صبح ہونے کی دیر تھی خان ولا میں شور اٹھا تھا آج عید تھی۔۔۔ سب مرد لوگ پھینیاں کھا کر عید گاہ جا چکے تھے۔اور لڑکیاں اٹھ کر اپنا آپ سنوارنے لگی تھیں۔
اس نے آج دانیر کا دلایا ہوا سفید کرتا پہنا تھا۔۔ اس کی دی ہوئیں سفید چمکتی چوڑیاں دونوں کلائیوں میں ڈالے، چہرے پر ہلکا پھلکا میک اپ کیے بالوں کو کھلا چھوڑے اور حیرت انگیز طور پر دوپٹہ بھی آج اس نے بڑے جتن کرنے کے بعد سر پر سجایا تھا۔۔ کانوں میں سفید سلور رنگ کے چھوٹے سے جھمکے پہن رکھے تھے۔۔ اس کی تیاری دیکھ کر اینڈی نے بھی دل میں ماشاءاللہ کہا تھا۔
”واہ پارٹنرکیا قیامت ڈھا رہی ہو“ اینڈی نے اسے دیکھ کر مسرت سے اس کے گلے لگتے کہا تھا۔۔
”قیامت کیا قیامت لگے گی۔۔“ افزا نے ان کے کمرے میں آکر کہا تھا۔ وہ ان دونوں کی کمنٹنگ پر ہنس پڑی تھی۔۔
”عید مبارک بھابھی۔“ افزا مسکرا کر اس کے گلے لگی تھی۔۔
”تمہیں بھی عیدمبارک“ زمل نے مسکرا کر اسے کہا۔۔
”مجھ سے بھی عید مل لے کوئی“ اینڈی کے رونےشروع ہو چکے تھے۔
”مل لو بھئی اس سے۔۔ نہیں تو یہیں شہید ہو جائے گی“ زمل نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں۔۔ میں تو خود شہید ہو جاؤں گی۔۔ تم توہمارے بھائی کو شہید کرنے کی پوری تیاریاں کیے ہوئےہو“ اینڈی کے چھیڑنے پر وہ ہنس پڑی تھی۔اب تو دیکھنا کیسے احساس دلاؤں گی میں مسٹر فراگ پرنس کو اس نے دل میں سوچا۔
”زیادہ بکواس نہیں کرو“زمل مسکرا کر کہہ کے باہر نکل گئی تھی۔
”چلو ہم بھی چلیں۔۔ وہ اکیلی ہی ساری عیدی نہ ہڑپ لے“ اینڈی کے کہنے پر افزا بھی ہنس پڑی۔
”گڈ آئیڈیہ“افزا کہتے ہوئے خود بھی باہر بھاگ گئی تھی۔۔
”دونوں چڑیلیں مجھے چھوڑ کر ہی چلی گئی ہیں۔۔ ہائے امی۔۔۔“ اینڈی نے منہ بسور کر کہا تھا۔
”اہم۔۔“ کمرے کے دروازے میں نک سک سے تیار کھڑے سمیر کو دیکھ کر اس کا پھولا منہ مزید پھولا۔
”کیا ہے؟“ وہ اسے اک نظر دیکھتے بولی۔
”تم بھی عید منا رہی ہو؟“ سمیر کے حیرت سے پوچھنے پر اس کا دل چاہا اپنا کھسا اٹھا کر اس کے سر میں مار دے۔
”کیوں میں نے عید نہیں منانی تھی؟ “اینڈی کے خفگی سے پوچھنے پر وہ بتیسی دکھانے لگا۔
”اب مسلمان ہو گئی ہو کیا کہہ سکتے ہیں؟“ سمیر نے اس کا مزاق اڑایا۔
”تم نہیں ہوئے مسلمان اب تک؟ گھر کے سب مر د عید کی نماز پڑھنے گئے ہیں اور تم یہاں کھڑے مجھے تنگ کر رہے ہو“اینڈی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں پڑھ آیا ہوں“سمیر نے اسے منہ چڑاتے ہوئے کہا تھا۔
”کہاں“اینڈی نے حیران ہو کر کہا تھا۔
