اس نے اپنی خمار بھری بند آنکھیں کھولیں، اک کہر برساتی نظر اس پر ڈالی اور پھر سے آنکھیں بند کر لیں۔۔ وہ بے خود ہوئی۔۔ اس نے اپنا مومی ہاتھ بڑھاکر اس کے گال پر بڑی محبت سے رکھا۔
”دا۔۔دانیر۔۔ میری بات سنیں“ زمل نے اشک بھرے نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھا۔
”آئیندہ مجھے چھونی کی غلطی مت کرنا، جاؤ یہاں سے“ وہ اپنے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی لئے کہتا اسے وہ دانیر خان نہیں لگا تھا جسے وہ بچپن سےجانتی تھی۔۔
”بس اک بار میری بات سن لیں “وہ اس کی منت کرتے کہنے لگی۔
”مجھے کچھ نہیں سننا۔ جسٹ لیو“ دانیر نے سختی سے کہہ کر اک لمبا کش سگریٹ کا لیا تھا۔
”دانیر ایسا کچھ نہیں ہے آپ مجھے جانتے ہیں نہ میں ایسی نہیں ہوں“ زمل نے اس کے چہرے کو دونوں اطراف سے تھام کر کہا۔۔
”سمیر خان میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں“ زمل کے کچھ دیر پہلے کہے ہوئے الفاظ اس کے دماغ پر زور ڈالنے لگے۔
”میں تمہیں جان چکا ہوں“ وہ غصے سے کہتا اسے بہت خود سے بہت دور محسوس ہوا تھا۔
”دانیر۔۔ غلط فہمی مت ڈالیں دل میں پلیز“ زمل نے التجا کرتے ہوئے کہا تھا۔
”تم دفع دور ہو جاؤ میری نگاہوں سے“ دانیر دھاڑا۔ وہ کامپ گئی۔۔
”دانیر۔۔۔ آپ مجھےجانتے ہیں نہ۔ میں ایسی نہیں ہوں۔۔ وہ جسٹ اک گیم۔۔“ وہ خود کی صفائی دے رہی تھی۔۔ وہ لڑکی جو آج تک کسی کو جسٹیفائی نہیں کرتی تھی آج روتے ہوئے دانیر خان کے آگے اپنی ذات اپنے کردار اپنی وفا کی وضاحت دے رہی تھی۔۔
”جسٹ لیو۔۔“ دانیر چیخا۔۔ زمل نے بے دردی سے اپنے مسلسل بہتے اشک صاف کیے۔وہ اٹھی۔ اک شکستہ نگاہ اس پر ڈالی تھی۔۔ جو بے اثر سا بیٹھا تھا۔ جس پر اس کی کسی بات، کسی صفائی کا خاک برابر اثرنہیں ہوا تھا۔۔ اس نے وہاں سے واپسی کے لئے قدم بڑھائے تھے۔۔ اس نے آج یہ شخص پانے سے پہلے ہی کھو دیا تھا۔۔ وہ جتنا بھی روتی جتنا بھی تڑپتی کم ہی تھا۔۔ خاموشی سے اس کا کمرا خالی خالی نگاہوں سے دیکھ کر وہ باہر آگئی تھی۔ اس کا سینہ بری طرح جل رہا تھا۔۔ اک آگ اس کے اندر لگی ہوئی تھی۔۔ اور اک آگ اس کے رشتے میں لگ گئی تھی۔۔ وہ نہیں جانتی تھی اب اسے کیا کرنا تھا۔۔خالی ذہن ، بکھرے وجود لئے وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ افطار کے بعد یونہی لان میں ٹہل رہی تھی جب سمیر اس کے پا س آیا۔
”کیا ہوا بھابھی ؟ کہاں گم ہو صبح سے؟“ سمیر نے اسے خلافِ معمول اداس اور سب سے کٹا ہوا دیکھ کر کہا تھا۔اس نے آج حیرت انگیز طور پر پاکستانی ڈریس پہنا ہوا تھا۔ پستا رنگ کی قمیض شلوار کے ساتھ ہم رنگ ہی دوپٹہ لیا آج وہ اپسرا معلوم ہو رہی تھی۔
