قسط نمبر 10

126 7 1
                                    

”خیر۔۔ میں کل شام کو واپس جا رہی ہوں“ اینڈی نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔
”کیا؟؟؟“ وہ شاکڈ تھا۔
”ہاں“ وہ نا چاہتے ہوئے مسکرائی۔۔ حالانکہ یہ سچ تھا اداس وہ بھی بہت زیادہ تھا۔ خان ولا میں سب کے ساتھ اک بہت اچھا  وقت گزرا تھا۔ سب سے اک انسیت سی ہو گئی تھی۔۔
”کیوں؟“ وہ بھی اداس ہوتا پوچھنے لگا۔
”ممی نے ٹکٹ کروا دی ہے“ اینڈی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہمم۔۔۔“ وہ چپ رہا۔۔ کافی دیر دونوں کے درمیاں خاموشی رہی۔کوئی کچھ نہ بولا شاید بولنے کے کچھ تھا  ہی نہیں یا شاید کہنے کو بہت کچھ تھا کوئی بولنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
”آئی ول مس یو سمیر خان“ وہ مسکرا کر کہتی وہاں سے بھاگ گئی تھی۔۔ سچ تھا کہ ان دنوں سب سے اسے اک انسیت ہو گئی تھی۔۔ مگر سمیر کے ساتھ نوک جھونک وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔۔چاہ کر بھی نہیں۔۔۔ اس کی وجہ وہ خود نہیں جانتی تھی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ولیمہ کا فنکشن شروع ہو چکا تھا۔۔ اس  نے بڑی مشکل سے  اینڈی کو ڈھونڈا تھا۔۔ وہ آج پہلے فنکشنز کی نسبت اکیلے گھوم رہی تھی۔
”ارے کینڈی “ سمیر نے اسے پکارتے ہوئے کہا تھا۔۔
”ہاں بولو“ وہ  سادگی سے بولی۔
”لاؤ ماتھا ادھر اپنا“ سمیر نے اسے تشویش سے کہا۔
”ہیں؟؟“ اینڈی نے اسے حیرت سے دیکھا۔
”ٹیمریچر چیک کرنا ہے تمہاراآج تم نے میری کینڈی کہنے پر کریکشن نہیں کی“ سمیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ہنس پڑی۔
”کیا ہوا ہے تمہیں“ سمیر نے اسے دیکھا۔
”کیا ہونا ہے مجھے؟“ اینڈی نے اسی کے انداز میں پوچھا تھا۔۔
”ہونا تھا پیار۔۔۔ ہوا میرے یار“ وہ مدھم آواز میں گنگنایا۔
”شٹ اپ۔“ اینڈی ہنسی۔۔ اس کی ہنسی میں بھی آج اداسی نمایاں تھی۔۔
”میں ادھر آؤں گا تو کینڈیز دو گی مجھے؟“ سمیر کے یوں پوچھنے پر وہ  پہلے ہنسی پھر بولی۔
”لے جانا کینڈی“اینڈی نے مسکرا کر کہا۔
”اس بار کینڈی نہیں اینڈی لے جاؤں گا“ سمیر نے مسکرا کر سنجیدگی سے کہا تھا۔ وہ جھیمپ گئی۔۔ اس سے پہلے کچھ کہتی یا مزید شرماتی۔۔ وہاں زمل نے اینٹری ماری۔
”یہ تم میری بیسٹی کے ساتھ یہاں کیا کر رہے ہو؟“ زمل کے آنے پر دونوں اپنی اپنی جگہ سنبھلے۔
”اک تو تم رونگ ٹائم آ جایا کرو“ سمیر نے منہ بنایا ۔ زمل نے اسے گھورا۔
”رونگ ٹائم کیوں بھئی۔۔ تم کیا یہاں اسے سبق پڑھا رہے تھے جو میں نے آکر ڈسٹرب کر دیا۔“ زمل نے خفا ہوتے ہوئے پوچھا۔
”پڑھا تو رہا تھا خیر۔۔ اور وہ یہ تمہاری نکمی دوست سمجھ بھی چکی ہے“سمیر نے ذو معنی نگاہوں سےاینڈی کو دیکھا۔ زمل نے دونوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔
”ہنہ۔۔ نہ بتاؤ۔۔ آ جاؤ کھانا سٹارٹ ہونے ولا ہے سب کزنز مل کر کھائیں گیں آج“ زمل نے ان دونوں کو مسلسل شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اطلاع دی۔
”چلو“ ان دونوں سے پہلے سمیر گیا تھا۔
