قسط نمبر 8

60 4 0
                                    

”کیا مطلب سو رہی ہیں؟“ افزا چوڑیاں چھوڑ کر حیرت سے منسا کو دیکھتے ہوئے بولی۔
”ہاں۔۔ وہ تھکی ہوئی تھیں رات کی ڈھولک کی بعد تو انہیں نیند آئی تھی۔ ان کا کمرہ فری نہیں تھا تو میں نے انہیں اپنے کمرے میں سونے بھیج دیا۔
”شاباش ہے۔۔ تم جیسی نند اللہ ہمیں بھی دے۔“اینڈی نے اسے شاباشی دیتے ہوئے کہا جس نے معصومیت سے مسکرا کر یہ شاباشی وصول کی تھی۔۔
”تمہیں تو میری جیسی نند ملے گی بیٹا۔“افزا نے شرارت سے کہا تھا۔
”رہنے ہی دو تم تو۔“میں اس محترمہ کو اٹھا آؤں“ اینڈی نہ کہتے ہوئے کمرے سے فرار ہونا چاہا تھا۔۔
”جاؤ جاؤ ،، ہماری پیاری بھابھی کی نیند کی دشمن ہو تم“ افزانے اسے منہ چڑاتے ہوئے کہا تھا۔
”آپی۔۔ یہ بھابھی کا ڈریس بھی لے جائیں وہ وہیں آرام سے تیار ہو جائیں گی“ منسا نے اس کے حوالے زمل کے لئے منتخب کردہ لہنگا کرتے ہوئے کہا تھا۔۔اینڈی وہ لہنگا پکڑ کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔ افزا اور منسا اپنا فائنل ٹچ اپ دے رہی تھیں۔۔ وہ اپنے لہنگوں کےرنگوں کی مناسبت سے ہلکا پھلکا تیار ہوئی تھیں۔۔ اپنے اپنے حسن کے جلوے دکھاتی وہ نیچے لان میں گئی تھیں۔ جہاں مہندی کے لئے تمام انتظامات خان ولا کے لڑکےسنبھال رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”منسا وہ جو تمہیں فاز کے کمرے کی چابیاں دی تھیں وہ کہاں ہیں؟“ دانیر منسا کے کمرے میں آتے اپنے دھیان میں بولا تھا۔۔ مگر اس کی طرف سے مکمل خاموشی پا کر اس نے نگاہیں اٹھا کر کمرے میں دیکھا۔۔ جہاں بیڈ پر وہ مزے سے نیند کی آغوش میں کھوئی ہوئی تھی۔۔
”پرنسس؟“ دانیر کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”یہ بھلا کوئی ٹائم ہے سونے کا۔۔ تمہارے بھائی کی شادی ہے یار “ دانیر نے ہنس کر کہا تھا۔۔ اور اس کے بیڈ پر اس کے قریب بیٹھا تھا۔۔ درحقیقت اس وقت وہاں منسا نہیں زمل سو رہی تھی اور اس نے چادر منہ تک ڈھکی ہوئی تھی اس لئے دانیر اب تک یہ نہیں جان پایا تھا کہ وہاں منسا نہیں زمل تھی۔۔
”اٹھ جاؤ سلیپنگ بیوٹی“ دانیر نے  محبت سے اس چادر کو ہٹایا تھا۔ مگر وہاں خلافِ توقع زمل کو دیکھ کر وہ ٹھٹھکا۔۔یہ یہاں؟ اس نے فوراً وہاں سے اٹھنا چاہا تھا۔۔ مگر دل تھاکہ مانا نہیں۔۔
”تم سوتے ہوئے بھی بہت حسین لگتی ہو مسز دانیر خان“ اس نے محبت سے اس کا چہرہ تکتے ہوئے کہا تھا۔
”تمہارے یہ قندھاری انار جیسے سرخ گال مجھے شرارت کرنے پر اکساتے ہیں“ دانیر نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے دھیرے سے زمل کے گال کو چھوا تھا۔۔
”تمہارے یہ مخروطی لب مجھے بے خود کرتے ہیں۔۔“ وہ سچ میں بے خود ہوئے جا رہا تھا۔۔ اپنی محبت اپنی دشمنِ جان کواپنی محرم اپنی منکوحہ کو وہاں اکیلے اتنے قریب دیکھ کراس کا دل بے قابو ہوا۔۔ اس نے محبت سے آگے ہو کر اس کےماتھے کو عقیدت سے چوما۔۔
”میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں مسز دانیر خان۔اور چاہے کچھ بھی ہو جائے تمہیں کسی صورت کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔۔“ دانیر نے عہد کرتے ہوئے کہا تھا۔کہیں نہ کہیں اسے یقین تھا زمل دانیر کے ساتھ بے وفائی نہیں کر سکتی تھی۔۔وہ جانتا تھا اسے۔۔ سمیر کے ساتھ تو بلکل بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ سمیر تو زمل کے لئے چھوٹے بھائیوں جیسا تھا۔ وہ جانتا تھا۔۔غصے کی انتہا ، آنکھوں دیکھے دھوکے اور شیطان کے بہکاوے میں آکر اس نے زمل کو بہت اذیت دی تھی۔۔ اسے غلط سمجھا تھا۔۔ وہ جانتا تھا زمل ایسی نہیں تھی۔ مگر اسے اب جا کر احساس ہوا تھا۔۔ جب وہ روٹھ گئی تھی۔۔ مگر اب اس ناراضی کو ان دونوں نے مل کر ختم کرنا تھا۔
”امم۔۔ دانیر بھائی آپ یہاں؟“ اینڈی کی آوز پر وہ چونکا۔۔اپنی سوچوں سے باہر نکلا۔
”ہاں میں منسا کو دیکھنے آیا تھا۔ پر وہ یہاں نہیں ہے“دانیر نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
”یہاں کون ہے“ اینڈی نے شرارت سے پوچھا تھا۔ وہ بھی مسکرا دیا۔
”تمہاری بھابھی۔خوش؟“ دانیر نے ہنس کر کہا تھا۔۔ ا سکے جواب پر وہ بھی ہنس پڑی تھی۔
”اچھا منسا کہاں ہے؟“دانیر نے اسے دیکھتےہوئے پوچھاتھا۔
”وہ زمل کے روم میں تھیں۔۔“اینڈی کے بتانے پر وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔افف  زمل تیری قسمت کمال ہے۔۔
”زمل میڈم اٹھ جائیں۔۔ افطار کا وقت ہو گیا ہے“ اینڈی نے سیریس ہو کر کہا تھا وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔۔
”ہیں؟؟؟ اففو تم پہلے بتاتی میں مدد کرا دیتی۔۔  خیر چلو جلدی کرو روزہ کھول لو“ زمل گہری نیند سے اچانک جاگنے کی وجہ سے ابھی بھی نیند کی کیفیت میں بول رہی تھی۔۔ اینڈی نے اپنی ہنسی روکی۔
”پہلے ایک بات بتاؤ؟“اینڈی نے اسے مسکرا کر دیکھا۔
”ہاں؟“ زمل نے بیڈ سے اٹھ کر سلیپرز پہنے۔
”تمہارا روزہ ہے؟“ اینڈی کے پوچھنے پر وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”امم نہیں۔۔“ وہ اب بھی نیند میں تھی۔
”بدھو۔۔ رمضان میں کون ایسے ڈی جے اور لاؤڈ سپیکرز منگواتا ہے۔۔ آج عزہ اور فاز بھائی کی مہندی ہے“ اینڈی نے ہنس کر اسے بتایا تھا۔۔ وہ منہ پھولا گئی۔
”تم مجھے کب سے بدھو بنا رہی تھی۔“ اس نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا تھا۔
”بدھو کو کیا بدھو بنانا“اینڈی کے ہنس کر کہنے پر وہ مزید خفا ہوئی۔
”چلو اب جلدی سے ریڈی ہو جاؤ۔۔ اگر کسی نے دیکھ لیا کہ تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی تو تمہارے ساتھ ساتھ میری بھی ٹھکائی ہوگی“ اینڈی نے اسے بتاتے ہوئے کہا تھا اس کی بات پر وہ ہنس پڑی۔ اور فریش ہونے واشروم چلی گئی تھی۔۔ وہ دانیر کی آمد سے بلکل بے خبر تھی۔۔ اور اینڈی بھی یہ بات اس سے چھپا گئی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”منسا؟؟“وہ اب زمل کے کمرے میں اسے ڈھونڈتےہوئے آیا تھا۔پر اس کی قسمت یہاں کسی کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
