوز لگا کر دکھائےتھے۔۔اک سے بڑھ کر ایک۔۔ زمل شاکڈ تھی۔۔
”تم اتنےایکسپرٹ کیسے؟“ زمل ابھی بھی حیران تھی۔۔
”بچپن سے آپ کے شوہر کا شاگرد رہا ہوں اس معاملے میں“ اس نے فخر سے بتایا۔
”ہاں تو کریڈٹ میرے شوہر کو جاتا ہے تمہیں نہیں دیور جی“اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔ سمیر بھی اس کی بات پر ہنس پڑا تھا۔
”چلو اب زیادہ دانت نہ نکالو اب تمہاری ٹرن ہے“ سیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”اوکے می چوزنگ ٹرتھ“زمل نے ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے کہا تھا۔
”دس از چیٹنگ“ سمیر نے منہ پھلایا۔
”ہاؤ؟“ زمل حیران ہوئی۔
”میں نے ڈئیر کی تم بھی ڈئیر چوز کرو“ اس نے زمل کو خفا نگاہوں سےگھورا۔
”یہ کوئی رول نہیں ہوتا“زمل نے منہ بسورا۔
”مانو فورا ً نہیں تو میں جا رہا ہوں“ سمیر نے اسے وارننگ دی۔
”اففف۔۔۔ اچھا چلو بتاؤ“ زمل نے تنگ آتے ہوئے کہا تھا۔
”اوکے سو پروپوز می“ سمیر نے ہنسی دبا کر اس کے ایکسپریشن نوٹ کیے۔
”واٹ دا ہیل“ زمل ہتھے سے اکھڑی۔
”ریلیکس بھابھی۔۔ اٹس جسٹ آ گیم“سمیر  اس کے غصے کو دیکھ کر فوراً سیدھا ہوا۔
”میں یہ نہیں کروں گی“ زمل نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا تھا۔
”میں مان لوں آپ ہار گئیں؟“ وہ شرارت سے بولا۔
”میں ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں، آخر کو میں مسٹر دانیر خان کی ون اینڈ اونلی وائف ہوں“ اس نے گردن اکڑ کر کہا تھا۔
”اوکے سمیر لیٹس اینڈ دس گیم۔“ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے کہا تھا۔سمیر نے دانت نکوسے اپنی شرارت پر،
”کم آن بھابھی ڈو اٹ۔بس گیم ہے۔۔اور کچھ نہیں ورنہ میری کیا مجال دانیر بھائی کی بیوی کے بارے میں ایسا خیال بھی اپنے دماغ میں لاؤں“ سمیر نے سیریس ہو کر کہا تھا
”اٹس اوکے۔ “ زمل نے اسے دیکھ کر کہا تھا۔
”سمیر خان۔۔ میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔ اور تمہی سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔ کہنے کو یہ محض الفاظ ہیں مگر میں تمہارے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنا چاہتی ہوں، تمہاری خوشی میں ہنسنا اور تمہاری غم میں اشک بہانا چاہتئ ہوں۔۔ میں چاہتی ہوں میں جیسی بھی ہوں تم بس مجھے قبول کر لو۔۔“ زمل نے بہت دلنشین انداز میں اپنی یہ ڈئیر پوری کی تھی۔۔ اس نے سمیر کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہوئی۔ اسے فاتحانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس کی نظر اس کے پیچھے کھڑے دانیر خان پر گئی تھی۔۔ وہ جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔۔ ساکت۔۔ دم سادھے۔۔ اسے لگا تھا اب وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی۔۔سمیر نجانے کیا کیا بولتا جا رہا تھا وہ نہیں سن رہی تھی۔۔ وہ بس سن رہی تھی تو دچھکے سے تیزی سے پیچھے جاتے دانیر کے قدم۔۔ وہ اور کچھ نہیں دیکھ رہی تھی۔۔ دیکھ رہی تھی تو بسس دانیر خان کی آنکھوں میں بہتے اشک۔ اس کا ٹوٹا مان۔ اس کا بکھرا وجود۔ اس کے ڈگمگاتے قد۔ اس کا شاک زدہ چہرہ۔۔ اس کا زرد پڑتا رنگ۔۔اس نے آج چھ فٹ کا مرد توڑ دیا تھا۔۔وہ ٹوٹ چکا تھا۔۔ اپنی ہی بچپن کی محبت کی ہاتھوں وہ برباد ہو چکا تھا۔۔زمل بس اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے ڈرتے سہمتے ہوئے دانیر خان کے کمرے کی جانب اپنے قدم بڑھائے تھے۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔۔وہ مارے خوف کے صحیح سے سانس بھی نہیں لے پا رہی تھی۔۔
اس نے ہمت کرتے ہوئے ڈرتے دل کے ساتھ دروازہ ناک کیا۔ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری دفعہ۔۔ مگر کوئی رسپانس نہیں ملا تھا۔ اس نے ہمت کر کے دروازے کا ناب خود گھما دیا تھا۔دروازہ تھوڑی سی آواز پر کھلتا چلا گیا تھا۔۔ اس کے کمرے میں اندھیرے کا راج تھا۔۔ بلکل سناٹا۔۔ بلکل خالی۔۔ وہ پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ الجھی تھی۔
”د۔۔دانیر؟“ اس نے کانپتی آواز میں اس کا نام پکارا۔
”دانیر؟“ اس نے کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد دوبارہ اس کا نام پکارا۔۔۔
وہ ٹیرس کی طرف بڑھی۔ اس نے ہمت کر کے وہاں کا گلاس ڈور کھولا۔ وہ وہاں تھا۔ دیوار  کے ساتھ ٹیک لگائے نیچے بیٹھا۔۔ اک ہاتھ نیچے زمین پر دھرا تھا دوسرے سے اس نے سگریٹ سلگائی ہوئی تھی۔
”دانیر۔۔“ وہ بے ساختہ اس کے قریب وہاں گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی۔

تیرے آنے سے (COMPLETED)Where stories live. Discover now