”اپنے کمرے میں۔۔ تب تم سو رہی تھی۔۔ چلو میں جا رہا ہوں جلدی نیچے آجاؤ نہیں تو عیدی بھول جانا“ اس نے اینڈی کو اچھا مشورہ دے کر وہاں سے فوراً واپسی کی راہ لی تھی۔جب کہ وہ اب تک یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ سمیر خان صاحب اپنی عید کی نماز اپنے کمرے میں پڑھ کر آئے تھے۔۔ اففف میں بھی کس بدھو کی باتیں سوچ رہی ہوں۔۔ وہ سر جھٹکتے ہوئے نیچے کی جانب چل دی تھی جہاں سب لوگ لاؤنج میں آگئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”بابا جانی میری عیدی نکالیں“زمل نے خوشی سے اپنا ہاتھ خلیل کے سامنے پھیلایا تھا۔۔
”نہیں بابا پہلے میری“ عزان نے زمل کا ہاتھ جھٹک کر کہا تھا۔
”بابا پہلے میں“ زمل نے عزان کو گھورتے ہوئے کہا تھا۔
”بابا پہلے میں“ عزان گھور زمل کو رہا تھا اور کہہ خلیل سے رہا تھا۔
”یہ لو بھئی دونوں اک ساتھ لے لو“ خلیل نے دونوں کے ہاتھوں میں ایک ساتھ عیدی رکھ دی تھی۔۔
”چاچو اس بار نہیں بچیں گیں آپ “افزا کی بات پر وہ ہنس دیے۔
”کیوں بھئی؟“ آمنہ نے اسے دیکھا۔
”چچی یہ ہمیشہ دوررہنے کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہم معصوموں کی عیدی مس ہو جاتی تھی۔ آج نہیں جانے دوں گی“ وہ اکڑ کر بولی تو سب ہنس دیے تھے۔،
”آؤ بھئی تمہیں تو تمہاری عیدی دوں“ خلیل نے پیار سے اسے اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا۔
”یہ ہوئے نہ میرے گریٹ چاچو والی بات“ افزا نےمسکرا کر کہا تھا۔۔
”کیا ہوا تیراوعدہ؟؟؟؟“ ماحول میں اک دم اس سریلی آواز پر وہ سب پیچھے مڑے جہاں سمیر صاحب جذباتی ہو کر کھڑے یوں تھے جیسے اگلی جنریشن کے لئے شاہ رخ خان وہی تھے۔۔
”کیا ہوا تیرا وعدہ؟؟ وہ قسم وہ ارادہ؟؟؟“ اس نے پورے جذباتی پن سے کہا اور پھر فاز کے کندھے پر سر رکھ دیا۔۔ اسے یوں ڈرامے لگاتے دیکھ کر سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔
”تمہیں کیا ہوا برو؟ “ افزا کے یوں پوچھنے پر اس نے مزید افسردہ شکل بنائی،
”چاچو نہ رہے۔۔“ اس نے اک نظر خلیل کو دیکھ کر رخ موڑا اور اپنی آنکھوں کو دائیں بازو سے ڈھک دیا۔
”ہیں؟؟؟؟“ سب سے اونچا ہیں زمل کا تھا۔۔ باقی سب گھور رہے تھے
”او ہو۔۔۔۔ میرا مطلب چاچو چاچو نہ رہے“ اس نے دوبارہ نو ٹنکی شروع کی۔
”یہ سب ڈرامے عیدی کے لئے لگائے جا رہے ہیں خلیل۔۔“ سلامت نے سمیر کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے کہا تھا۔
”آؤ بھئی تم بھی عیدی لے لو۔۔“خلیل ہنستے ہوئے بولے تھے۔
”انکل؟؟ مجھے بھول گئے؟ اینڈی کی خفا آواز پر وہ اس کی طرف مڑے۔
”بھئی آؤ سب اپنی اپنی عیدی لے لو“ وہ مسکرا کر کہنے لگے۔
”ویسے تایا ابو۔۔ آپ کو ایک بات پتہ ہے؟“ سمیر نے اینڈی کو دیکھتے ہوئے سلامت سے مخاتب ہوتے ہوئے کہا۔
”کیا بیٹے؟“ سلامت کے ساتھ باقی سبھی بھی ہمہ تن گوش تھے۔
”آج واقعی میٹھی عید ہے“ سمیر نے دانت نکوستے ہوئے کہا تھا۔
”ہر سال ہوتی ہے بھائی“افزا نے بیزاری سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”بدھو۔۔ آج میٹھی عید کچھ زیادہ میٹھی ہے۔۔ کیونکہ کینڈی صاحبہ بھی یہاں ہیں“ اس نے اینڈی کو دیکھتے کہا تھا مگر اس کے غصے سے دیکھنے پر اس نے فوراً نگاہیں گھمائیں تھیں۔
”کینڈی نہیں اینڈی“ اس کے دانت پیستے ہوئے کہنے پر سب ہنس پڑے۔
”بھائی؟ عیدی“منسا نے معصومیت اور پیار سے دانیر کے آگے اپنا ہاتھ پھیلایا تھا۔
”یہ لو میری پرنسس“ اس نے فوراً اپنی بہن کے ہاتھ میں اس کی عیدی رکھی تھی۔۔ زمل کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔ اس نے تو اسے اک نظر دیکھا تک نہیں تھا۔۔ اور نہ اسے عیدی دینے کا سوچا تھا۔
”دانیر بھائی۔۔ عیدی کے امیدوار اور بھی ہیں“ اینڈی نے زمل کو دھکا دے کر اس کے ساتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا تھا۔۔اس کی اس حرکت پر زمل شاک زدہ تھی۔۔ وہ سب کے سامنے اسے کچھ سنا بھی نہیں سکتی تھی۔۔ جبکہ دانیر نے زمل کو دیکھا تو دیکھتاہی رہ گیا۔۔ وہ اس وقت عین دانیر کی پسند کے مطابق تھی۔
”ہاں بھائی۔۔ بھابھی کو بھی عیدی دیں“افزا بھی بولی تھی۔ وہ بس نا چاہتے ہوئے مسکرایا تھا۔
”بھائی۔۔ دیکھ کیا رہے ہیں۔۔ بھابھی کو عیدی دیں“ منسا نے پیارسے زمل کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
اس نے بڑی دشواری سے پیسے نکال کر سب کی موجودگی میں زمل کے ہاتھ میں تھمائے تھے۔ سب کزنز نے اس حرکت پر ہوٹنگ کی تھی۔۔ سب سے اونچی ہوٹنگ سمیر نے کی تھی۔۔ جس پر دانیر حیران ہوا تھا۔۔
”دانیر بیٹے آؤ اپنی بھی عیدی لے لو “خلیل نے محبت سے اسے اپنے پاس بلایا۔ اب ان کی ایک جانب زمل تھی اور دوسری جانب دانیر۔۔ اسے اتفاق کہیں یا دانیر خان کی پلاننگ کہ وہ دونوں ہی اس وقت سفید رنگ پہنے ہوئے تھے۔۔
ایک ساتھ کھڑے اتنے خوبصورت لگ رہے تھے کہ اینڈی نے چھپ کے سے ان کی تصوریرں بھی لی تھیں۔
”چلو بچوں؟ آج چاچو کے آنے کی وجہ سے ہمیں معافی ہے؟“سلامت نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
سب نے اونچی آواز میں نو کہا تھا۔۔
”آپ بھی عیدی نکالیں تایا ابو“ افزا نے ان کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا تھا۔
”ہمیں آج معافی نہیں مل سکتی؟“ سلامت کے بیچارے چہرے پر کسی کو ترس نہیں آیا تھا۔
”ہر گز نہیں“ افزا نے زور زور چہرہ نفی میں ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
”چلو بھئی فاز تم بھی پھر عزہ بھابھی کو عیدی دو“ سمیر نے فاز کے کندھے پر یارانہ طور پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔عائشہ نے اسے یوں کرنے پر گھورا تھا۔
”چلو بھئی فاز کے بچے اپنی بہن سے پوچھو سب سے پہلے انہیں ہی عیدی ملی ہے۔۔“فاز نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا تھا۔۔ سب کی شرارتی نگاہوں کا زاویہ اب معصوم کب سے چپ کھڑی عزہ پر تھا۔۔
