رنگِ دنیا قسط _4

17 4 0
                                    

آج سیماب نے نا جانے کس وجہ سے اس نمبر سے آنے والے پرانے میسیج کھولے۔ پہلے وہ بہت سکون سے اس شخص کی طرف سے بھیجے گئے ایک ایک لفظ کو پڑھ رہی تھی پھر نا جانے اس کے دماغ میں کیا آیا کہ اس کے چہرے کا سارا اطمینان کہیں گُم ہو گیا اس نے اپنا موبائل بیڈ پر پھینکنے کے انداز میں رکھا۔اب اس کے چہرے پر عجیب سی پریشانی تھی۔

کیوں، کیوں میں اس سے یہ جو بھی ہے۔۔۔نہیں؟؟؟
سیماب خود سے بول رہی تھی۔

"یا اللہ میں اس شخص کو جانتی بھی نہیں مجھے تو اسکا نام تک نہیں پتا پھر کیوں یہ شخص میرے دل میں اپنی جگہ کیۓ جارہا ہے۔"

وہ اب اپنے رب سے مخاطب تھی۔

"نہیں میں کیوں کسی نامحرم کے بارے میں سوچ رہی ہوں یا اللہ مجھے ہداہت دے تو رحیم ہے ، کریم ہے میری مشکل آسان کردے میرے رب"۔

وہ سچ میں پریشان ہوئی تھی۔

" سیماب بیٹا تم ٹھیک ہو؟"

سیماب بیڈ پر بیٹھی اپنی سوچ میں گُم تھی جب اسکی والدہ آئی۔

"جی امی بس سر میں درد ہے"۔۔

سیماب اپنے چہرے پر بکھرے تاثرات نہیں چھپا سکتی تھی  اس لیے سر درد کا بہانہ بنا دیا۔

" میرا بچہ اپنا خیال جو نہیں رکھتا "۔ اس کی والدہ اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر بولی اور سیماب کو تو اپنی ماں کی آغوش میں تو جیسے دنیا جہاں کا سکون ملا۔ اور وہ وہی پر ہی سو گئی۔

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   

" ہیلو!!!"
ادیب کی کال آنے پر پہلے تو عمیزہ کو چہرے پر موجود مسکراہٹ کو سمیٹنے میں وقت لگا پھر کال ریسیو کرتے ہوئے اس نے کہا۔

"اسلام وعلیکم"!!!
      ادیب نے ہمیشہ کی طرح سلام کیا۔
"جناب کیسی ہیں؟؟"

ادیب نے محبت بھرے لہجے میں بولا۔

"آپ سے بات ہو گئی نا اب بلکل ٹھیک ہوں"۔
اس کی بات پر ادیب مسکرایا تھا اور بات کرتے کرتے صوفے پر بیٹھ گیا۔

" جان لوگی کیا"؟
ادیب نے ہارے ہوئے انداز میں بولا۔

"آ ہاں جیسے آپ نے لے رکھی ہے"۔
عمیزہ نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"کل ڈنر پر چلیں؟؟"
ادیب نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔

"ہاں جی ڈن کل چلتے ہیں"
عمیزہ  اکسائیٹیڈ ہوئی تھی.

"اوکے !!! تم بلال چاچو سے پوچھ لو"..
ادیب کے کہنے پر عمیزہ ہنسی تھی۔

" کیا ہوگیا ادیب میں منکوحہ ہوں آپکی بابا منع نہیں کریں گے"۔
عمیزہ نے ہنستے ہوئے کہا۔

"ہاں بے شک وہ منع نہیں کریں گے لیکن تم۔ پھر بھی ان سے اجازت لے لو"۔

ادیب نے اسے سمجھاتے ہوۓ کہا۔
اوکے مسٹر ہسبینڈ پوچھ لوں گی۔

رنگِ دنیا از قلم منال احمد Où les histoires vivent. Découvrez maintenant