”کہیں نہیں“ اس نے مختصر سا جواب دیا تھا سچ تو یہ تھا کہ دانیر سے خفگی کے بعد اس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ کسی سے بات کرے۔۔ کسی سے بھی بات کرنے کا دل ہی نہیں تھا اس کا۔۔ وہ اکیلی گھٹ رہی تھی۔۔
”آؤ چھت پر چلیں“ سمیر نےاسے آفر دی جسے اس نے فوراً سر نفی میں ہلا کر انکار کر دیا تھا۔
”آؤ سب سے پہلے چاند دیکھیں گیں۔۔ ہو سکتا ہے کل عید ہو“ سمیر نے چہکتے چہرے سے اسے دیکھ کر کہا تھا۔
”نہیں سمیر میرا دل نہیں“ اس نے سعادت مندی سے سچ کہتے ہوئے کہا تھا۔
”چلو تو سہی“ سمیر زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے چھت پر لے گیا تھا۔۔ وہ چھت پر ہاتھ پکڑے ہی داخل ہوئے تھےمگر زمل کی قسمت کہ وہاں منسا اور دانیر پہلے سے ہی موجود تھے۔۔ منسا نے تو دھیان نہیں دیا تھا مگر دانیر اپنی محبت کا ہاتھ اسے کے ہاتھ میں دیکھ کر نئے سرے سے ٹوٹ کر بکھرا تھا۔۔۔۔اک تو وہ تھی بھی اس وقت اس کے پسندیدہ حلیے میں اپنے حسن کے جلوے دکھاتی ہوئی۔۔ اسے یہ منظر بہت چبھا تھا۔اس نے اک نظر زمل کو دیکھا تھا جس نے اسے یہاں موجود پا کر فوراً اپنا ہاتھ چھڑوایا تھا۔۔ اک کڑوی قہر برساتی نگاہ اس پر ڈال کر وہ مڑا تھا۔۔ اک لمحے کو دونوں کی نظریں ملی تھیں۔۔ لیکن ان نظروں میں ہمیشہ والی محبت نہیں تھی۔۔ ان نظروں میں اجنبیت تھی۔۔ جو زمل کو اندرسے کھا گئی تھی۔۔
” بھابھی آئیں چاند دیکھتے ہیں“ منسا نے خوشی سے آکر اسے تھاما تھا۔ اور دانیر کے مقابل کھڑا کر دیا تھا ساتھ ایک طرف خود کھڑی ہو گئی تھی۔۔
”کہاں ہے چاند؟ “وہ سمبھلتے ہوئے بولی تھی۔
”آسمان پر ہی نظر آئے گا نہ پارٹنر“ سمیر کے اس طرح کہنے پر دانیر کا خون خول اٹھا تھا۔۔ وہ کون ہوتا تھا اس کی بیوی کو اپنا پارٹنر کہنے والا۔۔زمل کا دل چاہا تھا خود کو کچھ کر ڈالے وہ جتنا مس انڈرسٹینڈنگ ختم کرنا چاہتی تھی اتنا ہی معاملہ مزید خراب ہوتا جا رہا تھا۔۔
”ہاں سمیر بھائی۔“ ا سنے اپنی طرف سے کوور کرنے کے لئے کہا تھاجب کہ سمیر اس کی بات پر ہنس دیا تھا س کی تمسخر بھری ہنسی اس وقت دانیر اور زمل دونوں کو زہر لگی تھی۔۔ جبکہ وہ معصوم ان دونوں کے درمیان سنگین معاملات سے بے خبر تھا۔۔
”ہاں بھئی نظر آیا چاند؟ “سلامت نے پوچھا تھا۔۔ انہیں یہاں دیکھ کر سب چونکے تھے۔
”نہیں بابا“ منسا نے مایوسی سے بتایا۔
”یہاں پہلے سے ہی دو چاند موجود ہیں“ سلامت نے منسا اور زمل دونوں کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”اور تایا ابو میں؟“سمیر نے اندر اپنی پسور ی ڈالی۔
”تم اس چاند پر لگا گرہن ہو“ دانیر کے آگ برساتے لہجے میں کہے گئے الفاظ صرف زمل سمجھی تھی۔ باقی سب اس بات کو محض اس کے مزاج کا حصہ سمجھے تھے۔
”دانیر بھائی اب بھابھی کے سامنے تو اتنی بے عزتی نہ کریں“سمیر کھی کھی کرتے کہنے لگا۔