”کک۔۔کیا ہوا؟“ عزہ نے سب کو اپنی طرف ایسے گھورتے دیکھ کر ڈرتے ہوئے کہا۔
”کتنی گھنی ہو آپی تم“ افزا نے اسے دیکھ کر لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھے،
”افزا۔۔۔“عزہ نے اسے دھیرے سے ڈپٹا۔
”فاز بھائی۔ مجھے نہیں پتہ میری بھی عیدی نکالیں“افزا نے لڑتے ہوئے کہا۔
”کوئی عیدی نہیں ہے “فاز نے اسے چڑاتے ہوئے کہا۔
”تایا ابو۔۔۔“ اس نے فوراً شکایتی نگاہیں سلامت کی طرف موڑیں۔
”چلو بھئی فاز سب بچوں کو عیدی دو۔۔ اور دانیر بیٹے آپ بھی۔۔“ سلامت نے ان دونوں کو دیکھ کر کہا تھا جو اکڑ کر کھڑے ہوئے تھے۔
”ہاں چلیں چلیں“ سمیر نے شوخے ہوتے ہوئے کہا تھا۔
”سمیر بیٹے آپ بھی اپنے سے چھوٹوں کو عیدی دیں گیں۔۔“ سلامت کے کہنے پر اس نے یوں سینے پر ہاتھ رکھا جیسے خدا نخواستہ اسے دل کا دوڑا پڑا تھا۔ وہ زمین پر لیٹ گیا تھا۔۔”جب یہ دونوں عیدی دے دیں مجھے اٹھا دینا افزا“
”تم سے نہیں جیت سکتا کوئی، ڈرامے باز“ فاز نے اس چپت لگاتے ہوئے کہا تھا۔۔
”آئی ایم دی باس“ وہ آنکھ دبا کر کہہ کر پھر سے لیٹ گیا تھا۔اس کی حرکت پر خان ولا میں قہقہے گونجے تھے۔۔ جس میں بڑے چھوٹے سبھی کی ہنسی کی گونج شامل تھی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”آپ نے بلایا ماما؟“ اس نے سلامت اور عاصمہ کے مشترکہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا تھا۔ جہاں خلافِ توقع خلیل آمنہ اور زمل بھی سر جھکائے بیٹھی تھی۔،
”آؤ بیٹا۔ ہمیں تم دونوں سے ضروری بات کرنی تھی۔“سلامت کے سنجیدگی سے کہنے پر وہ وہاں بیٹھ گیا تھا۔
”کیا بات کرنی ہے بابا؟“ وہ سنجیدہ ہو کر بیٹھا زمل کے پہلے سے ڈرے چہرے پر مزید خوف لے آیا تھا۔۔
”بیٹے ہم سبھی بڑے چاہتے ہیں کہ فاز اور عزہ کی شادی کے ساتھ تم دونوں کا بھی کام تمام کریں“ سلامت کے گلا کھنکار کر کہنے پر ان دونوں کا سانس رکا۔
”کیا کہہ رہے ہیں بھائی صاحب؟“ آمنہ نے انہیں ٹوکا۔
”میرا مطلب ہے کام مکمل کریں۔ نکاح تو بابا جان نے کروا دیا تھا اب رخصتی کا ذمہ ہم لیتے ہیں۔ “ سلامت نے پہلے مسکرا کر بات پوری کی تھی اور اب غور سے ان دونوں کے تاثرات دیکھے تھے۔
”پر بابا۔۔“ دانیر نے کچھ بولنے کے لئے لب کھولے۔ زمل نے دل میں اس کی منت کی تھی کہ پلیز دانیر مان لیں سب کی بات۔۔ پلیز انکار مت کیجیے گا۔ پلیز مجھ سے جڑا یہ تعلق مت توڑیں۔۔ پلیز یہ نکاح ختم نہ کریں۔۔ وہ کہنا چاہتی تھی مگر جیسے زبان نے اک بھی لفظ ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔۔ وہ چپ سادھے بیٹھی تھی۔۔