کھانے کا نام سن کر اس کی دوڑ دیکھنے والی تھی۔۔ وہ دونوں اس کی حرکت دیکھ کر ہنس پڑی تھیں۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”دانیر بھائی۔۔“ منسا کے پکارنے پر دانیر نے کھانے سے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔ اس وقت وہ سب اکھٹے بیٹھ کر کھانے  کا مزہ لے رہے تھے۔
”جی پرنسس“ دانیر نے اسے دیکھا۔
”بوٹل نہیں ہے یہاں“ منسا نے معصومیت سے کہا۔
”میں منگواتا ہوں“دانیر نے اسے کہا۔
”ارے نہیں دانیر بھائی منگوانے کی ضرورت نہیں ہے“ سمیر کے کہنے پر سب نے اسے مشکوک نگاہوں کے حصار میں لیا۔
”کیوں؟“ دانیر نے اسے گھورا۔
”یہ لیں“ وہ کھسیانی ہنسی ہنستا  اپنی سائیڈ سے ٹیبل کے نیچے سے  بوٹل نکالنے لگا۔ سب نے شاک سے اسے دیکھا۔
”سمیر شیم آن یو“افزا نے اسے  اس کی حرکت پر ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”میں نے کیا کیا“ وہ  بھی معصوم بنتے ہوئے پوچھنے لگا۔
”یہ بوتل تو جیسے میں نے رکھی تھی ایسے بھوکوں کی طرح“ دانیر نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”دیکھ لو بھابھی۔۔ آپ کا شوہر کیسی بھوکوں والی حرکتیں کرتا ہے طوبہ۔۔“ سمیر نے یو ں کہا۔۔۔ جیسے وہ حرکت واقعی دانیر نے کی ہو
”میرے شوہر تمہاری طرح ابھی اتنے ندیدے نہیں ہوئے “ زمل نے اسے گھور کر کہا۔۔ سب اس کی بات کم انداز پر ہنس پڑے۔ دانیر نے اسے یوں سائیڈ لینے ہر گہری نگاہوں سے دیکھا۔۔ مگر وہ نظریں چڑاگئی تھی۔۔
”ٹھیک ہے اب پارٹی بدل لی ہے تم نے“و ہ مصنوعی طور پر روٹھتے ہوئے بولا۔
”ہاں جی“زمل نے اکڑتے ہوئے کہا سمیر نے منہ بلایا۔۔
”جگ سونا سونا لگ رہا۔۔۔ جا رہا ہوں میں“ وہ ناراض ہوتے ہوئے اٹھا۔
”ارے سمیر سنو تو“ زمل نے سوچا شاید وہ واقعی ناراض ہو گیا تھا۔
”اس سے پوچھو تو جا کہاں رہا ہے“ دانیر کہ کہنے پر افزا  بولی۔
”کہاں جا رہے ہو سمیر۔۔“
”ایک اور بوٹل پکڑنے۔۔ ختم کر دی ہے تمہارے پیارے دانیر بھائی نے“ اس کے اتنے غمزدہ انداز پر سب کھلا کھلا دیے تھے۔۔
”سمیر۔۔“ زمل کچھ کہنے لگی تھی جب سمیر نے اسے ٹوکا۔
”نہیں بھابھی۔ اب مجھے روکنے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے“سمیر نے یوں کہا جیسے وہ واقعی اسے روکنے جا رہی تھی۔۔
”ارے بھئی میں تو کہنے لگی تھی آتے ہوئے نان بھی لیتے آنا“ اس کو یوں کہنے پر سب اک بار پھر ہنس پڑے تھے۔۔ سمیر منہ بناتا وہاں سے چلے گیا تھا۔۔اینڈی نےمسکرا کر اس کو جاتے دیکھا تھا۔۔ بدھو کہیں کا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ لان میں آج پھر اسی جگہ واک کر رہی تھی۔۔ جانے کیوں دل بوجھل بوجھل سا تھا۔۔ وہاں واک کر رہی تھی۔۔ جب اچانک کسی نے اس کا منہ زور سے بند کیا تھا۔۔ وہ گبھرا گئی۔۔ اس نے مارے خوف اپنے اوپر یوں حملہ کرنے والے کو دیکھا تھا۔۔ وہاں دانیر کو دیکھ کر وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔۔
”مسز دانیر خان۔۔“ اس نے سرگوشی میں بولا۔۔ زمل نے اپنی گھنی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”آئی لو یو“ دانیر کے یو ں کہنے پر اس کی آنکھیں مزید پھیلیں۔۔
”I really really love  you Mrs Daneer Khan.