”بے فکر رہو۔۔ میں تم دونوں کےمعاملے سے بلکل دور ہوں“ دانیر کے لہجے میں برچھی کی کاٹ تھی۔۔ جو زمل کو اندر تک زخمی کر گئی تھی۔۔ سلامت اس کی باتوں سےپریشان ہوئےتھے۔۔ وہ صبح سے انتظار کرتے رہے تھے مگر دانیر اپنے اور زمل کے معاملے میں بات کرنے ان کے پاس نہیں آیا تھا۔۔ انہیں کچھ غلط ہونےکا خدشہ ہوا۔
”دانیر بھائی۔۔۔ اففف اک تو اتنی سیڑھیاں ہیں اس گھر میں۔۔ چاند نظر آیا کے نہیں؟“ افزا کی آواز پر وہ سب مڑے۔۔
”ابھی تک تو نہیں“سمیرنے اسے دیکھتے کہا تھا۔
”افف کیوں بھئی؟“ اس کے پیچھے آتی اینڈی کو سن گلاسز لگائے دیکھ کر اس کی ہنسی نکل گئی۔
”تمہارے کونسے سورج چاچا نکلے ہوئے ہیں جو اس آدھی رات میں چشمے لگائے گھو م رہی ہو“سمیر نے اسے طنز کرتے ہوئے کہا تھا سب اس کی بات پر ہنس دیے تھے۔
”ارےے۔۔ تمہیں نہیں پتہ یہا ں کا مون بہت ہاٹ ہے“ اینڈی نے ہاتھ سے چہرے پر ہوا دیتے ہوئے کہا تھا۔
”کیوں بھئی؟؟ ہمارے مون کی بےعزتی نہ کرو، کینڈی صاحبہ “ سمیر نے اسے گھوری ڈالتے ہوئے کہا تھا۔
”صحیح کہہ رہی ہوں۔“ اینڈی نے سن گلاسز سیٹ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”تم نے یہ گلاسز کیوں لگائے کینڈی صاحبہ؟“سمیر نے اس کا مزاق اڑاتے ہوئے کہا تھا۔
”کیونکہ میں کوئی رسک نہیں لےسکتی“اینڈی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”کیسا رسک؟“سمیر حیران تھا۔
”کل اگر عید ہوئی اور اس ہاٹ مون کی وجہ سے مجھے ایکنی نکل آئی تو“اینڈی نے خوف سے اسے دیکھتےہوئے کہا۔ اس کا یہ ڈر سن کر سب ہنس پڑے تھے سوائے دانیر اور زمل کے ۔۔ زمل نے بس مسکرا کر احسان کیا تھا اور دانیر کسی پر احسان کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔۔وہ سخت تاثرسے کھڑا تھا۔۔
”تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا کینڈی “سمیر نے اس کا مزاق اڑاتے کہا تھا۔
”چاند۔۔۔“ منسا کے چیخنے پر وہ سب چاند کی طرف متوجہ ہوئے۔۔
”کہاں ہے؟“افزا نے گھور گھور کر آسمان کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
”وہ رہا۔۔“ منسا نے اشارہ کیا۔۔ چاند کی بہت باریک سی لکیر محسوس ہو رہی تھی۔
”چلو بچوں سب چاند دیکھنے کی دعا پڑھو۔“ سلامت نے سب کو حکم دیتے ہوئے کہا۔
”کینڈی“ سمیر نے اینڈی کے کان کے قریب سرگوشی کی جو سن گلاسز میں سے چاند کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”ہاں؟“ اس نے الجھے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
”چاند دیکھنے کی دعا آتی ہے؟“ نکمے سمیر نے اس سے پوچھا۔
”نہیں تو“ اینڈی ابھی بھی چاند دیکھنے میں مگن تھی۔
”اب میں کیا پڑھوں پھر؟“ سمیر نے اس سے پوچھا تھا۔