”ہاں بیٹا۔۔ ہم سبھی یہی چاہتے ہیں۔ بس تم دونوں کی رضامندی معلوم کرنی تھی۔“ عاصمہ کے کہنے پر دانیر نے اک نظر بے بسی سے زمل پر ڈالی تھی۔۔ جو وہ چاہتا تھا، جو وہ کہنا چاہتا تھا وہ بغیر کسی محنت کے ہو رہا تھا اور وہ۔۔ وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔۔وہ چاہ کر بھی وہ نہیں کر پا رہا تھا جو اس کا دل چیخ چیخ کر اسے کرنے کے لئے اکسا رہا تھا۔
”بابا۔۔ مجھے لگتا ہے ابھی ہم اتنی بڑی ذمہ داری کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہمیں تھوڑا وقت چاہیے۔جلدبازی مت کریں ہمارے ساتھ“ دانیر نے سنجیدگی سے سب کے سامنے بات کی تھی۔۔ زمل کا جھکا سر مزید جھک گیا تھا۔۔ چاہے وہ جتنی بھی کانفیڈینٹ تھی۔۔ مگر تھی تو اک مشرقی لڑکی۔ بڑوں کے حکم پر اپنا سر جھکا دینے والی۔۔
”مگر بیٹے۔۔“ عاصمہ نے کچھ کہنےکی جسارت کی تھی جسے کاٹتے ہوئے خلیل گویا ہوئے۔
”ٹھیک ہے بیٹا جیسے تم مناسب سمجھو۔ رشتہ تم دونوں کا ہے، نبھانا بھی تم دونوں کو ہے۔ تم دونوں کو اپنا فیصلہ خود لینا چاہیے بغیر کسی قسم کے کوئی دباؤ کے“ خلیل نے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ ان کی بات سے سب رضامند تھے۔
”خلیل صاحب یہاں شاید زمل بھی بیٹھی ہے۔۔ فیصلہ صرف دانیر خان کا نہیں ماننا چاہیے۔ اس کی رضا اور مرضی کے بغیر میں اپنے بیٹے تک کا فیصلہ نہیں مانوں گا۔۔“سلامت کی بات پر سب کی نگاہوں کا رخ اب چپ بیٹھی سر جھکائے زمل پر تھا۔
”بولو بیٹا، تمہاری کیا مرضی ہے؟“ خلیل نے شفقت سے زمل سے پوچھا تھا۔ زمل نے ہمت کر کے اشک بھری نگاہیں دانیر کے چہرے پر مرکوز کی تھیں۔۔ وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ ان دونوں کی نگاہیں ٹکرائیں۔۔ کہہ دو کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتی میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ دانیر نے آنکھوں کے ذریعے کہا تھا۔۔ آپ نے میرا یقین تک نہیں کیا دانیر۔۔ محبت نہ ہو، عزت نہ ہو، یقین تو ہو آپ کو مجھ پر۔۔ آپ کے اس رویے نے میرا بہت دل دکھایا ہے،، آپ ٹائم چاہتے ہیں تو ٹائم لیجیے اب۔۔ مگر میں یہ نکاح آپ کو ہر گز نہیں توڑنے دوں گی۔ زمل نے عزم کرتے سوچا۔
”بابا آ وانٹ سم ٹائم ٹو تھنک۔“ اس نے اپنے ازلی فل کانفیڈینس سے جواب دیا۔
”ہاؤ مچ ٹائم؟ پرسو فاز اور عزہ کی مہندی ہے“ آمنہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ لائف ٹائم کا ڈیسیزن ہے جلدی مت کریں۔ آئی ریکویسٹ یو۔ باقی آپ کی مرضی“ زمل نے ان سب کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اور پھر اک نظر دانیر پر ڈالی تھی۔۔ جو اب اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔مگر دھیان سارا اسی پر تھا جس نے اس کی پسند کے عین مطابق پاکستانی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔۔
”اوکے بیٹے۔۔ ہم یہ معاملہ عزہ اور فاز کی شادی کے بعد دیکھ لیں گیں“ سلامت نے کہا تھا۔۔ اندر ہی اندر وہ دونوں پرسکون ہوئے تھے۔۔