”کینڈی۔۔ کینڈی“ سمیر کی شرارتی آوز پر وہ مڑا۔۔ پر سامنے سنجیدگی سے اسے دیکھتے دانیر کو دیکھ کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔
”ہلا کو خان آپ یہاں؟“ اس کی زبان سے پھسلا۔
”کیا کہا ہے؟“ دانیر نے اسے گھورا۔
”کچھ نہیں دانیر بھائی۔“وہ کھسیانی ہنسی ہنسا۔
” کیا کرنے آئے ہو تم یہاں؟“ دانیر کے سنجیدگی سےپوچھنے پر اس کی سیٹی گم ہوئی،
”میں بھابھی کو بلانے آیا تھا۔“اس نے بہانہ بناتے ہوئے کہا تھا۔
”مگر و ہ تو یہاں ہے ہی نہیں“ دانیر نے اسے شک سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”میں تو عزہ کی بات کر رہا تھا، آپ کی بھابھی کی“ اس نےکوور کرنا چاہا۔
”وہ بھی یہاں نہیں ہیں“ دانیر نے اسے گھورا۔
”اوہ۔۔ میں تو ہاں۔۔۔ افزا کو ڈھونڈنے آیا تھا“سمیر نے کان کھجاتے ہوئے کہا تھا۔۔ ابے یار کہاں پھنسا دیا کینڈی صاحبہ نے۔۔ہلاکو خان اب جانے بغیر جانے نہیں دے گا۔۔ افف آیا ہی کیوں تھا میں یہاں۔۔ وہ اپنے آپ سے لڑ رہا تھا جب دانیر بولا۔
”تمیز سے سچ سچ بتاؤ کیا کرنے آئے ہو یہاں“ دانیر کے سنجیدگی سےپوچھنے پر اس نے تھوک نگلا۔  چل رومیو بول دے دل کا حال نہیں تو اس ہلاکو خان نے مجھے  باس سے ٹاس بنا کر ہوا میں سکے کی طرح اڑا دینا ہے۔
”دانیر بھائی۔۔ پہلے وعدہ کریں کسی کو بتائیں گیں نہیں،، میرے اماں ابا کو بھی نہیں“ سمیر نے اسے دیکھتےہوئے کہا۔ دانیر نے اسےمشکوک نگاہوں سے گھورا۔
”آپ کو آپ کے مائی باپو کی قسم“ اس نے ایموشنل ڈرامے کرتے ہوئے کہا۔
”ڈرامے کی  دکان سیدھی طرح بول“ دانیر نے اس کی اداکاری دیکھ کر بیزاری سے کہا۔
”میں یہاں کینڈی میرا  مطلب اینڈی کو دیکھنے آیا تھا۔“ وہ  کھی کھی کرتے ہوئے بولا۔
”اللہ۔۔ اللہ۔۔ شرم نہیں آتی گھر کی لڑکیوں پر نظر رکھتے ہو“ دانیر نے ہا کی صورت منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ مگر سمیرصاحب شرمندہ ہونے والے دن پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔۔
”ہاں تو۔۔ جب گھر میں موجود ہوں تو باہر کھجل ہونے کی کیا ضرورت؟“ سمیر نے دانت دکھاتے ہوئے کہا تھا۔
”تو گدھے۔۔“ دانیر نے اس کا کان مڑورا۔  ”میری بیوی پر کیوں لائنیں مار رہا تھا“ اس نے اسے گردن سے دبوچا۔۔
”ارے دانیر بھائی طوبہ کریں۔۔ آپ کی بیگم پر لائن کیا ڈوٹ مارنے کا بھی نہیں سوچ سکتا۔۔ وہ تومیری بھابھی ہیں“ سمیر نےصداقت سے کہا۔
”اچھا ہے۔“ وہ اس کا کالر چھوڑتے ہوئے بولا۔اس کے دل کو تسلی ہو گئی تھی مگر اب مسلہ یہ تھی کہ وہ زمل کو کیسے منائے گا۔۔
”اب تو بتا دیں“سمیر نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا۔
”کیا؟“ دانیر نے اسے دیکھا۔،
”کینڈی کہاں ملے گی؟“ سمیر نے شرارت سے دیکھا۔
”معلوم نہیں۔۔ شاید عزہ بھابھی کے ساتھ پارلر گئی ہو“ دانیر نے الٹی گیم ڈال کر اسے  افسردہ کیا۔
”او ہو۔۔ یہ کینڈی بھی نہ“ سمیر نے اداسی سے کہا اور پھر باہر چلے گیا۔
”بیٹا تیری وجہ سے میں بہت تڑپا ہوں۔۔ بہت تکلیف اٹھائی ہے میں نے بھی اور میری مسز نے بھی۔۔ اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گا“دانیر نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔ مگر اس کا دماغ اک ہی بات سوچ رہا تھا کہ اب اسے زمل کو کیسے منانا ہے۔۔اور وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی بچپن کی محبت کو منا لے گا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”ارے یار ایک تو یہ بھاری بھاری  پاکستانی ڈریسز۔۔“ زمل نے مشکل سے اپنا سیاہ رنگ کا بھاری لہنگا سنبھالا ہوا تھا۔اور احتیاط سے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔۔ سب لوگ مہمانوں سمیت خان ولا کے وسیع لان میں جمع فاز اور عزہ کی مہندی کی تقریب میں شامل تھے۔ اور اس وقت شاید وہ اکیلی ہی اپنا  لہنگا سنبھالتی وہاں جانے کے لئے اتر رہی تھی۔۔ اینڈی منسا اور افزا کب سے وہیں موجود تھیں۔ فلحال اس کی مدد کرنے والا وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔۔
”جی آپ ان کلائینٹس کو خود ڈیل کر لیجیےگا۔ میں کچھ دن مصروف رہوں گا“ اپنے پیچھے سے آتی دانیر کی آواز پر وہ چونکی۔۔ اک دم ہربڑاہٹ میں پلٹنے کے بعد اس کا لہنگا ا سکے ہاتھوں سے چھوٹا۔۔ اس کو سنبھالنے کے چکڑوں میں وہ الجھی۔۔ اس کا پاؤں پھسلا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ توازن کھو کر سیڑھیوں سے گرتی دانیر نے آگے بڑھ کر اسے تھاما تھا۔۔ زمل نے خوف سے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔۔
”ڈرو مت، میں ہوں تمہارے ساتھ“ دانیر نے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی تھی۔۔ وہ اتنی سہمی ہوئی تھی کہ اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
”چھوڑیں“ وہ کچھ دیر کے توقف کے بعد ہمت سے بولی۔
”چھوڑنے  کے لئے نہیں تھاما جاتا“ دانیر کی گہری بات پر اس نے براہِ راست اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
”مگر آپ تھامنے سے پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔“زمل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ دانیر کو اپنے رویے پر شدید ندامت ہوئی۔
”میں نے نہیں چھوڑا تمہیں“ دانیر نے پشمندگی سے کہا۔
”مگر چھوڑنے تو والے ہیں نہ۔۔ بہتر ہے  کہ اب آپ مجھ سےجتنا ہو سکیں دور رہیں“ زمل نے سختی سے کہہ کر اپنا آپ زبردستی اس سے چھڑوایا۔
”تم میرا دور رہنا برداشت کر لوگی؟“ دانیر کی آواز پر وہ رکی۔۔ پلٹی ۔۔ اور بولی۔۔
”جب آپ کا شک اور بے یقینی برداشت کر سکتی ہوں ، اپنے کردار پر الزام برداشت کر سکتی ہوں تو کچھ بھی برداشت کر سکتی ہوں۔“زمل نے سخت تاثرات سے اسے دیکھا تھا۔۔ اور پھر وہاں سے چل دی تھی۔
وہ بس ساکت کھڑا رہ گیا تھا۔ خاموش۔۔ مگر ساکت وجودلیے۔۔ تمہاری تو سب بدگمانیاں یوں دور کر دوں گا۔ اس نے مسکرا کر سو چا اور پھر خود بھی نیچے چلا گیا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”موٹو میری بھی لو ایک۔“ اس نے عزان کو افزا ساتھ فوٹوز لیتے دیکھ کر ان  کے پاس جاتے ہوئے کہا تھا۔