”ٹونکل ٹونکل لٹل سٹار پڑھ لو“ اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔اس کے تنگ آ کر اونچا بولنے پر سب معاملہ سمجھ چکے تھے اور اب سمیر کی پوزیشن خطرے میں تھی۔۔
”کیا ہوا بیٹا؟“سلامت نےاسے دیکھتے پوچھا تھا۔
”کچھ نہیں تایا ابو۔۔“ اس نے کھی کھی کرتے کہا۔
”تایا ابو اسے چاند دیکھنے کی دعا نہیں آتی۔“ افزا نے معصوم بن کر بھائی کی شکائت تایا ابو سے لگائی تھی۔۔ سمیر نے اسے گھورا۔
”بیٹاکبھی تو ایسا وقت آئے جب تم شرمندہ مت کرواؤ۔ خیراس چھ انچ کے فون کا اچھا استعمال بھی کیا کرو۔ اس میں سے نکالو اور پڑھو۔“ سلامت نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
سمیر نے افزا کو فٹے منہ کا اشارہ کر کےدعا نکال کر پڑھی تھی۔۔ اور پھر دعا مکمل کر کے سب نے ایک دوسرے کو چاند رات کی مبارک دی تھی
”دانیر بیٹے یہ لو پیسے جاؤ سب لڑکیوں کو چوڑیاں دلا دو۔“سلامت نے اسے کچھ پیسے پکڑاتے ہوئے کہا تھا۔
”بابا میں تھوڑا بزی ہوں۔ “اس نے انکار کر دیا۔ سلامت نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔
”بھائی ۔۔ پلیز۔۔“بولنے والی لڑکی منسا تھی،اگر کوئی اور ہوتی وہ کبھی نہ جاتا۔۔ مگر مجبور ہو کر اس نے پیسے پکڑ لیے تھے۔۔ اور سب کو پانچ منٹ میں نیچے آنے کا کہہ کر وہ خود بھی نیچے چلے گیا تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ گم سم سے چوڑیوں کے سٹال کے پاس کھڑی تھی۔۔ منسا افزا اور اینڈی اپنی اپنی چوڑیاں پسند کر رہے تھے۔
وہ چپ کر کے ااس کے پاس آیا تھا۔۔ اسے اپنے ساتھ کسی کا سایہ محسوس ہوا۔ وہ ڈر کر پلٹی۔۔ دانیر کو اپنے پاس دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔۔
”چوڑیاں نہیں لیں؟ “اس کے سنجیدگی سے پوچھنے پر وہ کچھ بول نہ پائی۔۔
”ہاں ٹھیک ہے سمیر لے کر دے گا نہ“دانیر نے اسے بولنے کا موقع دیے بغیر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی بات پر زمل کی آنکھیں بھیگیں۔۔
”دانیر ایسا کچھ نہیں ہے میرا یقین کریں“ زمل نے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”جو ہے وہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔“دانیر کہہ کر وہاں سے غائب ہو گیا تھا۔۔ زمل کو اس بار اپنی صفائی دینے کا بھی موقع نہیں دیا گیا تھا۔۔
”بھابھی یہ والی کیسی ہیں؟“منسا کے پوچھنے پر وہ سنمبھل کر کھڑی ہوئی۔
”بہت پیاری ہیں “وہ مسکرا کر بولی۔
”ٹھیک ہے میں ہماری سیم لے لیتی ہوں“منسا خوشی سے کہہ کر وہاں سے دانیر کے پاس گئی۔وہ بس خاموشی سے اسی دیکھنے لگی۔۔ اس کا دل بند ہوا جا رہا تھا اور وہ چپ سادھے وہاں کھڑی تھی۔۔ بھری ہوئی محفل میں وہ اکیلی تن تنہا تھی۔۔۔اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔۔ کوئی ایسا جو اس کا درد سمجھ پاتا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”زمل سچ سچ بتاؤ کیا ہوا ہے؟“اینڈی نے اس کے کمرے میں آکر اسے بیڈ پر بٹھا کر تسلی سے پوچھا تھا۔۔ اس کے پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ نازک سی لڑکی فوراً اس کے سینے سے لگی تھی۔۔