”اب میں جاؤں؟“دانیر نے دوبارہ سنجیدگی سے پوچھا تھا۔اس کے یوں کہنے پر زمل کا منہ پھولا۔
”کیا جاتا ہے تمہارا اگر بوڑھے باپ کے ساتھ چند پل بتا دو تو“ سلامت نے نروٹھے انداز میں لطیف سا طنز کیا تھا۔
”جانے دیں بابا کہاں سے بوڑھے ہیں آپ؟“ دانیر کے یوں کہنے پر سب ہنس دیے تھے۔
”دیکھو دیکھو وائٹ بال بھی آگئے ہیں ان کے“ عاصمہ نے ان کے سر کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”ارے ابھی رات میں ہی تو میں نے کلر لگایا تھا عاصہ کا“ سلامت نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
ان کی بات پر سب ہنس دیے تھے،
”اس کا مطلب میرے کلرز آپ ہی ختم کرتے ہیں“عاصمہ نے ناراضگی سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں تو تمہیں کیا ضرورت ہے ان مصنوعی بناوٹ کی“ سلامت نے اچھا کوور کیا تھا مگر مقابل ان کی بیگم تھیں جنہوں نے اپنی زندگی کے کئی برس ان کے ساتھ گزار دیے تھے۔
”بسس بسس رہنے دیں۔۔ آئندہ میں لاک میں رکھوں گی “ ان کی بات پر سب ہنس دیے تھے۔۔ سب نے مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا تھا جو جیسے شادی کے پہلے دن تھے آج بھی ویسے کے ویسے تھے۔۔ ان کی نوک جھوک میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا تھا۔۔ اور وہ اس لحاظ سے خوش قسمت طرین جوڑی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”ارے وہ چوڑیوں کا تھال دھیان سے اوپر پہنچاؤ۔۔ اور تم۔۔ یہ پھول عائشہ کے پاس بھجوا دو۔۔۔ یہ ڈیکوریشنز ٹھیک سےکرو۔۔۔ یا اللہ اک تو مجھے اکیلی کو سارے کام دیکھنے پڑتے ہیں۔۔ سنو۔ یہ گجرے عزہ کے پاس پہنچا دو۔۔“ عاصمہ نے باری باری ملازمین کو آرڈردیتے ہوئے کہا تھا۔۔ عید کے چار پانچ دن ہنسی خوشی گزرے تھے۔ ان دوران دانیر اور زمل اک دوسرے سے بلکل لاتعلق رہے تھے۔۔ ان کے درمیان صلح تو کیا۔۔ بات چیت بھی نہیں ہوئی تھی۔۔ اور آج فاز اور عزہ کی مہندی کا دن آپہنچا تھا۔۔
”باجی یہ بڑی بیگم نے چوڑیاں بھجوائیں ہیں“ ملازمہ نے آکر چوڑیاں ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا۔۔ وہ سب لڑکیاں پالر نہیں گئیں تھیں۔۔ آج کے دن انہوں نے بیوٹیشن کو ہی اپنے پاس بلا لیا تھا۔۔بیوٹیشن نے ان کو ریڈی کرنا شروع کر دیا تھا۔۔ وہ سب آج لہنگے پہننے والی تھیں۔منسا کاآرنج، افزا کا گلابی اور اینڈی کا سبز رنگ کا لہنگا تھا۔۔ وہ سب پہن کر مہندی کی مناسبت سے تیار بھی ہو چکی تھیں۔۔ پارلر والی اب عزہ کو ریڈی کرنے اس کے کمرے میں گئی تھی۔۔
”ارے یہ زمل میڈم کہاں ہیں؟“ اینڈی کے پوچھنے پر افزا نے شانے اچکائے۔۔
”وہ بھابھی میرے کمرے میں سو رہی ہیں“ منسا نے لپ سٹک ٹھیک کرتے ہوئے اسے بتایا تھا۔۔