”نہیں ۔۔ میں نہیں لے رہا“ عزان کی بات پر اس کا منہ پورا کھل گیا۔
”شرم نہیں آتی بڑی بہن کی بات ٹالتے ہو“ اس نے منہ پھلا کر کہا تھا۔
”ہاں تو بڑی بہن کو آج بھائی کی یاد آئی بھی تو اپنی فوٹوز کے لئے“عزان نے بھی نروٹھے انداز میں کہا۔
”آ تو گئی ہے نہ“ وہ بغیر اثر لیے بولی۔
”شرم کریں  آپ“ عزان نے اسے ناراضی سے دیکھا۔
”اچھا نہ۔۔ چلو آؤ ساتھ میں لیتے ہیں“ زمل نے مسکرا کر اس کا گال کھینچا۔۔
”سیلفیز۔۔ گائیز۔۔۔“ اینڈی نے سیلفی سٹک پکڑے ان سب کے پاس آتے ہوئے کہا تھا۔
”سے چیز۔“اینڈی نے دندانہ مسکراہٹ دکھاتے ہوئے کہا تھا۔
سب نے اسے فالو کرتے ہوئے مسکرا کر اس کے فون کی جانب دیکھا۔
”اینڈی یار یہ  موٹو تو لے نہیں رہا تم ذرا میری اک فل  لو۔“ زمل نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”چلو یہاں ان فلاورز کے پاس کھڑی ہو“ اینڈی نے اس کی لوکیشن اور پوز سیٹ کرتے ہوئے کہا تھا۔ اور پھر تھمز اپ کا اشارہ دیا تھا۔۔ عین اس وقت اس کے سیاہ لہنگے کے ساتھ ٹوننگ کرتا دانیر خان بھی اس کے برابر میں کھڑا ہوا تھا۔۔۔ پوری شان سے کھڑا ہوا اپنی بیوی کے ساتھ وہ بہت جچ رہا تھا۔۔ان کی جوڑی نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔۔
”دکھاؤ کیسی آئی ہے؟“ زمل نے اشتیاق سے اس کا فون پکڑا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ لمحوں میں سمٹی۔اس نے شاک سے پہلے اینڈی کو دیکھا پھر اس جگہ کو جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑی ہوئی تھی۔دانیر اسے دیکھ کر مسکرایا۔۔ اس نے اسے خفگی سے گھورا۔۔
”اینڈی دو تین اور لے لو وہ پوز مجھے پسند نہیں آیا“ دانیر کےکہنے پر زمل نے پہلے سے زیادہ گھور کر اسے دیکھا تھا۔۔
”نونیور۔۔“وہ غصے سے بولی۔
”تم سے پوچھاکسی نے؟ چپ کر کے یہاں کھڑی ہو۔“اس نے اسے حکم سناتے ہوئے کہا تھا وہ کبھی نہ کھڑی ہوتی مگر یہاں عزان افزا سمیت پاس کھڑے کچھ اور مہمان کی توجہ کا مرکز بھی ان کی جوڑی تھی اس لئے نہ چاہتے ہوئے اپنی عزت کی خاطر سیدھی ہوئی۔۔
”حد ہے اٹیٹیوڈ دکھانے کا پلان میں کرتی ہوں اور غصہ مجھے یہ جنا ب دکھاتے رہتے ہیں۔۔“ اس نے دھیرے سے بڑبڑاہٹ کی۔
”کچھ کہا آپ نے مسز دانیر خان؟“ دانیر نے مسکرا کر اس کی طرف ہلکا سا سر جھکاتے ہوئے کہاتھا۔ جس پر وہ زبردستی مسکرائی۔
”نہیں۔“ وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولی۔اینڈی نے ان کی دو تین کی بجائے ڈھیر ساری ایسی فوٹوگرافس لے لی تھیں۔۔ دانیر تو مسکرا کر وہاں سے چلے گیا تھا مگر اینڈی کی شامت  زمل کے ہاتھوں آئی ہوئی تھی۔۔جسے اس نے بڑی مشکل سے منایا تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تیرے آنے سے (COMPLETED)Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