”زمل۔۔ کیا ہوا ہے؟؟؟؟“اینڈی پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔۔ اس نے کبھی زمل کو روتے نہیں دیکھا تھا۔۔اس کی نظر میں زمل اک بہت سٹرونگ لڑکی تھی۔۔
”میں نے تم سے کہا تھا نہ۔۔ مجھے پاکستان نہیں جانا۔۔۔“ اس نے روتے ہوئے کہا تھا۔۔
”ہاں۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔۔
”مجھے یہاں نہیں آناچاہیے تھا اینڈی نہیں آنا چاہیے تھا۔۔“ وہ روتے بلکتے ہوئے کہہ رہی تھی اور اینڈی اس کی بیسٹ فرینڈ ہوتے ہوئے سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس کیسے سنبھالےاس سے زمل کےروانی سے بہتے آنسو دیکھے نہیں جا رہے تھے۔۔
”کیا ہوا ہے بتاؤ؟“اس نے پیار سے پوچھا۔
”وہ مجھ سے خفا ہیں“ زمل نے روتے ہوئے کہا تھا۔
”تو تم منا لو بدھو“اینڈی نے مسکرا کر کہا تھا،
”وہ میری بات ہی نہیں سنتے“زمل نے روتے ہوئے کہا۔
”تمہاری نہیں سنیں گیں تو کس کی سنیں گیں“ اینڈی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیار سے سمجھایا۔
”اینڈی۔۔آئی کینٹ امیجن مائی لائف ود آؤٹ ہم“اس نے صداقت سے اپنے دل کا راز اس پر افشاں کیا تھا۔
”یو لو ہم؟“اینڈی کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔وہ رونا بھول کر اسے دیکھنے لگی۔۔ شاک سے۔۔ بے یقنیی سے۔۔ اس نے جو ابھی ابھی کہا تھا اسے خود یقین نہیں آیا تھا۔
”آئی ڈونٹ نو“ وہ نظریں پھیر گئی۔
”یو لو ہم۔۔ پوچھ نہیں رہی۔۔ اب کی بار میں بتا رہی ہوں“ اینڈی نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔
”تمہیں کیسے پتہ“ وہ سٹپٹا کر بولی۔
”صاف نظر آرہا ہے“ اینڈی نے ہنس کر کہا تھا۔
”افف کیسے“زمل خفت زدہ چہرہ لیے اسے دیکھنے لگی۔
”ان کی ذرا سی ناراضگی پر اپنا تڑپنا دیکھو“ اینڈی نے مسکرا کر کہا۔
”اوہ۔۔۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔“ زمل نے اپنا سردونوں ہاتھوں سے تھاما۔۔ یہ بات اس کے ذہن میں کیوں نہیں آئی تھی؟؟؟ وہ کیوں منا رہی تھی، کیوں اتنا تڑپ رہی تھی محض اس لئے کہ وہ انسان اس سے خفا تھا۔۔ اس سے د ور ہو جانے کا خیال ہی اس کی جان لے رہا تھا اگر وہ سچ مچ اس سے دور ہو جاتی تھی شاید واقعی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔۔
”ایسا ہو چکا ہے “اینڈی نے اسے دیکھتے ہوئےکہا تھا۔
”او نو۔۔“ زمل کا سر چکڑانے لگا۔
”دیکھا کب تمہارا سڑا ہوا مینڈک تمہارا فراگ پرنس بن گیا ۔۔ پتہ ہی نہیں چلا“ اینڈی کی گہری بات پر وہ سر جھکا گئی تھی۔۔ اسے اپنے الفاظ یاد آئے۔۔
”اب میں کیا کروں؟“ وہ معصومیت سے بولی تھی۔
”منا لو انہیں۔“ اینڈی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا جس کی الجھن اس کے چہرے سے نمایاں ہو رہی تھی۔۔
زمل اب پرسوچ انداز میں سر ہلا رہی تھی۔۔ اسے نہیں پتہ تھا اسے اب کیا کرنا تھا مگر اتنا تو طے تھا اسے اپنا رشتہ بچانے کے لئے کچھ کرنا ضرور تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ابھی بیڈپر بے چین ہو کر لیٹی ہی تھی کہ منسا نے اس کے کمرے کا دروازہ ناک کیا تھا۔
”آؤ منسا“ وہ دل میں موجود اداسی کے باوجود مسکرائی۔
”بھابھی وہ آپ کو دانیر بھائی اپنے روم میں بلا رہے ہیں۔“ اس نے اندر آتے ہی اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ اس نے اک نظر کمرے کی دیوار پر لگی گھڑی پر ڈالی تھی جو رات کے ایک بجا رہی تھی۔اور صبح تھی بھی عید۔۔
”اوکے میں آتی ہوں“ اس نے بیڈ سے اترتے ہوئے کہا تھا۔
”جلدی جائیے گا۔۔“ منسا کہتے ہوئے وہاں سے چل دی تھی۔۔ اب تھی زمل اور اس کے دل میں آتی کئی درجنوں بے چینیاں۔جانا تو پڑےگا۔۔ شاید سب ٹھیک ہو جائے۔۔ شاید انہیں مجھ پر یقین آ گیاہو۔۔ وہ اپنی سوچوں میں الجھی دانیر کے کمرے کے بلکل پاس پہنچ چکی تھی۔۔ اس نے ہمت کر کے آگے بڑھ کر دروازہ ناک کیا تھا۔ فوراً سے اندر سے کم ان کی آواز آئی تھی۔ وہ تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔دانیر آج بھی کمرے میں نہیں تھا۔۔ اس نے آج بھی کانمپتے ہوئے ٹیرس کی جانب قدم بڑھائے تھے۔۔ وہاں دانیر آج بھی سگریٹ سلگائے کھڑا تھا۔۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے نہیں لگتا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہونے جا رہا تھا۔۔
”آپ نے بلایا تھا؟“ اس نے سر جھکا کر پوچھا۔۔ اس کا ڈر سے جھکا چہراا ور لرزتی پلکیں دانیر کے دل میں بھی آتش لگا چکی تھیں۔۔
”ہاں یہ لو۔“ دانیر نے اسے اک چھوٹا سا شاپنگ بیگ پکڑایا۔
”اس۔۔اس میں کیاہے؟“ وہ دانیر کو دیکھتے بولی۔
”اس میں تمہارے ائیر پوڈز ہیں اور۔۔“ دانیر نے بات ادھوری چھوڑی۔
”اور؟“ وہ اسے دیکھتے بولی۔
”اور صبح کے عید ڈریس کے ساتھ کی چوڑیاں“ دانیر نے اس کے چہرے پر ابھی تک اک بھی نگاہ نہیں ڈالی تھی اور یہی بات زمل کو اندر تک کھا رہی تھی۔۔
”چو۔۔چوڑیاں؟“ وہ حیران تھی۔۔ رات میں جب سب لڑکیاں چوڑیاں لے آئی تھیں صرف اک وہی تھی جس نے ایک بھی سیٹ نہیں لیا تھا۔۔ اب اس کی چوڑیاں دانیر خود لے آیا تھا۔۔ یہ اس کے لئے بہت حیرت بے یقینی کا مقا م تھا۔
”ہاں میری طرف سے اس رشتے کا پہلا اور آخری تحفہ قبول کر لو“ دانیر نے اس ملاقات میں پہلی بار اک بہت سخت نگاہ اس پر ڈالی تھی۔۔ اس کے لفظ آخری سن کر اس نے اپنا جھکا سر اٹھایا۔۔ بے یقینی ہی بے یقینی تھی اس کے چہرے پر۔۔
”آخری؟؟؟“ زمل نے ٹوٹے ما ن کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھا۔
”ہاں۔ بے فکر رہو۔ میں کبھی بھی تمہیں زبردستی اس رشتے میں نہ رکھتا۔۔تم مجھےخود بھی بتاسکتی تھی خیر تم نے نہیں بتایا۔۔ صد شکر میں خود جان گیا۔۔ تم اس کے ساتھ رہو جس کے ساتھ رہنے میں تمہاری خوشی ہے۔۔ میں اپنا خود کچھ کر لوں گا تم فکر مت کرنا۔“دانیر نے سمجھانے والے انداز میں بات مکمل کی۔
”پر دانیر۔۔ ایسا۔۔۔“ زمل نے بولنا چاہا۔
”بے فکر رہو۔۔ سب آسانی سے ہو جائے گا۔۔ میں سب کو سنبھال لوں گا کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا“ اس نے زمل کی بات کاٹتے ہوئے کہا تھا۔
”پر میں ایسا۔۔ نہیں۔۔“ دا نیر نے اسے پھر بولنے کا موقع نہیں دیا تھا۔
”تم تو نکاح کے وقت بھی نہیں چاہتی تھی تمہارے ساتھ زبردستی ہوئی تھی میں جانتا ہوں“ دانیر نے اپنی خودساختہ سوچی ہوئی حقیقت اس کےسامنے بیان کی۔۔ زمل کا دل چاہا اپنا ہی سر پھاڑ لے وہ تو اس کی کوئی بات نہیں سن رہا تھا۔۔
”میں تب بس اس سب کے لئےتیار نہیں تھی۔۔ اس لئے انکار کیا تھا۔ آپ بدگمان مت ہوں“ اس نے ہمت کر کے وہ کہا جو سچ میں سچائی تھی۔۔ مگر وہ سننے کو راضی ہی نہیں تھا۔
”میں پاگل تھا جو آج بابا سے فاز کے ساتھ ہماری بھی شادی کی بات کرنے والا تھا ،مگر خیر۔۔ ہمیشہ وہ تو نہیں ہوتا نہ جو ہماری خوشی ہوتی۔۔ ہمیں دوسروں کی خوشی کوبھی اہمیت دینی چاہیے۔۔اور میرے لئے تمہاری خوشی بھی میٹر کرتی ہے۔جاؤ سب معاملات ہو جائیں گیں۔۔ فاز کی شادی کے بعد میں تمہارے نام کے ساتھ لگا اپنا نام ہمیشہ کے لئے مٹا دوں گا۔اللہ تمہارے نصیب اچھے کرے آمین۔“ فاز نے کہہ کر رخ پھیر لیا تھا۔۔ شاید اپنی آنکھوں میں آ جانے والے بے ساختہ آنسو اس سے چھپائے تھے۔۔ آسان تو نہیں ہوتا نہ اپنی بچپن کی محبت کو یوں اپنے ہاتھوں کسی اور کی جھولی میں ڈال دینا اور پھر یوں عمل کرنا جیسے آپ کو کئی فرق نہیں پڑتا۔۔ آپ لاتعلق ہو۔۔
”ٹھیک ہے دانیر۔۔ اگر آپ کو میری کسی بات کا ذرا سا بھی اعتبار نہیں تو میں جا رہی ہوں۔ اب اک لفظ نہیں کہوں گی اپنے کردار کی وضاحت میں۔ آپ کو جو ٹھیک لگے آپ کر گزریں۔“زمل نے شدتِ غم میں اپنے آنسو صاف کیے اور تیزی سے اس کے کمرے سے نکل گئی تھی۔وہ جیسا کھڑا تھا، جہاں کھڑا تھا بس وہیں ٹک گیا تھا۔۔ اس کے جانے کا یقین کر کے وہ سب کو مضبوط اور سخت نظر آنے والا مرد ہچکیوں سے پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا۔۔وہ آج خود اپنے ہاتھو ں اپنی محبت ، اپنے بچپن کی محبت کھو چکا تھا۔۔ اس کا وہ جتنا بھی سوگ مناتا اس کے لئے کم تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