You are the one I wanted to find, to tell that I need you all my life, from this day on to the rest of my life“
وہ حیرت زدہ شاکڈ سی وہاں کھڑی اسے سن رہی تھی۔۔
”ولی یو بی مائی  وائف؟“ دانی کے یوں بولنے پر وہ شرمائی۔۔ اس نے آہستہ سے اس کےمنہ سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔
”آئی ایم الریڈی یور وائف“ وہ اسے گھور کر بولی۔
”ہاں پر میرے ساتھ ساری زندگی ایز مائی وائف بن کے رہنا پسند کرو گی؟“ اس نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔
”ہاں۔“ وہ بول کر سر جھکا گئی۔۔
”سچی مچی؟“ وہ بے یقینے سے پوچھ رہا تھا۔
”میں کیا مزاق کر رہی ہوں آپ کے ساتھ؟“ زمل نے گھور کر کہا۔
”اچھا نہ۔۔ اتنا غصہ کیوں کر رہی ہو؟“ دانیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیونکہ مجھے آپ پر غصہ آر ہا ہے“ وہ صافگوئی سے بولی۔
”کیوں بھئی؟“ وہ آج یوں پوچھتے اسے واقعی منسا کا بھائی لگا تھا بلکل معصوم۔
”آپ نے پروپوز کیا تو وہ بھی ہلاکو خان سٹائل میں“ زمل خفگی سے بولی۔
”ہاں نہ۔۔ ڈفرنٹ تھا نہ“ دانیر ہنستے ہوئے بوہا۔
”جی کچھ زیادہ ہی“ وہ گھورتے ہوئے بولی۔۔ مسلسل خفگی سے دانیر کو دیکھتی وہ دانیر کو بہت حسین لگ رہی تھی۔۔ اس نے بے ساختہ اسے کھینچ کر اپنے قریب کیا تھا۔ اور اپنے ساتھ لگایا تھا۔۔
”آئی ریلی لو یو یار۔۔۔ آئیندہ کسی بات پر بھی ہمارے درمیان ایسی لڑائی نہیں ہو گی پکا“ اس نے زمل کو اپنے بلکل قریب سینے سے لگائے ہوئے محبت سے کہا۔۔ وہ بھی معصوم بنی اس کی محبت پر یقین کر گئی تھی۔۔سچ تھا۔۔۔انہوں نے پرانی کوئی بات نہیں دہرائی تھی۔۔ ہر لڑائی ہر بحث فراموش کر دی تھی۔۔ زمل کے آنے سے ا س کے دل کی دنیا بدل گئی تھی۔۔۔ اور دانیر کےا س کی زندگی میں آنے سے بھی راحت محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔دانیر نے محبت سے اس کا ماتھا چوما تھا۔۔ زمل اس کی محبت  محسوس کر کے مسرور ہو رہی تھی۔۔۔آسمان پر چمکتا چاند بھی ان کے ملن پر مسکرا رہا تھا۔۔ اس چاند کے ساتھ چمکتے تارے بھی انہیں یوں ساتھ دیکھ کر اپنا نور آبشار کی صورت ان پر برسا رہے تھے۔ محبت کی کہانی کا آغاز ہو چکا تھا۔۔اور اس نے ایسے ہی زندگی کے ہر بڑھتے سال خوشیوں کے سایے تلے پھلتے پھولتے رہنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ 

تیرے آنے سے (COMPLETED)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora